جامعہ ملیہ کے ڈاکٹر سید عابد حسین اردو کے پرانے لکھنے والوں میں ہیں، گاندھی جی کی "تلاش حق" "تاریخ فلسفۂ اسلام" قسم کے ترجموں کے علاوہ ان کی اپنی لکھی ہوئی چیزیں بھی متعدد ہیں۔ ایک ٹھوس قلم کے اہل قلم وہ ہمیشہ سے ہیں اور بدگمانی یہ تھی کہ ٹھوس ہی نہیں ذرا " ٹھس " قسم کے بھی ہیں۔ان کی ذہانت، ذکاوت اور زندہ دلی کے جوہر تو کہنا چاہئیے کہ حال ہی میں یعنی 1946 کے بعد کھلے ______ ان کی قلم کی شوخی جیسے اپنے اظہار کے لیے تقسیم ملک کا انتظار ہی کررہی تھی !______ وسط 1948 میں انہوں نے ہفتہ وار نئی روشنی نکالنا شروع کیا جو " تیل " کی کمی سے ڈھائی برس بعد بند ہوگیا۔ اور 83 ہفتوں تک بزم بے تکلف کے ماتحت اپنے قلم کی روانی و برجستگی کے جوہر دکھاتے رہے۔ اور یہی مضمون اب یکجا ہوکر کتابی صورت میں شائع ہوئے ہیں۔
" لائٹ لٹریچر " کا لفظ ہم نے انگریزوں کی زبان سے سنا۔ اردو میں اس کا صحیح نمونہ دیکھنا ہوتو اس کتاب کا مطالعہ ضرور فرمایا جائے۔ اس سے معلوم ہوجائے گا کہ صحیح ادب لطیف " نام نہ فحاشی اور پھکڑ کا ہے۔ نہ رکاکت و ابتذال کا نہ اشخاص کی پگڑی اچھالنے کا، اور نہ آورد و تکلف کے ساتھ موٹے موٹے الفاظ اور مشکل ترکیبوں کے جمع کردینے کا ہے۔ بلکہ یہ تو نام ہے شریفوں کی آپس کی گفتگو کا میٹھی زبان میں صحیح املا و انشاء کے ساتھ جسے سن کر دوسرے ہنسیں مسکرائیں اور ساتھ ہی ساتھ کچھ سیکھتے بھی جائیں۔
یہ گفتگو بے تکلف بڑے چھوٹوں سب کے سامنے کی جا سکتی ہے مردانہ میں بھی زنانہ میں بھی۔ اس سے مقصود نہ کسی کو بنانا ہوتا ہے اور نہ اس پر طنز و استہزاء کرنا بلکہ صرف ایک معصومانہ انداز سے دلوں کو خوش کرنا اور کچھ تھوڑی بہت اصلاح کرلینا۔
ایک آدھ ہلکا سا نمونہ اس ہلکی پھلکی شریفانہ ظرافت کا ملاحظہ کرتے چلئیے
جب اے بی سی نے بی اے ایل ایل بی ہوکر پبلک لائف میں قدم رکھا تو اس کے ہمدردی کے جذبہ کو اپنے اظہار کے لیے اور زیادہ وسیع میدان مل گیا۔ وہ ایک امیر گھرانے کے چشم و چراغ تھے ان کے ہاں اللہ کا دیا یعنی اللہ کے غریب بندوں سے لیا ہوا سب کچھ موجود تھا اور انہیں کسب معاش میں جان کھپانے کی ضرورت نہ تھی۔ اس لیے انہوں نے اپنے آپ کو ملک و قوم کی خدمت کے لیے وقف کردیا۔ انہوں نے دیکھا ہندوستان کی سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ کوئی شخص راعی اور رعایا کے بیچ میں پڑے اور اس بات کی کوشش کرے کہ دونوں ایک دوسرے سے نہ سہی کم از کم اس سے خوش رہیں۔ ابے بی سی جانتے تھے کہ دل کو دل سے راہ ہو یا نہ ہو مگر دل کو پیٹ سے ضرور راہ ہے۔ چناچہ وہ قومی خدمت کے لیے پبلک پلیٹ فارم اور لکھنے کی میز سے زیادہ کھانے کی میز سے کام لیتے۔"
(صفحہ 12 تا 13 )
ایک اور موقع اسی سے تقریبا متصل
بھائی جان کا نام ان کے عزیز دوستوں میں بہت کم لوگوں کو معلوم ہے۔ شاید ان کی بیوی کے سوا سب ہی لوگ انہیں بھائی صاحب کہہ کر پکارتے ہیں۔ سچ مچ وہ اپنی طرف سے ہر ایک کے ساتھ بھائی صاحب کا برتاؤ کرتے ہیں۔ اس کے گھر کو اپنا گھر، اس کے حقہ کو اپنا حقہ سمجھتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ کسر نفسی کی وجہ سے دوسروں کو موقع نہیں دیتے کہ وہ بھی ان کے ساتھ اس قسم کا برادرانہ برتاؤ کریں۔ صفحہ 13
زبان کی صحت، صفائی، شستگی کتاب کا ایک نمایاں وصف ہے اور یہ وصف اس دور میں جبکہ بچہ بچہ زبان میں اجتہاد کا مدعی ہے، کوئی معمولی وصف نہیں۔ صحیح، شستہ، رواں، با محاورہ، بے تکلف زبان لکھنے والوں کی تعداد اب انگلیوں پر گننے والی ہے اور اس کتاب کے مصنف کا نام اب اسی مختصر و منتخب فہرست میں داخل ہونے کے قابل ہیں___ کتاب ادب اردو کے طلبہ کے حق میں ایک نعمت ہے۔