تبصرات ماجدی۔۔۔ 161۔۔۔ شوکتیات۔از:شوکت تھانوی۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

06:02PM Mon 17 Aug, 2020

ّ(161) تبصراتِ ماجدی

  شوکتیات

             از شوکت تھانوی

 صفحات۲۴۰، مجلد مع گرد پوش، قیمت درج نہیں،اردو بک اسٹال، لاہور.پاکستان

اردو کے مشہور مزاحیہ نویس شوکت تھانوی مدت ہوئی اس منزل سے گزر چکے ہیں، کہ ان کا تعارف ہما ہمی سے کرایا جائے۔ یا ان کے مزاح و شوخ نگاری کے ذکر کے لیے کوئی تمہید لمبی سی اٹھائی جائے ! بہ قول شخصے "آفتاب آمد دلیل آمد"۔

وہ خود ایک ادارہ بن چکے ہیں اور تازہ تاریخ ادب اردو کا ایک مستقل باب۔

مزاح کے ڈانڈے تمسخر سے اور ظرافت کے حدود تضحیک سے کچھ ایسے ملے جلے ہوئے ہیں کہ اچھے اچھے غچہ کھا گئے ہیں - آہ سجاد حسین مرحوم اور پرانے اودھ پنچ مرحوم کا تقریبا سارا حلقہ ! - اکبر مرحوم کے حسّ لطیف نے اس باریک فرق کو ملحوظ رکھا، شعوری طور پر وہ ظریف تھے ہی اور ظریف رہے ۔غیر شعوری طور پر بھی بھانڈ اور نقال کبھی نہ بن سکے ۔

نظم کی مسند تو بدستور خالی ہی چلی آرہی ہے ۔ نثر کے سجادہ پر اکبر کے بعد اگر کسی نے قدم رکھا ہے تو وہ شوکت ہیں۔ ایک شریف ہنسوڑ،ایک زندہ دل یار شاطر، ایک شستہ و نستعلیق شگفتہ و شاداب انیس صحبت جو ہر وقت آپ کا دل بہلائے اور چہرہ مسکراتا رکھے ۔ ایک فرق کے ساتھ اکبر کے ہاں جہاں حکمت معرفت و معنویت کی گہرائیاں بہت تھیں، وہاں طنز بھی بے پناہ تھا، یہاں یہ"نشتریت" مفقود ہے، نہ ترشی نہ تلخی، بس محض مٹھاس ہی مٹھاس

لیجئے یہ تو پھر تمہید آرائی ہو چلی ۔ شوکتیات میں ان کے تازہ مضمون درج ہیں ۔تعداد میں 24 ، شاید اس مناسبت سے کہ 24 گھنٹہ کے دن رات میں ہر گھنٹہ ایک افسانہ پڑھا جائے ! عنوانات "صدر مشاعرہ" اور "عالی جاہ" سے لے کر " ارے" اور  " یادداشت " تک رنگ برنگے ۔ ان 24 میں برا کوئی سا بھی نہیں اکثر اچھے ہیں۔بعض بہت اچھے اور دو ایک تو بہت ہی اچھے، ایسے کہ مکرر پڑھئیے اور پھر جی نہ بھرے ۔ "کالا برقعہ" ایک مکان کی ضرورت" جس محلہ میں ہمارا گھر" یہ تینوں شوخ نگاری کے بہترین نمونے ہیں ۔ شوکت صاحب کوئی معلم، مبلغ اور مصلح نہیں ہیں۔ لیکن اسے کیا کیجئے کہ ایک ہلکا سا اصلاحی رنگ ان کے قلم کا گویا عرض لازم بن گیا ہے ۔ "روزہ چور "، "افسانہ نگار"، "وکیل اور زیب داستان" میں یہ رنگ لاکھ دبانے پر بھی پھوٹ ہی نکلا ہے:ع

سبزۂ خط سے ترا کاکل سر کش نہ دبا

 ۔۱۹۵۷کا ایک مشاعرہ ، سب سے الگ نوعیت کا ہے، لکھنؤ کا ماحول جس حد تک اردو کش ہوچکا اور ہوتا جارہا ہے۔ اس کا خاکہ اس میں کھینچا ہے۔ اردو کے درد مند اسے پڑھیں گے تو ہنسی تو کم آئے گی ۔ عجب نہیں کہ آنکھوں میں آنسو چھلک آئیں۔ یہ کوئی کمال شوکت صاحب کے قلم کا نہیں۔ یہ نتیجہ اس کا کہ افسانہ میں افسانویت سے کہیں زیادہ واقعیت جو چھلک رہی ہے ۔ ع

تیری چتون میں ہے جادو میرے افسانہ میں ہے

شوکت کو شدید محبت اپنے وطن سے ہے۔ اس لیے شاید "تھانوی" کو وہ اب تک اپنے نام کا جزو بنائے ہوئے ہیں ۔ورنہ قدرت زبان و محاورہ کے لحاظ سے تو وہ اب تھانوی سے کہیں زیادہ لکھنوی ہیں ۔ وہی ہلکے ہلکے جملے، وہی سبک و سادی ترکیبیں، وہی انداز بیان کا بانکپن جو مرزا رسوا اور ریاض خیرآبادی کے زمانے سے لکھنوی ادب کا سرمایۂ امتیاز چلے آرہے ہیں۔ وہ لکھنؤ میں برسوں رہے، اور رہنے کا حق ادا کردیا۔

اخّاذ و طبّاع تو ہمیشہ کے تھے ۔لکھنوی زبان اور طرز بیان کا ایسا چربا اتارا کہ خود لکھنوی بن گئے۔ عیب بینی اور نکتہ چینی کو تلاش کے بعد مشکل سے بس ایک ہی محاورہ کھٹکا۔

ص 152 پر وسط صفحہ کے بعد ایک واقعہ کا ذکر کرکے لکھ گئے ہیں کہ " جس کے نتیجہ کے طور پر فلاں صورت پیش آئی" یہ لکھنؤ کے پرانے ادیبوں کی زبان نہیں۔ وہ لوگ ایسے موقع پر کام صرف"جس سے"یا"اس سے"لیتے، اور یہ ایک ہلکی سی لغزش ("غلطی" ہرگز نہیں) جو ہوئی، یہ نتیجہ ہے انگریزی خبریں اور ان کے ترجمے زیادہ پڑھتے رہنے کا ۔

خدا بخشے جالب دہلوی کو کہ باوجود خالص دہلوی اور حضرت داغ کے شاگرد ہونے کے،آخر عمر میں انہیں انگریزی ترجموں کی بدولت کیسے کیسے کاواک اردو فقرے لکھ جاتے تھے۔

شوکت کے فن میں کمی کہئیے یا  کمزوری، ایک ہی ہے ۔ وہ جس کی تضحیک کرنا چاہتے ہیں، جس کی ہنسی اڑاناچاہتے ہیں، اکثر اس کوشش میں ناکام رہ جاتے ہیں اور الٹے اس سے ہمدردی پیدا کر دیتے ہیں - پہلا خاکہ "صدر مشاعرہ " کے عنوان سے ہے۔ اس میں شوکت صاحب نے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا ہے کہ صدر صاحب کو اضحوکۂ روز گار ثابت کر دکھائیں۔ لیکن یہ سب کیا دھرا اکارت گیا، اور پھر "تقریر دلپذیر" جو صدر صاحب کی زبان سے ادا کی ہے۔ اس میں  مضحکہ خیزی سے کہیں زیادہ دل آویزی موجود ہے!- اسی کو کہتے ہیں، ع

بگڑنے میں بھی زلف اس کی بناکی

وہ آرٹ کو چھوڑنا چاہتے ہیں  مگر آرٹ خود ان سے ایسا چمٹا ہوا ہے کہ چھڑائے نہیں چھوٹتا

اب اسے ان کی شرافت کی افراط کہہ لیجئیے یا جو کچھ، بہرحال معاملہ ہے کچھ ایسا ہی- سنا ہے جس زمانہ میں شوکت صاحب لکھنؤ ریڈیو میں تھے۔ قدیم طرز کے تھیٹروں کی محض تضحیک کے لیے ایک فیچر " مون شائین تھیٹریکل کمپنی آف کاٹھ گودام " کے عنوان سے نشر کیا کرتے تھے ۔ لیکن سننے والوں میں شاید دس فی صدی بھی پرانے ناٹکوں سے برگشتہ اور دل برداشتہ نہ ہوتے، بلکہ الٹے بڑے ذوق و شوق کے ساتھ اس فیچر کے انتظار میں رہا کرتے تھے۔

صدق جدید، نمبر 15، جلد 2، 24/مارچ 1952

ناقل:محمد طلحہ اورنگ آبادی

https://telegram.me/ilmokitab