تبصرات ماجدی۔۔۔(160)۔۔۔ جزیرہ سخنوراں۔۔۔ از: غلام عباس۔۔۔ تحریر: غلام عباس

Bhatkallys

Published in - Other

03:56PM Wed 9 Sep, 2020

(160)  جزیرہ سخنوران

           از غلام عباس صاحب

     کتاب خانہ ہزار داستان نئ دہلی

یہ ایک افسانہ ہے نئے اور البیلے رنگ کا، پلاٹ یورپ سے لیا ہوا لیکن قصہ اردو میں بالکل اپنایا ہوا ایک جزیرہ ہے "جزیرہ سخنوران " تمام تر شاعروں اور ان کے مداحوں سے آباد، اخلاق کی قیود سے آباد وہاں یہ سیاح صاحب اپنی ہم سفر ایک حسین خاتون کے ساتھ اتفاق سے جا پہنچتے ہیں اور ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں۔ باتوں باتوں میں مجلس شوری تک پہنچا دیے جاتے ہیں۔ مجلس کے تین ارکان ہیں ایک ادھیڑ سن کے بزرگ افصح الفصحاء شاعر بے ہمتا علامہ مفتی انوارالحسن یکتا دوسرے ایک طرح دار نوجوان، بلبل داستان گلشن معانی،رشک انوری و خاقانی حضرت افعی ،تیسرے خود صدر مجلس حقیر پر تقصیر خاکسار ذرہ بے مقدار مائل۔

شاعروں کی دنیا شاعری کی دنیا سے بھی بڑھ کر دلچسب اور قابل دید سرکاری مہمان خانہ کا نام دارالخیل،باغوں بازاروں،گلی کوچوں کے نام خیابان میر،غالب بازار،آتش باغ،گلزار سرور، کوچہ مومن خان وغیرہ۔ یہاں کے معشوق کا حلیہ۔نصف عورت نصف لڑکا، ایک طرف محرم چوٹی،موباف،دوسری طرف کلاہ چیرہ اور سبزۂ خط۔ طبیعت میں سفاکی اور جلادی کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی۔ہونٹوں پر عاشقان باوفا کا لہو لگا ہوا کسی پر کمند پھینکی،کسی کے پاؤں میں زنجیر ڈالی،کسی کو شہید تیغ ناز کیا،کسی کو ظلمات میں دھکا دیا کہ عمر بھر ٹامک ٹوٹے مارتا رہے۔کسی کو چاہ ذقن میں غرق کیا کہ جیتے جی سر نہ اٹھا سکے نہ انسان مامون نہ وحوش وطیور مصوُن۔ '' 56۔57

رہا عاشق بے چارہ سو وہ مصیبت کا مارا، صدق و وفا کا پتلا،غریب الوطن فلک نا ہنجار کا ستایا ہوا بھوکا پیاسا،ننگ دھڑنگ آج یہاں تو کل وہاں۔کبھی دریا میں ناخدا پر چھینٹے اڑائے تو کبھی صحرا میں آہو ؤں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلے۔بھیس بدلنے کے فن میں استاد۔کبھی مجنون کا روپ دھار۔صحرا میں محمل کے گرد پھیریاں لے،تو کبھی فرہاد بن  کر کوہ بے ستوں پر تشنہ تیز کرے۔کبھی انسان تو کبھی جانور،کبھی گھر کی کال کوٹھری میں تو کبھی درخت پر کسی گھونسلہ میں "57۔58

یہاں کی زبان ضائع کی جان، بدائع کی کان، ایک صاحبہ اپنی ملازمہ کو گھڑک رہی ہیں اری موئی سوئی نہیں ملتی  تو گولی مارکیوں پیچ کھاتی ہے (پیچ+ ک= پیچک) ایک عاشق صاحب یوں داد فصاحت دے رہے ہیں۔

اے سنگ دل تیری سنگ دلی پر پتھر پڑیں ہم تو تیرے چہرہ بلورین لب لعل ودُرِ دنداں کو یاد کرکے کوہ و بیابان میں پتھروں سے سر پھوڑیں اور تو غیروں کے سنگ گل چھرّے اڑائے

رات آہوں کے شرارے میرے بے ڈھنگ اڑے

کوہ سے سنگ چٹخ کر کئی فرسنگ اڑے

معشوق صاحب جواب میں یوں بلاغت کے شرارے چھوڑتے ہیں

ارے نادان میزان عشق میں پا سنگ ہونا محال، کیوں من من بھر کی باتیں چھانٹتا ہے۔

سنگسار ہونے کی نیت ہے کیا۔"۔

70 اور 71 پر غالب کے دو شعروں کی جو شرح کی گئی ہے   وہ پرلطف ہونے میں اپنی نظیر آپ ہے مشاعرہ کا منظر بہترین ہے۔...... شعر و ادب کے دیوانوں کے لیے ایسے دلکش اور رنگین مرقع کا سودا ایک روپیہ میں مفت ہے۔

صدق نمبر 25 جلد 7 مورخہ 13 اکتوبر1941

ناقل: مولوی محمد طلحہ اورنگ آبادی

http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/