نومبر 16 : کلاسیکل اردو شاعری کے استاد ملک الشعراء شیخ محمد ابراھیم ذوقؔ کی برسی ہے

Bhatkallys

Published in - Other

12:26PM Thu 23 Nov, 2017
از: ابوالحسن علی بھٹکلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حیات ذوقؔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاۓ ذوقؔ ۔ساری سوانح عمری تو اس شعر میں کہہ گۓ لائی حیات،آۓ قضا لے چلے چلی چلے اپنی خوشی آۓ نہ اپنی خوشی چلے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دلّی، جو کئی بار اجڑی کئی بار بسی، اسی دلی میں کابلی دروازے کے پاس ایک چھوٹا سا مکان تھا. جس میں شیخ رمضان نامی معتبر اور با لیاقت شخص رہتا تھا. کنبہ لمبا چوڑا نہ تھا اس لیے قلیل آمدنی میں بھی آسودہ رہتے تھے. نواب لطف علی خان نے اپنے حرم سرائے کے کاروبار بھی اسی کے سپرد کر رکھے تھے. بڑے بڑے لوگوں، عالموں کی ہم نشینی اور تجربے نے آپ کو حالات زمانہ سے باخبر کر دیا تھا. انہیں رمضان صاحب کے گھر ١٢٠٤ھ میں ایک اکلوتا لڑکا پیدا ہوا، جس کا نام ابراہیم رکھا گیا. خدا کا کارخانہ ہی عجیب ہیں، کسے خبر تھی کہ غریب سپاہی کا بیٹا میدانِ سخن کا شہسوار بنے گا. کسے علم تھا کہ نواب لطف علی خان کے معتمد کا پسر ولی عہدِ سلطنت کا استاد کہا جائے گا. شیخ ابراہیم جب پڑھنے کے قابل ہوئے تو انہیں حافظ غلام رسول کے مکتب میں بھیجا گیا، حافظ جی آپ کے پڑوس میں ہی رہتے تھے اور اکثر محلے کے لڑکے وہیں پڑھتے تھے، لہذا آپ کو وہیں پڑھنے کے لیے بٹھا دیا گیا. شیخ صاحب کو مکتب میں پڑھتے تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا کہ چیچک نے آن دبایا. اور اس بدبخت مرض نے ان کا چہرہ ساری عمر کے لیے بدنما کر دیا. حافظ غلام رسول شاعر بھی تھے اور شوق تخلص استعمال کرتے تھے. اندرون دلی کی طرح مکتب میں بھی شعر و سخن کے چرچے تھے اسی باعث مکتب میں پڑھائی کم کم ہی ہوتی اور شعر و شاعری کا چرچا رہتا. میاں ابراہیم نے جب دیکھا کہ شعر ہی وہ شے ہے جس سے ہر وقت رونق میلا لگا رہتا ہے تو خود ان کی طبیعت بھی شعر کی طرف مائل ہو گئی. فطرتاً ذہین تھے، ڈھیروں شعر زبانی یاد کر لیے، ہر وقت شعر پڑھتے پھرا کرتے تھے اور باقاعدہ منتیں مرادیں مانگی جاتیں کہ انہیں بھی موزوں شعر کہنا آ جائے. فلاسفروں کا قول ہے کہ ہر انسان کو ایک خاص وصف میں کمال حاصل ہوتا ہے کہ جس کی وجہ سے وہ اپنے پسندیدہ کام. کو اوروں کی نسبت جلد کرتا اور سیکھتا ہے. شیخ صاحب کو بھی یہ ملکہ شاعری میں حاصل ہوا، مکتب میں حافظ جی کی صحبت میں اشعار کی جوڑ توڑ اور قافیہ بندی میں لگے رہتے تھے. آپ کی طبعیت میں گویا شعر گوئی کا وصف بچپن سے ہی تھا. آپ کی طبعیت مثل بارود کے تھی، جس میں حافظ رسول صاحب کی شخصیت نے دیا سلائی کا کام کیا. غرض میاں ابراہیم نے جب مکتب چھوڑا تو پڑھائی اگرچہ کچھ خاص نہ تھی لیکن شاعری کے عاشق زار تھے. کہتے ہیں کہ پہلے دو شعر جو انہوں نے کہے دونوں حمد و نعت میں تھے. ایک خداوند تعالٰی کی ثنا میں تو دوسرا سرورِ کائنات ﷺ کی مدح میں. آپ کا حافظہ بھی کمال کا تھا، کہا جاتا ہے کہ ایک بار جو چیز دیکھ لیتے یا سن لیتے اسے کبھی نہ بھولتے. آپ کا قد پستہ، رنگ سانولا، بدن نہ فربہ نہ دبلا. چہرے پر چیچک کے بڑے بڑے داغ تھے. چہرے کا نقشہ کھڑا کھڑا تھا چیچک نہ ہوتی تو ملیح کہا جا سکتا تھا، آنکھیں اگرچہ بڑی نہ تھیں لیکن دوربینی کے نور سے منور تھیں. سستی اور کاہلی ان میں نام کو نہ تھی، چلتے جلدی تھے، آواز پُرتاثیر اور بلند تھی. جو کلام کو داد کا مستحق بنا دیتی تھی. انتہا کے صفائی پسند تھے. لباس ہمیشہ سفید استعمال کرتے تھے. لفظ "درست" ان کا تکیہ کلام تھا. حقے کے شوقین تھے، رات کا کھانا دس بجے کے بعد کھاتے اور اس کے بعد بادشاہ کی غزل درست کرتے تھے. اور پھر کلیاں کرتے. خدا ترسی اور ہمدردی کے جذبے سے سرشار تھے. حافظ رسول سے اصلاح لیتے لیتے دل میں خیال آیا کہ اب انہیں کسی اور سے اصلاح لینی چاہیے، اپنے ایک ہمعصر میر بیقرار حسین کی وساطت سے شاہ نصیر کے شاگرد ہوئے. شاگردی کا یہ سلسلہ کچھ عرصے تک چلا، پھر آپ کی استاد سے کسی معاملے میں ان بن ہوئی اور استاد و شاگرد میں رفاقت اختتام کو پہنچی. ان دنوں ولی عہد ابو المظفر بہادر شاہ ظفر جو شعر و شاعری کے دلدادہ اور شعراء کے قدردان تھے، آپ نے میر کاظم حسین بیقرار کے وسیلے سے دربار تک رسائی پائی. جب ولیعہد کے ہاں گئے تو وہ تیر اندازی کی مشق کررہے تھے آپ کو دیکھ کر کہنے لگے، واہ میاں ابراہیم واہ.. استاد تو دکن چلے گئے،، میر بیقرار میر منشی ہوئے، آپ ہی میرے مطلب کے بچے تھے، آپ نے بھی مجھے چھوڑ دیا. آپ نے اس موقع کو غنیمت جانا اور کہا بندہ جہاں ہے دعا کرتا ہے اور کرتا رہے گا: **نہیں رہبر کی کچھ پروا ہمیں صدقہ تصور کے. کہ آنکھیں بند کیں اور جھٹ تیرے کوچے میں نکلے. ولی عہد نے ایک غزل نکال کر دی، آپ نے وہیں بیٹھ کر اصلاح کی اور یوں آپ ولی عہد کے استاد مقرر ہوئے انہوں نے آپ کا وظیفہ چار روپے مقرر کیا. آپ کے شاگردوں کی فہرست طویل ہے جن میں بہادر شاہ ظفر کے علاوہ، شمس العلماء مولانا محمد حسین آزاد، نواب الہی بخش خان معروف، حافظ ویران اور نواب مرزا داغ دہلوی کے نام خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں. گو کہ آپ کے کلام پہ کئی ایک نے نکتی چینیاں کیں اعتراضات کیے. لیکن ان کے کلام پر اعتراض کرنا بھی حناقت ہے. وہ اس درجے کے شاعر نہ تھے کہنہر کوئی ان کے کلام پہ نکتہ چینی کر لے. وہ ایک ذی لیاقت قادر الکلام شاعر تھے. بندشِ مضمون، درستی الفاظ، مناسب تشبیہات و استعارات کے لحاظ سے ان کا کلام بالکل عیوب سے پاک ہے، اگر وہ معمولی درجے کے شاعر ہوتے تو ظفر جیسا سخن شناس انہیں استاد بنا کر عزت کو بٹہ نہ لگاتا. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منتخب کلام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آنکھیں مری تلووں سے وہ مل جاۓ تو اچھا ہے حسرت پابوس نکل جاۓ تو اچھا جو چشم کہ بے نم ہو وہ ہو کور تو بہتر جو دل کہ ہو داغ وہ جل جاۓ تو اچھا بیمار محبت نے لیا تیرے سنبھالا لیکن وہ سنبھالے سے سنبھل جاۓ تو اچھا کھینچے دل انساں کو نہ وہ زلف سیہ فام اژد کوئی گر اس کو نگل جاۓ تو اچھا تاثیر محبت عجب اک حب کا عمل ہے لیکن یہ عمل یار پہ چل جاۓ تو اچھا دل گر کے نظر سے تری اٹھنے کا نہیں پھر یہ گرنے سے پہلے ہی سنبھل جاۓ تو اچھا فرقت میں تری تار نفس سینے میں میرے کانٹا سا کھٹکتا ہے نکل جاۓ تو اچھا اے گریہ نہ رکھ میرے تن خشک کو غرقاب لکڑی کی طرح پانی میں گل جاۓ تو اچھا ہاں کچھ تو ہو حاصل ثمر نخل محبت یہ سینہ پھپھولوں سے جو پھل جاۓ تو اچھا وہ صبح کو آۓ تو کروں باتوں میں دوپہر اور چاہوں کہ دن تھوڑا سا ڈھل جاۓ تو اچھا ڈھل جاۓ جو دن بھی تو اسی طرح کروں شام اور چاہوں کہ گر آج سے کل جاۓ تو اچھا جب کل ہو تو پھر وہ ہی کہوں کل کی طرح سے گر آج کا دن بھی یوں ہی ٹل جاۓ تو اچھا القصہ نہیں چاہتا میں جاۓ وہ یاں سے دل اس کا یہیں گرچہ بہل جاۓ تو اچھا ہے قطع رہ عشق میں اے ذوقؔ ادب شرط جوں شمع تو اب سر ہی کے بل جاۓ تو اچھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جدا ہوں یار سے ہم اور نہ ہو رقیب جدا ہے اپنا اپنا مقدر جدا نصیب جدا تری گلی سے نکلتے ہی اپنا دم نکلا رہے ہے کیوں کہ گلستان سے عندلیب جدا دکھا دے جلوہ جو مسجد میں وہ بت کافر تو چیخ اٹھے موذن جدا خطیب جدا جدا نہ درد جدائی ہو گر مرے اعضا حروف درد کی صورت ہوں اے طبیب جدا ہے اور علم و ادب مکتب محبت میں کہ ہے وہاں کا معلم جدا ادیب جدا ہجوم اشک کے ہم راہ کیوں نہ ہو نالہ کہ فوج سے نہیں ہوتا کبھی نقیب جدا فراق خلد سے گندم ہے سینہ چاک اب تک الٰہی ہو نہ وطن سے کوئی غریب جدا کیا حبیب کو مجھ سے جدا فلک نے مگر نہ کر سکا مرے دل سے غم حبیب جدا کریں جدائی کا کس کس کی رنج ہم اے ذوقؔ کہ ہونے والے ہیں ہم سب سے عن قریب جدا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دریاۓ اشک چشم سے جس آن بہہ گیا سن لیجیو کہ عرش کا ایوان بہہ گیا بل بے گداز عشق کہ خوں ہو کے دل کے ساتھ سینے سے تیرے تیر کا پیکان بہہ گیا زاہد شراب پینے سے کافر ہوا میں کیوں کیا ڈیڑھ چلو پانی میں ایمان بہہ گیا ہے موج بحر عشق وہ طوفان کہ الحفیظ بیچارہ مشت خاک تھا انسان بہہ گیا دریاۓ اشک سے دم تحریر حال دل کشتی کی طرح میرا قلم دان بہہ گیا یہ روۓ پھوٹ پھوٹ کے پانی کے آبلے نالہ سا ایک سوۓ بیاباں بہہ گیا تھا تو بہا میں پیش پر اس لب کے سامنے سب مول تیرا لعل بدخشاں بہہ گیا کشتی سوار ہوں بحر فنا میں ذوقؔ جس دم بہا کے لے گیا طوفان بہہ گیا تھا ذوقؔ پہلے دہلی میں پنجاب کا سا حسن پر اب وہ پانی کہتے ہیں ملتان بہہ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی بیکس کو اے بیداد گر مارا تو کیا مارا جو آپ ہی مر رہا ہو اس کو گر مارا تو کیا مارا نہ مارا آپ کو جو خاک ہو اکسیس بن جاتا اگر پارے کو اے اکسیر گر مارا تو کیا مارا بڑے موذی کو مارا نفس امارہ کو گر مارا نہنگ و اژدھا و شیر نر مارا تو کیا مارا خطا تو دل کی تھی قابل بہت سی مار کھانے کے تری زلفوں نے مشکیں باندھ کر مارا تو کیا مارا نہیں وہ قول کا سچا ہمیشہ قول دے دے کر جو اس نے ہاتھ میرے ہاتھ پر مارا تو کیا مارا تفنگ و تیر تو ظاہر نہ تھا کچھ پاس قاتل کے الٰہی اس نے دل کو تاک کر مارا تو کیا مارا ہنسی کے ساتھ یاں رونا ہے مثل قلقل مینا کسی نے قہقہہ اے بے خبر مارا تو کیا مارا مرے آنسو ہمیشہ ہیں رنگ لعل غرق خوں جو غوطہ آب میں تو نے گہر مارا تو کیا مارا گیا شیطان مارا ایک سجدہ کے نہ کرنے میں اگر لاکھوں برس سجدے میں سر مارا تو کیا مارا دل سنگین خسرو پر بھی ضرب اے کوہ کن پہنچی اگر تیشہ سر کہسار پر مارا تو کیا مارا دل بد خواہ میں تھا مارنا یا چشم بدبیں میں فلک پر ذوقؔ تیر آہ گر مارا تو کیا مارا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وقتِ پیری شباب کی باتیں ایسی ہیں جیسے خواب کی باتیں اُسکے گھر لے چلا مجھے دیکھو دلِ خانہ خراب کی باتیں واعظا چھوڑ ذکرِ نعمت خُلد کر شراب و کباب کی باتیں حرف آیا جو آبرو پہ مری ہیں یہ چشمِ پُر آب کی باتیں یاد ہیں مہ جبیں کہ بھول گئے؟ وہ شبِ ماہتاب کی باتیں تجھ کو رسوا کریں گی خوب اے دل تیری یہ اضطراب کی باتیں جاؤ ہوتا ہے اور بھی خفقان سن کے ناصح جناب کی باتیں جامِ مے لب سے لو لگا اپنے چھوڑو شرم و حجاب کی باتیں سُنتے ہیں اُس کو چھیڑ چھیڑ کے ہم کس مزے سے عتاب کی باتیں دیکھ اے دل نہ چھیڑ قصۂ زلف کہ یہ ہیں پیچ و تاب کی باتیں ذکر کیا جوشِ عشق میں اے ذوق ہم سے ہوں صبر و تاب کی باتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا آۓ تم جو آۓ گھڑی دو گھڑی کے بعد سینے میں ہو گی سانس اڑی دو گھڑی کے بعد کیا روکا اپنے گریے کو ہم نے کہ لگ گئی پھر وہ ہی آنسوؤں کی جھڑی دو گھڑی کے بعد کوئی گھڑی اگر وہ ملایم ہوۓ تو کیا کہہ بیٹیں گے پھر ایک کڑی دو گھڑی کے بعد اس لعل لب کے ہم نے لیے بوسے اس قدر سب اڑ گئی مسی کی دھڑی دو گھڑی کے بعد اللہ رے ضعف سینہ سے ہر آہ نے اثر لب تک جو پہنچی بھی تو چڑھی دو گھڑی کے بعد کل اس سے ہم نے ترک ملاقات کی تو کیا پھر اس بغیر کل نہ پڑی دو گھڑی کے بعد تھے دو گھڑی سے شیخ جی شیخی بگھارتے ساری وہ شیخی ان کی جھڑی دو گھڑی کے بعد کہتا رہا کچھ اس سے عدو دو گھڑی تلک غماز نے پھر اور جڑی دو گھڑی کے بعد پروانہ گرد شمع کے شب دو گھڑی کے بعد پھر دیکھی اس کی خاک پڑی دو گھڑی کے بعد تو دو گھڑی کا وعدہ نہ کر دیکھ جلد آ آنے میں ہو گی دیر بڑی دو گھڑی کے بعد گو دو گھڑی تک اس نے نہ دیکھا ادھر تو کیا آخر ہمیں سے آنکھ لڑی دو گھڑی کے بعد کیا جانے دو گھڑی وہ رہے ذوقؔ کس طرح پھر تو نہ ٹھرے پاؤں گھڑی دو گھڑی کے بعد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کون ہے جو مجھ پہ تاسف نہیں کرتا پر میرا جگر دیکھ کہ میں اف نہیں کرتا کیا قہر ہے وقفہ ہے ابھی آنے میں اس کے اور دم مرا جانے میں توقف نہیں کرتا کچھ اور گماں دل میں نہ گزرے ترے کافر دم اس لیے میں سورہ یودف نہیں کرتا پڑھتا نہیں خط غیر مرا واں کسی عنواں جب تک کہ وہ مضموں میں تصرف نہیں کرتا دل فقر کی دولت سے مرا اتنا غنی ہے دنیا کے زر و مال پہ میں تف نہیں کرتا تا صاف کرے دل نہ مۓ صاف سے صوفی کچھ سود و صفا علم تصوف نہیں کرتا اے ذوقؔ تکلف میں ہے تکلیف سراسر آرام میں ہے وہ جو تکلف نہیں کرتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اے ذوقؔ وقت نالے کے رکھ لے جگر پہ ہاتھ ورنہ جگر کو روۓ گا تو دھر کے سر پہ ہاتھ چھوڑا نہ دل میں صبر نہ آرام نے قرار تیری نگہ نے صاف کیا گھر کے گھر پہ ہاتھ کھاۓ ہے اس مزے سے غم عشق میرا دل جیسے گرسنہ مارے ہے حلواۓ تر پہ ہاتھ خط دے کے چاہتا تھا زبانی بھی کچھ کہیے رکھا مگر کسی نے دل نامہ بر پہ ہاتھ جوں پنج شاخہ تو نہ جلا انگلیاں طبیب رکھ رکھ کے نبض عاشق تفتہ جگر پہ ہاتھ قاتل یہ کیا ستم ہے کہ اٹھتا نہیں کبھی آ کر مزار کشتہء تیغ نظر پہ ہاتھ میں ناتواں ہوں خاک کا پروانے کی غبار اٹھتا ہوں رکھ کے دوش نسیم سحر پہ ہاتھ اے شمع ایک چور ہے بادی یہ باد صبح مارے ہے کوئی دم میں ترے تاج زر پہ ہاتھ اے ذوقؔ میں تو بیٹھ گیا دل کو تھم کر اس ناز سے کھڑے تھے وہ رکھ کر کمر پہ ہاتھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔