اکتوبر 16 :  ممتاز اردو شاعر، ادیب، براڈ کاسٹر، نقاد اور مفسر قرآن حمید نسیم کی برسی ہے

Bhatkallys

Published in - Other

02:27PM Mon 23 Oct, 2017
از: ابوالحسن علی بھٹکلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حمید نسیم 16 اکتوبر 1920ء کو شاہ پور ضلع ڈلہوزی میں پیدا ہوئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے ریڈیو پاکستان سے وابستگی اختیار کی اور ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ریڈیو پاکستان کے عہدے تک پہنچے۔ بعدازاں انہوں نے پی آئی اے آرٹس اکیڈمی کی سربراہی سنبھال لی۔ وہ ڈرامے اور موسیقی کا بہت اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔ تاہم ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے علوم اسلامی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا۔ حمید نسیم کے شعری مجموعوں میں دود تحیر، جست جنوں اور گرد ملال کے نام شامل ہیں اس کے علاوہ انہوں نے علامہ اقبال ہمارے عظیم شاعر، کچھ اہم شاعر، کچھ اور اہم شاعر اور پانچ جدید شاعر کے نام سے بہت اہم تنقیدی کتب تحریر کیں۔ ان کی خود نوشت سوانح عمری ناممکن کی جستجو کے نام سے اشاعت پذیر ہوئی۔ وہ قرآن کے پاک کی تفسیر تعارف الفرقان کے نام سے تحریر کررہے تھے جو ان کی ناگہانی وفات کی وجہ سے نامکمل ہوگئی۔ 28 ستمبر 1998ء کو ممتاز اردو شاعر، ادیب، براڈ کاسٹر، نقاد اور مفسر قرآن حمید نسیم کراچی میں وفات پاگئے اور گبول ویلفیئر قبرستان میں گلشن اقبال کراچی میں آسودۂ خاک ہوئے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے موقع پر ان کا ایک ملی نغمہ بہت مشہور ہوا تھا "ارضِ سیالکوٹ حرمِ مرتبت ہے تو" ................. تصانیف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تعارف الفرقان (نا مکمل) نا ممکن کی جستجو (خودنوشت) جست ِجنوں (شاعری) درد ِتحیر (شاعری) گرد ِملال (شاعری) کچھ اور اہم شاعر (تنقید) کچھ اہم شاعر(تنقید) پانچ جدید شاعر(تنقید) علامہ اقبال ہمارے عظیم شاعر (تنقید) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منتخب کلام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوال دل کا شام غم کو اور اداس کر گیا ترے وجود میں جو ایک میں تھا وہ کدھر گیا طلسم شوق فکر زندہ اور کرب آگہی تمام عمر کا سفر نگاہ سے گزر گیا چلے تو حوصلہ جواں تھا موج گل تھی آرزو جدھر بھی آنکھ اٹھ گئی سماں نکھر نکھر گیا کبھی اندھیری شب میں اک مہیب دشت سامنے کبھی مہ تمام ساتھ ساتھ تا سحر گیا ہر ایک دور منفرد تھا اب بھی دل پہ نقش ہے گیا تو یوں لگا کہ کی کا ایک حصہ مر گیا نہ یاد کی چبھن کوئی نہ کوئی لو ملال کی میں جانے کتنی دور یونہی خود سے بے خبر گیا نگاہ دوست دل نواز بھی گرہ کشا بھی تھی کھلا جو دل پہ زندگی کا بھید جی ٹھہر گیا جہاں وجود میں تھا "میں" اب ایک اور نام ہے کہ میرا بگڑا ہوا کام اس کے لطف سے سنور گیا وہ سیل نور شب کی ابتدا سے تا سحر گیا دل اس کے بل پہ اپنے بحر غم کے پار اتر گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہے یک دو نفس سیر جہان گزراں اور اے شوق کوئی رنگ نشاط دل و جاں اور آسودگی آموز ہو جب آبلہ پائی ہو جاتی ہے منزل کی لگن دل میں تپاں اور سنگ نگہ شوق ہے یکسانئی تغیر ہر لحظہ نیئ رت ہو بہار اور خزاں اور بیش از نگہ کم نہیں پنہاۓ شب و روز اے عالم امکاں کوئی نادیدہ جہاں اور یہ ارض و سما ننگ ہیں مانند کف دست اک دشت بہ اندازہء چشم نگراں اور توفیق فقط مھ کو ہوا جادہء احساس یا قافلے اس تیرہ خلا میں ہیں رواں اور آگاہئی مطلق جو نہیں ہے مرا مقدور اک مہلت فریاد سر کون و مکاں اور دل وصل کی لذت کا طلب گار ہے لیکن تکمیل تمنا غم فرقت ہے تو ہاں اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بے کراں دریا ہوں غم کا اور طغیانی میں ہوں سب حدیں ہیں پھر بھی قائم کب سے حیرانی میں ہوں شب کی تنہائی میں مجھ کو ایسا لگتا ہے کبھی میں ہوں روح زندگی گو پیکر فانی میں ہوں جگمگاتی محفل افلاک میرا عکس ذات لو میں ہوں انجم کی میں سورج کی تابانی میں ہوں صبحگاہاں دشت و گلشن میں نسیم نرم موج بیچ دریا کے بھنور ہوں اور جولانی میں ہوں شمع بزم دلبراں ہے میری دل سوزی کی ضو میں دل عاشق کے خوابوں کی گل افشانی میں ہوں لوگ کیوں اس شہر کے اتنے پریشاں حال ہیں میں کہ خوش دل تھا سدا کا اس پریشانی میں ہوں میں کہ ہوں اک خوش فہم سادہ لوح طفل پیر سال اور پھر ضدی بھی ہوں خوش اپنی نادانی میں ہوں کیا خبر میرا سفر ہے اور کتنی دور کا کاغذی اک ناؤ ہوں اور تیز رو پانی میں ہوں حسن کل کا آرزو مند اس تنک جانی میں ہوں میرے قد سے جو بہت اونچا ہے اس پانی میں ہوں