آب بیتی الحاج محی الدین منیری علیہ الرحمۃ -15- دولت پر جذبہ کی فتح ۔۔۔ تحریر : عبد المتین منیری

غالباً ۱۹۴۹ء میں صابو صدیق مسافر خانہ میں انجمن خدام النبی ؐ کے دفتر سے وابستہ ہوگیا تو زندگی نے ایک نیا موڑلیا۔ عازمینِ حجِ بیت اللہ کی خدمت میں گذرنے والے یہ دن میری زندگی کا ماحصل ہیں۔ یہ میری جوانی کے ایام تھے۔ جسم میں بوجھ اٹھانے کی طاقت تھی اور دل امنگوں اور ولولوں سے بھرپور تھا۔
اس وقت کی ایک بات بتاتاہوں ،ہمارے خدمت گذار ساتھیوںمیں احمد جانی بڑی عمر کے ایک بزرگ تھے۔ انجمن سے وابستگی کے تیسرے ہی روز گیٹ پر ان سے ملاقات ہوگئی ، مخاطب ہوکر پوچھامنیری ! تم انجمن میں رہتے ہو؟ یہاں کام کرتے ہو؟ ۔ میں نے جب ہاں میں جواب دیا تو کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگے بیٹا! یہاں خلوص کے ساتھ خدمت کرنا ، اگر تمہارے اندر اخلاص نہیں ہوگا تو اٹھا کر پھینک دئیے جاؤگے ۔ اور دیکھو خلوص ومحنت سے اگر کام کروگے تو حرم شریف سے تمہارا بلاوا جلد آئے گا۔ ایک جہاں دیدہ خدمت گزار بوڑھے کی یہ میرے لئے بڑی خوش خبری تھی۔
ان باتوں نے میرے دل میں خدمت کا بڑا جذبہ پیدا کیا۔ اس وقت میرے خسر خواجہ صاحب اپنی اہلیہ کے ساتھ بمبئی میں رہتے تھے ۔ اپنی بیٹی کو بھی انہوںنے وہیں بلا لیاتھا۔ ہم سب جاملی محلہ کے ایک فلیٹ میں رہتے تھے۔جب حاجیوں کی خدمت کرتے ایک سال بیت گیا ،ایک دن ہمارے کرم فرما حاجی حسن علی پیر ابراہیم نے مجھے اپنے آفس بلایا اور کہاکہ انجمن خدا م النبی ؐ میں تمہیں ڈیڑھ سو روپئے تنخواہ ملتی ہے۔ اگر تمہیں اپنی آمدنی بڑھانے اور کام تبدیل کرنے میں دلچسپی ہو تو میرے آل انڈیا بوتل کارخانے میں اسسٹنٹ مینجر کی جگہ خالی ہے۔ تمہیں اس کی پیش کش کرتاہوں۔ یہاں پر تمہاری تنخواہ سات سو روپئے ہوگی۔ یہ پیش کش مجھے بڑی بھلی لگی۔ پہلے میں نے اسے قبول کیا اور حاجی صاحب سے ملازمت کے شرائط وضوابط طلب کئے۔ لیکن پھر آپ سے اس پر سوچنے کی مہلت مانگی ۔ کیونکہ اس پیش کش نے مجھے ڈانڈول کردیا تھا۔ کیونکہ حاجیوں کی خدمت میں جو میں نے ایک سال گزاراتھا اس سے اس کام میں میری دلچسپی پیدا ہوگئی تھی ۔ اور اس سے الگ ہونے کو دل نہیں مانتا تھا۔ ایک طرف ڈیڑھ سو کے بجائے سات سوکی پیش کش تھی اور دوسری حاجیوں کی خدمت۔ خواجہ صاحب سے مشورہ کیاکہ میں کیا کروں؟ ۔ انہوں نے جواب دیا پیسے کی پرواہ مت کرو، اپنے جذبہ و لگن کا خیال رکھو، اور جس کام میں تمہیں زیادہ دلچسپی محسوس ہو، وہی کام کرو۔ تمھارا جذبہ صادق ہے تو پھر کسی اور کام کی فکر نہ کرو۔
تیسرے چوتھے دن میں حاجی صاحب کے آفس گیا اور کہا کہ سات سوماہانہ تنخواہ کے عوض اسسٹنٹ مینجر کی حیثیت سے کام کرنے کے لئے تیار ہوں، لیکن دورانِ ملازمت آپ مجھے اس بات کی اجازت دیں کہ حاجیوں کے جہاز کی روانگی کے دن مجھے مکمل روز کی چھٹی دی جائے تاکہ میں حاجیوں کی خدمت کرسکوں۔ حاجی صاحب جہاں دیدہ انسان تھے ، اس وقت کے بڑے لوگوں میں ان کا شمار ہوتاتھا۔ انہیں مجھ سے محبت تھی، وہ مجھے سمجھایا کرتے اور مشورے دیا کرتے تھے۔ انہوںنے مجھے نصیحت کی کہ جب کوئی کام کررہے ہو تو کسی دوسرے کام پر آنکھ اٹھاکر بھی نہ دیکھو۔ آپ نے اپنی زندگی کے مختلف واقعات اور تجربات بیان کئے کہ کس طرح انہوںنے ایک معمولی انسان سے اتنی ترقی کی ۔ انہوںنے کہاکہ جب میں نے حاجیوں کی خدمت شروع کی تھی اس وقت مسافر خانہ میں بیٹھنے کو جگہ نہیں تھی ۔ میں دروازے پر بیٹھ کر حاجیوں کے فارم پُر کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے ان جذبات کو قبولیت سے نوازا ، میری تجارت میں برکت ہوئی ، آج میں کروڑ پتی ہوں۔ حاجیوں کی خدمت میں بڑی برکت ہے ۔ میں اسمبلی کی رکنیت چھوڑ سکتاہوں۔ مسلم لیگ کی صدارت سے علحدہ ہوسکتاہوں۔ لیکن حاجیوں کی خدمت سے کسی صورت الگ نہیں ہوسکتا۔ اگر تم میں خدمت کا جذبہ ہوتو یہی کام کرو۔ ایک طرف خدمت تھی ، دوسری طرف ہاتھ آنے والی اتنی بڑی رقم۔ اس وقت کے سات سوروپئے آج کے سات آٹھ ہزار سے زیادہ ہوتے تھے۔ بالآخر خواجہ صاحب اور حاجی حسن علی پیر ابراہیم کی باتیں سن کرمیں نے فیصلہ کیا کہ صرف ڈیڑھ سوملتے ہیں توملیں، حاجیوں کی خدمت میں کرتارہوں گا۔ کارخانہ کی اسسٹنٹ مینجری کا خیال دل سے نکال کر حاجیوں کی خدمت کے لئے میں یکسوہوگیا۔