تبصرات ماجدی۔۔۔(15)۔۔۔ تاریخ زبان اردو۔۔۔ از:ڈاکٹر مسعود حسین خان۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

01:37PM Sun 13 Sep, 2020

تبصراتِ ماجدی از مولانا عبد الماجد دریابادی (15)۔

تاریخ زبان اردو از ڈاکٹر مسعود حسین خاں

260 صفحات، مجلد مع گردپوش، قیمت پانچ روپیہ، آزاد کتاب گھر، کلان محل، دہلی۔

علومِ جدید میں سے ایک خاص علم لسانیات (یا علم اللسان) ہے، جو کہنا چاہیے کہ یورپ ہی میں مدون ہوا ہے اور وہاں بھی ابھی پوری پختگی کو نہیں پہنچا ہے۔ بڑی حد تک نظریاتی ہی ہے۔ اردو فیلالو جی (لسانیات) میں اب تک جو کام ہوا ہے، وہ بہ منزلہ نہ ہونے کے برابر۔ لے دے کے ایک چھوٹی سی کتاب ڈاکٹر زور کی یا قدیم کتابوں میں جستہ جستہ کچھ مقامات محمد حسین آزاد، ڈاکٹر مولوی عبدالحق اور مولانا سید سلیمان ندوی کے ہاں یا اگر اور گہری غواصی کیجیے تو کچھ موتی انشاء کی ’’دریائے لطافت‘‘ سے ہاتھ آ جائیں گے، ڈاکٹر مسعود حسین تقریباً پہلے شخص ہیں، جنھوں نے ایک مستقل کتاب اوسط ضخامت کی اس فن پر تیار کر دی۔ یہاں مقصود محض اجمالی تعارف ہے، فنی تبصرہ کوئی صاحبِ فن ہی کرسکتا ہے۔

کتاب چار بابوں میں تقسیم ہے۔ پہلا باب ہندوستان کی آریائی زبانوں کی مختصر تاریخ ہے اور دوسرا باب ہندوستان کی موجودہ آریائی زبانوں پر۔ تیسرے باب میں ہندوستانی کا ارتقاء جدید عہد میں دکھایا ہے اور اسی میں اردو کی جنم بھومی کی اہمیت بھی آ گئی ہے۔ چوتھا باب جو سب سے مفصل ہے، تقابلی مطالعہ پر ہے اور اس میں برج بھاشا، پنجابی اور دکنی سے اردو کے تعلقات پر بحث خاصی دیدہ وری کے ساتھ موجود ہے اور آخر میں بڑی مفصل فہرست ماخذ درج ہے، جسے جدید اصطلاح میں ’’کتابیات‘‘ کہتے ہیں۔ کتاب عوام کے لیے نہیں، طلبۂ فن کے لیے لکھی گئی ہے پھر بھی اسلوبِ بیان کی سلاست کے طفیل ایسی ہے کہ عام پڑھے لکھے بھی اگر پڑھیں تو بالکل محروم نہیں رہیں گے۔ کتاب کئی سال قبل اول بارچھپی تھی اور اب بعد اضافہ و نظرِ ثانی یہ اس کا دوسرا ایڈیشن نکلا ہے، مصنف مسلم یونیورٹی کے شعبۂ اردو میں استاد ہیں اور یہ کتاب لکھ کر انھوں نے اپنے شعبہ کا نام بلند کر دیا ہے۔

(صدق جدید نمبر 5، جلد6، 30 دسمبر 1955)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 تبصراتِ ماجدی از مولانا عبد الماجد دریابادی (16)۔

بہادر شاہ ظفر اور ان کا عہد از مولوی سید رئیس احمد صاحب جعفری ندوی

1360 صفحہ، قیمت 20 روپئے، پتا:  کتاب منزل کشمیری باغ لاہور

کتاب اس تن نووش کی ہے کہ الف لیلہ و داستان امیر حمزہ کا دور ختم ہوجانے کے بعد اب ایسی کتابوں کی زیارت شاذ و نادر ہی کہیں ہوتی ہے۔ اکیلی فہرست مضامین ہی نے 40 صفحہ گھیر لیے ہیں۔ اس بھاگ دوڑ کے زمانے میں بھلا کسے اتنی فرصت کہ اس طول و عرض کی کتاب لکھے اور کسے اتنا اطمینان کہ اسے چھاپے اور کسے اتنی فرصت کہ اسے پڑھے! آفریں مصنف کی ہمت کو۔ آفریں ناشر کے استقلال کو، آفریں پڑھنے والوں کے صبر کو اور اگر اجازت ہو تو اس آفریں کا کچھ تھوڑا سا حصہ تبصرہ نگار بھی اپنے لیے پیشگی مخصوص کرلے!۔ اور کمال یہ ہے کہ مصنف صاحب کوئی تارک الدنیا گوشہ نشین قسم کے آدمی نہیں کہ سب طرف سے یکسوئی حاصل کیے ہوئے اسی ایک کتاب کے لکھنے لکھانے میں لگے رہے ہوں۔ وہ جرنلسٹ (اخبار نویس) ہیں۔ ناولسٹ ہیں اور ایسے کہ ان کے ناول کھٹاکھٹ ایک کے بعد ایک نکلتے چلے آتے ہیں اور ساتھ ہی ایک دارالاشاعت کے منیجر بھی! اس کم فرصتی پر یہ عالم کہ ایک دفتر کا دفتر تیار کر دیا، فرصت ہوتی تو خدا جانے کیا غضب ڈھاتے۔ ایم اسلم صاحب شاید اپنے ہی شہر میں اب دعویٰ یکتائی سے دست بردار ہو گئے ہوں!

کتاب کا نام ہے ”بہادر شاہ ظفر اور ان کا عہد‘‘ لیکن کتاب بہادر شاہ پرتو کم ہے اور ان کے عہد پر زیادہ۔ چنانچہ بہادر شاہ کا تذکرہ تو صفحہ 296 پر ختم ہو جاتا ہے اور خیر آگے چل کر کچھ صفحے بہادر شاہ کے مقدمہ کے بھی ملا لیجئے باقی 257 سے عہد بہادر شاہی کے صوفیہ مشایخ، علماء، شعراء، اطباء، ہنر مند اورفن کار،شہدائے غدر، اخبار وعمارات اور دوسرے عنوانات متعلق و غیر متعلق کا سلسلہ جو چھٹرتا ہے، تو وہ کتاب کے خاتمے ہی پر ختم ہوتا ہے، بقول شخصے:

قصۂ زلف مختصر نہ ہوا!۔

اور کتاب کو مجموعی حیثیت بجائے ایک سوانح عمري يا تاریخ کے ایک تاریخی ،سوانحی، ادبی، اخباری کشکول کی دے جاتا ہے۔ زیادہ صحیح طور پر یہ کہئے کہ ایک مشاق صحافی کے ہاتھوں میں آ کر اس مجموعۂ اوراق پر چھاپ اخباریت کی لگ جاتی ہے اور یہ سارا دفتر ایک کتاب سے کہیں زیادہ کسی اخبار کا عظیم الشان و دیو ہیکل سالنامہ نظر آنے لگتا ہے اور کتاب کے ہر باب فصل پر گمان کسی روزنامہ کے مقالہ افتتاحیہ کا گذرنے لگتا ہے۔ جامعیت اور کاملیت اور ہمہ گیری اس بلا کی کہ سر سید کی سائنٹفک سوسائٹی کی فہرست مطبوعات اور حالی کے مرید حکیم محمود خاں دہلوی اور اکبر آبادی کے جلوۂ دربار قیصری کی پر بہار نظموں تک کا عکس اس آئینے میں ملاحظہ فرما لیجئے! کیا کہیے کہ آج حیات نہ ہوئے مولانا شوکت علی مرحوم ورنہ عجب نہیں کہ یہ لحیم وشحیم اور رنگا رنگ کتاب اپنے سارے پھیلاؤ اور پھیراؤ کے ساتھ انھیں کے نامِ نامی سے معنون ہوتی! بڑا ہی بلیغ اور ہر لحاظ سے پرمعنی انتساب (ڈیڈی کیشن) ہوتا، اور معنویت کی ایک نئی روح اس سے اس قالبِ  کاغذی میں پڑ جاتی۔

بہر حال کتاب تاریخی تخلیق کے اعتبار سے جیسی بھی ہو اپنے ادبی، شعری، انشائی، معلوماتی پہلوؤں سے ہاتھوں ہاتھ لینے اور الماریوں میں سجانے کے قابل ہے۔

’’شنید‘‘ بہت کچھ ہو چکی اب ’’دید‘‘ کے شائق ہیں! ایک ہلکی سی جھلک۔ چند منٹ کی نہیں چند سیکنڈ کی ہی سہی، ملا حظہ میں آ جائے:۔

’’ملکہ وکٹوریہ نے قیصرِ ہند کا خطاب جب اپنے لیے منظور فرمایا تو سارے ہندوستان میں غلغلۂ تہنیت برپا ہو گیا، غدر کی تباہیوں، سفاکیوں اور سختیوں نے بڑے سے بڑے اور چھوٹے سے چھوٹے میں لب کشائی کی ہمت کب باقی چھوڑی تھی۔ لیکن شاعر پردہ پردہ میں وہ سب کچھ کہہ جاتا ہے جو وہ کہنا چاہتا ہے۔ اکبر الہ آبادی نے اس دربار کا مشاہدہ کیا اور اپنے تاثرات کی روداد بیان کردی ۔ شاعری کے اعتبار سے دیکھئے تو:۔

زمین سخن آسماں ہوگئی

الفاظ کی بندش، خیالات کا تسلسل، توانائی کی ندرت، محاکات و استعارات کی افراط نے ہر شعرکو جانِ سخن بنا دیا ہے۔ بھلا یہ کوئی کہہ سکتا تھا کہ:۔

تحت میں ان کے بیسیوں ’’بندر‘‘۔

وہ صرف اکبر ہی تھا جس نے الفاظ کے طلسم میں عروس معنی کو اس طرح اسیر کیا کہ کوئی انگشت نمائی کر سکا، نہ گرفت۔ حکایت کے اعتبار سے دیکھیے تو ایک مسلسل داستان ہے جو اپنی پوری رعنائی و برنائی کے ساتھ موجود ہے۔“ (صفحہ 1332)۔

اس تاریخی جھمیلے میں نہ پڑیے کہ نظم اکبر نے 1903 میں، ایڈورڈ ہفتم کے دربار تاج پوشی کے موقع پر کہی تھی جیسا کہ خودنظم کے اندر لارڈ کرزن کا نام بھی تصحیح کے ساتھ موجود ہے اور ملکہ وکٹوریہ کا جشنِ قیصری تو اس سے ایک پشت قبل 1877 میں ہو چکا تھا۔ یہ بحث بھی جانے دیجیے کہ اس وقت اہلِ ہند کے لب پر مہر آیا انگریزوں کی سختیوں نے لگا دی تھی یا یہ کہ ہندوستانی خود اس وقت تک انگریزی حکومت، انگریزی تمدن، انگر یز ی معاشرت، انگر یز ی علوم وفنون کے والہ وشیدا ہو چکے تھے ۔ حسنِ بیان ولطفِ زبان کی داد دینے میں آپ ایسے لگیں گے کہ ان خشک واقعاتی بحثوں کی طرف توجہ کی فرصت ہی نہ ملے گی۔ اندازِ بیان ہر جگہ تاریخی نہ ہو، نہ سہی، لیکن بہر حال کہیں منشیانہ ہے، کہیں شاعرانہ، کہیں خطیبانہ اور کہیں صحافیانہ۔ خشک اور عامیانہ کہیں بھی نہیں۔

(صدق جدید نمبر 8، جلد 7، مورخہ 25/ جنوری 1957)

ناقل: محمد بشارت نواز

 http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/