آب بیتی ۔ الحاج محی الدین منیری ۔14 - انجمن خدام النبی سے زندگی کا نیا موڑ ۔ ۔۔ تحریر : عبد المتین منیری

ء1947 میں مجھ پر بیکاری کا دور شروع ہوا۔ مرحوم عبدالقادر حافظکا سے میرے قدیمی روابط تھے۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ میں اس وقت بے کارہوں، کوئی اچھی سی ملازمت دلادیں۔ اس زمانے میں حاجی حسن علی پیر ابراہیم کا بمبئی میں بڑا شہرہ تھا۔ مسلمانوںمیں ان کی بڑی اہمیت تھی ۔ تقسیمِ ہند کے بعد محمد علی جناح جب ہندوستان چھوڑ گئے تو انہوںنے اسماعیل چندریگر کو یہاں پر اپنا جانشین بنایا، جب چندریگر بھی پاکستان جا کر وزیر بن گئے تو حاجی حسن علی انڈین مسلم لیگ کے صدر بن گئے ۔ چندریگر بھی بمبئی سے تھے۔ حافظکا کے ذریعہ ان سے بھی ملاقاتیں رہیں۔
حاجی حسن علی پیر ابراہیم یوں توآغا خانی شیعہ فرقہ سے تعلق رکھتے تھے۔ لیکن حاجیوں کی خدمت میں وہ بے حد مخلص تھے۔ حافظکا سے انہیں بڑا لگاؤ تھا ۔ انہیں اپنے بیٹے کا درجہ دیتے تھے۔
حافظکا نے مجھے بتایاکہ حاجی صاحب سے میری بات ہوگئی ہے۔ لہذا میں ان سے جاکر ملوں۔ حاجی صاحب نے مجھے احمد غریب سیٹھ سے ملنے کی ہدایت کی۔ احمد غریب سے جب میں ملا تو انہوںنے حاجی صاحب سے میرے تعلقات کے بارے میں دریافت کیاکہ یہ کیسے قائم ہوئے۔ جب میں نے تفصیل بتائی تو انہوںنے دوسرے روز سے انجمن خدام النبی ؐکے صابو صدیق مسافر خانہ آفس میں مجھے آنے کو کہا۔ جب میں مسافر خانہ گیا تو وہاں احمد غریب سمیت کسی کے بیٹھنے کی جگہ نہ تھی۔ تھوڑی دیر انتظار کے بعد احمد غریب نے مجھ سے کہاکہ یہاں چل پھر کر ہی کام کرو۔ ایک دوروز گذرنے کے بعد میں نے ان سے دریافت کیا کہ یہاں پر تو تل دھرنے کوجگہ نہیں، کھڑے کھڑے آخر کیسے کام ہوگا۔ انہوںنے جواب دیا کہ کام ایسا ہی ہوتاہے۔ پھر انجمن خدام النبیؐ کی مجلس انتظامیہ نے مجھے بلایا اور ماہوار ڈیڑھ سوروپیہ پرمجھے مقررکیا۔ تب میں نے آفس کو ٹھیک ٹھاک کیا۔ میز، کرسی اور ضروری فرنیچر خرید کئے۔ ساری چیزوں کو ڈھنگ سے رکھا اور یہاں سے میری زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔