تجربات ومشاھدات (13)۔۔۔   بدر الحسن القاسمی

Bhatkallys

Published in - Other

09:28AM Tue 11 May, 2021

  دین کی طرف سے دفاع میں مکالمہ کا اثر

*******

ناموس رسالت کی حفاظت کیلئے فدا کاروں کے بڑے البیلے انداز رہے ہیں ،۔

كانفرنس كا عنوان:۔

 "حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دفاع میں مکالمہ کا رول "

 دعوت نامہ: محمدبن سعود یونیور سیٹی کی طرف سے ۔

 جگہ : جامعة الامام رياض  کا وسیع کانفرنس ہال ۔

 منتظم : مركز الملك عبداللہ للحوار الحضاري۔

 شرکاء: دنیا کے منتخب علماء دانشور اوریورپ کا وہ شخص بھی جس نے گستاخی کے بعد ہدایت کی راہ پائی اور حلقہ بگوش اسلام ہو گیا اور اسطرح :۔

 رسیدی   ازرہ اغیار تایار

عجب مستے عجب دیوانہ بودی

کا مصداق بن گیا ۔

مکالمہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دفاع میں موثر کب  اور کس طرح رہا ہے ؟

میرا تجزیہ اس بارے میں  کچھ اس طرح کا تھا، تفصیل میرے عربی مقالہ میں دیکھئے! اجمال یہ سمجھئے :۔

امام رازی کی تفسیر کے مطابق :۔

 " حکمت " یعنی صحیح اور یقینی عقائد کا قوی ومفید دلائل سے ثابت کرنا۔

 موعظۃ حسنہ "یعنی ظنی دلائل ومقدمات کے ذریعہ سیدھی سادی طبیعت کے لوگوں کے دلوں پر یقین کی پھوار ڈالنا۔

" جدال حسن " یا مباحثہ ومناظرہ کے ذریعہ الجھی ہوئی طبیعت اور پیچیدہ ذہنیت  والوں کو راہ راست پر لانے نے کی کوشش کرنا۔

یعنی آپ کا کام "تبیین"  وضاحت طرز گفتگو اور خطاب میں" تلیین" نرمی اور حق بات کو تسلیم کرنے میں انصاف کا  اور خواہش نفس کی پیروی سے مکمل اجتناب کا جذبہ ہو۔

جدال میں بھی نرمی اور لطف کا معاملہ ہو غصہ کو پی جانے اور چیخ و پکار سے بچنے اور دلائل پیش کرنے میں بھی زبر دستی دوسرے فریق کو زیر کرنے کا انداز  نہ ہو جب ھی بات مفید اور موثر ہوسکتی ہے۔ انسان کی خاصیت بیان ہے اورانسان کے افکار وخیالات اسکی زبان سے ہی ظاہر ہوتے ہیں، اور کبھی تحریر  اور اشارہ سے بھی یہ کام لیا جاتاہے۔

(خلق الانسان علمه البيان)۔

اور ان الکلام لفی الفؤاد، وانما جعل اللسان علي الفؤاد دليلا

لوگوں کی عقلیں ایک سطح کی نہیں ہوتیں۔

ادیان ومذاھب اور جماعتوں اور فرقوں کا اختلاف انسانوں کے ساتھ لگا ہوا ہے، اللہ تعالی نے قر آن کریم میں انسانوں کے ساتھ  فرشتوں کے  کے ساتھ   حتی کہ ابلیس کے ساتھ مکالمہ کی بھی مثالیں پیش کی ہیں  تاکہ ہمیں سیکھلایا جا ئے اور مکالمہ کاطریقہ بتا یا جائے ۔

ابن خلدون کی تعبیر کے مطابق ″ان التعلیم الصحیح یکون فی النطق والمفاوضه وفتق اللسان بالمحاورة والمناظرة "

يعنی صحیح تعلیم کا طریقہ بولنے زبان کھولنے اور مکالمہ ومناظرہ کے ذریعہ خیالات پیش کرنے میں پنہاں ہے"

علامہ ابو الولید الباجی نے ان اخلاقی حالات و نفسیا ت و  کیفیات  کی نشاندہی کی ہے جن میں مناظرہ یا مکالمہ سے انسان کو بچنا اور اجتناب کرنا چاہیے مثلا غصہ بیماری یا بھوک وغیرہ کی حالت میں۔

اسی طرح ان لوگوں کی بھی  تعیین کی ہے جنکے ساتھ گفتگو بے سود اورمکالمہ غیر مفید ہوتا ہے، بہترین مکالمہ کی ایک شکل تو وہ ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے ساتھ فرمایا جس نے اپنے بچہ کارنگ اپنے سے الگ دیکھ کر اپنی بیوی کے بارے میں شبہ کا اظھار کیا تھا

اسی طرح ضماد نامی شخص کے ساتھ  جواپنے منتر سے آپ کے بارے میں اپنے  موہوم جن یا جنون  کا علاج کرنے کیلئے آیا تھا،  لیکن آپ کی زبان مبارک سے خطبہ کے تمھید ی کلمات  سن کر ایمان لے آیا اور حلقہ بگوش اسلام ہو کر واپس گیا ۔

اسلامی تاریخ کے بہترین مکالموں کی مثالوں میں

"خلق قرآن "کے مسئلہ پر عبد العزیز الکنانی کامکالمہ۔

عیسائیوں کی تردید میں امام ابن تیمیہ اور ابن القیم کے  تحریری  مکالمے اور مباحثے ۔

شیخ ابوزھرہ کے خیال میں  علامہ ابن تیمیہ کی " الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح "انکی سب سے زیادہ سنجیدہ کتاب ہے۔

اور تنہا یہ کتاب ان کانام تاریخ کے عظیم لوگوں کی فہرست میں شامل کر نے کیلئے کافی ہے،

مناقشہ ؛مفاوضہ؛ محاورہ ؛مناظرہ ؛ مجادلہ ؛مباحثہ؛ یہ سارے الفاظ عربی زبان میں قریب قریب مفھوم رکھتے ہیں لیکن ان کےاستعمال کے مواقع الگ الگ ہیں اردو زبان اتنی وسیع نہیں ہے اس لئے ایک ہی لفظ سے بسا اوقات کئی جگہ کام لینا پڑتا ہے ۔

تاریخ اسلام میں کامیاب مکالمںےکی بے شمار مثالیں ہیں  جیسے  حضرت ابن عباس کا مناظرہ خوارج کے ساتھ،

امام ابو حنیفہ کا مناظرہ  ملحدین کے ساتھ ۔ امام احمد ابن حنبل کامناظرہ  معتزلی قاضی ابن ابی د ؤاد ساتھ،

امام ابو الحسن اشعری  کا مناظرہ ابو علی جبائی معتزلی کے ساتھ ، ابو اسحاق اسفرائینی کا مکالمہ  عبد الجبار معتزلی کے ساتھ، قاضی ابو بکر باقلانی  کا مناظرہ بادشاہ روم کے دربار میں پادریوں کے ساتھ ، سبھی انتہائی ذہانت اور حاضر جوابی کی  عجیب و غیب مثالیں ہیں ۔

ہندوستان کے علماء میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دفاع کرنے والوں میں اور آپکی نصرت کیلئے مکالمہ یا مناظرہ کے میدان میں گوئے سبقت لیجانے والوں میں یہ حضرات ہیں۔

   مولانا رحمة الله كيرانوي متوفی ١٣٠٨ھ انھوں نے  پادری فنڈر کو شکست  فاش دی اور" اظھار الحق "جیسی بے مثال کتاب لکھی۔

۔ مولانا محمد قاسم نانوتوی متوفی١٢٩٧ھ  جنہوں نے دیانند سرسوتی کو میدان چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کردیا ،دیگر پنڈتوں کو شکست دی اور "میلہ خداشناسی "کے پروگراموں میں اسلام کی حقانیت اور دوسرے عقائد پر اسکی بر تر ی انتہائی مضبوط  عقلی دلائل سے ثابت کی ۔

   ا حمد حسن دیدات متوفی ٢٠٠٥ء جنہوں نے امریکی پادری سوگارٹ کو شکست دی اور انجیل میں تحریف اور قرآن کے محفوظ ہونے کو دلائل سے ثابت کیا ۔

 ان تینوں نے  اسلام کی حقانیت ثابت کر نے اورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت میں دلائل قائم کر نے کی  ہہترین مثالیں پیش کی ہیں۔

  جزاھم الله عن الاسلام والمسلمين خيرالجزاء۔

http://www.bhatkallys.com/ur/author/dr-baderqasmi/