آب بیتی الحاج محی الدین منیری ۔ 13- دویادگار الیکشن ۔۔۔ تحریر : عبد المتین منیری

Bhatkallys

Published in - Other

08:33PM Sun 3 Jun, 2018

            غالباً ۱۹۳۷ء میں ایک اہم الیکشن ہو ا تھا۔ جناب آئی ایس صدیق مرحوم ضلع کے مسلم نمائندے کی حیثیت سے اس میں کھڑے ہوئے تھے۔ اور ان کے مقابل عبدالکریم کتور نامی دھارواڑ کے ایک وکیل تھے۔ وطن سے باہر مقیم افراد قوم نے آکر آئی ایس صدیق کی حمایت میں ووٹ ڈالا۔

            اس کے لئے ہمیں بڑی جدوجہد کرنی پڑی۔الیکشن کا بھوت سرپرسوار ہو تو کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ کافی خرچ آیا۔ چونکہ مسلمانوں کے زیادہ تر ووٹ بھٹکل ہی میں تھے تو ہمارے افراد نے یہیں رہ کر مختلف جگہوں پر نگرانی کی۔ عبدالکریم کتور نے کمٹہ کو اپنا مرکز بنایا۔ اور ان کے لئے بستی محمود صاحب نے جان توڑ کوشش کی ۔ اس میں آئی ایس صدیق جیت گئے اور کتور ہارگئے۔ اس پر ہم نے بڑی خوشیاں منائیں، صدیق صاحب کی کامیابی پر محلہ محلہ میں جلوس نکالے گئے۔

            الیکشن کے دوران آپ نے جو تقاریر کی تھیں ان کا ریکارڈ موجود نہیں ، ان میں قوم کے لئے بڑی رہنمائی تھی ۔ وہ ہرتقریر حمد وثنا سے شروع کرتے اور پھر قرآن کی آیتیں پڑھ کر ان کاترجمہ سناتے۔ اور قوم کو سیدھی راہ پر لانے کے طریقے بتاتے ، اور اس کے لئے ہرممکن کوشش کرتے، ان کی بتائی ہوئی باتیں اب بھی مجھے یاد ہیں۔

            جب آئی ایس صدیق کامیاب ہوکر بمبئی اسمبلی پہنچے تو انہوں نے وہاں پر عظیم خدمات انجام دیں۔ اس وقت کے بعض اسمبلی ممبران کو میں نے کہتے سنا کہ یہ اسمبلی کے صرف ممبرہی نہیں ، بلکہ دین اسلام کے ایک داعی بھی ہیں۔ آپ میں دینداری کوٹ کوٹ کر بھری تھی ۔ ہمیں خوشی ہوتی تھی کہ آئی ایس صدیق جیسا ہمارا ایک مسلم نمائندہ اسمبلی میں خدمات انجام دے رہاہے۔

            ۱۹۴۳ء کی بات ہے میرا انجمن اسلام ہائی اسکول بمبئی میں بحیثیت مدرس تقررہوا۔ تین سال تک میں نے یہاں تدریسی خدمات انجام دیں۔ مجھے اردو اور دینیات پڑھانے میں دلچسپی تھی ۔ میری تدریس کا کافی اچھا اثر قائم ہوگیا تھا۔ اور میرا خیال تھا کہ شاید بحیثیت استاد ہی پوری زندگی بسر ہوگی۔ اسکول کے ہیڈ ماسٹر اے جی ملا ّمجھ سے بڑی محبت کا سلوک کرتے تھے اور وقتاً فوقتاً انجمن کے معاملات میں مشورے بھی لیا کرتے تھے۔ اسی دوران ۱۹۴۶ء میں ہندوستانی تاریخ کے فیصلہ کن انتخابات ہوئے۔ اس میں بمبئی اسمبلی کی بھٹکل سیٹ مسلمانوں کو دینا طے پایا۔ جناب شمس الدین جوکاکو صاحب اور جناب عبدالقادر حافظکا صاحب مسلم لیگ کی جانب سے نامزدگی کے امیدوار ہوگئے۔

            اس زمانے میں جوکاکو صاحب کا قیام بھٹکل میں ہوتا تھا۔ اور حافظکا صاحب بمبئی میں رہتے تھے۔ جوکاکو صاحب میں بڑی صلاحیتیں پوشیدہ تھیں ۔ آئی ایس صدیق اور ایم ایم صدیق کے بعد آپ نے قوم کی صحیح رہنمائی میں اہم کردار اداکیا۔ الیکشن کا اعلان ہوتے ہی آپ نے پہلا کام یہ کیا کہ بھٹکل کے سرمایہ دار طبقہ کو اپنا ہمنوا بنایا۔ ایس ایم سید ابوبکر مولانا اور ایس ایم بی وغیرہ تاجروں کی تائید آپ کو ابتداء ہی میں حاصل ہوگئی ۔ ان حضرات نے آپ سے وعدہ کیا کہ امیدوار بننے پر ان کی ضرور مدد کی جائے گی۔ حافظکا صاحب کو اس کا خیال دیر بعد ہوا۔ انہوںنے بمبئی ہی میں رہ کر تیاریاں شروع کیں۔ ڈاکٹر قادرمیراں محتشم اس زمانے میں بمبئی میںڈینٹل سرجن تھے۔ ہم تینو ں کی جوڑی تھی ، ساتھ اٹھنا بیٹھنا ، ہنسی مذاق اور تبادلۂ خیال ہوتا۔ ہمارے آپسی تعلقات بڑے والہانہ تھے۔ اور ہم میں بڑی محبت اور یگانگت تھی۔

            الیکشن کا دورجب شروع ہوا تو اسکول سے میری غیر حاضری ہونے لگی۔ میری تمنا تھی کہ کامیابی حافظکا کے نصیب میں ہو ۔ ایک مرتبہ ہیڈ ماسٹر صاحب نے مجھے بلاکر تنبیہ کی اور کہا کہ منیری صاحب! اس بار بار کی غیر حاضری سے اسکول کا تعلیمی معیار پست ہورہاہے ۔ آ پ سے مجھے بڑی اچھی توقعات وابستہ ہیں ۔ اسکول کے سدھارمیں آپ کا بھی اہم حصہ ہونا چاہئے۔ حاضری کا یہ ناغہ کم کرو۔ میرے دل و دماغ پر الیکشن کا بھوت سوارتھا۔ میں نے ہیڈماسٹر صاحب کو جواب دیا کہ میں اپنی مرضی سے چھٹی لوں گا، اسے منظور کریں تو ٹھیک ہے ۔ بصورت دیگر یہ استعفیٰ ہے قبول کرلیجئے۔ الیکشن کی ہماہمی میں ملازمت ، بچوں کی تعلیم و تربیت کا کوئی خیال نہ رہا۔ استعفیٰ دے کر فوراً الیکشن کے کاموں میں مگن ہوگیا۔ اور اس کے لئے شب وروز ایک کرڈالے۔

            حافظکا صاحب بڑے دانش مند انسان تھے۔ انہیں نظم وضبط پر بڑی قدرت حاصل تھی ۔ بمبئی میں رہ کر وہ بھٹکل میں کامیابی کی تدبیریں کرتے تھے۔ خط وکتابت تقاریر اور اخبارات میں اشتہارات کا سلسلہ شروع ہوا۔ اسی دوران بمبئی مسلم لیگ میں سکریٹری کا عہدہ خالی ہوا۔ جوکاکو صاحب نے اسے پانے کے لئے جدوجہد شروع کی۔ ہم لوگوں نے حافظکاصاحب کی حمایت میں اپنی پوری کوششیں کر۔ڈالیں۔ بالآ خر حافظکا صاحب بمبئی مسلم لیگ کے سکریٹری منتخب ہوگئے۔ اس سے بھی ہمیں ایک سہارا مل گیا اور امید ہوچلی کہ سکریٹری کا عہدہ ملنے کے بعدلیگ کا ٹکٹ ملنے میں انہیں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔ ابراہیم چندریگر اس وقت بمبئی مسلم لیگ کے صدر تھے۔

            الیکشن کی سرگرمیاں جوں جوں تیز ہوتی گئیں ۔ قوم کا جوش وخروش بھی اسی قدر بڑھتاگیا۔ اور دو امیدواروں میں اس کا رجحان بٹ گیا۔ صورت حال کو دیکھتے ہوئے مجلس اصلاح وتنظیم نے فیصلہ کیا کہ اجلاس عام منعقد کیا جائے اور حاضر ممبران کی اکثریت جس کے حق میں ووٹ دے وہی قوم کا امیدوار قرار پائے ۔ اور شرط لگادی کہ صرف تنظیم کے دستوری ممبران ہی کو رائے دہی کا حق حاصل ہوگا۔ اس اعلان کے بعد ہم سب حافظکا صاحب کے ساتھ بھٹکل کے لئے روانہ ہوئے۔

            اجلاس عام میں اپنے موئدین کی تعداد بڑھانے کے لئے حافظکا اور جوکاکو نے دو علحدہ علحدہ آفس قائم کئے۔ لوگوں میں عجب جوش وخروش پیداہوا۔ بیس تیس کی ٹکڑیوں میں افراد لائے جاتے ، دونوں آفس ان کی فہرستیں تیار کرتے اور ان کا سالانہ چندہ اپنی طرف سے ادا کرتے۔ اجلاس سے پہلے والی آخری رات تک ممبری فیس جمع کرنے کی آخری میعاد مقرر کی گئی تھی۔ دونوں جانب سے صرف اس روز ڈیڑھ ہزار ممبربنائے گئے۔ رجحان کا پتہ لگانے کے لئے جانبین نے جاسوس چھوڑے گئے، جو پل پل بھرمیں ممبران کے رجحان کی خبریں لاتے۔ اور بتاتے کہ کس کا پلڑا بھاری نظر آتاہے۔

            اجلاس عام کی صدارت جناب ایس ایم سید ابوبکر مولانا صاحب کو کرنی تھی ۔ اور وہ اس ٹوہ میں لگے ہوئے تھے کہ اجلاس میں کسے کامیابی ملنے کا امکان ہے۔ انہیں اجلاس سے قبل ہی اندازہ ہوگیا کہ ممبران کی اکثریت حافظکا کے ساتھ ہے۔ مولانا بڑے دانش مند انسان تھے۔ انہوں نے جوکاکو کو اپنی تائید کا یقین دلایا تھا، انہیں جب احساس ہوا کہ ان کی اجلاس میں شرکت بھی جوکاکو کو اکثریت نہیں دلا سکے گی توانہیں اجلاس سے غیر حاضری ہی میں عافیت نظر آئی۔ دوپہر ڈھائی بجے تک جلسہ گاہ میں مولانا کا انتظار کیا گیا، بالآخر ہم لوگوںنے اجلاس کا انتظام کیا، پانچ سو افراد کا ایک جلوس حافظکا کو مولانا ہال تک جہاں پر جلسہ رکھا گیا تھا لے آیا۔ حاضرین نے فیصلہ کیاکہ مولانا کے بغیر ہی اجلاس منعقد ہو۔ اور آپ کی جگہ کسی اور شخص کو صدر اجلاس مقرر کیا جائے۔ اس کے لئے حکیم حاجی فقیہ کے نام پر سب کا اتفاق ہوا۔ اجلاس سے آپ نے مختصر خطاب کیا۔ میرے علاوہ دوچاراور ممبران نے بھی تقریر یں کیں۔ دس پندرہ منٹ میں جلسہ میں الیکشن کا زور آگیا۔ اور حافظکا زندہ باد کے نعرے بلندہونے لگے ۔ جوکاکو صاحب کے حامی آہستہ آہستہ جلسہ گاہ سے باہر جانے لگے اور صرف حافظکا کے مویدین رہ گئے۔ وہاں سے جلوس کے ساتھ حافظکا کو گھر لایاگیا اور بمبئی پروونشل مسلم پارلمنٹری بورڈ میں حافظکا کو ٹکٹ مل گیا ۔ ہماری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔

            اس کے خلاف جوکاکو نے مسلم لیگ پارلمنٹری بورڈ میں اپیل دائر کردی ۔ نواب محمد اسماعیل ، آئی آئی چند ریگر ، حاجی حسن علی پیر ابراہیم اس بورڈ کے ممبرتھے۔ اور نواب زادہ لیاقت علی خان اس کے صدر۔ وہ بڑے چالاک اور زیرک تھے۔ بمبئی چوپاٹی پر ان کاکیمپ لگا اور انہوںنے ایک ایک امیدوار کا انٹرویو لینا شروع کیا۔ سید ابوبکر مولانا اور کولا صاحبو جیسے ذمہ دارانِ قوم جوکاکو کی اپیل کو کامیاب بنانے کے لئے ہرممکن جدوجہد کررہے تھے۔ کیرلا کے ستار سیٹھ سنٹرل پارلمنٹری بورڈ کے ایک ممبر تھے۔ ان کے ہماری قوم کے ساتھ خصوصاً  ان دو افراد کے ساتھ بڑے گہرے مراسم تھے۔ جوکاکو کی اپیل منظور کرنے کے لئے ان پر زور ڈالا گیا۔ یہ جان کر آپ کو بڑا تعجب ہوگا کہ اس دوران جانبین کی تائید میں سیکڑوں ٹیلگرام روزانہ جاتے ۔ اور لیاقت علی خان صبح سویرے یہ ڈھیر سارے ٹیلگرام دیکھ کر گھبرااٹھتے۔ امیدواروں کے نام کااعلان ہونے سے دو روز قبل دونوں کا انٹرویو ہوا نتیجہ کا رات کو اعلان ہونے والاتھا اس کی صبح درخواست امیدوار ی اور ضروری کاغذات کے ساتھ ہم بمبئی سے کاروار کے لئے روانہ ہوئے ، ادھر سے جوکاکو صاحب کی طرف سے چند ذمہ داربھٹکل سے روانہ ہوئے۔

            ہم نے پہلے ہی سے یہ انتظام کرلیا تھا کہ جب بھی پارلمنٹری بورڈ نتیجہ کا اعلان کرے بذریعہ ٹیلگرام ہمیں فوراً اس کی اطلاع ملے ۔ لہذا جس اسٹیشن سے بھی ہم گزرتے نوٹس بورڈ پر نظر دوڑاتے ، شاید کوئی ٹیلگرام لگاہو۔ جب دوسری صبح ہم بلگام اسٹیشن پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ حافظکا کے نام کا ٹیلگرام نوٹس بورڈ پر چسپاں ہے جس میں انکے سکریٹری ایجیکر نے اطلاع دی تھی کہ Shamsuddin Appeal Accepted۔ یہ خبر بجلی بن کر ہم پر گری ، حافظکا اور ڈاکٹر میراں بھی ہمارے ساتھ تھے۔ ہمارا یہ عالم کہ کاٹو تو لہو نہیں، دماغ ماؤف ہوگیا۔ بمبئی سے بڑی دھوم دھام سے نکلے تھے۔ ابھی ہمیں ہبلی پہونچنا تھا۔ اس خبر نے ہمیں بہت ہی پریشان کردیا۔ ڈاکٹر قادر میراں ہمیں تسلی دیتے۔ اور دل لبھانے کی باتیں کرتے رہے۔ بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوںمیں ، کھو گیا ایک نشیمن تو کیا غم، مقامات آہ فغاں اور بھی ہیں، اس قسم کے اقبال کے شعر سنا سنا کر تسلی دیتے رہے۔

            دھارواڑ میں ایک صاحب تھے اکبر کنٹراکٹر ، ان کی کاروار ضلع سے الیکشن لڑنے کی خواہش تھی۔ حافظکا کی آمد کی خبر پاکر ان کے لوگ ہمارے استقبال کے لئے اسٹیشن آئے۔ اور ہم ان کے یہاں جاکر اترے۔ حافظکا صاحب نے کاروار جانا مناسب نہیں سمجھا، البتہ بستی محمود صاحب جو کہ اکبر کنڑاکٹر کے لئے کام کرتے تھے ، مجھے اپنے ساتھ کاروار جانے پر آمادہ کیا ۔ ڈاکٹر قادرمیراں اور حافظکا دھارواڑ ہی میں کچھ دیر رک کر بمبئی واپس چلے گئے۔

            بستی محمود کے ساتھ گاڑی پر گھومتے گھامتے میں جب کاروار پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ہماری قوم کے افراد کا ایک ہجوم وہاں پر جمع ہے۔ اور ان میں سے ہر کوئی ہمیں مخالف کیمپ کا آدمی سمجھ رہاہے۔ بہر حال اس وقت ہمارے جذبات حافظکا کے حق میں تھے۔ ان کی کامیابی کی ہماری دلی خواہش تھی ۔ وہاں پر بعض ذمہ داران قوم موجود تھے۔ ہماری شکست ہوگئی تھی ۔ انہیں دیکھ کر میں واپسلوٹ آیا۔ اکبر کنٹراکٹر نے اپنی امیدواری کے کاغذات داخل کردئیے۔

            اکبر کانٹراکٹر کا شمار دھارواڑ کی بڑی دولت مند شخصیتوں میں ہوتا تھا۔ انہوںنے جوکاکو صاحب کو شکست دینے کے لئے کافی پیسہ بہایا۔ خدا کا فضل تھا کہ جوکاکو صاحب الیکشن جیت گئے ۔ اس الیکشن میں کافی ہنگامہ آرائی ہوئی اور قوم انتشار کا شکار ہوئی ۔ آپ کو یہ جا ن کر شاید تعجب ہو کہ اختلاف اس حد تک بڑھ چکا تھا کہ اگر بیوی حافظکا کی حامی ہے تو شوہر جوکاکوکا حامی۔ باپ اور بیٹوں میں اختلاف تھا۔ گھر گھر الیکشن کا چرچہ تھا۔ اور قوم میں زندگی کا ایک احساس اجاگر تھا۔

            الیکشن کے دوران قوم میں جو جذبات کارفرما تھے ، اگر الیکشن کا یہ موقعہ نہ ہوتا ، اور الیکشن کے بعد کوئی لیڈر ان جذبات کا صحیح استعمال کرکے ان کا فائدہ اٹھا تا تو قوم کافی مضبوط اور متحد ہوسکتی تھی ۔ اس سے حافظکا اور جوکاکو میں کافی دوری ہوگئی ، ایک اسمبلی میں منتخب ہوکر گئے تو دوسرے نے بمبئی مسلم لیگ کے سکریٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔

            بمبئی میں حافظکا کو بڑامقام حاصل تھا۔ لیگ کے ممتاز قائدین چندریگر ، حاجی حسن علی پیر ابراہیم ، محمد عمر کوکل وغیرہ ان کی بڑی عزت کرتے تھے۔ اور ان کی کارکردگی سے بہت خوش تھے۔ حاجی حسن علی پیر ابراہیم جو کہ اپنے وقت کے کروڑپتی تھے ان سے اتنے خوش تھے کہ اپنے بیٹے جیسا سلوک کرتے تھے۔ الیکشن کا دور ختم ہوا۔ اور اختلافات رفتہ رفتہ دھیمے پڑتے گئے۔