سفر حجاز ۔۔۔(13)۔۔۔ روضہ جنت۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

04:00PM Wed 7 Jul, 2021

باب (۱۳) روضہ جنت

اللہ ٹھنڈا رکھے۔اگلوں کی ترتبوں کو، تربت مبارک کی حفاظت اور لوگوں کی نظر سے مخفی رکھنے کا کیسا کیسا انتظام کرگئے ہیں۔دین کے بادشاہ کا جسد مبارک جہاں مع دونوں وزیروں صدیق و فاروق کے آرام فرما ہے۔وہ ام المومنین عائشہؓ صدیقہ کا حجرہ تھا۔ستر اسی سال تک یہ حجرہ اپنی اصلی حالت میں زیارت گاہ خلائق بنارہا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جمال دیکھنے والے اور ان دیکھنے والوں کے دیکھنے والے ایک ایک کرکے اٹھتے جارہے تھے، ہجرت کی پہلی صدی ابھی ختم بھی ہونے پائی تھی کہ خلیفہ ولید کے حکم سے والی مدینہ حضرت  عمر بن عبدالعزیزؒ نے (اپنے دور خلافت سے قبل ہی) ایک مستحکم سنگی عمارت حجرہ صدیقہ کے گرداگرد تعمیر کرادی جس میں کوئی دروازہ نہ رکھا، تربت اطہر تو حجاب میں تھی ہی اب حجرہ شریفہ بھی اس حجاب میں آگیا۔اور مشتاقان جمال کو اس بیرونی عمارت کی زیارت پر قناعت کرنا پڑی، کچھ روز کے بعد مزید تحفظ کے خیال سے ایک اور احاطہ پتھر کے ستونوں اور محرابوں کا، اس عمارت کے اردگرد بھی بنادیا گیااور گنبد خضرا اسی احاطہ پر قائم ہے۔اس احاطہ پر کلمہ طیبہ سے منقش پردے

پڑے رہتے ہیں اور اس کے دو دو ہاتھ کے فاصلہ پر چاروں طرف فولاد یا پیتل کی زرد جالیوں کی دیواریں ہیں اور اب زائر کے پیش نظر صرف یہی جالیاں رہتی ہیں یہ اہتمام اور انتظام چودھویں صدی ہجری اور بیسویں صدی عیسوی میں جس پہلو اور جس اعتبار سے بھی دیکھیے سر تا سر ضروری و مناسب نظر آئے گا، تربت مبارک اگر بغیر اتنے حجاب کے کہیں کھلے میدان میں ہوتی تو شریعت سے بیگانے اہل ہوس و اہل بدعت خدا معلوم  ابتک کیا کر گزرے ہوتے! اور پھر جو اہل نظر ہیں وہ اس نظارہ بےحجاب کی تاب کیوں کر لاسکتے، ان کے علاوہ اور بھی متعدد مصلحتیں ہیں جو ہر غور کرنے والے کی سمجھ میں آسکتی ہیں۔

زیارت سے فراغت ہوچکی ہو تو درود و سلام پڑھتے ہوئے اب مسجد کے اس حصہ میں آیئے جس کی بابت زبان اقدس سے ارشاد ہوا ہے کہ:۔

میرے مکان (یا میری قبر) اور میرے منبر کے درمیان جو کچھ ہے وہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔

اور اسی بنا پر اس قطعہ کا نام بھی "روضہ" یا "جنت کی کیاری" پڑگیا ہے، بالین مبارک کی طرف جو جالیاں ہیں وہاں سے روضہ کے حدود شروع ہوتے اور منبر پر ختم ہوتے ہیں جو تخمیناً پچیس تیس فٹ کے فاصلہ پر رکھا ہوا ہے۔یہ منبر کہا جاتا ہے کہ سلطان مراد کا بنوایا ہوا ہے لیکن رکھا ہوا اسی جگہ پر ہے جہاں منبر نبویﷺ رکھا ہوا تھا منبر اور جالیوں کے درمیان منبر سے ڈھائی تین گز کے فاصلہ پر محراب النبی اور مُصلّی نبوی ہیں۔یعنی وہ مقامات جہاں اپنے رب کے سب سے بڑے پوجنے والے نے نمازیں پڑھی ہیں، سجدے کیے ہیں، رکوع کیے ہیں، امامت فرمائی ہے، اس حظہ کی نورانیت کو الفاظ میں کیونکر بیان کیا جائے! حدیث کی شرح میں شارحین کے قول مختلف ہیں، کوئی یہ کہتا ہے کہ اتنا ٹکڑا نزول رحمت و حصول سعادت میں جنت کے باغیچوں کے مثل ہے اور اسی لیے اس اسے چمن جنت کہا گیا ،کسی کا فرمانا یہ ہے کہ یہاں کی عبادت نہایت مقبول ہے اور اس کے سبب یقیناﹰ باغ جنت ملے گا۔اس مناسبت سے اسے روضہ جنت ارشاد فرمایا گیا۔اور بعض شارحین کا قول ہے کہ اس ارشاد کو ظاہر ہی پر محمول رکھا جائے۔یعنی اتنا ٹکڑا حقیقتہً جنت ہی کا ٹکڑا ہے، اور قیامت کے دن بعینہ جنت کی طرف اٹھالیا جائے گا۔

یہ ساری شرحیں اور تاویلیں جنھیں علامہ ابن حجر نے فتح الباری میں نقل فرمایا ہے۔اپنی اپنی جگہ پر بالکل صحیح و درست ہیں۔عبادت یہاں کی بھی اگر مقبول نہ ہوگی تو اور کہاں کی ہوگی، نزول رحمت اور حصول سعادت اگر یہاں بھی نہ ہوگا تو اور کہاں ہوگا، یہ سب صحیح ہے لیکن دل کہتا ہے کہ صحیح ترین مفہوم وہی ہے جو سب سے آخری قول میں نقل ہوا، کوئی اور مانے یا نہ مانے لیکن جن خوش نصیبوں کو اس خطہ بہشی کی زیارت نصیب ہوچکی ہے ان کا دل تو یہی پکارے گا، اسی کو مانے گا اور یہی سمجھے گا، اتنا حسین، اتنا جمیل اتنا دلکش، اتنا جاذب نظر اتنا پرانوار قطعہ اس ناسوتی اور فانی دنیا کا ہو نہیں سکتا ہے! یقیناﹰاسے جنت الفردوس ہی سے اٹھاکر لایا گیا ہے۔اور دنیا کی بربادی کے وقت اسے ہر قسم کے گزند سے محفوظ رکھ کر انشاءاللہ بجنسہ وہیں پھر اٹھالیا جائے گا۔ اور یہ دل کی آواز محض ایک عامی کی نہیں۔اگلے بزرگوں میں بھی بعض محققین اسی جانب گئے ہیں شیخ دہلوی  حدیث بالا اور اس کی شرحوں کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں۔

"تحقیق آں ست کہ کلام محمول برحقیقت خود است، ومابین حجرہ آنحضرت (صلعم) و منبر شریف بہ حقیقت روضہ ایست از ریاض جنت بآن معنی کہ فردائے قیامت آں رابہ فردوس اعلیٰ نقل کنند و دررنگ سائر بقاع ارض فانی و مستہلک نہ گرد انند، چناں چہ ابن فرجون و ابن جوزی از امام مالک نقل کردہ اند، و اتقاق جماعہ، از علما باوے نیز منضم ساختہ، و شیخ ابن حجر عسقلانی و اکثر علماء حدیث ترجج ایں قول کردہ اند، ابن ابی حمزہ کہ از کبار علمائے مالکیہ است فرمودہ کہ احتمال دارد کہ عین ایں بقعہ شریفہ روضہ از ریاض جنت باشد کہ اس آبخابردار دنیا فرستادہ باشند چنانچہ درشان حجر اسود و مقام ابراہیم واقع است و بعد از قیام قیامت ہم بہ مقام اصلی خودش برند" (جذب القلوب باب ۸)

اور اسے نقل کرنے کے بعد شیخ حسب توقع بھی اسی معنی کی تائید کرتے ہیں:۔

"ایں معنی ازروئے حقیقت جامع جمیع معانی ہست کہ دیگران گفتہ اند۔"

بعض کتابوں میں بیہقی کے حوالہ سے یہ روایت دیکھنے میں آئی کہ ہر صبح کو ستر ہزار فرشتے اس روضہ جنت پر اترتے ہیں اور شام تک درود شریف پڑھتے رہتے ہیں۔اس کے بعد واپس چلے جاتے ہیں اور نئے ستر ہزار آجاتے ہیں جو اسی طرح صبح تک درود شریف پڑھتے رہتے ہیں اور اس روایت میں تو ستر ہزار فرشتوں کا ذکر ہے جو پھر بھی ایک تعداد متعین کا نام ہے جو آنکھیں اس روضہ کے دیدار جمال سے مشرف ہوچکی ہیں وہ تو اس کی تصدیق کرنے کو تیار ہیں کہ ہزاروں اور لاکھوں کے عدد کیسے، بےشمار اور بےتعداد فرشتے ہر لحظہ اور ہر ساعت اللہ کی رحمتوں اور برکتوں سے اس مرکز نور کو منور اور منور سے منور تر بناتے رہتے ہیں۔! ۔

اسی روضہ کے اندر وہ آٹھ ستون بھی ہیں جنھیں اسطوانات رحمت کہا جاتا ہے۔ان کے پاس نمازیں پڑھنے کی خاص فضیلتیں آئی ہیں، روضہ بھر میں کہیں بھی نماز پڑھیئے، سارا تختہ تختہ جنت ہے لیکن اگر آسانی سے بلازحمت و کشمکش ان میں سے کسی ستون کے پاس جگہ مل جائے تو سبحان اللہ، نور علی نور: ۔

۔(۱)استوانہ مخلقہ: یہ ستون عین مصلی نبی کی پشت پر ہے، منبر تیار ہونے سے قبل رسول اللہ صلعم اسی جگہ کھڑے ہوکر خطبہ جمعہ کو ارشاد فرماتے تھے۔ستون حنانہ جس نے منبر کی تیاری کے بعد حضور سے جدا ہونے پر ایک روایت کے مطابق گریہ و بکا کیا تھا، ٹھیک اسی مقام پر تھا۔

۔(۲) اسطوانہ حرس یا اسطوانہ علیؓ یہاں صحابہ کرام حضور کی دربانی یا پہرہ کے لیے بیٹھے تھے اور اکثر یہ خدمت حضرت  علی سے متعلق رہتی تھی، اور آپ کثرت سے نمازیں یہیں ادا فرماتے تھے۔

۔(۳)اسطوانہ وفود: باہر سے جو وفد حضور صلعم کی خدمت میں حاضر ہوتے ان سے اکثر اسی مقام پر ملاقات فرمائی جاتی۔

۔(۴)اسطوانہ ابی لبابہ: حضرت  ابی لبابہ مشہور صحابیوں میں ہیں، ایک مرتبہ آپ جہاد میں نہ گئے۔بعد کو خود ہی ندامت ہوئی۔اور اس زور کا احساس ندامت ہوا کہ اپنے کو مسجد میں ایک ستون سے باندھ دیا۔بالآخر جب رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم جہاد سے واپس تشریف لائے اور ابولبابہ کی بریت میں وحی نازل ہوئی تو اپنے دست مبارک سے ابولبابہ کو کھولا۔

۔(۵)اسطوانہ صریر: اس ستون کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حالت اعتکاف میں کبھی کبھی کھجور کے بوریئے پر آرام فرماتے تھے۔

۔(۶) اسطوانہ جبرئیل: حضرت  جبرئیل اکثر وحی اسی مقام پر لےکر آئے ہیں۔

چار ستون یعنی اسطوانہ حرس، اسطوانہ وفود، اسطوانہ صریر، اسطوانہ جبرئیل بالین مبارک کی جالیوں والی دیوار میں ایک ہی قطار میں قریب قریب ہیں۔

۔(۷)اسطوانہ عائشہ: جس جگہ اب مصلی نبی ہے۔اس کے اختیار کرنے سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ روز یہیں نماز ادا فرمائی ہے، ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ نکلا تھا کہ میری مسجد میں ایک جگہ ایسی ہے کہ اس کی فضیلت اگر لوگوں کو معلوم ہوجائے تو وہاں جگہ پانےکے لیے لوگ قرعہ ڈالیں۔اس وقت سے صحابہ کو برابر اس جگہ کی جستجو رہنے لگی۔حضور کی وفات کے بعد حضرت  عائشہ نے اس جگہ کا پتہ اپنے بھانجے حضرت  عبداللہ بن زبیر کو بتایا اسی مناسبت سے اسے اسطوانہ عائشہؓ کہتے ہیں۔

۔(۸)اسطوانہ تہجد: یہ مقصورہ شریفہ کی پشت کی جانب ہے (یعنی شمالی دیوار میں) کہا جاتا ہے کہ یہاں رسول اللہ نے تہجد کی نمازیں ادا فرمائی ہیں۔

سعودی حکومت نے یہاں نماز پڑھنے کی بلکہ یہاں تک پہنچنے کی ممانعت کردی ہے۔شاید اس خیال سے کہ یہاں کھڑے ہوکر نماز پڑھنے سے تربت مبارک سامنے پڑتی ہے۔

روضہ جنت میں جہاں کہیں بھی جگہ مل جائے اپنی خوش نصیبی سمجھیے لیکن اس کے لیے دوسروں کی جگہ زبردستی چھین لینا، ایک دوسرے سے دھکم دھکا کرنا، آداب مسجد اور وقار دربار نبوی کے بالکل منافی ہے اور حق یہ ہے کہ اس کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔شدت ہجوم کے زمانہ میں بھی، اسے یہاں کی کرامت سمجھئے، یا جو کچھ ہر آرزو مند کو اس محدود رقبہ کے اندر جگہ مل ہی جاتی ہے حالانکہ کل گنجائش اس میں شاید ڈھائی تین سو نمازیوں سے زائد کی نہ ہو صرف چند لمحے صبر و انتظار کی ضرورت ہوتی ہے یہاں تک کہ مصلی نبی جو موسم حج میں کبھی نمازیوں سے خالی نہیں رہتا، اور جس پر مشتاقوں کے ٹھٹ ٹوٹے پڑتے ہیں، وہاں بھی کچھ دیر صبر و انتظار کے بعد جگہ مل کر رہتی ہے البتہ اتنا خیال اپنے کو بھی رہنا چاہیے کہ اس جگہ پر بہت دیر تک اپنا قبضہ نہ رکھے اس پر سب مسلمانوں کا حق یکساں سمجھے اور ہلکی ہلکی رکعتیں پڑھ کر جلد اس جگہ کو دوسرے آرزو مندوں کے لیے خالی کردے یہیں منبر کے قریب اور ایک دوسرے مقام پر بھی بہت سے کلام مجید رکھے رہتے ہیں جس کا جی چاہے پڑھے۔غرض "روضہ جنت" کے اندر قدم رکھنے کے بعد جتنی دیر چاہے نماز پڑھیئے، جب تک جی میں آئے قرآن کی تلاوت کرتے رہیے۔اور جب تک دل لگتا رہے درود خوانی میں مصروف رہیے، ہر عمل جنت ہی کی طرف لے جانے والا ہے، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مواجہہ شریف میں جو رعب و جلال ہے اور وہاں حاضر ہوکر قلب پر جو ہیبت طاری ہوتی ہے وہ یہاں مفقود ہے، یہاں سکون، اطمینان اور ٹھنڈک ہے۔یکسوئی اور حضور قلب کے ساتھ جب تک قسمت یاوری کرے مناجات میں لگے رہیے۔عرض  و معروض کرتے رہیے۔دعائیں مانگتے رہیے، اپنی ذات کے لیے، بزرگوں کے لیے، عزیزوں کے لیے، دوستوں کے لیے، ساری امت اسلامیہ کے لیے، سب کے لیے بھلائی چاہیے، اپنے گناہوں کو یاد کیجئے، اپنی بےحساب تباہ کاریوں کا حساب لگایئے، رویئے اور گڑگڑایئے، سجدوں میں گریئے اور کسی کو منایئے دل سے تو بہرحال رویئے اور ممکن ہوتو آنکھوں سے بھی سیلاب بہایئے، نہ یہ جگہ سب کہیں نصیب اور نہ یہ گھڑیاں ہر وقت حاصل! ۔

جمعہ کا دن مسلمانوں کی عید کا دن ہوتا ہے، پھر مدینہ کا جمعہ اور مدینہ میں بھی مسجد نبوی (ﷺ) کا جمعہ! جس کے نصیب میں یہ آجائے اس کے نصیبہ ور ہونے میں کسے کلام؟ لیکن جس نے اپنا نام قادر علی الاطلاق رکھا ہے جس نے اپنی شان غنی عن العالمین بیان کی ہے اس کی کار فرمائیوں کے بھید کون پاسکتا ہے؟ اور اس کی مشیت کی باریکیوں کی تھاہ کس کو مل سکی ہے؟ آفتاب "عالمتاب" ہے سارے عالم کی آنکھوں کو روشن کردیتا ہے، لیکن اس عالم کے اندر ایسے جاندار بھی موجود ہیں جن کے حق میں یہی نور عالمتاب آنکھوں کا حجاب بن جاتا ہے۔مدینہ پر اس وقت سعودی حکومت کا پرچم لہرارہا ہے، سلطان حجاز کی طرف سے مدینہ میں جو امیر (گورنر) مقرر ہیں وہ شاید عیسائیوں کی طرح ہفتہ میں صرف ایک ہی دن ایک وقت کے لیے مسجد میں حاضر ہونا ضروری خیال فرماتے ہیں "حاضر ہونا" غلط کہا گیا ہے۔وہ حاضر نہیں ہوتے ہیں مسجد میں "تشریف لاتے ہیں" تشریف آواری کی شان یہ ہوتی ہے کہ نماز جمعہ کے وقت مقررہ سے تین گھنٹہ قبل (یہ گھڑی کے حساب سے پوری ذمہ داری کے ساتھ عرض کررہا ہوں) سے "روضہ جنت" کا ایک معتدبہ حصہ نمازیوں اور عبادت گزاروں سے خالی کرایا جانے لگتا ہے اور منبر سے لےکر مصلی نبی تک کا حصہ بقدر تین صفوں کےطہر نمازپڑھنے والے سے ہر تلاوت کرنے والے سے، ہر درود پڑھنے والے سے کبھی طوعاً اور زیادہ تر

کرہاً خالی کرالیا جاتا ہے۔اس لیے کہ امیر مع اپنے خدم و حشم کے تشریف لارہے ہیں!۔ (خدا کا شکر ہے کہ تشریف آواری ہفتہ میں ایک بار ہوتی ہے) اور یہ خالی کرانے والے سعودی حکومت کے پیادے نیز محکمہ "امر بالمعروف" کے عہدیدار ہوتے ہیں! محکمہ کا مقصد شریعت کا نفاذ اور بدعتوں کا مٹایا جانا ہے لیکن خاص جمعہ کے مبارک  و متبرک دن عین صاحب شریعت علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دربار میں بدعتوں کو یوں مٹایا جاتا ہے! "امر بالمعروف " کی یوں جسارت کی جاتی ہے! ۔توحید عملی کی یوں منادی کی جارہی ہے مساوات و اخوت اسلامیہ کا درس صرف رعایائے حجاز ہی کو نہیں ساری دنیائے اسلام کو یوں دیا جاتا ہے! کون کہتا ہے کہ بنو امیہ کی زیادتیاں انھیں کے دور پر ختم ہوگئیں۔

نماز سے ذرا پہلے امیر صاحب (غالباﹰ موٹر پر) تشریف لاتے ہیں۔اور مسجد کے اندر اس شان سے داخل ہوتے ہیں کہ بند قچیوں  کا ایک پورا دستہ ہمراہ آگے بھی سپاہی اور پیچھے بھی سپاہی اور اس غول کے اندر امیر صاحب نہ کسی سے سلام علیک! قدم قدم پر حکومت کی شان عیاں اور "امارت"کے نشانات نمایاں بس یہ معلوم ہوتا ہے کہ گویا پنجاب کی سرزمین پر مائیکل اوڈائر یا جنرل ڈائر اپنے اردلیوں اور اپنے فوجیوں کی قوت پر نازاں اپنی کالی رعایا کے سامنے اکڑتا اور جھومتا ہوا چل رہا ہے۔لوگ کہتے ہیں کہ ترک بادشاہ اپنے نام کے ساتھ "خادم الحرمین الشریفین" لکھتے تھے اور اس پر فخر کرتے تھے۔اب جلالتہ الملک سلطان نجد گو اپنی سلطنت اور وجاہت میں ان سے بہت چھوٹے ہیں اور ایسا کیوں نہیں کرتے؟ جواب ظاہر ہے جس سلطان کے نائب اور جس "ملک" کے گورنر تک "خادم" ہونے کے بجائے "مخدوم" ہوں اور حرم کے اندر عین عبادت و تفرع کے وقت عین خشیت و انابت کے موقع پر بھی اپنے مخدوم اور اپنے حاکم ہونے کا یوں مظاہرہ فرماتے رہیں۔وہ کیا کوئی دیوانہ ہے جو اپنے کو "خادم"کہتا رہے، اور اپنے تذلل و افقاء کو اپنے لیے باعث شرف سمجھتا رہے؟

دوستو اور عزیزوں! یہاں حنبلیت، حنفیت کا نہیں، وہابیت اور سنیت کا نہیں، ابن تیمیہؒ اور ابوحنیفہؒ کی تقلید کا نہیں، سوال صرف قوت و اقتدار حکومت و امارت کا ہے اور ملکیت کا احساس بنوامیہ کو ہو یا آل سعود کو نتیجہ کچھ یکساں ہی رہتا ہے۔ اقبال نے کہا تھا۔

             ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز

                    نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز!۔

لیکن دنیا اس وقت سے بہت آگے بڑھ چکی ہے، اب "محمود"اپنی صف ہی "ایاز" کی صف سے الگ رکھے گا بھلا اب تو کوئی "بندہ"اور "بندہ نواز" کے فرق و امتیاز کو مٹادیکھے!۔

( یہ مشاہدات و تاثرات ۱۹۲۹ء کے تھے۔بعد کے آنے والوں کا بیان ہے کہ اس صورت حال میں اب اچھی خاصی اصلاح ہوگئی ہے۔۔۔فالحمداللہ۔۔۔۔اس سے زیادہ مسرت انگیز خبر اور کیا ہوسکتی ہے)

http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/