آب بیتی الحاج محی الدین منیری -12- وطن سے محبت ۔۔۔ تحریر : عبد المتین منیری

Bhatkallys

Published in - Other

08:29PM Sat 26 May, 2018

تلاش معاش میں قوم کے جوافراد کراچی گئے ان میں کولا محی الدین مرحوم کی شخصیت نرالی تھی ، صدر علاقہ میں ان کا وسیع وعریض گلزار ہوٹل تھا۔ جس میں کھانے کی سو (100)میزیں رکھی ہوئی تھیں۔ ان دنوں روزانہ کاروبار دس ، پندرہ ہزار روپئے سے کیا کم رہاہوگا۔ میں نے قوم کے بڑے بڑے مہمان نواز دیکھے ہیں ۔ لیکن ایسا مہمان نواز میری نظر سے نہیں گذرا۔ جو بھی آتا ان کے یہاں ٹہرتا۔

            تقسیمِ ہندسے قبل کراچی میں جا کر بسنے والے قوم کے وہ واحد شخص تھے۔ ویسے تو وہ تعلیم یافتہ نہیں تھے۔ باوجود اس کے ان کے اثر ورسوخ کا یہ عالم تھا کہ جو چاہے وہ کرواسکتے تھے۔ کسی سرکاری آفس میں جاتے تو حاجی صاحب آئے ہیں کہہ کر آفیسران ان کا خیر مقدم کرتے ۔ میونسپل چیف آفیسر سے ملتے تو اس کے سرپرچپت لگاتے اور بے تکلفانہ باتیں کرتے۔ کوئی سرکاری کام ہوتا تو کاغذ آفیسر کے سامنے رکھتے اور کہتے، ارے ! دیر کیوں لگاتاہے ۔ اٹھا کے لگادوں گا۔ دستخط ڈال یہ ان کا انداز تھا۔ اگرچاہتے تو سینکڑوں دکانیں بنا سکتے تھے لیکن انہوںنے پاکستان بننے پر ایک پیسہ کا فائدہ نہیں اٹھایا۔

            چونکہ ہماری قوم تجارت پیشہ ہے ، نئی منڈیوں کی اسے تلاش رہتی ہے ۔ کئی ایک نے کراچی میں کاروبار لگایا ۔ مگر اطمینان کا سانس انہیں نصیب نہ ہوا۔ کیونکہ ہماری قوم وطن کی خاک سے جدا نہیں ہوسکتی ۔ دنیا کے جس کنارے پر بھی جائیں، بال بچے وطن میں رہنے کی وجہ سے گھر کی یاد ستاتی رہتی ہے۔ جہاں سے بال بچوں کے پاس آنے جانے کی آسانی نہ ہو وہاں پر وہ ٹک نہیں سکتے ۔ لہذا ہماری قوم کراچی میں ٹہر نہ سکی۔

            انسان کی نیکی کبھی ضائع نہیں جاتی، اس کا بھی ایک واقعہ سن لیجئے۔ میرا جب پہلی بار کراچی جانا ہوا تو راہ چلتے ، ایک شخص سے ملاقات ہوگئی۔ اس نے میرے ساتھ بڑی عزت و احترام کا معاملہ کیا۔ اور بتایا کہ اس کانام حسن ہے ، اور عرصہ سے مجھے جانتاہے۔ وہ اس وقت کراچی کا چیف   رینٹ کنڑولر ہے۔ اس نے مجھے مکان ، فلیٹ، زمین طلب کرنے کی فرمائش کی۔ اور اس سلسلے میں اپنی خدمات پیش کیں۔ میں نے اسے جواب دیا کہ میں ایک پردیسی ہوں ، مجھے یہاں پر رہنا نہیں ہے ۔ اس زمانہ میں چیف رینٹ کنڑولر کا عہدہ بڑی اہمیت رکھتا تھا ۔ مہاجرین کو مکانات الاٹ کرنے کا مکمل اختیار اسے حاصل تھا۔

            اس کی کرم فرمائی کی وجہ یہ تھی کہ ۱۹۴۷ء کے آغاز میں جب ہندوستان میں فسادات کا سلسلہ شروع ہواتھا تو بہت سے مسلمانوں نے پاکستان جانا شروع کیا، تو ہم لوگوںنے صابو صدیق مسافر خانہ بمبئی میں ریلیف کیمپ قائم کرکے ہزاروں خانماں برباد لوگوں کی مدد کی تھی ۔ ان میں یہ صاحب بھی موجود تھے۔ ان کے حافظہ میں میری شکل وصورت محفوظ تھی ۔ عرصہ گذرنے کے باوجود میں نے جس جس طرح ان کی مدد کی تھی انہیں سب کچھ یا د تھا۔