سفر حجاز۔۔۔(12)۔۔۔ زیارت اور آداب زیارت۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

03:43PM Tue 6 Jul, 2021

 باب (۱۲) زیارت اور آداب زیارت

توحید کا مسئلہ ایک صاف اور سیدھا مسئلہ ہے لیکن دہریوں اور ملحدوں ہی نے نہیں بلکہ خدا پرستی کے دعویداروں نے  بھی عجیب عجیب شگوفہ کاریاں کر رکھی ہیں اسی طرح بارگاہ رسالت کے ادائے حقوق کے معاملہ  میں  انکار کرنے والوں ہی کے نہیں اقرار کرنے والوں کے دماغوں نے بھی عجیب عجیب مغالطے کھائے ہیں لوگوں کے کانوں میں کہیں ایک لفظ محبت پڑ گیا بس پھر کیا تھا اس کی آڑ میں ہر حرام حلال تھا اور ہر عیب ہنر بن کر رہا۔ ذرا نہیں سوچتے اور دیکھتے کہ محبت اپنی کتنی بیشمار مختلف صورتوں اور قالبوں میں اپنے گردوپیش ہر وقت ظاہر ہوتی رہتی ہے۔ بیوی کی محبت کی شکل اور ہوتی ہے اور اولاد کی محبت کی صورت اور اولاد سے جس قوم کی محبت کی جاتی ہے کون شخص ہوش و حواس درست رکھ کر اپنے ماں باپ سے اس طرح کی محبت کرے گا؟ پھر خود اولاد کی محبت کا حال یہ ہے کہ بچہ جب تک چھوٹا ہے اسے گود میں لیا جاتا ہے، اور گدگدایا  جاتا ہے۔ اس کے ساتھ کھیلا جاتا ہے، اور جب سیانا سمجھ دار ہوا تو اس کےساتھ ادب و قاعدہ برتا جانے لگا، اور اب اس کے ساتھ محبت کا برتاؤ بالکل ہی دوسرے انداز کا ہونے لگا اب اگر کوئی شخص اپنے بڑے بوڑھوں، ماں باپ کو اسطرح چھڑانے گدگدانے، کھلانے کدانے لگے، جس طرح اپنے چھوٹے بچوں کو کرتا رہتا ہے تو یہ اس کی محبت کی دلیل ہوگی یا انتہائی حمق اور کھلے ہوئے جنون کی؟

 پھر رسول اللہ ﷺ کا مرتبہ تو ماں، باپ، بزرگ، استاذ مرشد، حاکم، غرض مخلوق کے ہر مرتبہ سے بڑا، اور رسول اللہ ﷺ کا رشتہ ہر انسانی رشتہ سے اونچا ہے اس کی شان میں اس کے مرتبہ کے لحاظ سے ادنیٰ فروگذاشت بھی کیسے نظر انداز کی جا سکتی ہے؟ اس کی اطاعت عین حق تعالیٰ کی اطاعت ہے۔

ومن یطع الرّسول فقد أطاع اللہ۔

اس کی اطاعت کا حکم ایک دفعہ نہیں بار بار وارد ہوتا ہے،ا

ٔطیعوا اللہ وأطیعواالرسول۔

اس کی پیروی کا صلہ اللہ کی محبوبیت ہے،۔

 فاتبعونی یحببکم اللہ۔

 اس کے مجلس کے آداب تصریح و تاکید کے ساتھ بار بار تعلیم کیے جاتے ہیں اس کے حضور میں آواز بلند نہ کرو ،۔

یا أیھا الذین آمنوا لا ترفعوا أصواتکم فوق صوت النبیّ۔

ایسا نہ ہو کہ ایسی نادانستہ گستاخی سے سارے اعمال مٹ کر رہ جائیں،۔

 لا تجھروا لہ بالقول کجھر بعضکم لبعض أن تحبط أعماکم وأنتم لا تشعرون۔

 اس مظہر نورِ خدا کے سامنے اپنی آواز کو پست رکھنا ہی بڑی پاکبازی اور دینداری ہے،۔

ان الذین یغضّون أصواتھم عند رسول اللہ أولئک الذین امتحن اللہ قلوبھم للتقویٰ لھم مغفرۃ و أجر عظیم ۔

حجروں کے باہر سے آواز دے کر پکارنا شاید بد عقلی ہے،۔

 ان الذین ینادونک من وراء الحجرات أکثرھم لا یعقلون ۔

 رسول ﷺ کو اس طرح پکارنا جس طرح عام لوگوں کو پکارا جاتا ہے ممنوع ہے،۔

لا تجعلوا دعاء الرسول بینکم کدعاء بعضکم بعضاً۔

رسول اللہ ﷺ کے حقوق کا اور کسی کے حقوق کا مقابلہ نہیں، مومن کی نظر میں رسول  ﷺ کا مرتبہ اپنے جان و دل سے بھی بڑھ کر ہوتاہے،۔

 النبیّ أولیٰ بالمؤمنین من أنفسہم۔

جس کی مجلس کے آداب کا مخلوق کو نہیں خالق کو، بندوں کو نہیںپروردگار کو یہ اہتمام ہو جس کے دربار میں حاضری کے یہ قواعد و ضوابط اس تفصیل کے ساتھ ہمیشہ کے لیے اور ہر آنے والی قوم کی ہدایت کے لیے قرآن مجید میں محفوظ کر دیے گیے ہوں، اس کے آستانہ پر دور دراز سے آکر حاضری دینے والے امتی، اگر اپنی نادانی اور بے سمجھی سے ان بندھے ہوئے قاعدوں اور ضابطوں کو توڑیں اور اس ربانی دستور العمل کی جگہ اپنے ایجاد لیے ہوئے طریقوں کو رواج دینے لگیں تو بجز اس کے کہ ان کی کم نصیبی پر حسرت و تاسف کیا جائے اور کیا کیا جا سکتا ہے۔

لیکن عمل کی حالت؟۔۔۔۔ آہ! آج کہاں اور کس چیز میں مسلمانوں کا عمل اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے، جو ایک اسی معاملہ میں مطابقت کی تلاش کی جائے۔ خدا معلوم کتنے ہی ہر صبح سے شام تک ایسے آتے رہتے ہیں، جنھیں نہ ادب سے واسطہ ہے نہ تمیز سے، وقار و سکینہ و انکسار و مسکن کا ذکر نہیں، کتنے ایسے ہیں جو باوضو تک نہیں ہوتے، ادب سے بیگانہ، آداب سے ناآشنا، سر اٹھائے، قدم بڑھائے، دروازوں میں داخل ہوئے، اور دوڑتے بھاگتے ہوئے حیرت سے آنکھیں پھاڑے چاروں طرف دیکھتے ہوئے روضہ انور کی طرف دھاوا کیے چلے آرہے ہیں، اور پہنچتے ہی یہ چاہتے ہیں کہ جالیوں سے لپٹ جائیں یا ان کے اندر گھس جائیں، ادھر سعودی سپاہی کی نظر چوکی، اور ادھر انھوں نے جالی پر ہاتھ اور منھ رکھ کر اندر کی طرف بیباکی کے انداز اور حیرت کی نگاہوں کے ساتھ جھانکنا شروع کیا اور سلام پڑھنے کے وقت تو جاہل مزدوروں کی رہنمائی میں اس مسجد میں جہاں عمر فاروقؓ زور سے بولتے ہوئے تھراتے تھے وہ شور اور ہنگامہ برپا ہوتا ہے کہ نمازیوں کو نماز پڑھنی اور تلاوت کرنے والوں کو تلاوت کرنی دشوار ہوجاتی ہے، اور پھر مزوروں کی زائروں سے "لین دین" کی گفتگو!  ۔۔۔۔ان باتوں کا پڑھنا ناظرین کے لیے ناخوشگوار اور ان کا لکھنا راقم کے لیے ناخوشگوار تر۔!۔

بہرحال جو نہ ہونا تھا وہ ہوتا ہے اور وہاں ہوتا ہے جہاں ہرگز ہرگز نہ ہونا چاہیئے تھا، رحمت عالم ﷺ کی شان رحمتہ اللعالمین سب کے عیبوں پر پردہ ڈالے ہوئے ہے۔اور رحمن و رحیم، رب غفار، سب کے مالک اور سب کے پروردگار کی شان ستاری نادان و زیاں کار مجرم و خطاکار  سب کو مہلت دیئے ہوئے ہے۔

لیکن ہزاروں کے اس مجمع میں اگر سینکڑوں نہیں تو بیسوں ضرور ایسے ہوتے ہیں جو دل والے بھی ہوتے ہیں اور آنکھوں والے بھی جو دیکھتے ہیں کہ کس دربار میں حاضر ہیں، جو سمجھتے ہیں کہ ان کا نصیبہ انھیں کہاں لے آیا، انھیں دیکھیے تو کبھی مواجہہ شریف کے سامنے، کبھی پائین میں کبھی بالین کی طرف کبھی مصلی نبیﷺ پر، کبھی منبر نبوی ﷺ کے قریب، کبھی ستون عائشہؓ کے متصل، کبھی ستون ابی لبابہ سے لگے ہوئے، کبھی پاک مسجد کے کسی اور پاک گوشہ میں، دبے اور سمٹے ہوئے  کی فرد کی ہر ہر سطر سامنے ہے کسی کی رحمت بےحساب کا خیال آکر ٹوٹے ہوئے دل کو تسلی دے رہا ہے، اپنے اور اپنے بزرگوں اور عزیزوں دوستوں کے حق میں دعائیں ہیں، امت اسلامیہ کے حق میں آہیں ہیں۔فریادیں ہیں، پکاریں ہیں درد مندیاں ہیں، بیقراریاں ہیں۔غرض ہر صورت سے اپنی عبدیت اور اپنی بندگی کا تحفہ، محمدﷺ کے رب کے حضور ﷺ کے بتائے ہوئے طریقہ کے موافق پیش کیا   جارہا ہے، کون بتلائے کیا کیا مانگا جارہا ہے؟ کیا کیا مل رہا ہے! دینے والے کے کرم کی کوئی انتہاء ہے؟ پھر آخر مانگنے والے کیوں اپنی زبانیں روکیں؟ اور کیوں اپنے دل میں کوئی حوصلہ، کوئی ارمان باقی رہنے دیں؟ دینے والا وہی تو ہے جس نے ایک مانگنے والے (صلعم) کے الحاح کو دیکھ کر، غصہ اور خفگی کے لہجہ میں نہیں،  پیار کے الفاظ میں اور محبت کی آواز میں "حریص" کہہ کر پکارا تھا، اللہ اکبر!۔

حرص تو جب کی جاتی ہے جب ملنے سے پورا اطمینان نہیں ہوتا، بےحساب دینے والے اور بے اندازہ کرم کرنے والے سے بھی جو کوئی اپنا سوال جاری رکھے اس کی "حرص" شفاعت اس کی "حرص" شفقت کا کون اندازہ لگاسکتا ہے، دینے والا غیر محدود اس کی فیاضیوں کا اندازہ قوت بشری سے باہر ہے، لیکن مانگنے والا غیر محدود نہیں، محدود، اور خدا نہیں بندہ ہی تھا، اس محدود اور متناہی بندہ اور بشر ہی کی "حرص" شفاعت و "حرص" شفقت کا کون اندازہ لگاسکتا ہے؟  آج اور یہاں مانگنے والے اسی حریص شفاعت اسی حریص علیکم بالمومنین رؤف رحیم کا لقب پانے والے کے امّتی ہیں۔اسی کے نام لیوا ہیں، اسی کا کلمہ پڑھ پڑھ کر جینے والے اور اسی کا نام لے لے کرمرنے والے ہیں، ان کی دعائیں اور ان کی آرزوئیں! ۔۔۔۔اللہ اللہ!کسی کی زبان میں قوت اور کس کے قلم میں طاقت جو اس اجمال کی تفصیل اور ان اشارات کی تشریح کرسکے!

http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/