آب بیتی الحاج محی الدین منیری علیہ الرحمۃ -11- شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی سے ربط و تعلق

Bhatkallys

Published in - Other

09:00PM Sat 19 May, 2018

 تحریر : عبد المتین منیری ۔ بھٹکل

Whatsapp:+971555636151

            تقسیم ہند سے دوسال قبل جمعیت علماء ہند تقسیم ہوگئی ۔ اور جمعیۃ علماء اسلام کے نام سے ایک الگ تنظیم قائم ہوگئی ۔ جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا حسین احمد مدنی ؒ تھے اور جمعیت علماء اسلام کے صدر مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ بنے ، اس نئی تنظیم کی ہندوستان بھر میں شاخیں قائم کی گئیں۔

            میرے ایک دوست تھے مولوی عبداللہ بلون۔بعد میں انہوں نے مدینہ منورہ ہجرت کی ، ابھی چندروز قبل ان کا انتقال ہواہے ۔ جب بھی میرا مدینہ جاناہوتا ان کی دکان پر ضرور بیٹھنا ہوتا۔ وہ اور مولانا خواجہ بہاء الدین اکرمی صاحب جمعیت علماء اسلام کے رکن تھے ، میں بھی انہی کے ساتھ وابستہ ہوگیا۔

            اتفاق سے ۴۷ء میں ہندو مسلم فساد پھوٹ پڑا۔ چاقو، چھریاں چلنے لگیں، بلا تفریق ہندو مسلم دونوں جانب سے لوگ مررہے تھے ، اور جیتے جاگتے انسان ذبح کئے جارہے تھے اور بے حساب افراد زخمی ہورہے تھے۔ جمیۃ علماء اسلام کی مجلس منتظمہ نے اس وقت فیصلہ کیا کہ زخمیوں کے علاج معالجہ کے لئے ایک رفاہی اسپتال قائم کیا جائے ۔ مسجد اسٹریٹ میں واقع تین منزلہ عمر ہال کو اسپتال میں تبدیل کیا گیا ۔ مجھے اس کا منتظم مقرر کیا گیا ۔ یہاں پر میرے تحت 18مسلم ڈاکٹردن رات خدمت کرتے تھے ، اس کے ذریعہ بلا تفریق مذہب و ملت بہتوں کی خدمت ہوئی ۔

            ایک مرتبہ کا ذکر ہے دو ہندو ایک زخمی مسلم نوجوان کو تانگہ پر لاد کر اسپتال میں داخل ہوئے ۔ ایک عورت بھی ان کے ہمراہ تھی ۔ ایک ہندو کو اسپتال میں جاتا دیکھ بہت سے مسلمان غنڈے اکھٹے ہوکر ان کے پیچھے پڑگئے ، ان کے ہاتھ میں لمبی لمبی چھریاں تھیں، وہ ان ہندوں کو قتل کرنا چاہتے تھے۔ چونکہ اسپتال کا پورا نظم میرے ہاتھ میں تھا اور ۱۹۴۷ء کا زمانہ میری بھرپور جوانی کا تھا ، میں ان غنڈوں کے برے ارادے بھانپ کر باہر آیا اور سینہ تانے کھڑا ہوگیا۔ اور ان سے پوچھا کہ یہاں کیا لینے آئے ہو؟ ۔ انہوں نے جواب دیا ۔ ہمار امال اوپر گیا ہے ، آئے تو ذبح کئے دیتے ہیں۔ میں انہیں سمجھایا کہ تمہیں معلوم ہے یہ جان ہتھیلی پر رکھ کر یہاں کیوں آئے ہیں؟ وہ ایک زخمی مسلمان کی جان بچانے کے لئے ہمدردی کے جذبات کے ساتھ یہاں آئے ہیں، تمہیں شرم نہیں آتی ؟ میں انہیں مارنے نہیں دونگا۔ دیکھتاہوں کیسے تم انہیں زک پہنچاتے ہو؟ جب تک تم مجھے نہ مارو، انہیں نہیں مار سکتے ۔ ہر گز میں انہیں نیچے آنے نہیں دونگا۔ یہ غنڈے گالم گلوج پر اتر آئے ، میں بھی بولنے میں ان سے کچھ کم نہیں تھا، ان کی پروا کئے بغیر فون پر پولس اسٹیشن سے جیپ منگوائی اوربحفاظت انہیں گھر بھیج دیا ۔ اس اسپتال میں سیکڑوں زخمیوں کی ہم نے مرہم پٹی کی۔

            تحریکِ آزادی کے آخری ایام میں جمعیت علماء اسلام کی ایک عظیم کانفرنس بمبئی میں منعقد ہوئی ۔ مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ اس کے صدر اور علامہ سید سلیمان ندوی ؒ مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شریک ہوئے ۔ عبدالقادر حافظکا مرحوم اس وقت جمعیت علماء اسلام سے وابستہ تھے۔ انتظامات میں ان سے بڑی مدد ملتی تھی ۔ علماء واکابر سے وہ ملتے جلتے تھے۔ اس زمانے میں صدیق حسین مرحوم کا دو کمروں پر مشتمل ایک وسیع و عریض فلیٹ چکلہ اسٹریٹ میں واقع تھا۔ اللہ غریقِ رحمت کرے ، مرحوم بڑے مہمان نواز تھے۔ ان کا دستر خوان ہمیشہ بھر اپرا رہتا تھا۔ کھانا کھلانے میں وہ بڑے مشاق تھے۔

            وہ دل کے بڑے نیک تھے ، بہتوںنے ان کے دسترخوان کی روٹیاں توڑی ہیں، میرا انہی کے ساتھ رہنا ہوتا،وہیں کھانا پیتا۔ آج صدیق محمد جعفری سے میرے جو تعلقات ہیں یہ انہی کے والد مرحوم کی محبتوں کا تسلسل ہے ، چونکہ ہم ہی لوگ اس کانفرنس کے منتظم تھے لہذا مولانا شبیر احمد عثمانی ؒاور انکے رفقاء مولانا ظفر احمد عثمانی ؒ، مولانا محمد طاہر قاسمی ؒ وغیرہ کو یہیں ٹہرانے کا فیصلہ کیا گیا ۔ مرحوم صدیق نے ان کی خاطر مدارات میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ، خوب سے خوب کھلایا اور اچھے سے اچھا پلایا۔ اس کانفرنس میں علامہ سید سلیمان ندوی ؒ نے سورہ فاتحہ کی تفسیر بڑے موثر انداز سے بیان کی۔ یوں تو وہ بڑے مقرر نہیں تھے لیکن ان کی باتیں بڑی مدلل ہوا کرتی تھیں۔ البتہ مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ کی تقریر بڑی زبردست تھی۔

            مولانا جب کراچی تشریف لے گئے تو اپنے ساتھ بہت سے اکابر علماء کو بھی لے گئے ، ان میں مولانا قاری محمد طیبؒ کے بھائی مولانا طاہر قاسمی ؒ اور مولانا ظفر احمد عثمانی ؒ بھی تھے۔ ان میں سے ایک مولانا ظفر احمد انصاری بھی تھے جو بعدمیں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیرمین بنے اور ضیاء الحق کے دور حکومت میں بڑی اہمیت کے مالک ہوئے ۔ یہ بڑے زیرک انسان تھے ، اشعار خوب لکھتے ، اور انہیں مجلسوں میں سنا کر زندگی کی لہر دوڑاتے۔

            مولانا کے مزاج میں بڑی سادگی تھی ۔ اس کا ایک واقعہ سناتاہوں ۔ ہمارے ایک دوست نے جب اپنے ہوٹل کے افتتاح کا ارادہ کیا تو ان کی خواہش ہوئی کہ مولاناعثمانی ؒ کی دعاؤں سے یہ افتتاح ہو۔ جب مولانا سے میں نے اپنے دوست کی خواہش کا اظہار کیا تو فرمایا۔ منیری صاحب جہاں چاہے آپ ہمیں لے جائیں، کون آپ کی بات ٹال سکتاہے۔ افتتاح میں مولانا کی حاضری کی خبر سن کر بہت سارے لوگ جمع ہوگئے۔ عالم گیر عاشق مرحوم بھی وہاں موجود تھے۔ مولانا جب رکشہ پر سے اترے تو آپ کو کیش کاؤنٹر پر بٹھایا گیا ۔ لوگوں کی بھیڑ تھی اور میں مولانا سے قریب تھا ۔ عالمگیر اپنے ساتھ ریز گاری سے بھری ہوئی ایک تھیلی لائے اور مولانا سے کہا کہ اسے گلّے میں ڈال دیں۔ مولانا گھبراکر کہنے لگے منیری صاحب! اس کو کہاں میں اپنے گلے میں ڈالوں ۔ (مولانا نے گلّے کو گلے ، گردن کے معنی میں لیا) میں نے مولانا کو سمجھایا کہ عوامی زبان میں گلہ اسے کہتے ہیں۔

            مولانا کی زندگی میں جب میرا ایک مرتبہ کراچی کا سفرہوا تو واپسی کے وقت مولانا کے پاس گیا ۔ بڑی محبت سے فرمانے لگے ہمارے احباب کو سلام کہہ دیجئے ۔ ان سب کو ہماری خیرا ندیشی کا پیغام پہنچا دیجئے۔