سفر حجاز۔۔۔(11) ۔۔۔ گنبد خضراء۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

03:09PM Mon 5 Jul, 2021

باب (۱۱) گنبد خضراء

طور کی چوٹیاں جس وقت کسی تجلیات جمالی کی جلوہ گاہ بننے لگیں، تو پاکوں کے پاک اور دلیروں کے دلیر، موسیٰ کلیمؑ تک تاب نہ لاسکے اور اللہ کی کتاب گواہ ہے کہ کچھ دیر کے لیے ہوش و حواس رخصت ہوگئے، معراج کی شب جب کسی کا جمال بےنقاب ہونے لگا تو روایات میں آتا ہے کہ اس وقت وہ عہد کامل جو فرشتوں سے بڑھ کر مضبوط دل اور اور قوی ارادہ کا پیدا کیا گیا تھا، اپنی تنہائی کو محسوس کرنے لگا اور ضرورت ہوئی کہ "رفیق غار" رضی اللہ عنہ کا تمثل سامنے لاکر آب و گل کے بنے ہوئے پیکر نور کا سامان کیا جائے۔۔۔۔یہ سرگزشت ان کی تھی جو قدسیوں سے بڑھ کر پاک اور نورانیوں سے بڑھ کر لطیف تھے۔پھر وہ مشت خاک جو ہمہ کثافت اور ہمہ غلاظت ہو، جس کا ظاہر بھی گندہ اور باطن بھی گندہ، اگر وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد اقدس میں قدم رکھتے ہچکچا رہا ہو، اگر اس کا قدم رسول کے روضہ انور کی طرف بڑھتے ہوئے لڑکھڑا رہا ہو۔اگر اس کی ہمت رحمت و جمال کی سب سے بڑی تجلی گاہ میں قدم رکھنےسے جواب دے رہی ہو، اگر اس کا دل اس وقت اپنی بیچارگی و درماندگی کے احساس سے پانی پانی ہوا جارہا ہوتو اس پر حیرت کیوں کیجئے؟ خلاف توقع کیوں سمجھیے؟ اور خدا کے لیے اس ناکارہ، آوارہ، بیچارہ و درماندہ کے اس حال زاد کی ہنسی کیوں اڑایئے؟ مغرب کی اذان میں چند منٹ باقی تھے کہ قسمت کی یاوری نے باب النساء کے متصل ایک ہندی بزرگ مولانا سید احمد صاحب فیض آبادی مدظلہ کی خدمت میں پہونچایا۔موصوف ہمارے مولانا سید حسین احمد صاحب کے حقیقی بھائی اور سن میں ان سے بڑے ہیں، ۲۵، ۳۰ سال سے اپنے وطن ٹانڈہ ضلع فیض آباد سے ہجرت کیے ہوئے دیار رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) میں حاضر ہیں، اور وطن کے ساتھ ہی یاد وطن کو بھی ترک کرچکے ہیں، مولانا گنگوہی سے بیعت و اجازت ہے اور مرشدوں کے مرشد حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے چشمہ فیض سے سیراب صبح سے لےکر رات تک خدمت خلق میں مشغول، ایثار و استغناء بےنفسی و خود فراموشی، تواضع و فروتنی کا ایک نمونہ ہندوستان میں دیکھا تھا، اور دوسرا نمونہ اللہ تعالی نے اس مقدس سرزمین پر پہونچتے ہی دکھادیا۔ جلدی جلدی تعارف ہوا، اور فوراﹰ اذان کی آواز فضا میں گونجنے لگی! ایک پرانا مصرع ذہن میں پڑا ہوا تھا۔ مومن چلا ہے کعبہ کو ایک پارسا کے ساتھ حکیم مومن خاں تو شاعری کی دنیا میں چلت تھے۔یہاں چلنا خیالی دنیا میں نہیں عملی دنیا میں تھا اور حاضری "بیت خلیل"میں نہیں "بیت حبیب" میں دینی تھی۔اس گھڑی ایک پارسا کی دستگیری و رہنمائی غنیمت نہیں نعمت تھی۔دھڑکتا ہوا دل کچھ تھما اور ڈگمگاتے ہوئے پیر کسی قدر سنبھلے! ادھر اذان کی آواز ختم ہوئی ادھر قدم دروازے سے باہر نکالے، مکان سے حرم کے داخلہ کا دروازہ باب جبریل اگر چند فٹ نہیں تو چند گز پر ہے۔اتنا فاصلہ بھی خدا معلوم کے منٹ میں طے ہوا۔ اس وقت نہ وقت کا احساس نہ فاصلہ کا ادراک، نہ "زمان"کی خبر نہ "مکان"کی! کہتے ہیں کہ داخلہ باب جبریل ہی سے افضل ہے، یہ فضیلت بلا قصد خود بخود حاصل ہوگئی، حرم کے اندر قدم رکھتے ہوئے یہ دعا پڑھی جاتی ہے۔ اے اللہ! میرے لیے اپنی رحمت اور فضل کے دروازے کھول دے اور اپنے رسول کی زیارت مجھے نصیب کہ جیسا کہ تو نے اپنے اولیاء کو نصیب کی اور اسے الرحم الراحمین میری مغفرت کردے اور میرے اوپر رحم فرما۔ لیکن پہلی مرتبہ قدم رکھتے وقت ہوش و حواس ہی کب درست تھے، جو یہ دعا یا کوئی اور خاص دعاء قصد و ارادہ کرکے پڑھی جاتی، ایک ربودگی بےخبری اور نیم بیہوشی کی حالت میں معمولی درود شریف کے الفاظ تو محض حفظ ہونے پر بلا قصد و ارادہ زبان سے ادا ہوتے رہے۔باقی بس، ہوش آیا تو دیکھا کہ نماز کو شروع ہوئے دو چار منٹ ہوچکے ہیں اور امام پہلی رکعت کی قراءت ختم کرکے رکوع میں جارہے ہیں، جھپٹ کر جماعت میں شرکت کی اور جوں توں کرکے نماز ختم کی۔پہلی نماز وہاں ادا ہورہی ہے جہاں کی ایک ایک نماز پانچ پانچ سو اور ہزار ہزار نمازوں کے برابر ہے، اللہ اللہ ! شان کریمی اور بندہ نوازی کے حوصلے دیکھنا! کس کو کیا کیا مرتبے عطا ہو رہےہیں ! اس مرتبہ کو دیکھیے اور ہم کو دیکھیے! وقت نماز مغرب کا تھا، اور مغرب کی نماز سورج ڈوبنے پر پڑھی جاتی ہے، لیکن جس کی نصیبہ وری کا آفتاب عین اسی وقت طلوع ہو رہا ہے جس کی سربلندیوں اور سرفرازیوں کی فجر عین اسی وقت ہو رہی ہو، کیا وہ بھی اس وقت کو مغرب کا وقت کہتاا ور سمجھتا رہے؟ ۔ لیجیے نماز ختم ہو گئی، فرض ختم ہو گئے، اور روضۂ اطہر کے دروازہ پر ہر طرف سے صلوۃ و سلام کی آوازیں آنے لگیں، ان اللہ وملٰئکتہ یصلون علی النبیّ یا أیھا الذین آمنوا صلوا علیہ وسلموا تسلیماً۔ جس پر اللہ خود درود بھیجے، اللہ کے فرشتے درود بھیجتے رہیں، اس کے آستانہ پر بندوں کے صلوۃ و سلام کی کیا کمی ہو سکتی ہے! الصلوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ، الصلوۃ والسلام علیک یا نبیّ اللہ ! الصلوۃ والسلام علیک یا سیّد المرسلین، الصلوۃ والسلام علیک یا رحمۃ للعلمین، الصلوۃ والسلام علیک أیھا النبیّ وررحمۃ اللہ وبرکاتہ، أشھد أن لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ۔ (آج غائب کا صیغہ سرے سے غائب ہے، حضوری کے وقت بھی غیبت کے آداب ملحوظ رکھنا کیسی کھلی ہوئی بد تہذیبی ہے) وأشھد أنک عبدہ ورسولہ وأشھد أنک قد بلّغتَ الرسالۃ وأدّیتَ الأمانۃ ونصحتَ الأمۃ وکشفت الغمّۃ وجاھدتَ فی اللہ حقَّ جہادہ ، یا رسولَ اللہ انی أسألک الشفاعۃ وأتوسل بک الی اللہ تعالیٰ۔ اے اللہ کے رسول آپ پر صلوٰۃ و سلام ہو، اے اللہ کے نبی آپ پر صلوۃ وسلام ہو، اے سردار انبیاء آپ پر صلوٰۃ و سلام ہو، اے رحمتِ عالم آپ پر صلوٰۃ و سلام ہو، اے نبی آپ پر اللہ کی رحمت اور برکتیں نازل ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے، جس کا کوئی شریک نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ آپ اس کے بندے اور رسول ہیں، میں اس کی بھی گواہی دیتا ہوں کہ آپ رسالت کا حق ادا کر گئے، اور امانت (پیام) پہنچا گئے اور امت کی خیر خواہی کر گئے اور چھپی ہوئی چیزوں کو آپ ظاہر کر گئے، اور اللہ کے باب میں آپ جہاد کا حق پورے کا پورا ادا کر گئے، اے اللہ کے رسول ﷺ میں آپ سے شفاعت کی درخواست کرتا ہوں اور آپ کا توسل حضرت حق کے حضور میں چاہتا ہوں۔ مواجہہ شریف، مشتاقان زیارت سے خالی تو کسی وقت نہیں ہوتا، البتہ پانچوں نمازوں کے بعد زیارت کے اوقات با ضابطہ مقرر ہیں، قدرتاً ان اوقات میں بڑی چپقلش ہوتی ہے اور کبھی تو اتنا ہجوم ہو جاتا ہے کہ جو لوگ مسجد کے اندرونی درجوں میں محراب عثمانی کے آس پاس سنن و نوافل میں کچھ دیر مشغول رہنا چاہتے ہیں ان کے لیے قطعاً کوئی موقع نہیں باقی رہ جاتا ہے، بلکہ بعض اوقات تو وہ پستے پستے بچ جاتے ہیں! زیارت عموماً مزدوروں کی پیشہ ور جماعت کراتی ہے اور زیارت کا عام طریقہ یہ ہے کہ مواجہ مبارک کے سامنے ہر مزدور اپنے اپنے گروہ زائرین کو لاکھڑا کرتا ہے اور بآواز بلند صلوٰۃ و سلام پڑھتا جاتا ہے، اور زائرین اسی کے الفاظ کو دہراتے جاتے ہیں۔یہاں تک کہ مسجد ان آوازوں سے گونجنے لگتی ہے اور جن کو یہ واضح اور قطعی حکم ملا تھا کہ (نبی کی آواز سے اپنی آواز کو بلند نہ کرو) وہ مواجہ میں حاضر ہوکر اپنے حلق کی پوری طاقت و قوت کے ساتھ بےتحاشا چیخنے لگتے ہیں اور اس کو اپنے نزدیک عقیدت و منتہائے تعظیم سمجھتے ہیں! ع خرد کا نام جنوں پڑگیا، جنوں کا خرد! باہر کے آئے ہوئے زائرین تو فی الجملہ ادب ملحوظ رکھ لیتے ہیں اور بہرحال ڈرتے ہی رہتے ہیں، نڈر ہوکر غضب تو زیارت کرانے والے بزرگ کرتے ہیں جن کا پیشہ ہی زیارت کرانا ہے اور جو مدتوں سے اس پاک سرزمیں میں آباد ہیں، ان کے لیے نہ اس کی ضرورت ہے کہ اپنی آواز کو پست اور نظروں کو نیچا رکھیں نہ اس کی حاجت کہ روضہ اقدس کے عین پائین کھڑے ہوکر زائروں سے ہر قسم کی "معاملات" اور وہ بھی آداب شریعت کے ساتھ نہیں بلکہ لوازم "معاملت" کے ساتھ طے فرمانے سے محترز ہیں، اور نہ دوسرے آداب مسجد خصوصاً آداب مسجد نبویﷺ کے لحاظ و احترام کی ضرورت! ان کے لیے یہ بالکل کافی ہے کہ یہ "جیران رسول"ہیں۔اور "اضیاف رسول" (صلی اللہ علیہ وسلم ) جو ہزارہا میل کے فاصلے سے آئے ہوئے ہوتے ہیں ان کے ساتھ ان کا ہر سلوک جائز اور برتاؤ درست! سرگردہ عاشقان حضرت اویس قرنیؒ کی بابت، بعض اکابر صوفیہ سے نقل ہے ۔کہ جب آپ زیارت مدینہ کو حاضر ہوئے آستان حرم (باب جبریل) تک پہونچتے ہی تھے کہ کسی نے کہہ دیا کہ "دیکھیے وہ سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مرقد ہے، یہ سننا تھا کہ غش کھاکر گر پڑے، اور جب ہوش آیا تو کہا مجھے ابھی واپس لے چلو، جس شہر میں بجائے حبیبﷺ کے تربت حبیبﷺ موجود ہو وہاں میں ایک لمحہ بھی ٹھہر نہیں سکتا! اویس سے بڑھ کر عاشق و شیدا، اویس سے بڑھ کر عشق و محبت میں غرق، اویس سے بڑھ کر مجنون و دیوانہ اور کون ہوا ہے؟ اس عشق کے ساتھ یہ لحاظ ادب یہ کمال احترام، یہ پاس عظمت! پھر اگر آج حرم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں، روضہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی شریعت رسول کی تحقیر ہوتے ہوئے دیکھے۔حقوق رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو پامال ہوتے ہوئے پائے آداب رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) سے بیزاری پھیلی ہوئی پائے۔تو عشق و محبت کے مدعیو! خدارا سناؤ کہ کیا کیا جائے؟ خوشی خوشی گوار کرلیا جائے؟ ٹوکنے کی قوت و استطاعت رکھتے ہوئے محض تقدیر الہیٰ کے حوالہ کردیا جائے؟ اور خوش عقیدگی کا تقاضا یہ سمجھ لیا جائے کہ سیاہ سفید ہے اور سفید سیاہ؟ جسے دیکھو مواجہ شریف کی طرف کھینچا چلا آرہا ہے۔اس وقت رخ قبلہ کی جانب نہیں، پتھر سے تعمیر کیے ہوئے کعبہ کی جانب نہیں بلکہ اس کے در اقدس کی جانب ہے جو دلوں کا کعبہ اور روحوں کا قبلہ ہے! کسی کا نالہ جگر گداز کسی کے لب پر آہ و فریاد ہر شخص اپنے اپنے حال میں گرفتار، ہر متنفس اپنے اپنے کیف میں سرشار، گنہاگاروں اور خطاکاروں کی آج بن آئی ہے۔آستان شفیع المذتبین تک رسائی ہے! سجدوں سے اور بڑھتی ہے رفعت جین کی! یہاں بھی نہ پائیں گے تو کہاں جائیں گے۔آج بھی نہ گڑگڑائیں گے تو کدھر سر ٹکرائیں گے کا وعدہ پورا ہونے کے لیے ہے، محض لفظ ہی لفظ نہیں ہیں! ادھر یہ سب کچھ ہورہا ہے، رندوپارسا، فاسق و متقی سب ہی اس دھن میں لگے ہوئے ہیں، ادھر ایک ننگ امت حیران و ششدر، فرط ہیبت و جلال سے گنگ و مضطر، حواس باختہ، چپ چاپ، سب سے الگ کھڑا ہوا ہے، نہ زبان پر کوئی دعا نہ دل میں کوئی آرزو، سر سے پیر تک ایک عالم حیرت طاری! یا الہیٰ! یہ خواب ہے یا بیداری! کہاں ایک مشت خاک، کہاں یہ عالم پاک۔۔جل جلالہ، جہاں ابوبکرؓ اور علیؓ حاضر ہوتے ہوئے تھراتے ہوں، جہاں عمرؓ آواز سے بولتے ہوئے لرزتے ہوں جہاں کی حضوری جبریل امین کے لیے باعث فخر و شرف کا سبب ہو، آج وہاں عبدالقادر دریابادی کا فرزند عبدالماجد اپنے گندہ دل اور گندہ تر قلب کے ساتھ، بے تکلف اور بلا جھجھک کھڑا ہوا ہے! دماغ حیران، عقل دنگ، زبان گنگ، ناطقہ انگشت نما نہ زبان یاوری کرتی ہے، نہ لب کسی عرض و معروض پر کھلتے ہیں۔ نہ دعاؤں کے الفاظ یاد پڑتے ہیں۔ نہ کسی نعت گو کی کوئی نعت خیال میں آتی ہے! چلتے وقت تک دل میں وہ کیا کیا ولولے، اور کیسے کیسے حوصلے تھے! لیکن اس وقت سارے منصوبے یک قلم غلط، سارے حوصلے اور ولولے یک لخت غائب! لے دے کے جو کچھ یاد پڑرہا ہے وہ محض کلام مجید کی بعض سورتیں اور آیتیں ہیں۔ یا پھر وہی عام و معروف درود شریف اور زبان ہے کہ بے سوچے سمجھے بغیر غوروفکر کیے ہوئے انھیں الفاظ کو رٹے ہوئے سبق کی طرح اضطرار دہرائے چلی جارہی ہے! ع نظارہ زجنبیدن مژگاں گلہ دارد ۱ ۱ سچ میں یہ قسط شائع ہی ہوئی تھی کہ مولانا عاشق الٰہی صاحب میرٹھی (مترجم القرآن) نے اپنی تازہ تالیف تذکرۃ الخلیل لطف فرمائی جو مولانا خلیل احمد صاحب اینٹھوی قدس سرہ ( شارح ابوداؤد ناظم مدرسہ مظاہر العلوم سہارن پور) کے حالات میں ہے۔ مولانا شریعت و طریقت کے جامع ایک مسلم بزرگ تھے، ان کے حالات میں ذیل کی عبارت نظر آئی جو بجنسہ نقل کردی جاتی ہے۔ آستانہ محمدیہ ﷺ کی عجیب کیفیت ہوئی تھی، آواز نکالنا تو کیا مواجہہ شریف کے قریب یا مقابل بھی آپ کھڑے نہیں ہوتے تھے، خوفزدہ، مودبانہ، دبے پاؤں آتے اور جالیوں کے تین طرف سعودی سپاہیوں کا پہرہ رہتا ہے۔ چوتھی طرف یعنی شمالی سمت سے جالیوں تک پہونچنے کا کوئی آسان راستہ نہیں ہے۔ مسجد نبوی ﷺ کے دروازہ آخر وقت تہجد سے لےکر بعد نماز عشاء تک کھلے رہتے ہیں۔ اس درمیان میں پہرے برابر بدلتے رہتے ہیں، جنوبی سمت میں جدھر مواجہ شریف ہے پہرہ کا اہتمام زیادہ رہتا ہے، چار سپاہی ہر وقت تعینات رہتے ہیں زیارت کی عام اجازت بھی صرف اسی رخ سے ہے۔ مغربی جانب بالین مبارک ہے۔ ادھر سے زیارت کی اجازت نہیں سنا ہے کہ کسی زمانہ میں شیعوں کی زیارت اسی رخ سے تھی مشرقی جانب پائین مبارک ہے اور باب جبریل سے داخل ہونے کے بعد مواجہ شریف تک پہونچنے کا راستہ اسی طرف سے ہے۔ ادھر سے بھی زیارت کی عام اجازت نہیں لیکن سپاہی بھی مختلف مزاجوں اور طبیعتوں کے ہوتے ہیں، اکثر ایسے تند مزاج اور متشدد کہ دھکے دینے میں انھیں باک نہیں۔بید مار بیٹھنے میں انھیں تامل نہیں۔ مجرم و قیدی کی طرح دور کھڑے ہوئے بہ کمال خشوع صلوۃ و سلام عرض کرتے اور چلے آتے تھے، زائرین جو بے باکانہ اونچی آواز سے صلوۃ و سلام پڑھتے اس سے آپ ﷺ کو بہت تکلیف ہوتی اور فرمایا کرتے کہ آنحضرت صلعم حیات ہیں۔ اور ایسی آواز سے سلام عرض کرنا بے ادبی اور آپ ﷺ کی ایذا کا سبب ہے۔ لہذا پست آواز سے سلام عرض کرنا چاہیئے، اور یہ بھی فرمایا کہ مسجد نبوی ﷺ کی حد میں کتنی ہی پست آواز سے سلام عرض کیا جائے۔ اس کو آنحضرت صلعم خود سنتے ہیں۔ کمزور کو قوت والے کا نابینا کو آنکھوں والے سہارا ہے۔عورتوں کو پکڑ پکڑ کر گھسیٹنے اور دھکیلنے میں انھیں دریغ نہیں، کوئی کوئی اس کے برعکس ایسے نرم دل اور ردا دار کے زائروں کو ہر طرح کی بے ضابطگی اور قانون شکنی کرتے دیکھتے اور کچھ نہ بولتے، بلکہ سر جھکا کر کلام مجید پڑھنے لگتے، بعض ایسے بھی دیکھنے میں آئے جو زائر کی معمولی داد و دہش کے بعد پتھر سے موم ہو جاتے! سپاہیوں کے علاوہ اور شاید نگرانی کے لیے بھی دو چار آدمی محکمہ امر بالمعروف کے بھی بید یا چھڑی ہاتھ میں لیے ٹہلتے رہتے ہیں اور " شریعت حقہ نجدیہ " کا نفاذ اسی حرم محترم کے حدود کے اندر زبان اور ہاتھ دونوں سے پوری قوت کے ساتھ کرتے رہتے ہیں! صحابہ نے تابعین نے، مجتہدین فقہ نے، محدثین نے، اکابر صوفیہ نے، کسی نے خوش عقیدگی کے یہ معنی لئے ہے؟ روم کا عارف کامل تو اپنی مثنوی میں یہ کہہ گیا کہ جب "امر حق" مل جائے تو "نقش حق" کو بھی توڑ ڈالو، اور "شیشہ یار" کو "سنگ یار" سے چکنا چور کرکے رکھ دو ۱ پھر کیا یہ کہا جائے گا کہ عارف رومی ؒ بھی آداب عشق و محبت سے بے خبر تھا۔ ۱ نقش حق راہم بامر حق شکن برزجاج دوست سنگ دوست زن http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/