ستمبر 10: آج معروف شاعر، ادیب، نقاد، ناول نگاراور کالم نگار انیس ناگی کا یومِ پیدائش ہے

Bhatkallys

Published in - Other

02:20PM Mon 11 Sep, 2017
از: ابوالحسن علی بھٹکلی معروف شاعر، ادیب، نقاد، ناول نگار، کالم نگار انیس ناگی 10ستمبر 1939ء کو شیخوپورہ میں مولوی ابراہیم ناگی کے گھر پیدا ہوئے۔ انکا خاندانی نام یعقوب علی ناگی اور قلمی نام انیس ناگی تھا۔اردو کے معروف افسانہ نگار منٹو پر انکا بے شمار کام ہے اور انکے ناولوں میں اہم ترین ناول ‘‘زوال‘‘ ہے جس میں ایک ڈھلتی عمر کے بیوروکریٹ کے بتدریج بے رحمانہ ذہنی اور جسمانی انتشار کو بڑے موثر انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ انکا دوسرا مقبول ناول ‘‘دیوار کے پیچھے‘‘ ہے جسے اردو میں ناول کی نئی روایت کا آغاز کہا جاتا ہے جس میں انسان کے وجودی کرب کا تخلیقی بیان ہے۔ انیس ناگی کی ایک اور اہم تخلیق‘‘جنس اور وجود ‘‘ ہے ۔انیس ناگی نے ان آٹھ مضامین میں عورت کے حوالے سے ایسے موضاعات پر قلم اٹھایا ہے جن سے ہمارا اکثر بلایا بالواسطہ سامنا ہوتا ہے ۔ اور جن سے جوجوہ صرف نظر میں عافیت سمجھی جاتی ہے۔ انیس ناگی کی یہ تحریریں احساس ہوتا ہے کہ بہت توجہ اور سنجیدگی سے لکھی گئی ہیں اور معیق ، بے حد تجزیاتی او رپر مغز ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ایسے موضوعات پر کھلے اظہار کے یے ایک جرارت رندانہ درکار ہے جو شاید مصلحتا کم کم پائی جاتی ہے۔ ممتاز مفتی سے ضمیر الدین سے ہوتے ہوۓ ڈاکٹر سلیم اختر تک عورت کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن محدود انداز میں جزویاتی ٹرلیمنٹ میں بعض کوششیں کامیاب رہی ہیں ۔ منٹو اپنے ویزن کے باعث یکتا ہے۔ انیس ناگی نے پاکستانی عورت کی جنسیات کوسمجھنے کے لیے کسی حد تک کلینکل انداز اختیار کیا ہے لیکن کہنے کی طرح اعدادو شمار کی بھر مار سے گریز کیا ہے۔ اپنے عمیق مطالعے اور زندگی کے معاملات کی گہری بصیرت کی وجہ سے انیس ناگی کے یہ مضامین اپنے میدان میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں جن کے وسیلے سے پاکستانی عورت کو سمجھا جاسکتا ہے اس اعتبار سے "جنس اور جود " اردو میں پہلی کتاب ہے جس میں پاکستان کی تمدنی حالت میں پاکستانی عورت کا وجودی مطالعہ کیا گيا ہے۔ بعض ایک این جی اوز حقوق نسواں کی پرسور و زور چمپیئن سمجھی جاتی ہیں لیکن شاید انہوں نے پاکستانی عورت کی مجموعی صورتحال کو گہرے تجزیاتی حوالوں سے سمجھنے سے گریز کیا ے کہ وہ تمام کاروائی مغربی طرز احساس کے تحت سر انجام دیتی ہیں ان کے مغربی ڈزنر ز کو بس اتنا ہی چاہیے ہے۔ انسان اعصابی تاروں میں گندھا ہوا ایک ایسا معجزہ ہے جس کی شخصیت کی تشکیل میں خاصے پیچیدہ عناصر اپنی تمامتر پیچیدگیوں سمیت بھر پور طور پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ بچپن کے تجربات ، ماحول ، معاشیات ، عمرانیات ، مذہب ، تاریخ اور پھر جینیز ۔۔ ۔ ۔ سب چگر سے بنتی ہے جو اس کے جنسی ، نفسیانی اور سماجی وجود کی تشکیل کرتی ہے۔ پاکستانی عورت دوہرے جبر اور استحصال کا شکار ہے۔۔ ۔اس کے اپنے کنبے ۔۔ ۔باپ بھائی ، خاوند، بیٹا اور دوسرے بیرونی عناصر کا استحصال جس کا مرد خود بھی شکار ہے۔ انیس ناگی پاکستانی عورت کی فارمولیسن میں خاصا کلیت کا شکار دکھائي دیتا ہے کہ اسے منزل مقصود کے حصول کے لیے سر توڑ جدوجہد کے امکانات نظر نہیں آتے۔ بعض جگہ اس کے ساتھ اختلاف کی گنجائش بھی ہے لیکن مجموعی طورپر یہ مضامین سوچ کی ایک نئی راہ کرتے ہیں ۔ مختصر اور کسے ہوۓ یہ مضامین "صاحب حال" لوگوں کے لیے کوزوں میں دریا بند ہیں ۔ صاحبان عمل کے لیے بھی دعوت او رٹیکٹکس کے دورازے وا کرتے ہیں او رصاحبان قلم کے لیے بھی دعوت عام ہیں کہ وہ ان مضامین سے شعر و ادب کے حوالے سے ادارک کی کس سطح پر استفادہ کرتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ کتاب سے وابستگی کا ایسا عاشق کم پیدا ہوا ہو گا۔ ناول، شاعری، تنقید اور دستاویزی فلم، غرض کسی گھر بند نہیں۔ ترجمے پر اترے تو اردو دنیا کو سینٹ جان پرس، کامیو اور پابلو نرودا سے متعارف کرایا۔ اس پر بھی بیان مزید وسعت کا تقاضا کرے تو اپنا رسالہ نکال لیتے ہیں۔ چوٹ کرنے سے گھبراتے ہیں نہ چوٹ کھا کر بد مزہ ہوتے ہیں۔ سول سروس پر غالب گروپ سے اُن کے تعلقات عموماً اچھے نہیں رہتے تھے، مگر وہ جیسے تیسے نوکری کرتے رہے کہ غالباً اس کے علاوہ اُن کے پاس مادی حوالے سے کوئی دوسرا آپشن نہ تھا۔ محکمہ تعلیم میں وہ بحیثیت ڈپٹی سیکریٹری کافی مؤثر حیثیت کے مالک تھے ۔یہ حیثیت محکمۂ تعلیم سے وابستہ شاعروں ادیبوں (جو کہ زیادہ تر پروفیسر اور لیکچرر ہیں) کے لیے کافی تحریک آمیزتھی۔ انیس ناگی چوں کہ پرُ یقین تھے کہ وہ روزِ حشر ادیبوں کے ساتھ اُٹھائے جائیں گے، لہٰذا اُنھوں نے اپنے دفتر میں آنے والے سبھی ادیبوں شاعروں کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کی۔ دَور حاضر کے کچھ جغادری ادیب اُس زمانے میں اُن کے دفتر میں بیٹھ کر اُن کی زیر طبع کتابوں کی ’’ پروف ریڈنگ‘‘ کو کارِ ثواب سمجھتے تھے، مگر جب انیس ناگی اپنے مخصوص مزاج کی سزاکے طور پر اس پوسٹ سے ہٹا دیئے گئے ،تو وہی جغادری ادیب اُن سے کنی کترا کر گزر جاتے۔ پاک ٹی ہائوس گھر سے نزدیک ہونے کے باعث انیس ناگی کا مرغوب ٹھکانہ تھا ۔ایک روز، بعد دوپہر میَں نے اُنھیں غیر معمولی طور پر وہاں بے چین بیٹھے دیکھا۔ اُنھوں نے اپنے بال اورقلمیں بڑھائی ہوئی تھیں اور لباس پر بھی اُن کی توجہ زیادہ نہ تھی۔ اُنھوں نے بتایا کہ وہ ایک ایسے ادیب کے انتظار میں بیٹھے ہیں، جو اُن سے ٹائم لے کر ملنے کو بے تاب رہا کرتا تھا۔ میَں نے اپنا حلیہ اس لیے تبدیل کیا ہے کہ میرا وجود میرے لیے اور اُس کے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہ کردے کہ اب مجھے اس کے ساتھ تحقیقی کام ہے۔ وہ اپنے اور دوسروں کے بارے میں حد درجہ حساس تھے۔ دوسروں کے کام آنے میں طمانیت محسوس کرتے تھے ۔ضیادَور میں اُنھیں سرعام انسانی حقوق کی بات کرنے کی سزا کے طور پرڈھونڈ ڈھونڈ کر ’’کھڈے لائن‘‘ پوسٹوں پر لگایا گیا۔ انیس ناگی نے اپنے رسالے ’’ دانش وَر‘‘ کو ون مین شو بنایا ہوا تھا ۔مضامین بھی خود لکھتے، ٹائپ بھی خود کرتے ، اشاعت کے اخراجات بھی خود برداشت کرتے، مگر اس خوبصورت جریدے میں چوں کہ وہ فرضی ناموں کے ساتھ نہایت بے لاگ تبصرے کیا کرتے تھے ،اس لیے توصیف پسند بڑے ادیبوں نے اس جریدے کا عملاً بائیکاٹ کررکھا تھا ،مگر وہ غیر ملکی بڑے ادیبوں کے خصوصی نمبر نکال کر اس بائیکاٹ کو ناکام بناتے اور ایڈیٹر کی کرسی کو مضبوط کرتے رہتے تھے۔ مقامی ادیبوں میں بھی جو اُنھیں پسند تھے، اُن کے خصوصی نمبر اپنی مثال آپ تھے۔ اُن میں منیر ؔنیازی ، ن- م راشدؔ اور صفدر میر شامل تھے انیس ناگی نے تنقید میں بھی کام کیا اورنظمیں بھی لکھیں ان کے ہاں مکروہ ، ممنوع اور نامانوس الفاظ بکثرت نظر آتے ہیں ۔ ان کی نظم میں انتشار، بے سمتی ، اور ابہام سے پر تصورات موجود ہیں۔ انیس کی نظم کا کافرد بے سمتی کا شکار ہے۔اس طرح لسانی تشکیلات سے وابستہ دوسرے شعراءمیں سلیم الرحمن ، زاہد ڈار وغیرہ شامل ہیں۔ ہ جو کرسی پر بیٹھا تھا اب قبر میں لیٹا ہے وہ جو بے خوابی کے عالم میں رہتا تھا خود اک ایسا خواب بنا ہے جس کو شاید کوئی دیکھے! یہ انیس ناگی کی آخری نظم ہے، جو بعداز وفات اُن کی ڈائری میں سے دستیاب ہوئی لگھ بھگ 50 کتابوں کے مصنف ،معروف شاعر،نقاد ، محقق اور ناول نگارانیس ناگی سات اکتوبر2010ء بروز جمعرات لاہور کی پنجاب پبلک لائبریری میں دوپہر کے وقت کتابوں کے مطالعے کے دوران دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔ تصانیف ۔۔۔۔۔ نیس ناگی کی شاعری اور نثر کی پچاس سے زائد کتب شائع ہو چکی ہیں جن میں چند قابل ذکر یہ ہیں ابھی کچھ اور ایک گرم موسم کی کہانی آگ ہی آگ بشارت کی رات بیابانی کا دن بیگانگی کی نظمیں بے خوابی کی نظمیں بے خیالی میں نوحے روشنیاں زرد آسمان غیر ممنوعہ نظمیں صداؤں کا جہاں زوال ایک لمحہ سو چ کا چوہوں کی کہانی درخت مرے وجود کا دیوار کے پیچھے کیمپ گردش محاصرہ میں اور وہ سکریپ بک قلعہ ناراض عورتیں ایک ادھوری سرگذشت جنس اور وجود ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نظم میں سرد مہر زندگی سے کیا طلب کروں طلب تو ایک بحر ہے زندگی تو سانس کی لپکتی ایک لہر ہے جو آ کے پھر گزر گئی چند سال اس کے نقش پا یہیں کہیں کسی کے ذہن میں رہے میں دیکھتا ہوں شاخ عمر زرد موسموں کی دھوپ میں اسی خیال خام میں کہ وقت گھڑی کی قید میں ہے برگ برگ جھک گئی ہے زندگی نے کیا دیا مجھے طرح طرح کے عارضے دماغ کا بخار اختلال اور حواس کے شعور کا ملال رات کو میں جاگتا رہوں تمام دن بقا کی آرزو میں افسروں کے خوف سے نشست گاہ انتظار میں بہت ہی پھیکی مسکراہٹوں کے ساتھ فیصلے کے انتظار میں لہو کی گردشوں کے ساتھ ذات کی عظیم سلطنت کو آگ میں لپٹا دیکھتا رہوں یہ سگرٹوں کا نیلگوں دھواں غبار ہی غبار بھاگتا سوار اسپ کا سنہری نعل راستے میں چھوڑ کر کدھر گیا یہ شور اب کدھر سے آ رہا ہے غور سے سنو نہیں یہ کچھ نہیں میں انتظار کی طویل ساعتوں میں ناخنوں سے میز کو بجا رہا ہوں پر وہ کاغذوں میں غرق ہے بہت قدیم رات ابتدا سے انتہا کے لازوال بحر میں اتر گیا ہوں سارے دن کے غم کو میں نشے کی اک ردا میں ڈھانپ دوں مگر نشہ حرام جرم ہے تو پھر پلٹ کے میں خیال میں مقیم عشرتوں کو آئنوں میں دیکھ لوں لذیز تھرتھراتے جسم ڈھول کی دھمک پہ لہر لہر کھل رہے ہیں الاماں محرمات میں سرد مہر زندگی سے کیا طلب کروں کہ وہ بھی خود اسیر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک بے کشش نظم پہلے کشش عورت میں تھی پھر کشش لفظوں میں تھی اب لفظ عورت بے کشش لہروں تک زمیں و آسماں کو دیکھتے ہیں کائناتی سلسلوں میں سلسلہ وہ ڈھونڈتے ہیں جو ہمیں ویران کر کے جا چکا ہے