تجربات ومشاھدات (10)۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر بدر الحسن القاسمی۔ الکویت

Bhatkallys

Published in - Other

09:12PM Thu 6 May, 2021

     زیارت کی سعادت

        *****

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھنا بڑی سعادت کی بات ہے۔

 وایں سعادت بزور بازو نیست

حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت سنت کی اتباع اور درود کی کثرت سے اس کی امید ہوتی ہے، حضورکی محبت ایمان کی علامت ہی نہیں اس کے لئے شرط ہے :لا يؤمن احد کم مؤمنا حتي اکون احب الیه من نفسه و من ولده ووالده والناس اجمعين۔

جس سے پکی محبت ہو تو دل میں خیال ہوتاہےتو اس کا، زبان پر ذکر ہوتا ہے تو اس کا، اور سوتے جاگتے دھیان ہوتا ہے تو اس کی طرف، اور خواب میں زیارت ہوتی ہے تو اسی کی،بعض لوگوں کو خواب میں بار بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوتی ہے،ماسٹر خدابخش جو حضرت شاہ فضل رحمن گنج مراد بادی سے بیعت اور مولانا محمد علی مونگیری کے زیر تربیت تھے انکا بیان ہے کہ:

 جب گاڑی سلطان گنج اسٹیشن پر پہنچی تو ایک فقیر بڑے مست طریقہ پر چند اشعار پڑھ رہا تھا جو مجھے بہت پسند آئے اور یاد ہوگئے، مولانا محمد علی مونگیریؒ نےفرمایا پڑھو، میں نے حسب ذیل اشعار پڑھے :

نسیما جانب کویش گزرکن

بگو آں نازنیں شمشاد مارا

بہ تشریف قدوم خود زمانے

مشرف کن خراب آباد مارا

کہ بےدیدار تو اسباب شادی

نمی شاید دل ناشاد مارا

جوش میں آکر فرمایا : میاں

اس سے تو حضور کی زیا رت ہوتی ہے

ماسٹر صاحب کہتے ہیں کہ ان اشعار کی بدولت مجھےکئی مرتبہ دیدار نصیب ہوا

       ( کمالات محمدیہ)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت اس لحاظ سے بڑی نعمت ہے کہ وہ آپ ہی کی زیارت ہوتی ہے اللہ تعالی نے شیطان سے یہ قدرت سلب کر لی ہے کہ وہ آپکی شکل اختیار کر سکے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

 "من رآنی فی المنام فقد رآنی فان الشیطان لا یتمثل بی "

اللہ تعالی کےیہ فضل و کرم سے یہ سعادت صرف ایک بار حاصل ہوئی جب میں توحید کیلئے وینکر داس سے لڑکر آیا تھا اور غیر اللہ کے سجدہ پر سخت نکیر کی تھی تو اللہ نے یہ سعادت بخشی ورنہ:

 کہاں میں اور کہاں یہ نکہت گل

 نسيم صبح   تيري   مهرباني

اللہم صل علي محمد طب  القلوب ودوائهاوعافية الأبدان وشفائها ونور الأبصار وضيائهاوعلي أله وصحبه وسلم تسليما

 مولانا عبد الصمد رحمانی

*******

زندگی میں شاید دو تین بار ہی ان کو دیکھنے کا اتفاق ہوا ہو گا وہ بھی ایسی عمر میں جو شعور کی عمر عام طور پر نہیں سمجھی جاتی، البتہ انکی تصنیف کردہ ایک کتاب جو نصاب میں شامل تھی وہ پڑھ چکا تھا وہ قرآن اور عربی زبان دونوں سے قریب کرنے والی کامیاب کتاب " تیسیر القرآن" ہےابتدائی مرحلہ کیلئے نہایت موزوں ہے۔

 وہ"تیسیر القرآن "جامعہ رحمانی مونگیر میں اسی طرح پڑھائی جاتی ہے تطبیق اور تحقیق کے ساتھ جس طرح حریری کی مقامات یا کوئی اور دوسری ادب کی کتاب پڑھائی جاتی ہے اسمیں قرآنی آیات کو ہی مثا ل بنایا گیا ہے اسکے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے صرف مثالیں ہیں

ترکیب اضافی توصیفی جملہ فعلیہ اسمیہ ادوات شرط وجزا کا استعمال،"ان" وکان" کا استعمال حروف مشبہ بالفعل یا افعال ناقصہ کا استعمال وغیرہ سب قرآن ہی کے الفاظ میں سکھانے والی کتاب ہے جو مولانا عبد الصمد رحمانی نے مرتب کی ہے اور جامعہ کے نصاب میں داخل ہے ، اسکو ٹھیک سے پڑھایا جائے تو قرآن سے مناسبت بھی پیدا ھوگی، عربی کے قواعد بھی یاد ہو نگے اور ترجمہ کرنے کی صلاحیت بھی پیدا ہوگی ، انہوں نے ایک کتاب تلخیص الاتقان کے نام سے بھی لکھی تھی لیکن وہ نظر ثانی اور تکمیل کی محتاج ہے -

مولانا عبد الصمد رحمانی مولانا ابو المحاسن محمد سجاد بانی امارت شرعیہ کے خاص فیض یافتہ اور ممتاز شاگرد تھے، مولانا منت اللہ رحمانی کے استاد بھی تھے ساری زندگی نائب امیر شریعت ہی رہے، ایک چھوٹے سے گاؤں" مانڈر"میں زندگی گزاری اور پچاس سے زیادہ تصنیفات اپنی یادگارچھوڑیں، انکی اہم کتابوں میں کتاب" الفسخ والتفریق" ہے جس پر اس وقت دار القضاء میں فسخ نکاح اور شوہر بیوی کے درمیان تفریق کا سارا نظام قائم ہے

"کتاب العشر والزکاہ"، "سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم "، "قرآن محکم"جس میں یہ ثابت کیا ہے کہ قرآن کی کوئی آیت بھی مکمل طور پر منسوخ نہیں ہے ،گمنام رہ کر بڑا کام ہی نہیں عظیم کارنامہ انجام دینے والوں میں ایک نام مولانا عبد الصمد رحمانی کا بھی ہے ، انکی وفات1973ء میں ہوئی-

 ہرگز نہ میرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق

 ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما

 سرفروشوں کی سرزمین الجزائر میں

***********

ڈاکٹر یوسف بلمھدی الجزائر کے وزیر اوقاف ہیں ، الجزائر کا میراسفر" بین الاقوامی فقہ اکیڈمی" جدہ کے اجلاس میں شرکت کیلئے فقہاء کے پورے قافلہ کے ساتھ ہوا تھا جس کے سربراہ امام و خطیب حرم شیخ صالح بن حمید تھے،

الجزائر کو سر فروشوں کی سر زمین یاایک ملین شہیدوں کا ملک کہا جاتا ہے اور اسکا ہر چپہ فرانسیسی خونخواروں کے ظلم کی داستان سناتا اورہر ذرہ الجزائر کے مجاہدین کے خون سے رنگین نظر آتا ہے ،یوسف بلمھدی اس زمانہ میں ٹیلیویزن سے وابستہ تھے، میرے ساتھ انہوں نے طویل  پرو گرام ریکارڈ کیا میرے لئے موقع تھا چنانچہ انہیں انکی تاریخ یاد دلائی اور یہ باور کرایا کہ الجزائر کے جھاد اور اسکی آزادی میں علمائے ہند کا زبردست حصہ ہے بلکہ ایک لحاظ سے وہی اسکے محرک ہیں ۔میں نے وضاحت کی کہ وہاں کے مشھور مجاھد آزادی شیخ عبد الحمید بن بادیس اور انکے معاون شیخ بشیر الابراھیمی دونوں ہی شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی کے شاگرد تھے، مدینہ طیبہ میں وہ صحیح مسلم کے درس میں شریک رہے ہیں اور ساری زندگی تعلق برقرار رکھا ہے۔

شیخ عبد الحمید بن بادیس نے خود بیان کیا ہے کہ فرانسیسی فوج کا ملک پر قبضہ اورمقامی باشندوں پر مظالم کا سلسلہ شروع ہواتو میں مدینہ طیبہ چلا آیا ، مدینہ میں مجھے دیکھ کر میرے ہم وطن استاذ شیخ حمدان الونیسی نے کہا کہ" نجوت من القوم الظالمین" اب اطمینان سے ہیں رہو، لیکن میرے دوسرے استاذ شیخ حسین احمد ھندی فیض آبادی نے کہا کہ تمہاری جگہ یہاں نہیں ہے تم کو الجزائر واپس جاکر فرانسیسیوں کو ملک سے نکالنےکیلئے جد وجہد کرنی چاہیے اس کے بغیر چین سے نہیں بیٹھنا چاہیے،اس کے بعد ہی میں نے واپس آکر "جمعیة علماء الجزائريين" قائم کی اور ملک کی آزادی کی جدوجہد شروع کی اور بڑی قربانیوں کے بعد ملک کو آزادی ملی ،میری اس گفتگو سے ڈاکٹر یوسف بلمھدی بہت متآثر ہوئے ، وزیر اوقاف بن جانے کے کچھ دنوں کے بعد سعودی عرب میں ملاقات ہوئی تو انہوں نے وعدہ کیاتھا کہ ریکاڈ شدہ پروگرام کی کاپی تمہارے پاس بھیج دونگا،  الجزائر میں ایک صاحب نے قدیم میگزین کی فوٹو کاپی دی تھی جس میں شیخ ابن بادیس کا بیان تھا، "چمن میں ہر طرف بکھری پڑی ہے داستاں میری "،

شیخ بشیر الابراھیمی عظیم قائد زبردست خطیب بلند پایہ وبرجستہ گو شاعروادیب تھے حافظہ بے مثال تھا حضرت مدنی ؒ سے بڑی عقیدت رکھتے تھے پاکستان آئے تو مولانا مدنی رح کی خواہش تھی کہ وہ دیوبند بھی آئیں وہ بھی آنا چاہتے تھے لیکن :

  ما کل ما یتمنی المرء یدرکہ

 تجری الریاح بما لاتشتھی السفن

http://www.bhatkallys.com/ur/author/dr-baderqasmi/