کیا تبلیغی اجتماع کی قیمت 10 کروڑ ہے؟۔۔۔۔از:حفیظ نعمانی

Bhatkallys

Published in - Other

03:47PM Fri 14 Dec, 2018
ماہنامہ الفرقان لکھنؤ کے دسمبر کے شمارہ میں مدیر الفرقان مولانا سجاد نعمانی نے نگاہ اوّلیں کے زیرعنوان تبلیغی جماعت کو موضوع بنایا ہے۔ اس مضمون میں انہوں نے جماعت یا تبلیغ کے کام کا پس منظر بیان کرنے کیلئے مولانا ابوالحسن علی ندوی کی اہم کتاب اور حضرت مولانا یوسف حضرت جیؒ کو خراج عقیدت پیش کرنے والا الفرقان کا خصوصی شمارہ حضرت جی نمبر سے اقتباسات نقل کرکے بتایا ہے کہ تبلیغی جماعت کیا تھی اور اس کا اصل مقصد کیا تھا اور اسے فتنہ پروروں سے بچانے کیلئے بزرگوں نے کیا کیا؟ اسی رسالہ کے صفحہ 20 پر مولانا سجاد نے آج کی جماعت کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’تاہم اب تو بعض اجتماعات کے منتظمین مقامی ایم ایل اے کے بغل میں کھڑے ہوکر علی الاعلان ویڈیو پر خوشخبری سناتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ہمارے ضلع کے اجتماع کے لئے ریاستی حکومت نے دس کروڑ روپیہ دیا ہے۔ ’’ان اللہ واناالیہ راجعون‘‘۔ یہ مضمون ہم پڑھ چکے تھے اور نہ جانے کیسے کیسے اہم واقعات دماغ میں گھومتے رہے لیکن مضمون اتنا طویل اور مدلل تھا کہ مزید کچھ کہنا لاحاصل تھا کہ 10 دسمبر کے روزنامہ سہارا میں ایک خبر پر نظر پڑی تو ایسا لگا کہ کسی نے زخموں پر نمک چھڑک دیا۔ خبر میں کہا گیا ہے کہ عالمی امن کے لئے اے پی کے ضلع کرنول میں منعقدہ تبلیغی جماعت کے بین الاقوامی اجتماع کا آج اختتام عمل میں آیا۔ اس اجتماع میں بارہ لاکھ افراد نے شرکت کی۔ اجتماع کے لئے کرنول کے نواح میں نوڈل گیٹ کے قریب تین ہزار ایکڑ آراضی الاٹ کی گئی تھی۔ اس اجتماع کے سلسلہ میں اے پی کے وزیر اعلیٰ این چندرا بابو نائیڈو نے تمام مسلمانوں کو مبارکباد پیش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کی اقلیتوں کے لئے جو فلاحی کام حکومت نے انجام دیئے ہیں جس کی مثال ملک کی کسی بھی ریاست میں نہیں ملتی آندھرا پردیش کے وزیر این احمد فاروق نے وزیراعلیٰ کی ہدایت پر اجتماع گاہ پہونچ کر انتظامات کا جائزہ لیا۔ انہوں نے بتایا کہ اجتماع میں 13 ممالک کے افراد نے شرکت کی۔ حکومت نے اجتماع کے لئے 10 کروڑ 40 لاکھ روپئے مختص کئے۔ اس کے آگے اس کی تفصیل کہ کتنے اسکوائر فٹ کو کور کیا گیا کتنے علاقے کو پارکنگ کے لئے مخصوص کیا گیا وغیرہ وغیرہ۔ مزید اسمبلی کے رکن ایس وی موہن ریڈی نے کہا کہ یہ ایک تاریخی اجتماع ہے اور حکومت نے پہلی مرتبہ کسی مذہبی اجتماع کے لئے اتنی بڑی رقم منظور کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے اہم بزرگوں اور رہنماؤں نے اس معاملہ میں ان کے ساتھ وزیراعلیٰ چندرا بابو نائیڈو سے ملاقات کی تھی ان کے مطالبہ پر مثبت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے نائیڈو نے یہ رقم منظور کی۔ الفرقان نے اپنے اس اقتباس کے بعد لکھا تھا کہ ’ایک زمانہ تھا کہ بڑے بڑے اجتماعات کو مفید کم اور مضر زیادہ ہونے کی وجہ سے بند کردیا گیا تھا۔ اور اس بات پر زور دیا جاتا تھا کہ شہری علاقوں کے بجائے محنت کا میدان زیادہ تر ان بستیوں کو بنایا جائے جو دین کی بنیادی تعلیم کے کسی ذریعہ سے محروم ہیں اور جہاں رہنے والے مسلمان دین سے بالکل ہی نابلد ہیں اور دینی مراکز سے دوری اور غربت و جہالت کی وجہ سے ارتداد کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ اور اب صورت حال یہ ہے کہ زیادہ تر توجہ بڑے بڑے اجتماعات کرنے اور اپنی طاقت کے مظاہرے پر مرکوز نظر آتی ہے۔‘ جو حضرات جماعت سے دلچسپی رکھتے ہیں یا اخبار پڑھتے ہیں ان کو ضرور یاد ہوگا کہ دسمبر کی پہلی تین تاریخوں میں بلندشہر کا عالمی اجتماع ختم ہوا ہے جس کے بارے میں ہم نے لکھا تھا کہ اللہ نے کرم کردیا ورنہ جن لوگوں کو اس اجتماع سے تکلیف تھی وہ نہ جانے کیا کیا کرنا چاہتے تھے۔ اور یہ بھی سن لیا ہوگا جن منتظمین نے جلسہ کی اجازت لی ہے انہیں نوٹس دیئے جارہے ہیں کہ اجازت 20 لاکھ کے لئے تھی اور آدمی زیادہ آئے۔ ایسا اجتماع جس میں نہ داخلہ کا پاس یا کوپن ہو یا یہ نہ معلوم ہو کہ کس شہر میں کتنے ممبر ہیں ان میں سے کتنے آئے جہاں نہ آنے والوں کی خبر نہ جانے والوں کی خبر وہاں یہ کہنا بھی غلط ہے کہ 20 لاکھ آئیں گے اور یہ بھی غلط ہے کہ زیادہ آئے تھے۔ یہ تو صرف وہ بتا سکتا ہے جو آسمان کے تارے گن کر بتاسکے کہ کتنے ہیں؟ اجتماع کرنے والوں کو شان دکھانا تھی جھوٹ اور سچ سے کچھ مطلب نہیں اور حکومت کو کلیجے کی آگ بجھانا ہے۔ آج تک سیاسی پارٹیوں کے بڑے بڑے مظاہرے ہوئے ہیں جس شہر میں ہوا وہاں راستے جام رہے ٹرینوں میں سفر ناممکن ہوگیا جلوس میں آنے والے غنڈہ گردی بھی کرتے رہے پورے شہر میں کوڑا ہی کوڑا بھر دیا لیکن کبھی نہیں سنا کہ کسی کو نوٹس دیا گیا ہو۔ ہم جتنا واقف ہیں اس کی بنیاد پر کہہ رہے ہیں کہ اب یہ وہ جماعت نہیں ہے جسے حضرت مولانا الیاسؒ نے بنایا اور حضرت مولانا یوسفؒ نے پوری دنیا میں پھیلا دیا اور حضرت مولانا انعام الحسن نے اسے برقرار رکھا۔ مولانا کے اور حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا کے انتقال کے بعد جماعت اخلاص کی پٹری سے اُتر گئی۔ جس جماعت کے امیر اور بانی حضرت مولانا الیاسؒ سے ہر عالم دین نظام الدین آکر روحانی سکون حاصل کرتا تھا اسی جماعت کے کسی بھی جلسہ میں دارالعلوم دیوبند کے طالب علموں کو شریک ہونے پر پابندی لگادی گئی ہے۔ حضرت مولانا انعام الحسن صاحب کے بعد تین جواں سال صاحبزادوں نے جماعت کو بانٹ لیا تھا۔ بعد میں جماعت سے متعلق بہت شرمناک خبریں آتی رہیں اور اب حضرت مولانا یوسفؒ کے پوتے سجادہ نشین بن کر بیٹھ گئے ہیں اور بہت سی انتہائی نامناسب خبروں کے بعد تازہ ترین خبر بلندشہر سے یہ آئی کہ تین دن اور تین راتیں صرف باپ اور بیٹے بولتے رہے کسی بڑے سے بڑے عالم کو تقریر کا موقع نہیں دیا۔ جماعت کی ابتدا سے ان معروف علماء کو جو دین کی دعوت کے کام کررہے ہیں اگر وہ اجتماع میں آتے تھے تو ان سے اصرار کرکے تقریر کرائی جاتی تھی۔ لیکن موجودہ سجادہ نے یہ سوچا کہ یہ میرے پردادا نے بنائی تھی اور میرے دادا نے اسے عالمی بنایا اس لئے اب اگر کسی صوبہ کے وزیراعلیٰ کو کوئی سمجھاتا ہے کہ یہ ووٹ ہیں تو وہ خریدنے کے لئے دس کروڑ روپئے کا چارہ ڈالتے ہیں۔ اب یہ بات وہ منتظم جانیں جو وزیراعلیٰ کو آمادہ کرتے ہیں یا وہ سجادہ جانیں جن کو اس میں سے بڑا یا برابر کا حصہ دیا جاتا ہے کہ جس جماعت کا تعارف ہی یہ تھا کہ نہ اس کی فیس ہے نہ چندہ لیا جاتا ہے۔ یہاں تو ایک ہی بات ہے کہ اللہ کیلئے جاؤ اپنا وقت اور اپنے پیسے خرچ کرو اس کا بدلہ وہ اللہ دے گا جس کا کام کرنے جارہے ہو۔ اب وہاں اگر تحفے آرہے ہیں ہدیہ میں رقوم آرہی ہیں یا اب فاقوں کی جگہ سونے کا نوالہ ہے تو جو یہ کررہا ہے وہ ان بزرگوں کی قبور پر بیٹھا ان کی مٹی بیچ رہا ہے۔ اور جب دارالعلوم نے اپنے طالب علموں پر پابندی لگادی ہے تو مطلب یہ ہے کہ اب نظام الدین جانا ناجائز یا حرام ہے۔ اور یہ دیوبندی مسلک والوں کے لئے بھی ہے۔ Mobile No. 9984247500   (ضروری وضاحت: مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق رہنا ضروری نہیں۔)