سفر حجاز۔۔۔(10)۔۔۔ آستانہ نبوت۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

02:33PM Sat 3 Jul, 2021

باب (۱۰) آستانہ نبوّت

یہ کسی فقیہ کا اجتہاد نہیں جس پر رد و قدح کی گنجائش ہو۔کسی بزرگ کا کشف نہیں جس میں غلطی اور دھوکے کا احتمال ہو،کوئی روایت حدیث نہیں جس کے اسناد میں گفتگو ہوسکے،خدائے پاک کے کلام کی ایک آیت ہے۔ارشاد ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے جس وقت اپنے اوپر ظلم کیے تھے۔اے پیغمبر ! اگر تمہارے پاس آگئے ہوتے اور اللہ سے اپنے قصور کی معافی چاہتے اور رسول بھی ان کے حق میں معافی چاہتے تو پاتے اللہ کو معاف کرنے والا مہربان گویا گناہگاروں ور تباہ کاروں کو یہ حکم ملا ہے کہ اپنے پروردگار سے معافی طلب کریں،لیکن تنہا اپنے گھروں پر بیٹھے ہوئے نہیں ،بلکہ رسول کی خدمت میں حاضر ہوکر ،اور ان سے بھی اپنے حق میں دعا کراکر ،ظاہر ہے کہ حکم کا براہ راست تعلق کسی ایسے گروہ سے ہے جو حضور انور ﷺ کے زمانہ میں موجود تھا۔خوش نصیب تھے وہ افراد جنھیں اس حکم پر عمل کی توفیق نصیب ہوئی۔جو رسول کی خدمت میں حاضر ہوئے جنھوں نے اللہ سے گڑگڑا گڑگڑا کر معافی مانگی اور رسول نے جن کے حق میں سفارش فرمائی۔لیکن آج اس چودھویں صدی میں امت کا کوئی فاسق و فاجر ،بدعمل و نامہ سیاہ اگر حکم "جاؤک " کی تعمیل کرنا چاہے تو کیا اس کے لیے ،اس سعادت و ہدایت کا دروازہ خدانخواستہ قیامت تک کے لیے بند ہوچکا ہے؟ اور اس کی قسمت میں بجز مایوسی و محرومی کے اور کچھ نہیں؟ موسم گل جب چمن سے رخصت ہوچکتا ہے اور کوئی بوے گل کا متوالا آنکلتا ہے تو عرق گلاب کے شیشوں اور قرابوں کو غنیمت سمجھتا ہے،پھر اگر آج کوئی بوئے حبیب کا متوالا حکم "جاؤک" کی تعمیل میں ،اپنے کو ہزاروں میل کے فاصلہ سے دیار حبیب ﷺ تک پہونچتا ہے اور اپنے مظالم نفس کی تلافی و عذر خواہی کے لیے اپنے ایمان اور اپنی بیعت کی تجدید کے لیے اپنی تباہ کاریوں پر پشیمانی اور اشک افشانی کے لیے حبیبﷺ تک نہ سہی آستان حبیبﷺ تک گرتا پڑتا پہونچتا ہے تو کیا اس پر بدعت و شرک کا فتویٰ لگایا جائے گا ؟ جہاں اللہ کے سب سے بڑے پرستار (ﷺ) نے نمازوں پر نمازیں پڑھیں،اور آخری نمازیں پڑھیں ،جہاں عبد و معبود کے راز و نیاز ،حیات ناسوتی کی آخری سانس تک جاری رہے،جہاں ہیبت و خشیت سے لرزتے ہوئے گھٹنے خدا معلوم کتنی بار رکوع میں جھکے ،جہاں ذوق و شوق سے دمکتی ہوئی پیشانی بارہا سجدہ میں گری ،جہاں امت کے گنہگاروں اور سیہ کاروں کے حق میں درد بھری دعاؤں کے لیے ہاتھ اٹھے اور ہلے ،جہاں ٹوٹی ہوئی آس والوں کو بیشمار مرتبہ تشقی کرائی گئی،جہاں وہ آج جسد اطہر آرام فرما ہے جس کے طفیل میں آسمان بھی وجود میں آیا اور زمین بھی،چاند بھی اور سورج بھی۔اس عظمت و جلال والی اس برکت اور نورانیت والی زمین پر مقدس مکین کے مقدس مکان پر بھی جبین نیاز کو خم کرنا اگر شرک ہے،بدعت ہے تو خدا معلوم کس مقام اور کس مکان پر بھی حاضر ہونا کس آئین "توحید" و سنت کے مطابق ہوسکتا ہے؟ حافظ ابن کثیر دمشقی تیرھویں اور چودھویں صدی کے "مبتدع " نہ تھے۔ساتویں اور آٹھویں صدی کے محدث تھے۔اپنی تفسیر میں (اس تفسیر میں جو ایک بار ہندوستان کے مشہور "موحد" نواب صدیق حسن خاں مرحوم کی تفسیر کے ساتھ شائع ہوئی تھی،اور اب نجد و حجاز کے مشہور "موحد" سردار سلطان ابن سعود کے حکم سے شائع ہوئی ہے) عتبی ؒ کی زبانی نقل فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربت مبارک کے قریب بیٹھا ہو تھا کہ ایک اعرابی آیا اور عرض کی کہ "یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) میں نے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے " پس میں آپﷺ کے پاس حاضر ہوا ہوں،اپنے گناہوں پر مغفرت طلب کرتا ہوں اور اپنے پروردگار میں آپﷺ سے شفاعت کی درخواست کرتا ہوں."۔ اس کے بعد نعت میں دو شعر پڑھے،عتبی کہتے ہیں کہ اس کے بعد اعرابی تو وہاں سے ہٹ گیا اور مجھے نیند آگئی ،خواب میں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی اور آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ اس اعرابی سے جاکر ملو اور اسے بشارت پہونچا دے کہ اللہ نے اس کی مغفرت کردی (جلد ۲ :۵۰۱ مطبوعہ المنار مصر ۱۴۴۳ء) اور اسی سے ملتی جلتی ایک دوسری روایت ابوحیان اندلسی نے بھی اپنی تفسیر بحر المحیط میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے حوالہ سے نقل کی ہے (جلد ۶۸۳ ھ مطبوعہ مصر ۱۳۴۸ ) یہ روایات جزئیات و تفصیلات کے ساتھ صحیح ہوں یا نہ ہوں اور خواب و کشف کی بشارتیں حجت ہوں یا نہ ہوں لیکن اتنا تو بہرحال نکلتا ہے کہ یہ "خوش عقیدگی" کوئی آج کی بدعت نہیں،بلکہ صدیوں پیشتر کے "موحدین" بھی اس مرض میں مبتلا رہ چکے ہیں۔ اس کے بعد اب اس بحث میں کیوں الجھئے کہ نیت روضہ اقدس کی زیارت کی رکھنی چاہیئے،یا مسجد نبوی کی؟ انسان کی جدال پسند فطرت ہر سیدھی بات کو ٹیڑھی بنادیتی ہے،صاف اور سیدھی بات یہ ہے کہ مقصود خود حضور انور کی زیارت ہونی چاہیئے،ظاہر ہے کہ مادی آنکھوں سے اس کا امکان نہیں،اس لیے مکان کے جس حصہ کو مکین سے جس قدر زیادہ تعلق ،جس قدر زیادہ قرب ہوگا،اسی قدر اس کی زیارت اہم تر و محبوب ہوگی،حجرہ عائشہ صدیقہ ہو یا مصلّی و منبر ،جس شے کو بھی امتیاز و افتخار حاصل ہوا ، اسی بنا پر حاصل ہوا کہ حضورﷺ کی ذات سے اس کا تعلق تھا۔اس میں نہ کسی کو نزاع ہے اور نہ کوئی وجہ نزاع ،اس کے آگے جو کچھ اختلاف ہے وہ کسی اصول یا عقیدہ کا اختلاف نہیں ،اپنے اپنے ذوق طبعی کا اختلاف ہے بعض کی نظر زمین کے ان ان ٹکڑوں کی عظمت و تقدس پر گئی جو سید الانبیاء صلعم کے رکوع و سجود کے لیے مخصوص تھے اور اسی لیے انھوں نے زیارت میں مسجد نبویﷺ کے احترام کو سب پر مقدم و بالا رکھا۔اور بعض نے یہ خیال کیا کہ وہ شہیدوں اور صدیقوں کا سردار جب اپنی حیات طیبہ کے ساتھ اس وقت بھی زندہ قائم ہے۔تو قدرتاً سب سے زیادہ شرف و احترام مٹی کی اس لحد کو حاصل ہے جس کے اندر جسد اطہر آرام فرما ہے اور اسی لیے سفر کا اعلیٰ مقصود اس تربت پاکﷺ ہی کی زیارت ہوتو بہتر ہے،فقہائے حنفیہ نے غایت انصاف و اصابت رائے کے ساتھ یہ فیصلہ فرمادیا ہے کہ زیارت تربت مبارک کے ساتھ ہی ساتھ زیارت مسجد نبویﷺ کی نیت کرلی بھی جمع کرلیا جائے۔قبر شریف کی زیارت مستحب ہے بلکہ بعض علما کے قول کے مطابق واجب ہے جس کو اس کی اور اس کے ساتھ ساتھ آپ کی مسجد شریف کی زیارت کی بھی نیت کرلی جائے۔جب زیارت قبر رسول کی نیت کرے تو چاہیئے کہ زیارت مسجد نبویﷺ کی بھی نیت کرلے۔ مسجد نبویﷺ اور روضہ مبارک الگ الگ عمارتوں کے نام نہیں،اور ایک دوسرے سے جدا نہیں،مسجد کی عمارت بہت وسیع شاندار اور اس سے بھی کہیں بڑھ کر حسین و جمیل ہے،اس سے بڑی بعض مسجدیں ہندوستان کے اندر موجود ہیں،اور دوسرے ملکوں میں بھی یقیناﹰ ہوں گی۔لیکن حسن و جمال کے لحاظ سے ،خوبی و محبوبی کے لحاظ سے ،زیبائی و دلکشی کے لحاظ سے پردہ زمین پر اس مسجد کا جواب نہیں ،بس یہ جی چاہتا تھا کہ ہر وقت صحن میں بیٹھے ہوئے عمارت مسجد کی طرف برابر ٹکٹکی لگی رہے،اللہ اللہ ! کس محبوب کی مسجد ہے،کیسے کیسے محبوبوں نے یہاں ماتھے ٹیکے ہیں،اینٹ اور پتھر ،مٹی اور چونے تک پر محبوبیت چھارہی ہے! مسجد کی پیمائش کا دماغ کس کو اور طول و عرض کا جائزہ لینے کا ہوش کسے ،لیکن بعض کتابوں میں پڑھا ہے کہ موجودہ مسجد کا طول ۶۰۰ فٹ اور عرض ۴۸۰ فٹ ہے،قبلہ جنوب کے رخ پر ہے،آگے پیچھے دس گیارہ دالان بنے ہوئے ہیں،بہترین نقش و نگار سے آراستہ حسن و زیبائش میں ایک سے ایک بڑھے ہوئے،اس کے بعد وسیع صحن ،صحن کے داہنے اور بائیں دونوں جانب صحن ہی کے برابر لانبے لانبے دالان ،بائیں جانب والے دالان میں عورتوں کے لیے جگہ مخصوص ،کلام پاک کی آیات ،بعض احادیث کے ٹکڑے اسمائے الہیٰ ،اسمائے رسولﷺ ،اسمائے صحابہ کبار،سب موقع موقع سے در و دیوار پر کندہ ،بڑی محراب محراب عثمانی کے نام سے موسوم ،حضرت خلیفہ ثالث ؓ کی تعمیر کرائی ہوئی ،منبر ٹھیک اسی جگہ پر رکھا ہوا جہاں عہد نبوت میں تھا،اسی منبر اور روضہ مبارک (حجرہ عائشہ صدیقہ ؓ) کا درمیانی حصہ "روضتہ الجنۃ "کے نام سے حدیث صحیح کی بنا پر موسوم اتنے رقبہ میں کوئی ڈھائی تین سو نمازیوں کی جگہ ہوگی،اسی حصہ میں محراب النبیﷺ اور مصلی نبی یعنی وہ مقام جہاں سرکار ﷺ خود کھڑے ہوکر امامت فرمایا کرتے تھے۔اصلی مصلی ایک دیوار سے چھپادیا گیا ہے،صرف اتنا حصہ کھلا ہے جہاں حضورﷺ کے قدم مبارک ہوتے تھے۔اس طرح اب جو قسمت کا دھنی وہاں کھڑے ہوکر نماز پڑھتا ہے اس کا سر قدرتاً و اضطراراً حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار قدم جاکر پڑتا ہے، خواجہ حافظ کا یہ مشہور شعر یہاں گویا چسپاں :۔ برزمینے کہ نشان کف پائے نو بود سالہا سجدہ صاحب نظراں خواہد بود اللہ اکبر!کیا شان جمال، کیا وسعت کرم ہے! خدا جانے کتنوں کی نجات اسی بہانہ سے ہوجاتی ہے!۔ عہد نبوت میں یہ تکلفات اور یہ وسعت کہاں تھی، مختصر سی زمین اور انتہائی سادگی، توسیع فاتح روم و ایران حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ہوئی، پھر خاص خاص ترمیمات حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور خلیفہ ولید نے کرائیں، موجود عمارت کی زینت وخوشنمائی کا سہرا سلطان عبد المجید خان مرحوم ومغفور کے سر ہے، اللہ ان سب خدام حرم نبوی ﷺ کو پورا اجر عطا فرمائے، اس وقت مسجد میں پانچ دروازے ہیں، دو جانب مغرب ، باب السلام اور باب الرحمۃ ، ایک جانب شمال باب مجیدی، سلطان عبد المجید خان کا تعمیر کرایاہوا، اور دو جانب مشرق باب النساء اور باب جبریل، صحن میں شرقی دالان سے ملا ہوا بستان فاطمہ تھا، کھجور کے چند شاداب درخت لگے ہوئے تھے، اور ان کے سایہ میں ایک کنواں تھا، جس کا پانی شیرینی و لطافت میں مشہور تھا، سعودی حکومت نے وہ درخت کٹوا کر صاف کردئے ہیں، اور کنوئیں کو بند کر کے اس میں قفل ڈال دیا ہے ، مسجد میں خدام پہلے سینکڑوں تھے، اب بہت گھٹ گئے ہیں، خواجہ سراؤوں(آغاؤں) کی جماعت پہلے بہت ذی اختیار تھی، اب یہ لوگ بھی تعداد میں بہت کم رہ گئے ہیں، اور ان کے اختیارات بھی بہت محدود ہو گئے ہیں، ان کے بیٹھنے کا ایک وسیع چبوترہ باب جبریل اور باب النساء کے درمیان بنا ہوا، کہا جاتا ہے کہ اصحاب صفہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا بھی یہی چبوترہ تھا، مسجد کے ستونوں پر عہد نبوی ﷺ کی مسجد کے حدود درج ہیں۔ اسی مسجد کے گوشۂ جنوب و مشرق میں دالانوں کے اندر سبزگنبد والا روضہ ٔاقدس ہے، جس کی زمین بقول محدث جلیل قاضی عیاض مالکی کے بلا نزاع و اختلاف سارے روئے زمین سے بڑھ کر ہے۔ ولا خلاف فی أنّ موضع قبرہ ﷺ أفضل بقاع الأرض (اس میں تو کوئی اختلاف ہی نہیں کہ روئے زمین کے سارے مقامات سے بڑھ کر رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک کا مقام ہے) قاضی کے اس قول پر جرح بھی بہت ہوئی ہے اور حافظ ابن تیمیہ نے تو اس خبر کا متفق علیہ ہونا تو الگ رہا اس میں قاضی کو تمام تر منفرد بتایا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ جس حصہ زمین کے بابت محدثین اور خشک فقہاء یہاں تک فرما جائیں،اس کے لئے جذبات کی زبان الفاظ کہاں سے ڈھونڈھ کر لائے؟ اور کسی نے خود جو کچھ دیکھا ہے، وہ اسے کیونکر دوسروں کو دکھائے؟ شاعر کی تخیئل نے بڑی بلند کی یہ کہا کہ:۔ انبساط عید دیدن روئے تو عید گاہ ما غریباں کوئے تو لیکن جس کی دید رخ کو انبساط عید سے بھی نسبت نہ ہو، جس کے ابروؤے خمدار خود ہلال عید سے بڑھ چڑھ کر ہوں اور جس کی گلی پر عید گاہیں خود قربان ہوں۔ صد ہزاراں عید قربانت کنم اے ہلال ما خم ابروئے تو! اس کے زیارت جمال کے بیان کرنے کے لئے دنیا کی کس زبان سے الفاظ پر غلاف پڑا ہوا ہے۔ گنبد خضراء اس عمارت کے اوپر ہے۔اس کے اندر اصل حجرہ صدیقہ ہے، جو عہد نبوی میں خام تھا، بعد کو پختہ کردیا گیا، یہ بھی ہر طرف سے بند ہے جالیوں والی چار دیواری کے اوپر کے حصہ میں بھی خوشرنگ سبز غلاف ترکوں کے زمانہ کا ابتک پڑا ہوا ہے۔مدینہ سے کعبہ سمت جنوب میں ہے۔اس لیے روضہ اطہر کا جسے صدر دروازہ سمجھا جاتا ہے وہ جنوب رخ ہے اور یہی مواجہہ شریف کہلاتا ہے۔اس عمارت کے اندر حجرہ صدیقہ سے ملا ہوا ایک اور حجرہ بھی ہے جس کے اندر ایک مزار سا بنا ہوا معلوم ہوتا ہے کہا جاتا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا ؓ نے یہیں وفات پائی ہے اور مزار کی بابت ایک روایت یہ ہے کہ انھیں سیدہ خاتون جنت کا ہے۔اور بعض روایات یوں مشہور ہیں کہ یہ کوئی دوسری بی بی حضرت زہرا کی ہمنام تھیں ۔۔۔۔ مدینہ پہنونچتے ہی تڑپ تھی تو یہ، بےقراری تھی تو اس کی جس قدر جلد بھی ممکن ہو اس آستان پاک تک پہونچیے۔لیکن اس ذوق و شوق، اس طلب و تمنا کے باوجود یہ کیا ہے کہ ہمت کے قدم ڈگمگائے جارہے ہیں اور ارادہ ہے کہ جم جم کر ٹوٹتا ہے اور ٹوٹ ٹوٹ کر جمتا ہے۔الہیٰ یہ آخر کیا اسرار ہے!۔