مطالعہ کی میز پر ۔۔۔مولانا ابو الجلال ندوی ۔دیدہ و شنیدہ و خواندہ (1) ۔۔۔ تحریر : عبد المتین منیری


جب ہمارے شعور کی کچھ آنکھیں کھلیں اور اردو پڑھنا آنے لگا توتب جو چیزیں اس وقت ہاتھ آئیں ان میں معارف اعظم گڑھ کے پرانے پرچے بھی تھے ،جو ہمارے اس دنیا میں آنے سے پہلے شائع ہوئے تھے ، ان پرچوں میں مختلف مضامین پر مولانا ابو الجلال ندوی کا نام نظر آتا ، یہ مضامین غالبا اعلام القرآن پر ہوا کرتے تھے ، انہیں پڑھ کر مولانا کی علمیت کا ایک رعب سا دل میں بیٹھ گیا ، ۱۹۷۰ء میں جب اعلی دینی تعلیم کے لئے ہمارا الکلیۃ العربیۃ الجمالیۃ مدراس میں داخلہ ہوا جو جمالیہ عربک کالج کے نام سے جانی پہچانی جاتی ہے ، تو وہاں ہمارے مشفق استاد مولانا عبد الرافع نائطی باقوی مرحوم سے باتوں باتوں میں معلوم ہوا کہ مولانا ابو الجلال ندوی نے یہاں پر پرنسپل کی حیثیت سے کافی عرصہ گذارا ہے ،تب ہمارا سینہ جذبہ تفخر سے بھر گیا کہ ایک ایسے تعلیمی ادارے سے ہماری نسبت ہے جہاں آپ جیسے عبقری عالم نے اپنی عمر کے بڑے قیمتی دن گزارے ہیں ۔ ہمارے استاد مولانا ابو الجلال کے علم و مطالعہ میں غرق رہنے کے حالات بتاتے تھے ، انہی سے ہم نے سنا کہ جب مولانا جمالیہ سے رخصت ہوکر گئے اور ان کا بستر صاف کیا گیا تو اس کے نیچے سانپ اور بچھو پائے گئے جو مدت سے اس میںسکونت اختیار کئے ہوئے تھے ، لیکن انہوں نے آپ کو کبھی ایذا نہیں پہنچائی تھی ۔اسی زمانے میں مولانا کے ایک ملباری شاگرد اور عربی زبان کے ادیب و شاعر احمد فلکی جمالی کا قصیدہ نظر سے گذرا جس میں جمالیہ کے مفاخر میں علامہ فاروق چریاکوٹی کی روایتوں کے امین اپنے ان استاد گرامی قدر کا ذکر بڑے فخر سے کیا گیا تھا۔ لیکن پھر مولانا کے بقید حیات ہونے یا نہ ہونے کی کوئی اطلاع عرصہ تک نہیں ملی ، یہاں تک کے ۱۹۸۴ء میں جسارت کے ذریعہ آپ کے اس دنیا سے دائمی سفر پر روانگی کی اطلاع ملی ، اور رنج بھی ہوا کہ علامہ شبلی اور فراہی کے علوم کی امین یہ عظیم شخصیت اس دنیا سے اس خاموشی سے چلی گئی کہ ایک محدود حلقے کے علاوہ کسی کو پتہ بھی نہ چلا کہ علم و تحقیق کا کتنا روشن سورج ہمیشہ کے لئے موت کی تاریکی میں چھپ گیا ہے ، آخر پتہ بھی کیسے چلتا اتنے عظیم عالم کی تحقیقات میعادی مجلات کی فائلوں میں دب کر رہ گئیں تھیں ، ان کے نصیب میں دوبارہ کتابی شکل میں آنا نہیں لکھا تھا۔
چنئی (مدراس ) کے قیام کے دوران آپ کا جامعہ دار السلام عمرآبادآنا جانا ہوتا رہتا ، آپ یہاں کے کتب خانے کی خلوتوں میں وقت گزاراکرتے ، اس زمانے میں آپ کو دیکھنے والے بزرگ جامعہ کے سابق مہتمم مولانا حفیظ الرحمن اعظمی ، ماشاء اللہ آج بھی بقید حیات ہیں ۔وہ بیان کرتے ہیں کہ مولانا کے کھانے کا انتظام آپ کے والد ماجد کیا کرتے تھے ، اسے لے جانے کی ذمہ داری زیادہ تر آپ پر ہوا کرتی تھی ، اس دوران آپ کے مطالعہ کے انہماک کا یہ عالم ہوا کرتا تھا کہ کھانا رکھنے کو کہتے ۔ کچھ دیربعد وہ آکر آپ کے کھانے سے فراغت کے بارے میں آپ سے دریافت کر تے تو اگر رکابی خالی ہو تو کہتے کہ کھا لیا ہے ۔ حالانکہ مطالعہ میں انہیں بھوک و پیاس کا احساس نہیں ہوا کرتا تھا ، نہ کسی کے آنے جانے کا ، زیادہ تر یہ ہوتا کہ کوئی جانور وغیرہ اس پر اپنا منہ صاف کر چکا ہوتا ، اور آپ سمجھتے کہ انہوں نے اسے کھالیا ہے۔
مولانا کسی ادارے یا جماعت و تحریک سے وابستہ کہاں تھے؟ جو آپ کی پذیرائی کے اسباب ہوتے ۔اب مولانا کی رحلت پر بھی چونتیس سال کا عرصہ گزر گیا ہے ، آپ کو جاننے والے بھی بھول بھال گئے ہیں ، لیکن گزشتہ چند دنوں سے بعض تحریروں سے یہ بات معلوم ہونے لگی کہ اردو کے مایہ ادیب ، کالم نگار و شاعر احمد حاطب صدیقی (ابو نثر ) آپ کے بھتیجے اور فرائیڈے اسپیشل کے چیف ایڈیٹریحیی بن زکریا صدیقی آپ کے بڑے نواسے ہیں ۔ اور یہ دونوں اپنے بزرگوار کی زندگی کے نقوش اور آپ کے علمی ورثہ کو منظر عام پر لانے کے لئے کوشاں ہیں ۔ہمیں امید ہے کہ ان پس ماندگان کی کوششیں مولانا کو علمی و تحقیقی دنیا میںزندہ و جاویداں کرے گی ۔مولانا کے ان عزیزوں کی کوششوں کا پہلا قطرہ احمد حاطب صدیقی کی کتاب ﴿مولانا ابو الجلال ندوی ۔ دیدہ و شنیدہ و خواندہ﴾ کی شکل میں اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی سے منظر عام پر آیا ہے ۔ جو اس وقت ہمارے سامنے ہے ۔
مورخ ہند مولانا عبد الحی حسنی علیہ الرحمۃ نے اپنے سفرنامہ گجرات (یاد ایام ) میں برصغیر میں مسلمانوں کی ہزار سالہ تاریخ میں گزرنے والی عظیم ترین علمی شخصیت اورمقبول ترین بزرگ مخدوم فقیہ علاء الدین علی مہایمی نائطی کے بارے میں ان الفاظ میں تاثر ات بیا ن کئے ہیں ۔
﴿شیخ علاء الدین علی ابن احمد المہائمی ؒگجرات کے لئے سرمایۂ ناز ہیںاور میرے نزدیک ہندوستان کے ہزار سالہ دور میں شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے سوائے حقائق نگاری میں ان کا کوئی نظیر نہیں ، مگر ان کی نسبت یہ معلوم نہیں کہ وہ کس کے شاگرد تھے کس کے مرید تھے،اور مراحل زندگی انہوں نے کیونکر طے کئے تھے،جو تصنیفات ان کی پیش نظر ہیں ان کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہیں کہ ایسا شخص جس کو ابن عربی ثانی کہنا زیبا ہے،وہ کسمپرسی کی حالت میں ہے، کہیں اور ان کا وجود ہوا ہوتا تو ان کی سیرت پر کتنی کتابیںلکھی جاچکی ہوتیں،اور کس پُر فخر لہجہ میں مؤرخین ان کی داستانوں کو دہراتے﴾۔(یاد ایام ص :۵۹)
احمد حاطب کی کتاب دیکھنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ مولانا ابو الجلال مرحوم پر بھی ایسی ہی کوئی بات صادق آتی ہے۔
احمد حاطب کی کتاب احسان شناسی کا ایک مظہر ہے ، یہ عام معنوں میں کوئی سوانح عمری نہیں ہے ، لیکن اس کے موثر انداز نے مزید سوچنے اور تحقیق کرنے کی راہیں کھول دی ہیں ، اس نے آئندہ اس موضوع پر تحقیق کرنے والے کا کام آسان کردیا ہے ، احمد حاطب نے معلومات کے جو موتی چنے ہیں ، انہیں پروکر قیمتی ہار تیار کیا جاسکتاہے ۔ اس کتاب کو دیکھ کر یہ احساس ابھر تا ہے کہ مصنف کتاب علمی امانت کا ایک بھاری بوجھ گزشتہ چالیس سالوں سے اپنے کاندھوں پر لادے ہوئے تھے ، اب انہوں نے امانت کا یہ بوجھ اپنے کندھوں سے ہٹا کر آنے والی نسلوں کے کاندھوں پرڈال دیا ہے ، مصنف کے یہ الفاظ اس کے مصداق ہیں ۔
﴿یہ عاجز اب اب ان گنے چنے چند باقی ماندہ افراد میں سے ایک ہے ، جنہوں نے مولانا ابوالجلال ندوی کو دیکھا ، ان کو سنا ، ان کے متعلق دوسروں سے سنا ، خود انہیں پڑھا اور ان سے متعلق دوسروں کا لکھا ہوا بھی پڑھ لیا ، بس یہی سبب اس کتاب کے نام کا سبب بھی بن گیا : مولانا ابو الجلال ندوی : دیدہ و شنیدہ و خواندہ﴾
مصنف نے مشرقی یوپی کے مردم خیز علاقوں جونپور ،چریا کوٹ ، محی الدین پور ، اعظم گڑھ وغیرہ میں آج سے ایک صدی قبل کے علمی منظر نامہ پر خوب روشنی ڈالی ہے ،آپ نے خاندانی پس منظر کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آپ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اس فرزند کی نسل سے ہیں جوہجرت مدینہ کے دوران غارثور میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پناہ لینے اور یہاں پر ایک سانپ کے ڈسنے کے بعدحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے لعاب دہن سے شفایابی کے مشہور واقعہ کے بعد پیدا ہوئے ، اور یہ بعد الغاری صدیقی کہلاتے ہیں ، اور ان کے بارے میں مشہور ہے کہ ان پر سانپ کے ڈسے کا اثر نہیں ہوتا ، اس کا چشم دید واقعہ نصف صدی پیشتر مولانا عبد الرافع باقوی مرحوم نے ہمیں بتایا تھا۔
مصنف نے اس وقت کے دارالمصنفین کے ذکر میں بعض تلخ حقیقتوں کی نشاندہی کی ہے ، جن تنگ دستیوں میں اس ادارے سے وابستہ محققین اور مصنفین نے اپنا خون جلا یا ہے اس کی جانب اشارے بھی کئے ہیں ، انہیں جان کر دکھ ہوتا ہے ، ہمارے محدود علم کی حد تک ان حالات میں بہت زیادہ فرق اب بھی نہیں آیا ہے، دارالمصنفین کے مادی حالات اب بھی وہی ہیں جن کا تذکرہ مصنف نے کیا ہے ۔ مولانا کوثر نیازی کی کوششوں سے اگر پاکستان سے رایلٹی کی مد میں پندرہ لاکھ روپئے مل بھی گئے تھے تو ادارے میں کتابوں کی چھپائی اور اس پر آنے والے اخراجات کے سامنے یہ مبلغ اونٹ کے منہ میں زیرہ کی حیثیت رکھتا ہے ، باوجود اس کے اس میں دو رائے نہیں کہ نیازی مرحوم کی کوششیں ان شاء اللہ آپ کے لئے توشہ آخرت بنیں گی ۔
مصنف نے کتاب کو بارہ فصلوں میں تقسیم کیا ہے ۔
فصل اول میں اپنے تایا مولانا ابو الجلال صاحب سے وابستہ بچپن یادوں کو دلچسپ پیرائے میں بیان کیا ہے۔
فصل دوم میں چریاکوٹ کی سرزمین سے اٹھنے والے والی شخصیات کا کا تذکرہ ہے، جنہوں نے جونپور کو مشرق کا شیراز بنادیا تھا ، ان میں مولانا عنایت رسول ، ان کے بھائی مولانا فاروق چریاکوٹی جیسے بزرگوں کاذکرہے جن سے سرسید احمد خان اور علامہ شبلی نے کسب فیض کیا ، اور ان کے پڑھانے اور طلبہ میں علمی صلاحیت پیدا کرنے کے انداز تعلیم کا بیان ہے
فصل سوم : ندوۃ العلماء کا ذکر ہے جہاں آپ نے علامہ شبلی سے فیض حاصل کیا ، اور علامہ سید سلیمان ندوی کی رفاقت پائی ، ندوے میں آپ کے اساتذہ میں سے شبلی فقیہ ، مولانا امیر علی محدث ( مصنف تفسیر مواہب الرحمن) شیخ خلیل عر ب کے والد شیخ محمد عرب کی زندگی پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔
فصل چہارم :آبائی گاوں محی الدین پور کا ذکر ہے۔
فصل پنچم: آپ کی دارالمصنفین اعظم سے پہلی وابستگی۔
فصل ششم: مولانا کی دارالمصنفین سے رخصت اور مدراس کے جمالیہ عربی کالج کا اہتمام۔
فصل ہفتم: مدراس سے بیس سال بعد واپسی اور دوبارہ دار المصنفین سے دوبارہ تعلق اور اعلام القرآن کی تصنیف۔
فصل ہشتم : دوبارہ مدراس روانگی۔
فصل نہم : موہنجڈاروں کی زبان کا علم ، اور اس کی دوہزار سے زیادہ مہروں کے پڑھنے کی تفصیلات ۔
فصل دہم : تحریک خلافت سے وابستگی ۔
فصل یازدہم : ذوق شعری اور نمونہ کلام۔
فصل آخر ؛ مختلف مضامین کے اقتباسات ۔
جاری
واٹس اپ : 00971555636151