تبصرہ کتب :1- اسلام ، انسانی حقوق کا پاسپان ۔۔۔ 02-مجلہ پیغام صائب 2017 ۔۔۔۔ تحریر : ملک نواز اعوان

نام کتاب:اسلام ،انسانی حقوق کا پاسبان مصنف: حضرت مولانا سید جلال الدین عمری حفظہ اللہ۔ امیر جماعت اسلامی ہند صفحات: 184 قیمت 90 روپے بھارتی ناشر:مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی 25 ڈی 307 ‘ دعوت نگر ابوالفضل انکلیو جامعہ نگر نئی دہلی 110025 بھارت فون نمبر:26984347/2698165۲ فیکس:26987858 ای میل:mmipub@nda.srl.net ویب گاہ:www.mmipublishers.net حضرت مولانا سید جلال الدین عمری حفظہ اللہ (پ:1935ء) عالم اسلام کے ایک جید عالم دین، بہترین خطیب، ممتاز محقق اور صاحبِ طرز مصنف کی حیثیت سے معروف ہیں۔ قرآن و سنت سے گہری واقفیت کے ساتھ جدید افکار پر ان کی اچھی نظر ہے۔ موضوع کا تنوع، اسلوب کی انفرادیت، طرزِ استدلال کی ندرت اور زبان و بیان کی شگفتگی ان کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ مولانا عمری جنوبی ہند کی معروف دینی درس گاہ جامعہ دارالسلام عمر آباد(تمل ناڈو) کے فارغ التحصیل، مدراس یونیورسٹی سے منشی فاضل (فارسی کورس) اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے انگریزی کے گریجویٹ ہیں۔ وہ اس وقت جماعت اسلامی ہند کے امیر، جامعۃ الفلاح بلیریا گنج کے شیخ الجامعہ، سراج العلوم نسواں کالج علی گڑھ کے سرپرست اعلیٰ، ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ اور تصنیفی اکیڈمی دہلی کے صدر، مشہور سہ ماہی مجلہ ’تحقیقاتِ اسلامی‘ علی گڑھ کے بانی مدیر ہیں۔ تقریباً پانچ سال تک وہ ماہنامہ ’زندگی نو‘ دہلی کی ادارت کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں۔ مولانا عمری کی مختلف موضوعات پر چار درجن سے زائد کتابوں کے ترجمے عربی، انگریزی، ترکی، ہندی، ملیالم، تلگو، مراٹھی، گجراتی، بنگلہ اور تمل میں ہوچکے ہیں۔ پیش نظر کتاب ’’اسلام۔ ۔ ۔ انسانی حقوق کا پاسبان‘‘ میں مصنف نے بڑے عالمانہ انداز میں انسانی حقوق اور اس کے تاریخی پس منظر کی وضاحت کے ساتھ اسلام کی تعلیمات کو تفصیل سے پیش کیا ہے۔ امید ہے یہ کتاب آج کے ایک زندہ موضوع ’انسانی حقوق‘ پر اسلامی نقطۂ نظر کو سمجھنے میں مفید اور کارآمد ہوگی۔ اس مفید اور معلومات افزا گراں قدر کتاب کا یہ تیسرا ایڈیشن ہے۔ مولانا عمری تحریر فرماتے ہیں: ’’اسلام۔ ۔ ۔ انسانی حقوق کا پاسبان کی یہ تیسری اشاعت ہے جو کسی قدر نظرثانی کے بعد پیش کی جارہی ہے۔ اس کا انگریزی، ہندی، تلگو، تمل اور کنڑ میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ راقم نے ایک موقع پر اس کتاب کی تلخیص ’اسلام اور انسانی حقوق‘ کے عنوان سے پیش کی تھی۔ اس کے کتابچہ کی شکل میں تین ایڈیشن نکل چکے ہیں۔ اس کا انگریزی ترجمہ بھی شائع ہوچکا ہے۔ میری ایک اور کتاب ’کم زور اور مظلوم اسلام کے سایہ میں‘ بھی اسی موضوع پر ہے۔ اس میں موضوع کے بعض گوشے زیادہ وضاحت کے ساتھ سامنے آئے ہیں۔ اس کا انگریزی اور ہندی ترجمہ بھی دست یاب ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان حقیر خدمات کو شرفِ قبولیت سے نوازے اور تاحیات اس کے دین کی مزید خدمت کی توفیق عنایت فرمائے۔‘‘ اس کتاب میں جن موضوعات پر تحقیق پیش کی گئی ہے وہ درج ذیل ہیں: انسانی حقوق کا تصور (تاریخی پس منظر) بنیادی تصورات ’’بنیادی تصورات‘‘،’’اللہ خالق و مالک ہے‘‘،’’انسان کا وجود اللہ کی مشیت کے تابع ہے‘‘،’’کائنات سے استفادہ کا ہر شخص کو حق ہے‘‘،’’انسان صرف ایک خدا کا بندہ ہے‘‘،’’مذہبی غلامی کا جواز نہیں ہے‘‘،’’انسان محترم ہے‘‘،’’اللہ تعالیٰ فرماں روائے حقیقی ہے‘‘،’’اجتہاد کا حق حاصل ہے‘‘،’’اخلاق اور قانون کا تعلق‘‘، ’’اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کا احساس‘‘ فرد کے شخصی اور ذاتی حقوق ’’زندہ رہنے کا حق‘‘، ’’حقِ مساوات‘‘،’’عدل و انصاف کا قیام‘‘،’’قانون کی برتری‘‘، ’’ریاست حقوق کی نگراں ہے‘‘، ’’جرم عدالت سے ثابت ہوگا‘‘،’’کسی کو غلام نہیں بنایا جاسکتا‘‘، ’’کسی کو ناحق سزا نہیں دی جاسکتی‘‘،’’عزت و آبرو کا حق‘‘، ’’سفر کا حق‘‘،’’مظلوم کا حق‘‘ بنیادی ضروریات کی تکمیل کا حق ’’انسان کی بنیادی ضروریات‘‘، ’’معاشی جدوجہد‘‘، ’’لباس‘‘، ’’مکان‘‘، ’’خادم اور سواری‘‘، ’’معاشی خوش حالی‘‘، ’’حکومت کی ذمہ داری‘‘، ’’دنیا مقصود نہ بن جائے‘‘ سماجی و معاشرتی حقوق ’’فکرکی آزادی‘‘، ’’عمل کی آزادی‘‘، ’’اظہار خیال کی آزادی‘‘، ’’خاندان بسانے کا حق‘‘، ’’نجی زندگی میں عدم مداخلت‘‘، ’’کسی کے گھر بلااجازت داخلہ کی ممانعت‘‘، ’’ملک و ملت کی خدمت کا حق‘‘، ’’تنقید اور اصلاح کا حق‘‘ کمزور افراد اور طبقات کے حقوق ’’عورت کے حقوق‘‘، ’’بیوی کے حقوق‘‘، ’’بیوہ کے ساتھ حسنِ سلوک اوراس کے حقوق‘‘، ’’یتیموں کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کے حقوق‘‘، ’’غلاموں اور محکوموں کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کے حقوق‘‘، ’’محتاجوں اور مسکینوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کے حقوق‘‘، ’’ضعیفوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کے حقوق‘‘ معذور کے اخلاقی اور قانونی حقوق ’’صبر کی تلقین‘‘، ’’ذمہ داریوں میں تخفیف‘‘، ’’صلاحیتوں کا اعتراف‘‘، ‘‘معذور دہرے اجر کا مستحق ہے‘‘، ’’معاشرے کی ذمہ داری‘‘، ’’عزت کا مقام دیا جائے‘‘، ’’حسنِ سلوک کیا جائے‘‘، ’’دل جوئی کی جائے‘‘، ’’بدسلوکی نہ کی جائے‘‘، ’’پاگل غیر مکلف ہے‘‘، ’’پاگل سے متعلق بعض احکام‘‘، ’’کم زور عقل والوں کی رعایت‘‘، ’’معذور کی کفالت‘‘ دفاع کا حق ’’دفاع میں جان دینا شہادت ہے‘‘، ’’دفاع ایک قانونی حق ہے‘‘، ’’اپنی ذات کا دفاع‘‘، ’’کیا اپنی ذات کا دفاع واجب ہے؟‘‘، ’’مال کا دفاع‘‘، ’’کیا مال کا دفاع واجب ہے؟‘‘، ’’خاندان اور بیوی بچوں کا دفاع‘‘، ’’عفت و عصمت کا دفاع‘‘، ’’کیا عفت و عصمت کا دفاع واجب ہے؟‘‘، ’’دفاع میں تعاون‘‘، ’’دفاع کرنے والے پر حملہ آور کے نقصان کی ذمہ داری نہیں ہے‘‘، دفاعی اقدام میں الاسہل فالاسہل کا اصول‘‘، ’’کسی بھی اقدام کا فیصلہ حالات کے تحت ہوگا‘‘، ’’دفاعی اقدام کے لیے ثبوت چاہیے‘‘، دفاعی اقدام حملہ کے وقت ہوگا‘‘، ’’خلاصۂ بحث‘‘ مذہب کی آزادی کا حق ’’عقیدہ اور مذہب کے لیے جبر کی اجازت نہیں ہے‘‘، ’’اللہ کے رسولوں کا احترام‘‘، ’’ذمیوں کے حقوق‘‘، ’’شخصی قوانین پر عمل کا حق‘‘، ’’مذہب پر گفتگو ہوسکتی ہے‘‘، ’’مذہب پر گفتگو کے حدود‘‘ کتابیات کتاب کے دیباچے میں مولانا عمری تحریر فرماتے ہیں: ’’اس دنیا میں جو انسان پیدا ہوتا ہے کچھ حقوق لے کر پیدا ہوتا ہے، لیکن دنیا نے یہ حقوق کبھی اسے دیے اور کبھی وہ ان سے محروم رہا۔ کسی کو ان حقوق کا ملنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ان ہی سے اس کی عظمت اور ترقی وابستہ ہے۔ یہ اسے رفعت اور بلندی کی طرف لے جاتے ہیں۔ یہ اس سے چھن جائیں تو وہ ذلت اور پستی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور اس کی ترقی کے سارے امکانات ختم ہوجاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ حقوق کیا ہیں، اورکیا سب انسانوں کے یکساں حقوق ہیں یا ان کے درمیان فرق ہے؟ یہ حقوق کیسے حاصل کیے جائیں اور ان کے تحفظ کی کیا صورت ہے؟ موجودہ دور میں یہ سوال، بعض تاریخی اسباب کی بنا پر پوری فضا میں گشت کررہا ہے اور ہر طرف اس کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ مختلف ملکوں میں ان حقوق کی صورت حال دیکھی جاتی ہے، اس کا جائزہ اور نقد و احتساب ہوتا ہے، سماج میں ان کا شعور پیدا کرنے کی سعی کی جاتی ہے، قانون اور عدالت کے ذریعے ان کی حفاظت کے اقدامات کیے جاتے ہیں، اس کے لیے سماجی، معاشی اور سیاسی قوت بھی استعمال میں لائی جاتی ہے۔ ان کوششوں کی اہمیت اور قدروقیمت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ بعض اوقات ان کے بہترنتائج بھی دیکھنے میں آتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ یہ سوال بھی بار بار پوری شدت کے ساتھ ابھرتا ہے کہ یہ کوششیں کس حد تک غیر جانب دار اور تعصب و تحزب سے پاک ہیں؟ عالمی سطح پر حقوق کے نگراں ان کوششوں کو دوسروں کے حقوق کی پامالی کا بہانہ تو نہیں بنارہے ہیں؟ حقوقِ انسانی کے سلسلے میں اسلام کا تصور بہت ہی واضح اور اس کا کردار بالکل نمایاں ہے۔ اس نے فرد اور جماعت اور مختلف سطح کے افراد اور طبقات کے حقوق کا تعین کیا اور عملاً یہ حقوق فراہم کیے۔ جن افراد اور طبقات کے حقوق ضائع ہورہے تھے ان کی نصرت و حمایت میں کھڑا ہوا، اور جو لوگ ان حقوق پر دست درازی کررہے تھے ان پر سخت تنقید کی اور انہیں دنیا اور آخرت کی وعید سنائی، معاشرہ کو ان کے ساتھ بہتر سلوک کی تعلیم و ترغیب دی اور ہمدردی و غم گساری کی فضا پیدا کی۔ قرآن مجید انسانی حقوق کی ان کوششوں کی اساس ہے اور احادیث میں ان کی قولی و عملی تشریح موجود ہے۔ قرآن و حدیث کا اندازِ بحث و نظر مروجہ قانونی کتابوں کا سا نہیں ہے۔ قانون کی کتابیں حقوق کا دفعہ وار ذکر کرتی اور حسبِ ضرورت ان کی تشریح کرتی ہیں۔ قرآن مجید کا طرزِ گفتگو اخلاقی بھی ہوتا ہے اور قانونی بھی۔ وہ جب اخلاق کا ذکر کرتا ہے تو ادائے حقوق کو سیرت و اخلاق کے لازمی تقاضے اور اعلیٰ کردار کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔ وہ ان لوگوں کی ستائش اور تعریف کرتا ہے جو ہر ایک کا حق ادا کرتے ہیں، اور انہیں دنیا اور آخرت میں فلاح و کامرانی کی بشارت دیتا ہے، اور جہاں ظلم و ستم اور حقوق کی پامالی ہو وہ اس کے سنگین نتائج سے آگاہ کرتا اور اس پر جہنم کی وعید سناتا ہے۔ اس کے ساتھ وہ ان حقوق کا قانونی الفاظ میں بھی ذکر کرتا ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ کسی حق کا ایک ہی جگہ ذکر کرے، اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ اس کا ایک پہلو ایک جگہ اور دوسرا پہلو دوسری جگہ بیان کرتا ہے۔ احادیث کا بھی یہی انداز ہے۔ اس لیے کسی حق کو جاننے کے لیے پورے قرآن اور ذخیرۂ حدیث کو دیکھنا پڑتاہے۔ ہمارے فقہاء کرام اور ماہرینِ شریعت نے تفصیل سے اس پر غور کیا ہے اور حقوق کے تعین کی، اپنے دور کے حالات و ظروف کے لحاظ سے کوشش کی ہے۔ اسلامی قانون کو سمجھنے میں اس سے بڑی مدد ملتی ہے۔ اس عاجز کو اس موضوع سے ایک عرصے سے دلچسپی رہی ہے۔ اس کے بعض پہلوؤں پر اس کی تحریریں شائع ہوچکی ہیں۔ پیش نظر کتاب اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس میں براہِ راست اس موضوع سے متعلق قرآن و حدیث کی تعلیمات تفصیل سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس موضوع پر قدیم علماء و فقہاء کے بے نظیر کام سے بھی ممکنہ حد تک استفادہ کیا گیا ہے، جن حقوق پر راقم کی دوسری کتابوں اور مضامین میں تفصیل سے بحث موجود ہے، اِس کتاب میں بہت ہی اختصار کے ساتھ بلکہ چند جملوں میں ان کے ذکر پر اکتفا کیا گیا ہے۔ اس سب کے باوجود کچھ ایسے حقوق بھی ہیں جن کا ذکر آنے سے رہ گیا ہے، لیکن پوری کتاب کی روشنی میں ان کے سلسلے میں اسلام کے مؤقف کو آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔ انسانی حقوق کے سلسلے کی جدید معلومات ڈاکٹر، ایس سبرامینیم (Dr.S. Subramaniam) کی کتاب Human Rights-International Challenges سے لی گئی ہیں۔ یہ کتاب دو جلدوں میں شائع ہوئی ہے۔ کتاب کا انداز خالص قانونی نہیں ہے بلکہ جس حق کا ذکر کیا گیا ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کی توضیح و تشریح اور حسبِ موقع معاشرے پر اس کے اثرات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ کہیں کہیں حقوق کی قانونی حیثیت واضح کرنے کے ساتھ اس سے متعلق اسلام کی اخلاقی تعلیمات بھی بیان ہوئی ہیں۔ اخلاق اور قانون کا رشتہ بہت قوی ہے۔ کسی فرد یا معاشرے میں اخلاقی حس بیدار ہوجائے تو وہ قانون سے زیادہ کارگر ہوتی ہے اور آدمی بغیر کسی جبر کے، خوش دلی سے ہر ایک کا حق ادا کرنے لگتا ہے۔ بعض مباحث میں فقہاء کرام کی آراء اور ان کے اختلافات کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ اس سے حقوق کے نئے گوشے واضح ہوتے ہیں اور شریعت میں جو وسعت اور گنجائش پائی جاتی ہے وہ سامنے آتی ہے۔ کوشش اس بات کی رہی ہے کہ موضوع سے متعلق اسلام کی مستند تعلیمات پیش کی جائیں تاکہ کسی بھی موقع پر اعتماد کے ساتھ اس کا حوالہ دیا جاسکے۔ اس حقیر سی کوشش میں چھوٹی بڑی بہت سی خامیوں کا امکان ہے۔ اہلِ علم سے درخواست ہے کہ وہ ان سے ضرور مطلع فرمائیں، اللہ جزائے خیر سے نوازے گا، یہ عاجز شکر گزار ہوگا اور آئندہ ان کی اصلاح کردی جائے گی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے شرفِ قبولیت سے نوازے اور کوتاہیوں سے درگزر فرمائے۔‘‘ کتاب بڑے اہم موضوع پر ہے۔ موجودہ زمانے میں بنیادی انسانی حقوق پر اسلامی نقطہ نظر سے بہت سی تحقیقات شائع ہوئی ہیں لیکن مولانا عمری نے قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ عمدہ تحقیق پیش کی ہے۔ مولانا عمری کی کتابیں اسلامی ریسرچ اکیڈمی کراچی سے شائع ہوتی ہیں۔ تحریک اسلامی کے ہر فرد کو اس قسم کی علمی کتب کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے۔ اپنی علمی استعداد کو بڑھانا چاہیے۔ کتاب سفید کاغذ پر عمدہ طبع ہوئی ہے۔ --------------------------- مجلہ:پیامِ صائب2017 ء زیراہتمام:کامکس کالج پبلی کیشن کمیٹی۔ کامکس کالج ایس ٹی 9 ،بلاک 13، گلستان جوہر کراچی سرپرست:کمانڈر(ریٹائرڈ) عبدالرزاق (پی این) بہت زیادہ پرانی بات نہیں ہے، یہی ایک دو عشرے پہلے جب کراچی میں گورنمنٹ کے بنائے ہوئے کالج آباد ہوتے تھے اُن میں طلبہ و طالبات اپنے اساتذہ کے ہمراہ مختلف نصابی و غیرنصابی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیتے تھے۔ بیشترکالجوں میں تقریری مقابلے، تحریری مقابلے، کھیلوں کی سرگرمیاں، ہفتہ طلبہ۔ ۔ ۔ یہ سب معمول کی باتیں تھیں۔ ان کے ذریعے طلبہ و طالبات کی صلاحیتیں بھی پروان چڑھتی تھیں اور عملی زندگی کا تجربہ بھی حاصل ہوتا تھا۔ اس میں کالجوں کے مجلے شائع کرنا بھی ایک معمول کا کام ہوتا تھا۔ کئی کالجوں کے تو مجلہ جات کا انتظار ہوتا تھا، اس لیے کہ وہ اپنی ایک تاریخ لیے ہوتے تھے۔ جامعہ کراچی کا مجلہ ’الجامعہ‘ تو اپنی ایک شناخت رکھتا تھا اور اپنی صوری و معنوی دونوں اعتبار سے ایک شاہکار ہوتا تھا۔ لیکن اب کراچی میں وہ دور آگیا کہ سرکاری کالجوں کی عمارات بھوت بنگلوں میں تبدیل ہوگئیں اور وہاں کے اساتذہ صرف نجی ٹیوشن سینٹرز میں ٹیوشن پڑھانے پر لگ گئے، تعلیم کی تجارت عام ہوگئی اور اسکول کالجوں نے ایک انڈسٹری کا روپ دھار لیا۔ ایسے حالات میں کچھ دردِ دل رکھنے والے اٹھے اور انہوں نے ایک ایسے تعلیمی ادارے کی داغ بیل ڈالی جو تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی کراچی کی ایک شناخت بن گیا۔ کامکس کالج کراچی ایک ایسا ہی تعلیمی ادارہ ہے جو بغیر کسی نفع کے کراچی کے نوجوان طلبہ و طالبات کو تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی فراہم کررہا ہے۔ اس کی داغ بیل کراچی ہی کے ان معتبر اور باصلاحیت لوگوں نے ڈالی جو گورنمنٹ کامرس کالج کے فارغ التحصیل تھے۔ ایک طویل عرصے کے بعد کامکس کالج کا مجلہ ’پیام صائب‘ نظر سے گزرا۔ ایک نجی تعلیمی ادارے کا یہ مجلہ یقینا اس بات کا مستحق ہے کہ اس پر بات کی جائے۔ آج جبکہ ہم یہ شکوہ کرتے ہیں کہ نوجوان کتاب سے دور ہوگئے ہیں، اس میں اس خوبصورت معلومات سے بھرپور مجلہ کا شائع ہونا اس بات کی نفی کررہا ہے کہ آج کا طالب علم کتاب سے دور ہے۔ وہ یقینا کتاب سے محبت کرتا ہے اگر کتاب میں پڑھنے کے لیے کچھ ہو۔ 300 سے زائد صفحات کا یہ مجلہ کہ جسے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، ایک حصہ اردو کے لیے اور دوسرا انگلش کے لیے مخصوص ہے۔ لیکن دونوں حصوں کو دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ دونوں پر مکمل توجہ دی گئی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اردو والے حصے کو محض دکھانے اور بھگتانے کے لیے رکھا ہو۔ اردو کا حصہ بھی اتنا ہی جاندار مواد اور خوبصورتی کے لحاظ سے ہے جتنا کہ انگلش کا حصہ۔ اس طرح دونوں حصوں کے ساتھ برابری کا سلوک کیا گیا ہے۔ مختلف شعراء کے اشعار، نثر نگاروں کی نگارشات اور طلبہ و طالبات کی کاوشوں نے ان دونوں حصوں کی خوبصورتی کو چار چاند لگادیے ہیں۔ طلبہ و طالبات کے ساتھ ساتھ اساتذہ کرام اور غیرتدریسی ذمہ داران نے بھی اپنی نگارشات دونوں حصوں کے لیے دی ہیں۔ اس مجلہ سے یہ بات بھی پتا چلی کہ کالج میں کھیلوں کے مقابلوں کے ساتھ ساتھ تقریری و تحریری مقابلے بھی ہوتے ہیں، جن کی تصاویر اس مجلہ کی زینت ہیں۔ طلبہ و طالبات نے جس طرح اس مجلہ میں عصرِ حاضر کے مسائل کو لکھ کر ان کے حل کے لیے تجاویز پیش کی ہیں وہ قابل قدر ہیں۔ پرنسپل و سرپرستِ مجلہ جناب کمانڈر (ریٹائرڈ) عبدالرزاق(پی این) خاص طور پر مبارکباد کے مستحق ہیں کہ آپ نے اس خوبصورت و بامعنی مجلہ کو شائع کرنے میں خصوصی دلچسپی لی۔ ساتھ ساتھ رضوانہ قیصر انچارج اردو سیکشن، مدیر اویس خان، چیف ایڈیٹر انگلش سیکشن محترمہ ارم اظہار اور ایڈیٹر عمر احمد، اس کے ساتھ تمام طلبہ و طالبات خصوصی مبارکباد کے مستحق ہیں کہ جنہوں نے اس مجلہ میں اپنی نگارشات پیش کی اور اس کی اشاعت میں کوئی کردار ادا کیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دیگر کالجوں کو بھی اس طرح کے مجلہ جات شائع کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ طلبہ و طالبات کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوسکے اور اس تاثر کو ختم کیا جاسکے کہ آج کا طالب علم کتابوں سے دور ہوگیا ہے۔ فرائیڈے اسپیشل