مودی حکومت ملّی گزٹ کو بند کرنے کے درپے ہے

Bhatkallys

Published in - Other

12:28PM Wed 29 Jun, 2016
از ڈاکٹر ظفرالاسلام خان ایڈیٹر ملی گزٹ ملی گزٹ نے اپنی ۱۷سالہ زندگی میں بہت سی دھمکیوں اور چیلنجز کا سامنا کیا ہے۔ مجھے خود کئی مرتبہ جان سے مارنے کی دھمکیاں ملی ہیں۔ ملی گزٹ کی ویب سائٹ کی وجہ سے اسکے سالانہ اشتراکات میں کمی آنااور اس اخبار میں ہماری قوم کی دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے اسکا مستقل خسارے میں رہنا بھی ہماری مشکلات رہی ہیں جنکی وجہ سے ہمیں مجبوراً دو مرتبہ اسکو بند کرنے کے بارے میں سوچنا پڑا، حالانکہ ٹھنڈے دل سے غور کرنے پر ہمیں دونوں باراس سخت قدم سے گریزکرنا پڑا کیونکہ ہم اس بات کو بخوبی سمجھتے تھے کہ انگریزی میں ہماری قوم کی اس آواز کو ماضی کے کسی زمانے کی بہ نسبت آج نہ صرف ہندوستان میں بلکہ پوری دنیا میں زیادہ ضرورت ہے۔ اور اب اس سال ۱۲ مارچ سے ایک آر ٹی آئی کے جواب میں وزارت آیوش میں تقرری کے سلسلے میں مسلمانوں کے خلاف تفریق برتنے پر ایک رپورٹ شائع کرنے کے بعد سے ہمیں مودی حکومت سے اپنے وجود کے بارے میں بھی خطرہ محسوس ہونے لگاہے۔ اس وزارت نے مذکورہ رپورٹ کی صحت سے انکار کیا لیکن اگر اس وزارت نے اس رپورٹ پر ہمیں اپنا جواب بھیج دیا ہوتا یا اگر ہم نے اس کے جواب یا وضاحتی بیان کو نہ چھاپا ہوتا یا چھاپنے سے انکار کیا ہوتا تو اسے حق حاصل تھا کہ وہ پریس کاؤنسل آف انڈیا میں ہمارے خلاف شکایت درج کرائے۔لیکن وزارت آیوش نے اس کے خلاف پولیس میں شکایت کر دی جس کی وجہ سے ہمارے نامہ نگار(پشپ شرما) سے پولیس نے کئی دنوں تک سختی کے ساتھ نہ صرف سوال جواب کیا بلکہ بعد میں اسے گرفتار کرکے تقریبا دو ہفتے تک جیل میں رکھا۔ حالانکہ اب انھیں ضمانت پر رہا کرالیا گیا ہے لیکن مقدمہ عدالت میں حسب معمول سُست رفتار سے چلتارہے گا۔ اس کے بعدجلدہی، یعنی ۲۱ اپریل کو، پریس کاؤنسل آف انڈیا نے ملی گزٹ کے خلاف از خو د(سوو موٹو) کیس درج کیا جسکی شاید ماضی میں کو ئی نظیر نہیں ہے۔ وہ ادارہ جو بظاہر آزادیِ تحریر کی حفاظت کے لئے قائم کیا گیا ہے اب وہ خود اس آزادی کا گلا گھونٹنے کے درپے ہو گیاہے۔بہر حال ہم نے پریس کاؤنسل آف انڈیا (PCI) کے نوٹس کا جواب دے دیا ہے اور اگلی ۱۲ جولائی کو اس کیس میں ہماری پہلی پیشی ہونی ہے۔ تیسرا جھٹکا ہمیں دلی پولیس سے لگا (جو براہ راست مرکزی وزرات داخلہ کے کنٹرول میں ہے) جب ڈی سی پی لائسنسنگ نے ۳۰ مئی کو ہمیں ’’وجہ بتاؤنوٹس‘‘ بھیج کرہم سے پوچھا کہ ہمارا پریس اعلا نیہ Press Declaration یعنی اخبار چھاپنے کا لائسنس کیوں نہ منسوخ کر دیا جائے؟ ہم نے اس ’وجہ بتاؤ‘ نوٹس کا جواب فوراً دیدیا ہے لیکن تین ہفتے سے زیادہ وقت گذرجانے کے بعد بھی ڈی سی پی لائسنسنگ کے دفتر سے مزید مطلوبہ وضاحت کا ہمیں ابھی تک انتظار ہے۔ یہ تمام سخت اقدامات ایک معمولی سی رپورٹ پر کئے گئے ہیں جسکو سی بی آئی کے ۱۵ جون ۲۰۱۶ کے پریس بیان کی طرح حل کیا جاسکتا تھا جو اس نے ٹائمز آف انڈیا اخبار کی اسی دن کی رپورٹ کے بارے میں جاری کیا ہے جس میں ویاپم گھوٹالہ کے بارے میں سی بی آئی کی سُست رفتاری اورنرم طریقہ کو بیان کیا گیا تھا۔ سی بی آئی نے اُسی دن ایک پریس بیان جاری کیا جسمیں ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کو’’ خیالی ‘‘اور ’’حد سے متجاوز‘‘ قرار دیتے ہوئے اس رپورٹ کا’’سختی سے انکار‘‘ کیا تھا۔ اسمیں کوئی شک نہیں ہے کہ سی بی آئی کایہ بیان انتہائی سخت تھا لیکن ہمیں اسکے بارے میں کچھ اطلاع نہیں کہ سی بی آئی، پریس کاؤنسل یا ڈی سی پی لائسنسنگمیں سے کسی نے ٹائمز آف انڈیاکے خلاف کوئی کارروائی کی ہو۔کیا یہاں دو پیمانوں کا استعمال نہیں کیا جارہا ہے یعنی ایک پیمانہ چھوٹے اخباروں کے لئے اور دوسرا دیوقامت اخباروں کے لئے؟ ملی گزٹ کے خلاف یہ تین طرفہ حملہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ مودی حکومت نے ایک چھوٹے سے اخبار کو خاموش کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس نا انصافی کے خلاف تمام قانونی وسائل کے ذریعہ، جو ہمیں دستیاب ہیں، ہم لڑ رہے ہیں اور لڑتے رہیں گے۔ لیکن اگر مودی حکومت ہماری اس کمزور آواز کو خاموش کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے توہم کوئی دوسرا پرچہ نہیں نکالیں گے بلکہ اس ظلم کو تاریخ کے حوالے کر دیں گے تاکہ اسے آزادیِ تحریر کے ساتھ ایک عظیم ناانصافی کے طور پر یادکیا جائے جیساکہ انگریز حکمرانوں نے مولانا ابوالکلام آزاد کے البلاغ اور محمد علی جوہر کے ہمدرد اور کامریڈ کے ساتھ کیا تھا۔ )ختم)