گائے کے بارے میں ویر ساورکر کا تبصرہ۔۔از:حفیظ نعمانی

Bhatkallys

Published in - Other

11:32AM Wed 14 Jun, 2017
ہندو مہا سبھا ، آر ایس ایس ، جن سنگھ ، وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل قبیلہ میں ایک نام بہت احترام سے لیا جاتا ہے۔ اور وہ ہے  ویر ساورکر جن کے بارے میں اس قبیلہ کی زبان پر رہتا ہے کہ  یہ وہ منفرد شخصیت ہے جسے انگریزوں نے بھی جیل میں ڈالا اور کالے پانی بھیجا اور بعد میں کانگریس کی حکومت نے بھی جیل میں بند کیا ۔ ایک مرتبہ جب مایاوتی نے بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت بنائی تھی اس وقت ہریانہ ایک زعفرانی لیڈر اترپردیش کے گورنر تھے۔ اردو اکادمی کی ایک  تقریب میں ان کی تقریر ہم نے بھی سنی تھی انہوں نے ذکر کیا کہ میں صرف یہ دیکھنے کے لئے جزائر انڈمان گیا تھا کہ کالا پانی کیا ہے؟ میں نے ہر طرف اندر باہر چل کر دیکھا مجھے ہر دیوار پر صرف ایک نام کھلا ہوا نظر آیا اور وہ ویرساورکر کا تھا۔ اور اس کے بعد ان کی عظمت اور قربانیوں کی انہوں نے وہ فہرست سنادی۔ ان کے نزدیک سب سے ممتاز ہندو لیڈر اور قومی لیڈر ویرساورکر تھے۔ ٹائمس آف انڈیا نے ان کے ایک مضمون کے حوالہ سے بتایا ہے کہ وہی ہیں جنہوں نے ہندو توکی اصطلاح رائج کی تھی اور وہی ہند تو کے نظریہ کے بانی ہیں۔ یہ وہی اصطلاح ہے جسے بی جے پی نے اپنی آئیڈیا لوجی کا درجہ دے رکھا ہے۔ ویر ساورکر ہندو مہا سبھا کے صدر بھی رہے ہیں اور ہندو مہا سبھا جن سنگھ اور بھارتیہ جنتا پارٹی دونوں سے پرانی پارٹی ہے۔ 1930کے ایک مراٹھی رسالہ میں ایک مضمون چھپا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ جو گائے کو ماں سمجھے وہی حقیقی ہندو ہے۔ ہندو کی اس تعریف پر ساورکر نے سخت اعتراض کیا تھا اور کہا تھا کہ گائے اگر کسی کی ماں ہوسکتی ہے تو وہ صرف بیل ہے۔ ہندو نہیں۔ ویر ساورکر نے گائے  کو مقدس سمجھ کر اس کی پوجا کرنے والوں پر بھی سخت اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ہندوتو کو گائے کے پاؤں پر زندہ رہنا ہے تو یہ بحران کی ہلکی سی علامت سے بھی ٹوٹ کر بلند ہوجائے گا۔ 1989 میں ہندوتو کو آئیڈیالوجی کا درجہ دینے والے ویر ساورکر گائے کی پوجا کے سخت خلاف تھے۔ لیکن وہ  گائے کو انتہائی مفید جانور قرار دیتے تھے ساورکر کی دلیل تھی کہ گائے کی پوجا کرنے کا کوئی مطلب نہیں ہے کیونکہ انسان کو کسی ایسے کی پوجا کرنا چاہئے جو اس سے بھی اعلیٰ انسان ہو یا اس کے اندر ایک  اعلیٰ ترین انسان کی خصوصیت ہو۔ نہ کہ ایک ایسے جانور کی پوجا کی جائے جو انسان کا محتاج ہو؟ ویر ساورکر نے گائے کی پوجا کو بھولاپن قرار دے کر اس کی پوجا کو ترک کرنے پر زور دیا تھا۔ ساورکر جی نے کہا تھا کہ اس سے زیادہ مذہب کی توہین کیا ہوگی کہ لوگ یہ سمجھیں کہ 33 کروڑ دیوی دیوتا گائے کے پیٹ میں گھسے ہوئے ہیں۔ سیاسی اختلاف اپنی جگہ لیکن جو کوئی عقل کی بات کہے اس کی تائید سب کو کرنا چاہئے۔ ہم نے اس مسئلہ کو جتنا سمجھا ہے وہ صرف یہ ہے کہ گائے کی محبت اور عظمت کی ساری عمارت اس پر ٹکی ہے کہ مسلمان سے کھاتا ہے۔ کھانے کو تو روس میں مسلمانوں سے کہیں زیادہ اور دنیا کے نہیں اپنے ہی ملک میں پوروانچل ، گوا اور اس طرف کی ریاستوں ، بنگال اور کیرالا میں مسلمانوں کے علاوہ بھی گائے  کھائی جاتی ہے۔ لیکن مسئلہ شمالی ہند کا ہے کہ ہندو ہندوستان ، صرف شمالی ہندوستان کو سمجھتا ہے۔ کیرالا میں تو الیکشن میں بی جے پی کا نعرہ تھا کہ ہماری حکومت آئی تو گائے کا گوشت سستا کریں گے۔ اور جب بھی کیرالا میں بی جے پی کی حکومت ہوگی وہاں گائے پر پابندی نہیں لگا سکتے۔ اس لئے پورے ملک میں پابندی  اور اسے قومی جانور بنانے کا فیصلہ کرنے کی مودی میں ہمت نہیں ہے۔ اب شمالی ہند میں گائے پوری طرح بند ہے۔ ہندو نے تو جان بوجھ کر شاید کبھی گائے کا گوشت نہیں کھایا۔ لیکن گائے کاٹنے کے لئے دینے میں اسے کوئی اعتراض نہیں تھا۔ رہی پوجا کی بات یہ بھی ہم نہیں جانتے  کہ ہندو گائے کی پوجا کرتے ہیں۔ ہم بھی دیکھتے ہیں اور سب نے دیکھا ہے کہ سبزی منڈی میں جو آوارہ گائیں گھومتی ہیں ان میں سے کوئی اگر سبزی کے ٹوکرے پر منہ بڑھا دے تو ایک ڈنڈا اس کی ٹانگوں یا کمر پر پڑتا ہے اور مارنے والا وہی ہندو ہوتا ہے۔ جو کہتا ہے کہ گائے ہماری ماں ہے ۔ یہ ماں وہ نہیں ہے جس نے اسے جنا ہے بلکہ یہ اس لئے ماں ہے کہ مسلمان اسے نہ کھاسکے۔ جانے کتنی بار ہم نے لکھا ہے کہ صرف 70 برس پہلے ہر شہر اور ہر قصبہ میں ہزاروں گائیں کٹتی تھیں اور قربانی مسلمان صرف گائے کی کرتا تھا۔ کوئی مسلمان بھینس کی قربانی نہیں کرتا تھا اور بہت بڑی حیثیت کے لوگ ایک یا دو بکرے اپنے اور اپنے مہمانوں کے لئے ذبح کرتے تھے۔ غریب کی بات نہیں چھوٹے درجہ کا دولت مند بھی بکرے کی قربانی نہیں کرتا تھا۔ اس وقت یہ گئو ماتا کہنے والے کہاں تھے۔ کیا ہندو دھرم 15؍اگست 1947 کے بعد آسمان سے اترا ہے؟ وہی ہندو جو قربانی کے لئے اپنی گائے مسلمان کے گھر خود لاکر دے جاتا تھا اور نوٹ گنتا ہوا چلاجاتا تھا آج وہی ہندو دودھ کا کاروبار کرنے کے لئے لے جانے والے یا ایک مویشی بازار سے دوسرے مویشی بازار فروخت کرنے کے لئے لے جانے والے  پر اعتراض کرتا ہے اور لے جانے والے مسلمان کو پیٹ پیٹ کر جان سے مار دیتا ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ گائے ہمیشہ سے مسلمانوں سے ہندوؤں کی دشمنی کا سبب رہی ہے۔ انگریز کے زمانہ میں کسی ہندو نے ہمت نہیں کی صرف اس لئے کہ گائے سے نام کی محبت ہے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ساورکر کہیں کہ وہ صرف بیل کی ماں ہے اور اس کی پوجا دھرم کی اور انسان کی توہین ہے اور یوگی مہاراج کہیں کہ دھرم ہے۔ گائے پالتا اور اس کی پوجا کرنا دو الگ الگ باتیں ہیں۔ ہمارے درجنوں دوست ہندو رہے ہیں وہ کبھی جو ہندوستان میں تھے اور وہ بھی جو پاکستان سے آئے ان میں یہ تو تھا کہ کوئی پیاز اور لہسن نہیں کھاتا تھا اور کوئی بغیر پیاز کے کھانا نہیں پکاتا تھا۔ لیکن وشنو دیوی شری رام چندر جی اور اتراکھنڈ جانے کا تو ذکر آیا ان درجنوں دوستوں میں گائے کی پوجا کسی کی زبان سے نہیں سنی۔ یہ بات تو سامنے کی ہے کہ ہندوؤں کے جو گروہوں یا جس علاقہ کے ہندو کسی کو دھرم گرو مانتے ہوں وہ اگر کسی ہندو کی پھل کی دوکان میں اتفاق سے آجائیں تو مالک سب کام چھوڑ کر انہیں پھل کھلانے پر اصرار کریں گے سیب ، انگور، خوبانی اور ہر پھل ان کی خدمت میں پیش کریں گے۔ اگر کار ہوگی تو جاتے وقت ایک تھیلہ میں پھل بھر کر ساتھ کردیں گے۔ اور درخواست کریں گے کہ اپنے پاک قدم سے پھر دوکان کو نوازیئے گا۔ اور اگر گائے نے ایک کیلا پر بھی منہ ماردیا تو وہی ہندو ایک ڈنڈا اس کے منہ پر مارے گا۔ جو ہندو کہتا ہے وہ صرف مسلمان کو یہ دکھانے کےلئے کہتا ہے کہ لو اب ہماری حکومت ہے۔ اب وہ ہوگا جو ہم چاہیں گے وہ نہیں ہوگا جو تم چاہوگے۔ اس معاملہ میں سب سے بڑا قصور کانگریس کا ہے۔ جب لال بہادر شاستری اترپردیش میں ہوم منسٹر تھے تو انہوں نے ایک عام جلسہ میں تقریر کرتے ہوئےکہا کہ مسلمان اگر گائے ذبح کریں گے تو ضرور بلوہ ہوگا۔ آزادی سے پہلے بلوہ پر تعزیری ٹیکس لگایا جا تاتھا۔ جس علاقہ میں فساد ہوتا تھا اس پورے علاقہ پر ٹیکس لگایا جاتا تھا اس سے نقصان پورا کیاجاتا تھا اور لوگ کوشش کرتے تھے کہ ان کے علاقہ میں بلوہ نہ ہو۔ رفیع احمد قدوائی اس میں بہت سرگرم تھے وزیر اعلیٰ پنتھ جی نے کہہ دیا کہ اگر گائے ذبح کرنے پر فساد ہوا تو تعزیری ٹیکس نہیں لگے گا۔ دونوں نے غلط بات کی قانون ہاتھ میں لینے کو کیوں منع نہیں کیا ۔ اور یہ کیوں نہیں کہا کہ کہیں گائے کٹ جائے تو فورا ً پولیس کو خبر کرو؟ دونوں نے ہندوؤں کو بلوہ کرنے کی آزادی دی۔ ایک بار سو چیتا کرپلانی اور کے ڈی مالویہ نے پنتھ جی سے کہا کہ جب فسادیوں کو سزا نہیں دی جائے گی تو فساد کیسے رکیں گے؟ پنتھ جی نے کہا یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ دونوں نے کہاکہ کسی ایک کو بھی سزادی ہو تو اس کا نام اپنے اسٹاف سے معلوم کرکے بتائیں اور وہ چپ ہوگئے۔ 1947سے 1993تک بڑے چھوٹے ہزاروں فساد ہوئے اور ہورہے ہیں عمل آج بھی وہی ہے جو پنتھ جی کے زمانہ میں تھا کہ مسلمان کے مارنے کے الزام میں ہندو کو سزا نہیں دی جائے گی جس کی بدترین مثال میرٹھ اور ممبئی ہے کہ 263 ہندو مرگئے الزام مسلمانوں پر تھا اس لئے چن چن کر سزا دی گئی اور انہیں تاریخوں میں ہندوؤں اور پولیس نے دوہزار مسلمان ماردیئے سزا ایک بھی ہندو کو نہیں ہوئی۔ کانگریس نے یہ تو برداشت کرلیا کہ مسلمان کے ساتھ انصاف نہ کرنے کی سزا میں حکومت چلی جائے لیکن یہ برداشت نہیں کیا کہ مسلمان کے ساتھ انصاف ہوجائے پورا بہار پورا اترپردیش پورا بنگال اڑیسہ مہاراشٹر پورا مدھیہ پردیش اور راجستھان اور ہر صوبہ گجرات کو ملا کر مسلمان کے خون سے سرخ ہونا تو کانگریس نے برداشت کرلیا اور حکومت کا قبضہ سے جانا برداشت کرلیا لیکن مسلمان کو انصاف نہیں دیا۔ ہندوستان میں ہر جگہ ہندو اور مسلمان آباد ہیں جہاں بھی ہندو ہیں وہاں انہوں نے دیکھا ہوگا کہ رمضان کا چاند ہوتے ہی پوری دنیا اور سارے ہندوستان میں مسلمان جو کررہے ہیں وہی ان کے شہر میں کررہے ہیں۔ دن میں روزہ رات کو مسجد میں دیر تک نماز، بس فرق یہ ہوگا کہ کہیں مسجد میں جلدی بھیڑ کم ہوگئی کہیں دیر میں ہوئی 30 دن کے بعد چاند ہوتے ہی ساری دنیا جیسے عید منائے گی ایسی ہی عید ان کے شہر میں بھی مسلمان منائیں گے پھر یہ کیسا دھرم ہے کہ کسی موقع پر یہ نہیں نظر آتا کہ پورے ہندوستان کا ایک ہی وقت میں ایک سی پوجا کررہے ہوں وہ گائے کی ہو یا 33 کروڑ دیوی دیوتاؤں میں سے کسی کی؟ عیسائیوں کا بھی پوری دنیا میں ایک دن ہے اور ہرجگہ ایک جیسا منظر ہوتا ہے۔ ہم ہندو دھرم پر اعتراض نہیں کررہے ہیں ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ گائے ماں بھی ہے اس کی پوجا بھی ہوتی ہے وہ جانور بھی ہے اسے کاٹنے کےلئے قصائی کے ہاتھ فروخت ہندو ہی کرتے ہیں ہندو ہی گئو ماتا کاسرکاری چارہ کھاجاتے ہیں۔ اور ہندو ہی مسلمان کو دودھ پینے کے لئے بھی نہیں لے جانے دیتے۔ ہم کس سے کہیں کہ گائے کے مسئلہ میں پورے ملک کے ہندو ایک فیصلہ کریں کہ وہ کیا ہے؟ اور جو فیصلہ ہو اسے سب مانیں اس کی ذمہ داری کون لے گا؟ ہمارا الزام اپنی جگہ ہے کہ گائے کے ساتھ جو بھی رشتہ دکھایا اور بتایا جارہا ہے وہ  جھوٹ ہے۔ اگر وہ بھگوان ہے تو ہندوستان کے ہر ہندو کے لئے ہو اور جانور ہے تو ہر ہندو کے لئے ہو اس لئے کہ دھرم تو ہر کسی کو ایک ڈوری میں پرودیتا ہے ۔ اور اگر کچھ اسے پوجیہ مانیں کچھ ماں مانیں کچھ جانور مانیں اور سب آوارہ کہیں وہ کھیت کھانے لگیں تو مار کر بھگائی جائیں تو پھر یہ دھرم نہیں ہے راج نیتی ہے۔