سچی باتیں ۔۔۔ آج کے انصار ومہاجر۔۔۔از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

03:19PM Fri 2 Apr, 2021

1928-04-20

’’اہل عرب عمومًا اور اہل یثرت خصوصًا باہمی معرکہ آرائیوں کی بدولت حسد، دشمنی، بُغض، اور کینہ توزی کے اس درجہ عادی ہوگئے تھے، کہ غیر تو غیر، خود اپنوں پر بھی کسی کو اعتماد نہ ہوتاتھا…لیکن اسلام کی برکات، اور آنحضرت ﷺ کے فیض صحبت سے یہ حالت بہت جلد بدل گئی، اور وہ دن آگیا کہ انصارؔ باہمی بُغض وعداوت کو چھوڑ کر مہاجرینؔ اور اجنبی مسلمانوں کے ساتھ وہ کریں، جو دنیا خود اپنے بڑے سے بڑے عزیز کے ساتھ نہیں کرسکتی…مہاجرینؔ جس وقت مکہ سے مدینے آئے تو اُن کے پاس کچھ نہ تھا۔ انصارؔ نے اپنی جائدادیں اُن کے لئے علیٰحدہ کردیں…انصار کی وراثت بجائے اُ ن کے اعزہ کے مہاجرینؔ کو ملتی تھی …آنحضرت ﷺ نے انصارؔ کو بحرین میں زمین دینا چاہی، تواُنھوں نے صرف اس بناپر لینے سے انکار کردیا، کہ قریش کو بھی اسی قدرملنا چاہئے‘‘۔ (سیرانصار،ص: ۹۵، ۹۶، ۹۷) ’’(آنحضرت ﷺ ) مہاجرینؔ اور انصارؔ میں سے دودوشخص کو بُلا کرفرمانے لگے، کہ یہ اور تم بھائی بھائی ہو، اور اب وہ درحقیقت بھائی بھائی تھے…انصار نے مہاجرین کو ساتھ لیجاکر گھر کی ایک ایک چیز کا جائزہ دے دیا، کہ آدھا آپ کا اور آدھا ہمارا ہے۔ سعید بن ربیع، جو عبد الرحمن بن عوف کے بھائی قرار پائے تھے، اُن کی دو بیویاں تھیں۔ عبد الرحمن سے کہا، کہ ایک کو میں طلاق دے دیتاہوں آپ اُس سے نکاح کرلیجئے۔ لیکن اُنھوں نے احسان مندی کے ساتھ انکار کردیا…یہ رشتہ (مواخات) بالکل حقیقی رشتہ بن گیا۔ کوئی انصاری مرتاتھا تواُس کی جائداد اور مال مہاجر کو ملتاتھا۔ اور بھائی بند محروم رہتے تھے…انصارؔنے مہاجرینؔ کی مہمانی اورہمدردی کا جو حق اداکیا ، دنیا کی تاریخ میں، اُس کی نظیر نہیں مل سکتی۔ بحرین جب فتح ہوا، تو آنحضرت ﷺ نے انصارؔ کو بُلاکر فرمایا کہ میں اس کو انصارؔ میں تقسیم کردینا چاہتاہوں، اُنھوں نے عرض کیا کہ پہلے ہمارے بھائی مہاجروں اتنی ہی زمین عنایت فرمالیجئے، تب ہم لینا منظور کریں گے‘‘۔ (سیرۃ النبی ، طبع اول ، ص: ۲۰۸و ۲۱۳) یہ اسلام کی پہلی صدی کے ’’انصار ‘‘ و ’’مہاجرین‘‘ کی زندگی کا نقشہ تھا۔ ایک دوسرے پر فدا ہونے کو تیار رہتے تھے، ایک دوسرے کے حق میں حقیقی بھائی سے بڑھ کرتھے۔ اسلام کی چودہویں صدی کے وسط میں بھی بعض بزرگون ، اور بعض خُردوں نے اپنے کو ’’انصار‘‘ اور ’’مہاجر‘‘ کہہ کر دنیا کے سامنے پیش کیاہے، جو ایک دوسرے کی عزت وناموس کے دشمن، ایک دوسرے کی تباہی وبربادی کے خواہاں، اور جن کا مقصد وجود محض ایک دوسرے کو زک پہونچاناہے۔ ایک انصار ومہاجر وہ تھے ایک ’’انصار ‘‘ و’’مہاجر‘‘ یہ ہیں! پہلی صدی کے انصار ومہاجرین کا کام ابو القاسم محمد رسول اللہؐ کے نام کا چمکانا، اور کام کو پوراکرنا تھا۔ چودہویں صدی کے ترقی یافتہ انصارومہاجرین نے اپنے ذمہ کام، ایک نائب رسولؐ محمد قاسم کے نام کو رسوا کرنا، اورکام کو بگاڑنا ٹھہرایاہے! زمانہ کی ترقی اس کا نام ہے! اسلام پر جو بھی وقت گزرجائے ، مسلمانان ہند اور مسلمانان عالم کے سرپر قیامت ہی کیوں نہ برپاہوجائے، لیکن الانصارؔ نے طے کرلیاہے، کہ بغیر مہاجرؔ پارٹی والوں کو چور، بدمعاش، مکار، جعلساز وجھوٹا اور کمینہ ثابت کئے دم نہ لے گا، اور مہاجرؔ نے ٹھان رکھی ہے، کہ اِدھر کی دُنیا اُدھر ہوجائے، وہ اپنی آخری سانس تک انصار کے رفقاء وانصار کو خائن ، ظالم، غدار وبدکار ہی ثابت کرکے رہے گا! یہ ہیں چودہویں صدی کے ترقی یافتہ انصار اور مہاجر! اور یہ ہیں، چودہویں صدی میں ’’ہجرت‘‘ و’’نصرتِ‘‘ دین کے قابل عبرت ، وصد ہزار عبرت نمونے!۔ http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/

 

1928-04-20

’’اہل عرب عمومًا اور اہل یثرت خصوصًا باہمی معرکہ آرائیوں کی بدولت حسد، دشمنی، بُغض، اور کینہ توزی کے اس درجہ عادی ہوگئے تھے، کہ غیر تو غیر، خود اپنوں پر بھی کسی کو اعتماد نہ ہوتاتھا…لیکن اسلام کی برکات، اور آنحضرت ﷺ کے فیض صحبت سے یہ حالت بہت جلد بدل گئی، اور وہ دن آگیا کہ انصارؔ باہمی بُغض وعداوت کو چھوڑ کر مہاجرینؔ اور اجنبی مسلمانوں کے ساتھ وہ کریں، جو دنیا خود اپنے بڑے سے بڑے عزیز کے ساتھ نہیں کرسکتی…مہاجرینؔ جس وقت مکہ سے مدینے آئے تو اُن کے پاس کچھ نہ تھا۔ انصارؔ نے اپنی جائدادیں اُن کے لئے علیٰحدہ کردیں…انصار کی وراثت بجائے اُ ن کے اعزہ کے مہاجرینؔ کو ملتی تھی …آنحضرت ﷺ نے انصارؔ کو بحرین میں زمین دینا چاہی، تواُنھوں نے صرف اس بناپر لینے سے انکار کردیا، کہ قریش کو بھی اسی قدرملنا چاہئے‘‘۔ (سیرانصار،ص: ۹۵، ۹۶، ۹۷) ’’(آنحضرت ﷺ ) مہاجرینؔ اور انصارؔ میں سے دودوشخص کو بُلا کرفرمانے لگے، کہ یہ اور تم بھائی بھائی ہو، اور اب وہ درحقیقت بھائی بھائی تھے…انصار نے مہاجرین کو ساتھ لیجاکر گھر کی ایک ایک چیز کا جائزہ دے دیا، کہ آدھا آپ کا اور آدھا ہمارا ہے۔ سعید بن ربیع، جو عبد الرحمن بن عوف کے بھائی قرار پائے تھے، اُن کی دو بیویاں تھیں۔ عبد الرحمن سے کہا، کہ ایک کو میں طلاق دے دیتاہوں آپ اُس سے نکاح کرلیجئے۔ لیکن اُنھوں نے احسان مندی کے ساتھ انکار کردیا…یہ رشتہ (مواخات) بالکل حقیقی رشتہ بن گیا۔ کوئی انصاری مرتاتھا تواُس کی جائداد اور مال مہاجر کو ملتاتھا۔ اور بھائی بند محروم رہتے تھے…انصارؔنے مہاجرینؔ کی مہمانی اورہمدردی کا جو حق اداکیا ، دنیا کی تاریخ میں، اُس کی نظیر نہیں مل سکتی۔ بحرین جب فتح ہوا، تو آنحضرت ﷺ نے انصارؔ کو بُلاکر فرمایا کہ میں اس کو انصارؔ میں تقسیم کردینا چاہتاہوں، اُنھوں نے عرض کیا کہ پہلے ہمارے بھائی مہاجروں اتنی ہی زمین عنایت فرمالیجئے، تب ہم لینا منظور کریں گے‘‘۔ (سیرۃ النبی ، طبع اول ، ص: ۲۰۸و ۲۱۳) یہ اسلام کی پہلی صدی کے ’’انصار ‘‘ و ’’مہاجرین‘‘ کی زندگی کا نقشہ تھا۔ ایک دوسرے پر فدا ہونے کو تیار رہتے تھے، ایک دوسرے کے حق میں حقیقی بھائی سے بڑھ کرتھے۔ اسلام کی چودہویں صدی کے وسط میں بھی بعض بزرگون ، اور بعض خُردوں نے اپنے کو ’’انصار‘‘ اور ’’مہاجر‘‘ کہہ کر دنیا کے سامنے پیش کیاہے، جو ایک دوسرے کی عزت وناموس کے دشمن، ایک دوسرے کی تباہی وبربادی کے خواہاں، اور جن کا مقصد وجود محض ایک دوسرے کو زک پہونچاناہے۔ ایک انصار ومہاجر وہ تھے ایک ’’انصار ‘‘ و’’مہاجر‘‘ یہ ہیں! پہلی صدی کے انصار ومہاجرین کا کام ابو القاسم محمد رسول اللہؐ کے نام کا چمکانا، اور کام کو پوراکرنا تھا۔ چودہویں صدی کے ترقی یافتہ انصارومہاجرین نے اپنے ذمہ کام، ایک نائب رسولؐ محمد قاسم کے نام کو رسوا کرنا، اورکام کو بگاڑنا ٹھہرایاہے! زمانہ کی ترقی اس کا نام ہے! اسلام پر جو بھی وقت گزرجائے ، مسلمانان ہند اور مسلمانان عالم کے سرپر قیامت ہی کیوں نہ برپاہوجائے، لیکن الانصارؔ نے طے کرلیاہے، کہ بغیر مہاجرؔ پارٹی والوں کو چور، بدمعاش، مکار، جعلساز وجھوٹا اور کمینہ ثابت کئے دم نہ لے گا، اور مہاجرؔ نے ٹھان رکھی ہے، کہ اِدھر کی دُنیا اُدھر ہوجائے، وہ اپنی آخری سانس تک انصار کے رفقاء وانصار کو خائن ، ظالم، غدار وبدکار ہی ثابت کرکے رہے گا! یہ ہیں چودہویں صدی کے ترقی یافتہ انصار اور مہاجر! اور یہ ہیں، چودہویں صدی میں ’’ہجرت‘‘ و’’نصرتِ‘‘ دین کے قابل عبرت ، وصد ہزار عبرت نمونے!۔ http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/