قرۃ العین حیدر کے روبرو۔۔۔ تحریر آصف جیلانی


اردو کی ممتاز ناول نویس اور افسانہ نگار قرۃ العین حیدر کو ہم سے جدا ہوئے ۱۲ سال گذر گئے۔ انہوں نے اردو میں ناول نگاری کو ایک نئی جہت ، وسعت اور گہرائی کے ساتھ ایک نیا اسلوب بخشاہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ وہ چھ دہائیوں سے زیادہ عرصہ تک اردو ادب کے افق پر چھائی رہیں۔ ان کا تخلیقی سف 1944سے شرو ع ہوا تھا جب کہ ان کا پہلا افسانہ رسالہ ہمایوں میں شایع ہوا تھا اور اس کے تین سال بعد ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ۔ستاروں سے آگے ۔منظر عام پر آیا تھا۔ 1949 میں ان کا پہلا ناول ۔ میرے بھی صنم خانے۔ شایع ہوا تھا اور سن ۵۹میں ان کے ناول ۔ آگ کا دریا۔ نے دھوم مچا دی جو اردو میں ناول نگاری کے ایک نئے عہد کا نشان مانا جاتا ہے۔ اس کے بعد ناول ۔آخر شب کے ہم سفر۔ ۔کارجہاں دراز ہے۔ گردش رنگ چمن اور چاندنی بیگم ،قرۃ العین حیدر کے تخیل کی تازہ کاری نئے انداز اور نئے تجربات کا پتہ دیتے ہیں۔
بر صغیر کی تاریخ کے مختلف ادوار میں عورت کی سماجی حیثیت اور جاگیردارانہ دو رسے لے کر اب تک عورت کے استحصال کے جو روپ بدلے ان کا ادراک اور اظہار قرۃ العین حیدر کے ناولوں سے پہلے اردو ادب میں نمایاں نظر نہیں آتا۔
قرۃ العین حیدر اردو کی پہلی خاتون ادیبہ ہیں جنہیں سن نواسی میں ہندوستان کا سب سے اعلی ادبی اعزاز ۔ گیان پیٹھ۔دیا گیا۔ انہیں 1984میں پدم شری اور 2005میں پدم بھوشن کے اعزاز سے نوازا گیا۔
قرۃ العین حیدر انتقال سے دو سال پہلے جب لندن آئی تھیں تو میں نے بی بی سی اردو سروس کے ثقافتی پروگرام سب رس میں روایتی انداز سے زرا ہٹ کر ان سے گفتگو کی تھی ۔مقصد یہ جاننا تھا کہ وہ اپنے ناولوں کے لیے مواد کس طرح جمع کرتی ہیں اور ناول لکھنے کے سلسلہ میں کن مراحل سے گذرتی ہیں؟۔
اس گفتگو کا آغاز میں نے اس سوال سے کیا تھا کہ اپنے ناول کے بنیادی خیال کو کاغذپر منتقل کرنے تک کتنا عرصہ لگتا ہے؟ جواب میں انہوں نے کہا۔ یہ بتانا بہت مشکل ہے۔ اس لیے کہ جسے Creative process کہا جاتا ہے اس کا آپ تجزیہ نہیں کر سکتے۔ اس لئے کہ کوئی بلیو پرنٹ نہیں بنا سکتے ۔ غالبا اب لوگ کمپیوٹراز کر رہے ہیں اور کمپیوٹر میں ڈال کر ناول لکھے جائیں گے ۔ یہ سب نہیں ہوتا ۔ کم از کم اکثر ادیب ایسا نہیں کرتے اور میں تو بالکل نہیں کرتی کہ پہلے سے کوئی پلان بناوں ۔ سوچوں پہلے سے کہ اس پر کام کروں گی ۔ یہ سب میکنیکل ہوتا ہے یہ فلم کے اسکرپٹ رایٹنگ میں تو ہوتا ہے یا ٹی وی کے لیے ہوتا ہے ۔لیکن ہم جو لکھ رہے ہیں اور لکھنے کا جو عمل ہے وہ تخلیقی عمل ہے جوبڑاHaphazardہوتا ہے۔ کچھ لکھنا شروع کردیا پھر تین چار مہینے کے لیے بھول گئے ۔اس لیے یہ کہنا بڑا مشکل ہے کہ کب سوچا اور کب لکھا۔
میں نے پوچھا کہ آپ نہیں سمجھتیں کہ ناول لکھنے کے لیے تو ڈسپلن کی ضرورت ہے اور تواتر سے لکھنا ضروری ہے۔ انگریزی کے ممتاز ادیب گراہم گرین نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ ڈسپلن کے ساتھ لکھتے ہیں اور اس کے تحت ہر روز لازما پانچ سو الفاظ لکھتے ہیں ۔ آپ کا کوئی ایسا ڈسپلن ہے؟
جواب دیا۔ابھی عرض کیا کہ میں نہیں لکھتی تو مہینوں نہیں لکھتی اور لکھتی ہوں تو لکھتی چلی جاتی ہوں۔ نہیں میرے ہاں کوئی ڈسپلن نہیں ہے ۔ ہمارے ہاں ہندوستان اور پاکستان میں ادیب اتنے منظم نہیں ہیں۔ سب Haphazardطریقے سے لکھتے ہیں ۔مغرب میں جو ادیب ہے اس کا تو پورا پروفیشن ہے۔ اس کے سیکریٹری اور ایجنٹس ہوتے ہیں ۔ ہمارے ہاں کے ادیب تو روٹی روزی میں لگے رہتے ہیں ۔ ان کو جب وقت ملتا ہے وہ لکھ لیتے ہیں ۔
میں نے پوچھا کیا آپ کو کوئی خاص وقت ہے لکھنے کا۔ علی الصبح یا رات دیر گئے؟ جواب دیا ۔نہیں ایسا کچھ نہیں ۔مجھے لکھنے کے لئے ایسے ماحول کی ضرورت نہیں کہ چاند نکلا ہے ۔ باغ میں شاخ پربلبل بیٹھی ہے اور آپ بیٹھے لکھ رہے ہیں ۔ نہیں ایسا کچھ نہیں ۔ مجھے جب وقت ملا لکھ لیا ۔ ناول کے پہلے مسودے کے بعد آپ کتنی بار اس میں ردوبدل کرتی ہیں۔ میں نے پوچھا۔ ان کا جواب تھا۔ نہیں صاحب میں تبدیلی تو کرتی ہوں۔ میرے لیے میرے ناول ایک طرح کی موزیکل کمپوزیشن ہے۔ مجھے موسیقی سے گہرا لگاو ہے ۔ اسی لئے میں کوئی چیز لکھنے کے بعد جب یہ محسوس کرتی ہوں کہ یہ بے سری چیز ہے اور سر میں نہیں بیٹھی ہے تو میں اسے دوبارہ لکھتی ہوں ۔ میں نے کہا کہ مغرب میں ناول نگار اپنے موضوع کی تلاش میں دور دراز کے مقامات کا سفر کرتے ہیں اور خاص طور پر اپنے ناولوں کے پس منظر اور کرداروں کے لیے مختلف علاقوں کی چھان بین کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں اردو میں ایسی کوئی روایت نہیں۔آپ نے مختلف مقامات کا سفر کیا ہے اور اپنے ناولوں میں ان جگہوں کاذکر کیا ہے۔ مثلا چائے کے باغات اور لندن ۔ تو کیا آپ نے عمدا سفر کیا ہے ان جگہوں کا اپنے ناولوں کے پس منظر اور کرداروں کی تلاش کے لیے؟ انہوں نے جواب میں کہا۔نہیں یہ محض اتفاق ہے۔ جہاں چلے گئے وہاں کسی بات نے اسٹرایک کیا اس کے بارے میں لکھ لیا۔ خاص طور پر ناول لکھنے کے لئے سفر نہیں کیے۔میں نے کوئی پروگرام نہیں بنایا ۔یہ نہیں کہ میں ناول لکھنے کے لیے یوگو سلاویہ جا رہی ہوں یا جاپان جا رہی ہوں۔ نہیں چلے گئے کوئی بات اسٹرایک کی وہ لکھ دی ۔ نہیں میں پلان بنا کر ناول لکھنے کے لئے کسی ملک میں نہیں جاتی۔ یہ نہیں کہ البانیہ جا کر ناول لکھوں گی یا فرانس جا کر لکھوں گی۔ گئے ہیں گھومتے پھرتے تو ظاہر ہے پس منظر مل جاتا ہے۔ مثال کے طور پر میری ایک کہانی ہے کارمین۔ تومیں جب جاپان سے لوٹ رہی تھی تو میں منیلا میں ٹہری تھی۔ ہوٹل میں بکنگ نہیں ہوئی تھی اس لیے میں وہاں YWCAمیں ٹہری ۔ وہ YWCAکا پورا کا پورا ماحول ہے اس کہانی میں ۔مجھے setting مل گئی ۔ میں نے پلاٹ بنادیا اور کردار بنا دیے ۔setting مل جاتی ہے اور بعض اوقات کیریکٹرس بھی مل جاتے ہیں تھوڑے سے باقی ان کو بناتے ہیں اور جو جی چاہے کریں آپ ان کے ساتھ۔ میں نے سوال کیا کہ یہ تو آپ کو یاد ہوگا کہ کون سا ناول آپ نے کم سے کم مدت میں لکھا اور کون سا ناول لکھنے میں بہت دیر لگی۔ کہنے لگیں کہ یہ کہنا بڑا مشکل ہے۔ لیکن کچھ ناول ایسے ہیں جن کے لیے میں نے ریسرچ کی ۔ بعض کے لیے میں نے بہت جلد ریسرچ کر لی وہ میں نے جلد مکمل کر لیے بعض میں دیر لگی اور تین سال لگے ان میں۔ مثلا آگ کا دریا۔ مجھے پتہ ہے کہ اس کے بارے میں سوال کرنے کے لیے آپ تلے بیٹھے ہوں گے ۔ لیجیے میں آپ کو مطمین کیے دیتی ہوں ۔ 1956میں میں نے اس کے بارے میں پڑھنا شروع کیا اس کے پس منظر کے لیے۔ کچھ پہلے سے تھا میرے دماغ میں ۔ تو ایک سال میں میں نے یہ ناول ختم کر لیا اس کے بعد اس کا مسودہ ایک سال تک پڑا رہا گھر پر ۔ ایک سال اس کے چھپنے میں لگا۔ میرے خیال میں ایک اور بڑا ناول جو میں نے کافی ریسرچ کے بعد لکھا وہ ہے گردش رنگ چمن۔ اس کی ریسرچ کے لیے میں رام پور گئی اور اپنے عزیزوں کے ساتھ رہی تھی ۔ وہاں رضا لایبریری میں ریسرچ کی پھرمجھے تھوڑی سی ریسرچ کی ضرورت تھی سو میں یہاں لندن آئی ۔ میں نے انڈیا آفس لایبریری سے کچھ میٹیریل لیا۔ میٹیریل کیا گوہر جان کی والدہ کے دیوان کی تصویر بنوائی ۔ اس کے بعد میں نے ناول لکھا ۔ وہ بھی سال چھہ ماہ میں مکمل ہوگیا۔ میں نے کہا کہ بہت سے لوگوں کے نزدیک آگ کا دریا آپ کا بنیادی کام ہے اس لحاظ سے کہ پہلی بار اردو ناول میں تاریخیت کا رجحان آپ نے شروع کیا۔ او رجیسے کہ گردش رنگ چمن کا ذکر آیا ہے اس کے بارے میں عام طور پر لوگوں کا خیال ہے کہ اس میں تاریخیت اتنی حاوی نہیں جتنی کہ آگ کے دریا میں ہے تو آپ سمجھتی ہیں کہ آپ تاریخیت کے رجحان سے دور جارہی ہیں یا یہ رجحان بدل رہا ہے۔ کہنے لگیں کہ دیکھیے کوئی ضروری نہیں کہ میں ہر کتاب ایک ہی طرح کی لکھوں۔ ہر کتاب کا ایک ہی نسخہ ہو ایک ہی سانچہ ہو ۔ اور اب تاریخیت کیا۔ یہ الگ الگ کہانیاں ہیں ۔ اب مثال کے طور پرمیرا تازہ ناول چاندنی بیگم ہے وہ بالکل مختلف انداز کا ہے۔ کوئی ضروری نہیں کہ ہر چیز کو ایک ہی طریقہ سے لکھتے چلے جائیں ۔ اب بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ آپ نے چاندنی بیگم میں اس طرح کیوں لکھا اور آپ نے چاندنی بیگم کو مار کیوں دیا۔ ارے بھئی چاہئے تھا اسے مارنا تو مار دیا۔ تو آپ بتائے کہ اس کے لیے میں کیا صفائی پیش کروں ۔ میں نے پوچھا کہ گردش رنگ چمن میں بہت سے لوگوں کو یہ بات عجیب سی لگی کہ مسز عندلیب بیگ بہت جدت پسند ہیں جب کہ ان کی بیٹی عنبرین بہت قدامت پسندہے ۔ کہنے لگیں کہ ایسا تو ہوتا ہے۔ یہ تو وہ خود عنبریں کہتی ہے کہ میں والدہ کے ری ایکشن میں قدامت پسند ہوں مذہبی ہوں۔ تو آپ یہ کہہ رہی ہیں کہ پرانے لوگ جدیدت کے زیادہ قایل ہیں۔ میں نے سوال کیا جواب میں انہوں ے کہا کہ بھئی یہ الگ الگ کیریکٹرس ہیں ۔ حد ہوگئی کہ آپ اس کو جنرلایزکررہے ہیں۔ یہ مختلف کیریکٹرس ہیں۔ ۔ ضروری نہیں کہ ایک کیریکٹر کی بنیاد پر فیصلہ کر لیں ۔ مسز عندلیب کی زندگی confused تھی ۔ وہ باغی تھیں ۔پریشان حال تھیں ۔ ایک شخصیت کی بنیاد پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ سب ایسے ہوتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ لاہور میں ایک انٹرویو میں آپ نے کہا تھا کہ آگ کا دریا آپ کا بنیادی کام نہیں ہے۔ تو آپ کس ناول کو اپنا بنیادی کام سمجھتی ہیں۔ جواب میں ان کا کہنا تھا۔ بنیادی کام کیا ہوتا ہے۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ مجھے کوئی Contract دیا گیا تھا کہ میں GPOکی بلڈنگ بناوں تو میں نے یہ بلڈنگ بنادی تو یہ میرا بنیادی کام ہوگیا۔ نہیں بھئی ایک رایٹر ہے وہ لکھ رہا ہے ، ممکن ہے کہ کوئی اچھی چیز لکھ لے جو ہم سمجھیں وہ بہتر ہے ۔ آگ کے دریا کے ساتھ یہ ہوا کہ وہ مختلف وجوہ کی بناء پر مشہور بہت ہو گیا۔ میں نے کہا کہ اس کا کینوس بہت بڑا تھا۔ وہ بولیں کہ جی ہاں اس کا کینوس بہت بڑا تھا۔ اب ضروری نہیں کہ میں ہر مرتبہ اسی طرح لکھتی چلی جاوں۔ میں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ لوگوں کو اس وجہ سے تعجب ہوا کہ آپ کی پہلی جو کتابیں تھیں وہ مختلف تھیں جن میں مغربیت زیادہ تھی۔ وہ بولیں۔اب مغربیت کیا ہوتی ہے۔ لوگ یہ بھی نہیں سوچتے کہ جو کتاب میں نے اٹھارہ یا انیس سال کی عمرمیں لکھی تھی تیس سال کے بعد تو میں ویسی کتاب نہیں لکھوں کی تیس سال میں مجھ میں زیادہ عقل آجائیگی نا ۔کچھ تجربہ آجائے گا کچھ میچوریٹی آ جائے گی تو میں زرا مختلف لکھوں گی۔ جو میں لکھ رہی تھی انٹ سنٹ بی اے میں جب میں لکھ رہی تھی ۔ اس کے تیس سال بعد تو میں پچاس سال کی عمر میں وہ نہیں لکھوں گی جو میں اکیس سال کی عمر میں لکھا تھا۔ ایک ادیب میں آخرتھوڑابہتdevelopementہوتا ہے ۔تو اس کے لحاظ سے اس کا اسٹایل بھی بدلتا ہے اور مچوریٹی آتی ہے ۔ مختلف چیزیں اس کی سمجھ میں آتی ہیں۔ اور وہ بہتر سے بہتر لکھتا ہے۔ میں نے پوچھا تو آپ کہہ رہی ہیں کہ ابھی آپ کواپنا شاہکار لکھنا باقی ہے۔ کہنے لگیں ۔ شاہکار کیا ہوتا ہے ۔ صاحب یہ بڑا کلیشے ہے ۔شاہکار کا لفظ مت کہیے ۔ شاہکار واہکار کچھ نہیں ہوتا ۔ جس کتاب سے رایٹر خود مطمین ہو وہ ٹھیک ہے اور جسے لوگ سمجھیں ٹھیک ہے وہ ٹھیک ہے۔ میں نے سوال کیا کہ اردو میں ناول کی روایت کے بارے میں آپ کیا کہیں گی۔ انہوں نے کہا، اردو زبان میں ناول بہت لکھے گئے ہیں ۔ نول کشور پریس کے زمانہ میں ہزاروں ناول لکھے گئے تھے اور مقبول بھی ہوئے ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اس زمانہ میں لوگوں کے پاس ناول پڑھنے کے علاوہ اور کوئی انٹرٹینمنٹ کا ذریعہ نہیں تھا۔ صرف ناول ہی ایک ذریعہ تھا۔ ایک زمانے میں ہمارا پورا دور ناول کا گذرا ہے۔ اب آج کل ماحول بدل گیا ہے۔ معاشرہ بدل گیا ہے۔ پہلے لوگ گرامفون سنتے تھے پھر ریڈیو آیا اور پھر ٹی وی آیا ۔ٹی وی کے ساتھ پورا سانچہ ہی بدل گیا ۔ نظریات کا انٹرٹینمنٹ کا۔ پورے تصورات بدل گئے۔ پھر ویڈیو آگیا۔ لہذا اب ناول کوئی بیٹھ کر نہیں پڑتا افسوس کی بات ہے۔ اور پرابلم یہ ہے کہ بچوں میں پڑھنے کا شوق کم ہوگیا ہے۔ پچھلے زمانہ میں بچوں کے لئے پورا لٹریچر تھا۔ پہلے بچوں کے لئے رسالے نکلتے تھے ۔ کہانیاں ہوتی تھیں ۔ بچے پڑھتے تھے ۔ اب بچے پڑھتے نہیں۔ بچے ویڈیو دیکھتے ہیں اسی طرح ناول بھی نہیں پڑھے جاتے ۔ ہمارے ہاں لٹریسی اتنی کم ہے ۔کتنے لوگ ہیں جو ناول پڑھتے ہیں۔ پھر ناول بھی فقط ایک ہزار چھپتا ہے ۔ نتیجہ یہ کہ چار پانچ ہزار سے زیادہ لوگ ناول نہیں پڑھتے ۔ اس کا مقابلہ آپ مغرب سے نہیں کر سکتے یہاں دس دس لاکھ سے زیادہ کتابیں چھپتی ہیں اور بڑی تعداد میں لوگ یہ کتابیں پڑھتے ہیں۔اس کے مقابلہ میں ہمارے ہاں پڑھنے کی عادت کم ہوتی جارہی ہے۔ اور ظاہر ہے افسانہ کا زمانہ ختم ہوتا جارہا ہے۔ پھر ڈایجسٹ آ گئے ہیں ۔ اچھے ناول کا حلقہ بہت محدود رہتا ہے۔ ہاں رضیہ بٹ کو لاکھوں لوگ پڑھیں گے ہمارے ہاں ہندوستان میں گلشن نندا بھی بہت مقبول ہیں ۔اسی طرح کے ناول بہت مقبول ہیں لیکن وہ ناول بہت محدود ہیں جو ذہن پرست طبقہ پڑھنا چاہتا ہے۔ میں نے کہا کہ ہندوستان میں اردو کی کتابیں اچھی خاصی تعداد میں چھپ رہی ہیں اور اس سلسلہ میں سرکاری تنظیموں کی طرف سے مالی اعانت مل رہی ہے۔ تو کیا آپ مطمین ہیں۔ ان کا کہنا تھا جی ہاں اردو اکادمیوں کی مالی اعانت کی وجہ سے اردو کی اچھی خاصی کتابیں چھپ رہی ہیں مضامین سنجیدہ ہیں۔تحقیق ، تنقید، کے ساتھ دینیات اور اسلام پر کافی زور ہے۔ ہر ریاست میں اردو اکادمیاں ان کتابوں کی اشاعت میں بڑے پیمانہ پر مالی مدد دیتی ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ کتابیں تو بہت چھپ رہی ہیں لیکن آپ پرسنٹیج کی بات کریں توہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ساوتھ ایشیا میں ادب عوامی دلچسپی کی چیز ہے اور جس طرح مغرب میں کتابیں شایع ہوتی ہیں اور پڑھی جاتی ہیں ان کا ہم یہاں مقابلہ نہیں کر سکتے۔ شکریہ۔