اولادکی نیک نامی میں والدین کا منفی و مثبت کردار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از:محمد الیاس بھٹکلی ندوی 

Bhatkallys

Published in - Other

03:20PM Thu 7 Dec, 2017
تصویر کے دورخ تصویر کا پہلارخ:۔ چند سال پہلے کی بات ہے، ہمارے ایک قریبی شناسا بزرگ کا انتقال ہوا، اگرچہ عالم نہیں تھے لیکن انتہائی دینداراورتہجدگذار،نماز باجماعت اورتکبیراولی تک کے پابند،ان کے کل چھ بچے تھے، انتقال سے پہلے وہ جس اذیت ناک کرب والم میں تھے اوراپنے بچوں سے متعلق فکرمندتھے اس میں ہم سب کے لیے عبرت تھی، ان کی تین بچیوں کی شادیاں ہوگئی تھیں لیکن لڑکے ابھی غیرشادی شدہ تھے، ان میں سے چھوٹے دوان کے لیے بدنامی کاسبب بن گئے تھے اورپورے محلے اورگاؤں کے لوگ ان سے تنگ آگئے تھے ،وہ آخر تک روروکریہ کہتے رہے کہ اے اﷲ:۔ مجھے یادنہیں کہ میں نے زندگی میں کوئی ایساگناہ کیا ہو جس کی وجہ سے مجھے آج یہ دن دیکھنے پڑرہے ہوں،ان کے ہم عمربھی کہتے تھے کہ وہ بچپن ہی سے نیک اورصالح تھے ،حرام وحلال کی ہمیشہ ان کو تمیزرہی، کبھی شراب وزنااورجوے کے قریب بھی نہیں گئے۔ ایک طرف ان کے یہ مثبت حالات تھے تودوسری طرف ان کی اولادکی یہ منفی کیفیات ، گتھی سلجھ نہیں رہی تھی، میں نے بھی اس پربہت غورکیا، بالآخر اس سلسلہ میں ان کے ایک معاصربزرگ نے میری مددکی اوربات جلدہی میری بھی سمجھ میںآگئی ، ان کے بزرگ ساتھی کاکہناتھاکہ اپنی جوانی میں گھرسے مسجدجاتے ہوئے راستہ میں جب شریر لڑکوں کاان کوسامناکرناپڑتاتوان کووہ طعنہ دیتے تھے کہ تمہیں کس بدمعاش باپ نے جناہے؟ کیاتمہاراباپ حرام کماتاہے اورتمہیں کھلاتاہے جس کی وجہ سے تم لوگوں کی یہ حالت ہوگئی ہے؟ کسی کے متعلق کوئی منفی، ناپسندیدہ اورناقابل یقین بات سننے میںآتی تووہ سب کے سامنے تبصرہ کرتے کہ کمینوں کی اولادبھی کمینی ہی ہوتی ہے، شریر بچوں کو دیکھ کر وہ برملاکہتے :۔ ان بچوں کے والدین نے بھی اپنی جوانی میں اس طرح کی حرکت کی ہوگی تبھی توان کی اولادکی یہ حالت ہوگئی ہے، غرض یہ کہ کسی کوطعنہ دینے اورکسی کے گناہ پرعاردلانے میں ان کاکوئی ثانی نہیں تھا،مجھے ان کے متعلق یہ سن کراﷲکے رسولﷺ کی یہ حدیث فوراًیادآگئی کہ کوئی شخص کسی کوکسی گناہ پر عار دلاتا ہے تومرنے سے پہلے خوداس گناہ میں مبتلاہوجاتاہے’’ من عیّرأخاہ بذنب لم یمت حتیّ یعملہ‘‘ آپﷺ نے فرمایاکہ کسی کی مصیبت پر خوش نہ ہوجاؤ اﷲتعالی اس پررحم کردے گااورتم کواس مصیبت میں مبتلاکرے گا،اسی طرح ارشاد فرمایا:جوشخص اپنے بھائی کی سترپوشی کرے گااﷲتعالیٰ اس کاعیب چھپائے گا۔ میں نے دل میں کہاکہ ان کی اولادکایہ عبرت ناک انجام جوانی میں ان کی اسی بداحتیاطی اور دوسروں کوعاردلانے کانتیجہ ہوسکتاہے، ان کے اسی بزرگ دوست نے مجھ سے یہ بھی کہاکہ اپنی اولادکی تربیت کے سلسلہ میں وہ بہت سخت واقع ہوئے تھے، ان کے کسی نازیبافعل کو کبھی براداشت نہیں کرتے، ڈانٹتے ،مارتے اورکبھی غصہ میں ان کوشیطان، ابلیس اورملعون ومردود بھی کہہ دیتے، میں نے دل میں کہاکہ ضروروہ قبولیت کی گھڑی رہی ہوگی تبھی تواﷲنے ان کی اولاد کواس ناگفتہ بہ حالت میں پہنچادیا،اس لیے کہ جس طرح اولادکے حق میں والدین کی دعاجلدقبول ہوتی ہے اسی طرح بددعابھی والدین کی اپنی اولادکے حق میں جلداپنااثردکھاتی ہے، اسی لیے کبھی بھول کرغلطی سے بھی غصہ وجوش میں اپنی اولادکوڈانٹنے میں غلط ناموں سے نہیں پکارنا چاہیے مباداوہ قبولیت کاوقت ہواوراس کااثرظاہرہوجائے، میرے دل میںیہ بات بھی آئی کہ اگرانھوں نے اپنی اولاد کے حق میں پابندی سے اﷲتعالی کی سکھائی ہوئی یہ قرآنی دعاکی ہوتی توشایدان کویہ دن دیکھنے کونہیں ملتے کہ اے اﷲہمیں ایسی بیویاں اوربچے عطافرما جو ہمارے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کاسبب بنیں اورہمیں تقوی والوں کاامام بنا۔رَبَّنَاھَبْ لَنَامِنْ اَزْوَاجِنَاوَذُرِّیَّاتِنَاقُرَّۃَ أَعْیُنٍ وَاجْعَلْنَالِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا تصویر کا دوسرا رخ:۔ مفکراسلام حضرت مولاناسیدابوالحسن علی حسنی ندویؒ کانام نامی اسم گرامی ہم میں سے کس نے نہیں سنا ہے ،۸۶سال کی عمرمیں ابھی سترہ سال قبل رمضان المبارک کی تیئسویں شب میںآپ کاوصال ہوا، اﷲتعالیٰ نے آپ سے دین کاوہ کام لیاجس کی نظیرماضی قریب کی اسلامی تاریخ میں مشکل سے ملتی ہے ، آپ کواﷲتعالی نے دنیاہی میں اپنے بندوں کے درمیان غیرمعمولی محبوبیت اور مقبولیت عطافرمائی تھی ، عنداﷲبھی آپ کے مقبول ومحبوب ہونے کے دسیوں قرائن پائے جاتے تھے، جمعہ کے دن، روزہ کی حالت میں،عین نمازجمعہ سے قبل، سورہ یس کی تلاوت کرتے ہوئے آپ کی روح قفس عنصری سے پروازکرگئی، دنیاکے تقریباً تمام براعظموں اور اہم ممالک میںآپ کی نمازغائبانہ اداکی گئی ، رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کوحرم مکی ومدنی یعنی بالترتیب حرم شریف اور مسجدنبوی میں ستائیس لاکھ وپندرہ لاکھ سے زائداﷲکے بندوں نے آپ کی نماز غائبانہ اداکی اورآپ کی مغفرت ورفع درجات کے لیے اﷲسے دعائیں کیں، اس طرح کی عنداﷲمحبوبیت وقبولیت دنیامیں بہت ہی کم بندوں کے حصہ میںآتی ہے۔ حضرت مولانارحمۃ اللہ علیہ اپنے بچپن میں پڑھنے میں نہ بہت ذہین تھے اورنہ بہت چست وچالاک، آپ کی علمی صلاحیت بھی مدرسہ میں عام اوردرمیانی درجہ کے طالب علم کی تھی ،اس کے باوجودآپ سے اﷲتعالیٰ نے دین کاجوکام لیاوہ حیرت انگیزبھی تھااور تعجب خیزبھی، حضرت مولاناسے جب ان کوحاصل ہونے والی اس توفیق خداوندی کے اسباب ومحرکات کے متعلق دریافت کیا جاتا توآپ بیان کرتے کہ اﷲنے ہمارے لیے مقدر دین کی اس خدمت میں ہماری والدہ ماجدہ مرحومہ کی خصوصی دعاؤں کابڑا حصہ رکھاتھااوریہ اسی کی برکت تھی آپ کی والدہ بڑی عابدہ، زاہدہ اورذاکرہ تھی،۹۳سال کی عمرمیں انتقال ہوا، وہ اپنی وفات تک ہمیشہ روزانہ دو رکعت صلاۃ الحاجۃ پڑھ کراپنے اس بیٹے کے لیے دعاکرتی تھی کہ اے اﷲ:۔ میرے نورنظر علی سے کوئی غلط کام نہ ہو،زندگی کے ہرموڑپراے اﷲ توہی اس کی صحیح رہنمائی فرما، اس قابل رشک والدہ نے اپنے اس بیٹے کووصیت کی تھی کہ علی! تم روزانہ اپنے معمولات میں اس دعاکو شامل کرناکہ اے اﷲتومجھے اپنے فضل سے اپنے نیک بندوں کودیے جانے والے حصوں میں سے افضل ترین حصہ عطافرما : اَللّٰھُمَّ آتِنِیْ بِفَضْلِکَ اَفْضَلَ مَاتُؤْتِیْ عِبَادَکَ الصَّالِحِیْنَ آپ کی والدہ نے آپ کی ولادت سے پہلے ایک خواب دیکھاتھا،اس کی تعبیرانھوں نے خودا پنی وفات سے قبل دیکھی، خواب یہ تھاکہ ہاتف غیبی نے ان کی زبان پرقرآن کی اس آیت کوجاری کردیاہے کہ ہم نے تمھاری آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے جومخفی خزانہ چھپا کر رکھا ہے اس کاتمھیں اندازہ نہیں۔ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَاأُخْفِیَ لَھُمْ مِنْ قُرَّۃِ أَعْیُنٍ مولاناکی انھوں نے اس طرح تربیت فرمائی تھی کہ ان سے اگرکسی خادم یا ملازمہ کے بچہ پربھی زیادتی ہوتی تونہ صرف اپنے سامنے بلاکر اسی وقت معافی منگواتی بلکہ ان سے ماربھی کھلاتیں،اسی کانتیجہ تھاکہ بچپن ہی سے مولاناکوظلم اورغروروتکبرسے نفرت اورکسی کی دل آزاری سے وحشت ہوگئی، عشاء کی نمازپڑھے بغیراگرسوجاتے تواٹھاکرنمازپڑھواتی، صبح کوجماعت کے ساتھ نماز کے لیے بھیجتی، فجربعدکبھی تلاوت کاناغہ نہیں ہونے دیتی۔ مندرجہ بالاواقعات کی روشنی میں ہم اپناجائزہ لیں توشایدہی ہم میں سے دوفیصد والدین اس کے مطابق اپنے کوپائیں، روزانہ صلاۃ الحاجۃ پڑھ کر اپنی اولاد کے لیے مانگنا تو دور کی بات زندگی بھرمیں اﷲتعالیٰ سے اپنی اولادکی نیک نامی اورصلاح مانگنے کے لیے ہم نے ایک باربھی صلاۃ الحاجۃ نہیں پڑھی ہوگی جب کہ اﷲنے ہمیں اپنی اولادکی بھلائی ونیک نامی کے لیے مانگنے کاطریقہ بھی سکھایاہے اوراس کے آداب بھی بتائے ہیں، ہماری اپنی اولاد کے بگڑنے ،بات نہ ماننے ،اسی طرح ان کی شرارت پر ہم پریشان ہوتے ہیں ،دوسروں سے شکایت کرتے ،ان کو سزا دلواتے ہیں،طرح طرح کے حربے اس کے لیے استعمال کرتے ہیں،پھر بھی بچہ ہے کہ سدھرنے کا نام نہیں لیتااور اس کی حالت بدلتی ہمیں نظر نہیں آتی،لیکن کیا کبھی ہم منٹوں میں دلوں کے بدلنے کا اختیار رکھنے والے اپنے کریم آقااور رحیم مولیٰ کے سامنے اس کے لیے دستِ دعا پھیلاکر بچہ کا نام لے کر التجاکی ہے کہ اے اللہ:۔ تواس کی اصلاح فرمادے، ہم میں سے اکثر کا جواب نفی ہی میں ہوگا۔ آئیے آج سے ہم اس مجرّب نسخہ کو کیوں نہ آزمائیں اور اس کا فوری اثربھی اپنی اولاد میں محسوس کریں،اﷲتعالی کا ارشاد ہے کہ اپنی اولادکے لیے تم مجھ سے اس طرح مانگوکہ اے اﷲ:۔ ہمیں ایسی بیویاں اوربچے عطا فرما جوہمارے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک ہوں اورہمیں متقین کاامام بنا۔ رَبَّنَاھَبْ لَنَامِنْ اَزْوَاجِنَاوَذُرِّیَّاتِنَاقُرَّۃَ أَعْیُنٍ وَاجْعَلْنَالِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا۔اے اﷲ:۔خودمجھے نمازقائم کرنے والابنااورمیری نسلوں کوبھی، اے اﷲ:۔ تو ہی ہماری اس دعاکوقبول فرما۔ رَبِّ اجْعَلْنِی مُقِیْمَ الصَّلَاۃِ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ رَبَّنَاوَتَقَبَّلْ دُعَاء معززقارئین:۔ آئیے ! عہد کرتے ہیںآج سے کم از کم ہم ہفتہ میں ایک بار صلاۃ الحاجۃ پڑھ کر اپنی اولاد کا نام لے کر اللہ تعالیٰ سے دعاکریں گے اور مذکورہ بالادعاؤں کی پورے استحضار کے ساتھ اگر چند دن بھی پابندی کریں گے تو ان شاء اللہ امید ہے کہ کچھ ہی دنوں میں اپنی اولاد میں اس کے مثبت اثرات محسوس کریں گے اور آپ اورہماری اولاد نہ صرف ہمارے لیے بلکہ پورے ملت کے لیے نیک نامی کا ذریعہ بنے گی۔