مذبح کے لئے جانوروں کی فروخت پر پابندی۔۔ایک تیر سے کئی شکار ۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

مری زبان کے موسم بدلتے رہتے ہیں میں آدمی ہوں ، مرا اعتبار مت کرنا
گائے کے سنتان کا کلیان: لہٰذا گؤ ونش cow progenyکے کلیان، تحفظ اور نشو ونما کے ساتھ اس پر ہونے والے ظلم وستم کی روک تھام کے مقصد سے مرکزی حکومت کی وزارت ماحولیات ، جنگلات وموسمی تغیرات نے جو نوٹی فکیشن جاری کیا ہے اس کے مختلف پہلوؤں پر کچھ گفتگو کرلیتے ہیں۔حالانکہ جانوروں پر ظلم کی روک تھام کے لیے مرکز کی طرف سے جاری کردہPrevention of Cruelty to Animals Act, 1960کی شکل میں پہلے سے ایک قانون موجود ہے۔لیکن حکومت نے اپنی بدنیتی پر پردہ ڈالنے کے لئے اسی بنیادی قانون Primary Act کی کچھ دفعات کا سہارا لے کر اور دستوری اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات سے بچتے ہوئے بڑی عیاری کے ساتھ اب جونیاقانونPrevention of Cruelty to Animals (Regulation of Livestock Markets) Rules, 2017گزٹ نوٹی فکیشن کے ذریعے لاگو کرنے کا اقدام کیا ہے، اس کے جائزے سے یہ صاف ہوجائے گا کہ مودی سرکار نے ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی بظاہر بڑی کامیاب کوشش کی ہے۔ یہ نیا گزٹ نوٹی فکیشن 10 THE GAZETTE OF INDIA : EXTRAORDINARY FOREST AND CLIMATE CHANGE NOTIFICATION ENVIRONMENT, of [PART II-SEC. 3(i)] MINISTRY کے ٹائٹل کے ساتھ جاری کیا گیا ہے۔ کیایہ بھی سرجیکل اسٹرائک ہے!: اکثر دیکھا گیا ہے کہ حکومت پر انتظامی ناکامی، انتخابی وعدوں کو ٹھنڈے بستے میں رکھنے اور صرف بڑے بول کے سہارے عوام کو بے وقوف بنانے کے الزامات جب بھی اپنی حدوں کو چھونے لگتے ہیں، تب اپنے فن میں ماہر حاکمین وقت کوئی نہ کوئی سرجیکل اسٹرائک کر جاتے ہیں اور 36انچ کے سینے کو 56انچ ثابت کرنے پر تُل جاتے ہیں۔اب بڑے جانوروں کو ذبح کرنے کے مقصد سے عام مویشی مارکیٹوں میں خرید وفروخت پر پابندی لگانے کا جو گزٹ نوٹی فکیشن جاری کیاگیا ہے، اسے بھی سرحد پار پاکستانی ٹھکانوں پر کیے گئے سرجیکل اسٹرائکس کے روپ میں دکھاتے ہوئے بعض حلقوں کی طرف سے اسے بیف کے خوروں کے خلاف ایک سرجیکل اسٹرائک قرار دیا جارہا ہے۔ اس معاملے میں بھی حسب سابق مودی مہاراج کی جئے جئے کار، گُن گان اور کیر تن کا سلسلہ چل پڑا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس قانون کو حقائق کے روشنی میں دیکھنے اور اس کے مضمرات پر گفتگو کرنے والوں کی حب الوطنی پر انگلی اٹھانے کا روایتی جارحانہ انداز بھی سنگھ کے گرُگوں نے اختیار کرلیا ہے۔ایسے میں بس یہ کہا جاسکتا ہے :خوش آئے تجھے شہر منافق کی امیری ہم لوگوں کو سچ کہنے کی عادت بھی بہت تھی
اننت کمارہیگڈے کی ہرزہ سرائی: اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طور پرمسلمانوں سے اپنی ازلی دشمنی کے لئے مشہور ہمارے علاقے کے ایم پی اننت کمار ہیگڈے نے بھی حسب معمول ہرزہ سرائی کی ہے۔پتہ نہیں اس شخص کے خاندان کے ساتھ ماضی میں کونساایساحادثہ پیش آیا ہے جس میں کسی مسلمان کے ہاتھوں اسے کیا جسمانی یا ذہنی نقصان پہنچا ہے کہ منفی اثر ات نے اس کے دل ودماغ کا توازن بگاڑ رکھاہے۔ اور اس وجہ سے وہ مسلمانوں پر چوٹ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔اب کی بار اس نے مویشیوں کے تعلق سے اس نئے قانون پر تنقید کو کرنے والوں کو حواس باختہ قراردیتے ہوئے کہاہے کہ یہ صرف گؤ کشی پر پابندی کا قانون نہیں ہے ، بلکہ یہ تمام بڑے جانوروں کے تحفظ اور ان کی نشو ونما کے تعلق سے اقدامات کی ایک کڑی ہے ۔ ایک اور بات اس نے یہ بھی کہی کہ مسلم ممالک میں کہیں بھی گؤ کشی نہیں ہوتی ہے۔ہندوستان میں صرف ہندوؤں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لئے گؤکشی کی جاتی ہے۔اس نے ایک دور کی کوڑی لاتے ہوئے یہ "بڑی اہم خبر" بھی سنائی کہ حالیہ دنوں میں خود مسلمانوں نے گائے کو(مقدس) ماتا مان لیا ہے۔ اہل بھٹکل کے لئے سنگھ کاپیغام: اس کے علاوہ اننت کمار نے سنگھ کی زہریلی ٹیگ لائن یا سکّہ بند فقرہ استعمال کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ ہندوستان کی سرزمین سے اگنے والا اناج کھانے اور پانی پینے والوں کو چاہیے کہ وہ اس سرزمین سے وابستہ ثقافت کا احترام کریں۔ اکثریتی ہندو فرقے اور ہندووانہ جذبات کا احترام کرتے ہوئے گؤ کشی پر پابندی کی حمایت کریں۔ قابل ذکر بات تو یہ ہے کہ شاید پورے ملک میں کہیں بھی ایسا اور اتنا فوری ردعمل نہیں ہوا ہوگامگر بھٹکل کے شمس الدین سرکل پرمرکزی حکومت کے نوٹی فکیشن کے استقبال میں سنگھ پریوار کے رضاکاروں نے پٹاخے پھوڑ کر اپنی بے پناہ خوشی کا اظہار کیا ۔ سمجھنے والے سمجھ گئے ہونگے کہ اہل بھٹکل کے لئے ہندتووادی مستنڈے کیا پیغام دینا چاہتے ہیں، اور جو نہ سمجھے۔۔۔۔ وہ اناڑی ہے !آسمانوں کے سوا کچھ نہ ملے گا آگے سیکھ لو بے در و دیوار کے گھر میں رہنا
احتجاجات اور قانونی اقدامات کی تیاریاں: مویشی بازاروں اور اس میں بڑے جانوروں کی فروخت کو چست و درست کرنے اور اسے قانونی دائرے میں رکھنے کے نام پر جو نوٹی فکیشن جاری کیا گیا ہے اور جس اطلاق تین مہینوں بعد ہونا ہے، اس کا ایک درپردہ بنیادی مقصدتو عوام کے سامنے آگیا ہے کہ یہ ہندتووادی فکر کو عوام پر لادنے اور بیف کو عام آدمی کی دسترس سے ہٹانے کی عملی تدبیر ہے ۔ اس قانون کے خلاف سب سے زیادہ سخت موقف کا مظاہرہ کیرالہ میں ہوتا نظرآرہا ہے۔ جہاں پرایل ڈی ایف اور یوڈی ایف کے سیاسی لیڈروں کی طرف سے بیف فیسٹول منائے جارہے ہیں اور کھلے عام بیف کا استعمال کرتے ہوئے احتجاج درج کروایا جارہا ہے۔ کیرالہ کے وزیر اعلیٰ پی وجین نے اسے مرکز کا ایک حیرت انگیز اور جمہوری ملک کے لئے انتہائی نامناسب اقدام قرار دیا ہے۔ دوسری طرف ریاست کرناٹکا میں کورڈاگو(کورگ) جیسے کچھ مقامات پربھی کھلے عام بیف کھاکر احتجاج درج کروایا گیا ہے۔ ریاست کے وزیر مویشی و ریشم پالن نے اشارہ دیا ہے کہ مرکزی حکومت سے اس قانون کو رد کرنے کی اپیل کی جائے گی اور اگر مرکزی حکومت اپیل نامنظور کرتی ہے تو پھر سپریم کورٹ میں قانونی جنگ لڑی جائے گی۔ وزیر موصوف کا کہنا ہے یہ ایک کسان مخالف قانون ہے اورجانوروں کے تحفظ اورگؤکشی روکنے کے لیے ریاست کرناٹکا میں پہلے سے موجود prevention of cow slaughter and cattle preservation act, 1964, سے یکسر مختلف ہے۔ کھانے کے دانت اور دکھانے کے دانت : اس قانون کا مقصدجانوروں پر ظلم وستم کی روک تھام بتایا گیا ہے جس کے تحت مویشی بازاروں میں جہاں بڑے جانور بیچنے کے لئے لائے جاتے ہیں اس کے نظام کو منضبط اور جانوروں کے ساتھ رحمدلانہ رویہ اپنانے کو قانونی حدود میں یقینی بنایا جائے گا۔لیکن یہ اس قانون کے دکھانے کے دانت ہوگئے۔ جبکہ چبانے کے دانت کے طور پرپالیسی یہ بنائی گئی ہے کہ مویشیوں کے کھلے بازارLivestock market)) سے برائے غذا ذبح کرنے یا مذہبی رسم قربانی کے لئے کوئی بھی بڑا جانور فروخت نہیں کیا جاسکے گا۔ظاہر ہے کہ اس کے ذریعے بیف اور اس سے متعلقہ 1لاکھ کروڑ روپے سالانہ کے کاروبار میں لگے ہوئے چھوٹے بڑے کاروباریوں کو مویشی مارکیٹوں سے خام مال جو فراہم ہوتا ہے ، اسی کی جڑ پر سرجیکل اسٹرائک کیا گیا ہے۔کیونکہ ذبیحہ اور اس سے متعلقہ کاروبارکے 90%جانور انہی مویشی مارکیٹوں سے ہی حاصل ہوتے ہیں۔ جب کاروباریوں کو مویشی ہی دستیاب نہ ہونگے تو پھر بیف کو بطور غذا کھانے والے گوشت کہاں سے لائیں گے؟ مذہبی تقاضے پورے کرنے والے طبقات قربانی کے لئے بڑے جانور کیسے ذبح کر پائیں گے؟اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ مودی سرکار نے ایک ماسٹر اسٹروک لگادیا، یعنی نہ رہے گابانس نہ بجے گی بانسری ! کونسے جانور ذبح کے لئے فروخت نہیں ہوں گے؟: اس نوٹی فکیشن کے مطابق جس کا اطلاق تین مہینوں میں ہوگا، مویشی بازار میں یا کھلے بازار میں جانور صرف اور صرف زراعتی مقاصد کے لئے بیچے اور خریدے جاسکیں گے۔ (ذبح کے لئے جانور فارم ہاوز سے خریدے جاسکیں گے)ذبح کرنے کے مقصد سے کھلی مارکیٹ میں جن جانوروں کی خرید و فروخت ممنوع قرار دی گئی ہے ان میں گائے cow اور اس کا پورا سنتان شامل ہے ۔ جیسے : سانڈbulls،بیل bullocks،بھینس اور بھینسےbuffaloes،آختہ یا خصی کیا ہوابیلsteer ،گائے کا مادہ بچھڑاheifer ، گائے کا نر بچھڑاcalve اور اس کے علاوہ اس فہرست میں اونٹcamel بھیشامل ہے۔یعنی یہ اونٹ کی خوش نصیبی ہے کہ اس کے حق میں " بلّی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا "والی بات صادق آگئی !!
haneefshabab@gmail.com
(بات آستھا کی ہے یا اشانتی پھیلانے کی ہے؟؟!!۔۔۔ جاری ہے۔۔ ۔ آئندہ قسط ملاحظہ کریں)