مالیگاؤں کے ذمہ داران مدارس کاقابل تقلیدقدم

Bhatkallys

Published in - Other

06:46AM Sat 2 Nov, 2013
مالیگاؤں کے ذمہ داران مدارس کاقابل تقلیدقدم Ghufran-sajiad-1 غفران ساجد قاسمی گذشتہ دنوں دہلی سے شائع ہونے والے ایک موقراردوروزنامہ میں ایک اہم خبرشائع ہوئی جوکہ اپنی معنویت کے اعتبارسے انتہائی اہمیت کی حامل تھی،لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ خبرصرف ایک خبرمحض بن کررہ گئی ،کسی نے اسے لائق توجہ نہیں سمجھا،خبریہ تھی کہ مالیگاؤں  کے ارباب مدارس اسلامیہ اورسرکردہ علماء نے متفقہ طورپریہ فیصلہ کیاہے کہ وہ مدارس کو حکومت کی دسترس سے آزادرکھنے کے لیے کسی طرح کی حکومتی امدادنہیں لیں گے ،اورصرف اورصرف اہل خیرکے تعاون سے مدرسہ کے اخراجات کوپوراکریں گے۔خبرانتہائی اہم اورایک زبردست پیغام ہے ان تمام لوگوں کے لئے جواپنے معمولی ذاتی مفادات کے لئے مدارس کوحکومت کی قربان گاہ پر قربان کردیتے ہیں اوردینی تعلیم کامذا ق بناکر ہزاروں معصوم کی زندگی سے کھیلواڑکرتے ہیں،یہ پیغام ان لوگوں کے لئے بھی ہے جواپنی روزی روٹی کے معمولی مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے ان ریاستوںمیں مدرسہ بورڈکے قیام کا پرزورمطالبہ کررہے ہیں جوریاستیں ابھی تک الحمدللہ اس لعنت سے پاک ہیں،ارباب مدارس کا یہ حوصلہ افزا بیان ایسے وقت میں آیاہے جب کہ حکومت ایک سازش کے تحت مدارس سے روحانیت کوختم کرکے مسلمانوں کے نونہالوں کودین بیزاربنانے کی سرگرمیوںمیں مصروف ہے۔مدارس مسلمانوں کے لیی صرف ایک تعلیم گاہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ مدارس مسلمانوں کے لئے ایک مرکزرشدوہدایت کادرجہ رکھتے ہیں،مدارس کی حقیقت کوجاننے کے لیی مفکراسلام حضرت مولاناابولحسن علی ندویؒ کایہ بیان انتہائی اہمیت کاحامل ہے: ’’مدرسہ کیاہے؟مدرسہ کاکیامقصدہے؟ ’’مدرسہ سب سے بڑی کارگاہ ہے، جہاں آدم گری اورمردم سازی کاکام ہوتاہے،جہاں دین کے داعی اوراسلام کے سپاہی تیارہوتے ہیں،مدرسہ عالم اسلام کابجلی گھر (پاورہاؤس) ہے، جہاں سے اسلامی آبادی بلکہ انسانی آبادی میں بجلی تقسیم ہوتی ہے،مدرسہ وہ کارخانہ ہے جہاں قلب ونگاہ اورذہن ودماغ ڈھلتے ہیں،مدرسہ وہ مقام ہے جہاں سے پوری کائنات کااحتساب ہوتاہے ، اورپوری انسانی زندگی کی نگرانی کی جاتی ہے،جہاں کافرمان پورے عالم پرنافذہے،عالم کافرمان اس پر نافذ نہیں،مدرسہ کا تعلق کسی تقویم، کسی تمدن،کسی عہد،کسی کلچر،زبان وادب سے نہیں کہ اس کی قدامت کاشبہ اوراس کے زوال کاخطرہ ہو،اس کاتعلق براہ راست نبوت محمدیؐ سے ہے جو عالمگیربھی ہے اورزندۂ جاوید بھی،اس کاتعلق اس انسانیت سے ہے جوہردم جواں ہے،اس زندگی سے ہے جوہردم رواں اور دواں ہے،مدرسہ درحقیقت قدیم وجدیم کی بحثوں سے بالاترہے،وہ تو ایسی جگہ ہے جہاں نبوت محمدیؐ کی ابدیت اورزندگی کانمواورحرکت دونوںپائے جاتے ہیں۔‘‘(پاجاسراغ زندگی:94) مدارس کی اسی روحانیت کوباقی رکھنے کے لیی اوراس کی افادیت کوابدی اورلازوال بنانے کے لئے ام المدارس دارالعلوم دیوبندکے بانی حجۃ الاسلام حضرت مولانامحمدقاسم نانوتویؒ نے اپنے رفقاء کے ساتھ مل کرجب دارالعلوم دیوبندکی بنیادرکھی تواس وقت اس کے لئے ایک اصول مرتب کیاجسے تاریخ نے"اصول ہشت گانہ"کے نام سے اپنے صفحات میں محفوظ کرلیاہے،یہ اصول ہشت گانہ آج بھی دارالعلوم دیوبندکے کتب خانہ  میں محفوظ ہے،جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مدارس کی بقاء اورتحفظ کے لئے انتہائی ضروری ہے کہ اسے حکومت کی امداداورگرانٹ سے دوررکھاجائے ورنہ جس دن حکومت کاایک پیسہ بھی مدرسہ کے مدمیں شامل ہوگیاوہ ایک پیسہ مدرسہ کی روحانیت کوختم کرنے کے لئے کافی ہوگا،ملاحظہ فرمائیں حضرت نانوتویؒ کاوہ اصول زریں اورغورکریں کہ کیامدرسہ بورڈقائم ہوناچاہئے ؟کیامدارس کوحکومت کی جھولی میں ڈال کراس کی روحانیت اورابدی افادیت کو ختم کرنے کی ناپاک کوشش کرنے والوں کی حمایت کرنی چاہئے یامخالفت؟حضرت نانوتویؒ نے اپنے قلم سے یہ اصول مرتب کیاتھاجس کاآخری اوراہم اصول یہ تھاکہ: اس مدرسہ میں جب تک آمدنی کی کوئی سبیل یقینی نہیں تب تک یہ مدرسہ انشاء اللہ بشرط توجہ الی اللہ اسی طرح چلے گااوراگرکوئی آمدنی اس کویقینی ہوگئی جیسے جاگیر،کارخانہ تجارت یاکسی امیرمحکم القول کا وعدہ توپھریوں نظرآتاہے کہ یہ خوف ورجاء جوسرمایہ رجوع الی اللہ ہے ہاتھ سے جاتارہے گااورامدادغیبی موقوف ہوجائے گی اورکارکنوںمیں باہم نزاع پیداہوجائے گا‘۔ (تاریخ دارالعلوم :106) تاریخ شاہدہے کہ جن مدارس نے اپنے آپ کوحکومت کی دسترس سے باہررکھااورتوکل علی اللہ کواپناسرمایہ بناکرکام کرتے رہے ان کے فارغین نے ہمیشہ اسلام کوسربلندکیااورجن مدارس کے مفادپرست ذمہ داروں نے اپنے چندذاتی مفادات کے لئے مدارس کوحکومت کی جھولی میں ڈال دی ان کاکیاحشرہورہاہے یہ اہل نظرسےپوشیدہ نہیں ہے۔اس وقت ہندستان کی ۲۸!ریاستوںمیں سے تقریبا13/ریاستوںمیں مدرسہ بورڈکانظام رائج ہے ،جہاں حکومت کی جانب سے مقررکردہ نصاب طلبہ کوپڑھایاجارہا ہے لیکن یہ مدارس برائے نام مدارس ہیں وہاں تعلیم کے نام پرمعصوم طلبہ وطالبات کی زندگی سے کھلواڑکیاجاتاہے ،اوربقول مفکرملت حضرت مولانامحمدولی رحمانی مدظلہ‘ العالی کہ ان مدارس میں ۹۵/فیصد طلبہ صرف امتحان دے کرڈگری حاصل کرنے کے لیی داخلہ لیتے ہیں جنہیں اپنانام تک صحیح سے لکھنانہیں آتاجوکہ امت مسلمہ کے لئے ایک لمحۂ فکریہ ہے۔اوریہ حقیقت ہے کہ یہ مدارس صرف اورصرف ڈگری حاصل کرنے کاایک اہم اورآسان ذریعہ بن چکاہے تاکہ اس کے ذریعہ معاش کے حصول میں آسانی ہواورکہیں اچھی سی نوکری مل جائے جب کہ درحقیقت مدارس فکرمعادیعنی آخرت کوسنوارنے کے لئےہے نہ کہ فکرمعاش کے ذریعہ آخرت کوبگاڑنے کے لیی۔بہارمیں تقریبا1126/مدارس حکومت سے امدادیافتہ ہیں اور 2460/مدارس منظورہوچکے ہیں جوامدادحاصل کرنے کی تگ ودومیں لگے ہوئے ہیں اسی طرح یوپی میں5900/مدارس منظورشدہ ہیں جن میں459/مدارس کوامدادحاصل ہے ، ان میں سے یوپی میں7/لاکھ 70/ہزارجبکہ بہارمیں02/لاکھ طلبہ زیرتعلیم ہیں جوکہ اپنے مستقبل کوسنوارنے کے چکرمیں اپنی آخرت بربادکررہے ہیں۔مدرسہ بورڈ کی مخالفت برائے مخالفت نہیں ہے بلکہ میرے سامنے مدرسہ بورڈسے متعلق ایسے حقائق ہیں جوبیان سے باہرہیں،بالخصوص جب سےحکومت نے مدرسہ بورڈ کی اسنادکواساتذہ بحالی کے لئے منظورکیاہے ،امتحانات میں شریک ہونے والے طلبہ وطالبات کی تعدادکئی گنازیادہ ہوگئی ہے اوررشوت کے بل پرنمبرات بڑھانے کاعمل بھی کافی تیزترہوگیاہے کیوں کہ بہارحکومت نے پہلے بحالی کے لئے نمبرکوہی بنیادبنایاتھا،ٹی ای ٹی کی شرط توبعدمیں آئی ہے،ہزاروں گھریلوخواتین جنہوں نے کبھی مدرسہ یااسکول کامنھ تک نہیں دیکھانوکری کی لالچ میں مدرسہ بورڈ میں داخلہ لے کرامتحانات دئے ،اب یہ نہ پوچھیں کہ وہ امتحانات انہوں نے کس طرح دیئے اورکس طرح فرسٹ پوزیشن اورفرسٹ ڈویزن سے امتحانات میں کامیابی حاصل کی اوراس کی بنیادپرانہیں نوکریاںمل گئیں اوروہ بحیثیت استانی اسکول میں بچوں کی زندگی سے کھیلواڑکرنے پرمامورہوگئیں،آج صرف بہارکی حدتک اگرمیں کہوں تومبالغہ نہ ہوگاکہ اسکولوںمیں اس طرح کے استاذواستانیوں کی بھرمارہیں جنہیں اپنانام تک صحیح سے لکھنانہیں آتالیکن وہ وہاں بحیثیت استاذکام کررہے ہیں،ایک واقعہ جوکہ خود بہارمدرسہ بورڈٹیچرس ایسوسی ایشن کے بڑے ذمہ دارنے مجھے شخصی طورپربتایاوہ مسلمانوں کے لیی کسی درس عبرت سے کم نہیں ہے۔انہوں نے دربھنگہ ضلع کے ایک بلاک کاواقعہ بیان کرتے ہوئے کہاکہ ایک دن ضلع ایجوکیشن افسرنے انہیں فون کرکے کہاکہ آج فلاں بلاک میں نئے اساتذہ کی بحالی کی ایک چھوٹی سی تقریب ہے جس میں مدرسہ بورڈکے فارغین کے درمیان تقررنامہ تقسیم کیاجائے گا،آپ مدرسہ بورڈٹیچرایسوسی ایشن کے ذمہ دارہیں اگرآپ اس تقریب میں شرکت کریں توہمارے لئے بڑی خوشی کی بات ہوگی ، میں نے اس تقریب میں شرکت کی ،اسی دوران ایک ایساشرمناک واقعہ پیش آیاکہ بھری مجلس میں میراسرشرم سے جھک گیاانہوں نے کہاکہ جب ضلع ایجوکیشن آفسرسب کوتقررنامہ تقسیم کررہاتھاتوان سے دستخط بھی لے رہاتھااسی دوران ایک برقعہ پوش خاتون آئیں جسے افسرنے کہاکہ یہاںپرہندی میں لکھیں کہ ’’میں نے اپنانیوکتی پترپایا‘‘اس خاتون کاجواب تھا کہ مجھے ہندی نہیں آتی جب افسرنے مارک شیٹ دیکھاتوہندی میں80/سے زائدنمبرتھے ،اس افسرنے میری جانب دیکھ کرمضحکہ خیزاندازمیں مسکرایا،پھراس نے خاتون سے کہا کہ اچھااردومیں ہی لکھ دیجئے،تواس خاتون نے بڑی مشکل سے اردومیں لکھاجوکہ کچھ اس طرح تھا’’میں نے اپناپتی پایا‘‘اورمزے کی بات یہ ہے کہ اردومیں بھی 80/سے زائد نمبر تھے ،مجموعی طورپروہ سبھی مضامین میں اول مقا م پرتھی لیکن عملی طورپرصفر،بعدمیں اس افسرنے جوکچھ مجھ سے کہااس کالفظ لفظ حقیقت پرمبنی تھا ،اس نے کہاکہ مجھے معلوم ہے کہ آپ لوگ مدرسہ بورڈ میں کیاپڑھاتے ہیں،میں نے تواسی لئے آپ کودعوت دے کربلایاتھاکہ آپ توہنگامہ کرتے ہیں احتجاج کرتے ہیں کہ ہمارے فارغین کونوکری دو،اسکول کے برابرتنخواہ دو،آخرکیوں؟ایسے لوگوں کوبحال کرکے کس کابھلاکریں گے آپ اپنی قوم کایاقوم کے مستقبل ان بچوں کاجنہیں یہ لوگ پڑھائیں گے؟کیایہ قوم کے مستقبل کے ساتھ ظلم نہیں ہے؟کیاایساپیسہ آپ لوگوں کے لئے جائزہے؟شکرکریں سیاست کا کہ ووٹ بینک کے نام پرحکومت کویہ سب کرناپڑتاہے ورنہ حکومت بھی خوب واقف ہے کہ آپ لوگ مدرسہ بورڈ میں کیاکرتے ہیں؟وہ بولے جارہاتھااورمیں سرجھکائے خاموشی سے اس کی باتیں سنتاجارہاتھاکیوں کہ وہ ایسی حقیقت کومیرے سامنے بیان کررہاتھا جس کے لئے میں اورپورامدرسہ بورڈ ذمہ دارہے،اس ایک واقعہ سے آپ بہت کچھ سمجھ سکتے ہیں کہ ایسے مدارس میں کیاہوتاہے جن کاالحاق حکومت سے ہوتاہے،اول توایسے مدارس میں بحالی کے لئےاساتذہ کوبڑی رقم بطوررشوت دینی ہوتی ہے جس میں سبھی برابرکے حصہ دارہوتے ہیں،پھراپنی تنخواہیں جاری کرانے کے لیی ایسوسی ایشن والوں کوہرماہ کمیشن دیناپڑتاہے جو کسی سے پوشیدہ نہیں ہے،ابھی گذشتہ دنوں بھی بہارمدرسہ بورڈ ٹیچرس ایسوسی ایشن کے ایک بڑے ذمہ دارپراس طرح کاالزام لگ چکاہے ،اوریہ کوئی نیاواقعہ نہیں ہے وہ واقعتااس کامجرم ہے،جسے ایک ادنی ٰ ملازم سے لے کرسربراہ تک جانتاہے لیکن ہرایک کواپناحصہ مل جاتاہے اسی لئے سبھی خاموش رہتے ہیں،توایسے حالات میں اساتذہ کیاپڑھائیں گے اور طلبہ وطالبات کے ساتھ ان کاکیارشتہ ہوگا؟ یہ موضوع ایساہے کہ اس پربہت کچھ تفصیل سے لکھاجاسکتاہے لیکن اس مختصرسے مضمون میں ان سب کی گنجائش نہیں ہے ،بس اتنا کہنا کافی ہوگاکہ مدرسہ بورڈ مسلمانوں کے حق میں نہیں ہے بلکہ عملاًیہ مسلمانوں کے خلاف ہے،اگرحکومت مسلمانوں کی اتنی ہی مخلص ہے تووہ مسلمانوں کی فلاح وبہبودکے لئے ان سفارشات پرعمل کرے جوسچرکمیٹی نے پیش کی ہیں،سچرکمیٹی کی رپورٹ نے یہ واضح کردیاکہ مسلمانوں کے صرف4/فیصدبچے ہی مدارس میں پڑھتے ہیں اوراسکول وکالج اور یونیورسٹی تک پہونچنے والے مسلم طلبہ کی تعدادبھی تشویشناک حدتک کم ہے توپھرحکومت96/فیصدی مسلم طلبہ وطالبات کے لئے کیوں نہیں ٹھوس قدم اٹھارہی ہے جوکہ ایک بڑی تعدادہے جس سے مسلمانوں کے ساتھ ملک کابھی فائدہ ہوگا،حکومت کو96/فیصدکی توکوئی فکرنہیں ہے لیکن 4/فیصدکی اتنی فکرہے کہ اپنی ساری توجہ ان4/فیصدپرہی مرکوز کردینا چاہتی ہے ،آخرکیوں؟یہ ایک ایساسوال ہے جس کاجواب سب کومعلوم ہے لیکن بتاناکوئی نہیں چاہتا۔ایسے ماحول میں مالیگاؤں کے ارباب مدارس کا یہ فیصلہ واقعتالائق تحسین اور پورے ملک کے مسلمانوں کے لئےقابل تقلیدہے۔وقت آگیاہے کہ لوگ حکومت کی سازش کوسمجھیں اورمدرسہ جدیدکاری کے خوبصورت جال میں پھنسنے کی بجائے اس کی حقیقت سے ملک کے عوام کوروشناس کرائیں اورجومدرسہ آزادہیں انہیں آزادہی رہنے دیں،تاکہ ہندستان سے اسلام کوختم کرنے کی جومذموم کوشش کی جارہی ہے اسے یہ مدارس ختم کرسکیں۔اگرمدارس کوحکومت کی دسترس سے آزادنہ رکھاگیاتوپھروہ دن دورنہیں کہ ہندستان میں مسلمان تورہیں گے لیکن اسلام باقی نہ رہے گاجیساکہ علامہ اقبال رحمۃٖ اللہ علیہ نے اندلس سے واپسی پرقوم کے نام اپنے خطاب میں جو کچھ کہا تھاوہ آج بھی تاریخ کے صفحات پرسنہرے حرفوںمیں موجودہے،انہوں نے کہاتھا: ’’ان مکتبوں(مدرسوں)کواسی حالت میں رہنے دو،غریب مسلمانوں کے بچوں کوانہی مدرسوں میں پڑھنے دو اگریہ ملااوردرویش نہ رہے توکیاہوگا؟جوکچھ ہوگامیں انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ آیاہوں۔اگرہندستان کے مسلمان ان مدرسوں کے اثرسے محروم ہوگئے توبالکل اسی طرح جس طرح اندلس میں مسلمانوںکی 8/سوبرس حکومت کے باوجودآج غرناطہ و قرطبہ کے کھنڈر اورالحمراء اورباب الخواتین کے نشانات کے سوااسلام کے پیروؤں اوراسلامی تہذیب کے آثارکاکوئی نقش نہیں ملتا، ہندستان میں بھی آگرہ کے تاج محل اورلال قلعہ کے سوا مسلمانوںکی 8/سوسالہ حکومت اوران کی تہذیب کاکوئی نشان نہ ملے گا۔‘‘(علامہ اقبالؒ) جنرل سکریٹری: رابطہ صحافت اسلامی ہند رابطہ کے لئے : gsqasmi99@gmail.comمالیگاؤں کے ذمہ داران مدارس کاقابل تقلیدقدم Ghufran-sajiad-1 غفران ساجد قاسمی گذشتہ دنوں دہلی سے شائع ہونے والے ایک موقراردوروزنامہ میں ایک اہم خبرشائع ہوئی جوکہ اپنی معنویت کے اعتبارسے انتہائی اہمیت کی حامل تھی،لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ خبرصرف ایک خبرمحض بن کررہ گئی ،کسی نے اسے لائق توجہ نہیں سمجھا،خبریہ تھی کہ مالیگاؤں  کے ارباب مدارس اسلامیہ اورسرکردہ علماء نے متفقہ طورپریہ فیصلہ کیاہے کہ وہ مدارس کو حکومت کی دسترس سے آزادرکھنے کے لیے کسی طرح کی حکومتی امدادنہیں لیں گے ،اورصرف اورصرف اہل خیرکے تعاون سے مدرسہ کے اخراجات کوپوراکریں گے۔خبرانتہائی اہم اورایک زبردست پیغام ہے ان تمام لوگوں کے لئے جواپنے معمولی ذاتی مفادات کے لئے مدارس کوحکومت کی قربان گاہ پر قربان کردیتے ہیں اوردینی تعلیم کامذا ق بناکر ہزاروں معصوم کی زندگی سے کھیلواڑکرتے ہیں،یہ پیغام ان لوگوں کے لئے بھی ہے جواپنی روزی روٹی کے معمولی مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے ان ریاستوںمیں مدرسہ بورڈکے قیام کا پرزورمطالبہ کررہے ہیں جوریاستیں ابھی تک الحمدللہ اس لعنت سے پاک ہیں،ارباب مدارس کا یہ حوصلہ افزا بیان ایسے وقت میں آیاہے جب کہ حکومت ایک سازش کے تحت مدارس سے روحانیت کوختم کرکے مسلمانوں کے نونہالوں کودین بیزاربنانے کی سرگرمیوںمیں مصروف ہے۔مدارس مسلمانوں کے لیی صرف ایک تعلیم گاہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ مدارس مسلمانوں کے لئے ایک مرکزرشدوہدایت کادرجہ رکھتے ہیں،مدارس کی حقیقت کوجاننے کے لیی مفکراسلام حضرت مولاناابولحسن علی ندویؒ کایہ بیان انتہائی اہمیت کاحامل ہے: ’’مدرسہ کیاہے؟مدرسہ کاکیامقصدہے؟ ’’مدرسہ سب سے بڑی کارگاہ ہے، جہاں آدم گری اورمردم سازی کاکام ہوتاہے،جہاں دین کے داعی اوراسلام کے سپاہی تیارہوتے ہیں،مدرسہ عالم اسلام کابجلی گھر (پاورہاؤس) ہے، جہاں سے اسلامی آبادی بلکہ انسانی آبادی میں بجلی تقسیم ہوتی ہے،مدرسہ وہ کارخانہ ہے جہاں قلب ونگاہ اورذہن ودماغ ڈھلتے ہیں،مدرسہ وہ مقام ہے جہاں سے پوری کائنات کااحتساب ہوتاہے ، اورپوری انسانی زندگی کی نگرانی کی جاتی ہے،جہاں کافرمان پورے عالم پرنافذہے،عالم کافرمان اس پر نافذ نہیں،مدرسہ کا تعلق کسی تقویم، کسی تمدن،کسی عہد،کسی کلچر،زبان وادب سے نہیں کہ اس کی قدامت کاشبہ اوراس کے زوال کاخطرہ ہو،اس کاتعلق براہ راست نبوت محمدیؐ سے ہے جو عالمگیربھی ہے اورزندۂ جاوید بھی،اس کاتعلق اس انسانیت سے ہے جوہردم جواں ہے،اس زندگی سے ہے جوہردم رواں اور دواں ہے،مدرسہ درحقیقت قدیم وجدیم کی بحثوں سے بالاترہے،وہ تو ایسی جگہ ہے جہاں نبوت محمدیؐ کی ابدیت اورزندگی کانمواورحرکت دونوںپائے جاتے ہیں۔‘‘(پاجاسراغ زندگی:94) مدارس کی اسی روحانیت کوباقی رکھنے کے لیی اوراس کی افادیت کوابدی اورلازوال بنانے کے لئے ام المدارس دارالعلوم دیوبندکے بانی حجۃ الاسلام حضرت مولانامحمدقاسم نانوتویؒ نے اپنے رفقاء کے ساتھ مل کرجب دارالعلوم دیوبندکی بنیادرکھی تواس وقت اس کے لئے ایک اصول مرتب کیاجسے تاریخ نے"اصول ہشت گانہ"کے نام سے اپنے صفحات میں محفوظ کرلیاہے،یہ اصول ہشت گانہ آج بھی دارالعلوم دیوبندکے کتب خانہ  میں محفوظ ہے،جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مدارس کی بقاء اورتحفظ کے لئے انتہائی ضروری ہے کہ اسے حکومت کی امداداورگرانٹ سے دوررکھاجائے ورنہ جس دن حکومت کاایک پیسہ بھی مدرسہ کے مدمیں شامل ہوگیاوہ ایک پیسہ مدرسہ کی روحانیت کوختم کرنے کے لئے کافی ہوگا،ملاحظہ فرمائیں حضرت نانوتویؒ کاوہ اصول زریں اورغورکریں کہ کیامدرسہ بورڈقائم ہوناچاہئے ؟کیامدارس کوحکومت کی جھولی میں ڈال کراس کی روحانیت اورابدی افادیت کو ختم کرنے کی ناپاک کوشش کرنے والوں کی حمایت کرنی چاہئے یامخالفت؟حضرت نانوتویؒ نے اپنے قلم سے یہ اصول مرتب کیاتھاجس کاآخری اوراہم اصول یہ تھاکہ: اس مدرسہ میں جب تک آمدنی کی کوئی سبیل یقینی نہیں تب تک یہ مدرسہ انشاء اللہ بشرط توجہ الی اللہ اسی طرح چلے گااوراگرکوئی آمدنی اس کویقینی ہوگئی جیسے جاگیر،کارخانہ تجارت یاکسی امیرمحکم القول کا وعدہ توپھریوں نظرآتاہے کہ یہ خوف ورجاء جوسرمایہ رجوع الی اللہ ہے ہاتھ سے جاتارہے گااورامدادغیبی موقوف ہوجائے گی اورکارکنوںمیں باہم نزاع پیداہوجائے گا‘۔ (تاریخ دارالعلوم :106) تاریخ شاہدہے کہ جن مدارس نے اپنے آپ کوحکومت کی دسترس سے باہررکھااورتوکل علی اللہ کواپناسرمایہ بناکرکام کرتے رہے ان کے فارغین نے ہمیشہ اسلام کوسربلندکیااورجن مدارس کے مفادپرست ذمہ داروں نے اپنے چندذاتی مفادات کے لئے مدارس کوحکومت کی جھولی میں ڈال دی ان کاکیاحشرہورہاہے یہ اہل نظرسےپوشیدہ نہیں ہے۔اس وقت ہندستان کی ۲۸!ریاستوںمیں سے تقریبا13/ریاستوںمیں مدرسہ بورڈکانظام رائج ہے ،جہاں حکومت کی جانب سے مقررکردہ نصاب طلبہ کوپڑھایاجارہا ہے لیکن یہ مدارس برائے نام مدارس ہیں وہاں تعلیم کے نام پرمعصوم طلبہ وطالبات کی زندگی سے کھلواڑکیاجاتاہے ،اوربقول مفکرملت حضرت مولانامحمدولی رحمانی مدظلہ‘ العالی کہ ان مدارس میں ۹۵/فیصد طلبہ صرف امتحان دے کرڈگری حاصل کرنے کے لیی داخلہ لیتے ہیں جنہیں اپنانام تک صحیح سے لکھنانہیں آتاجوکہ امت مسلمہ کے لئے ایک لمحۂ فکریہ ہے۔اوریہ حقیقت ہے کہ یہ مدارس صرف اورصرف ڈگری حاصل کرنے کاایک اہم اورآسان ذریعہ بن چکاہے تاکہ اس کے ذریعہ معاش کے حصول میں آسانی ہواورکہیں اچھی سی نوکری مل جائے جب کہ درحقیقت مدارس فکرمعادیعنی آخرت کوسنوارنے کے لئےہے نہ کہ فکرمعاش کے ذریعہ آخرت کوبگاڑنے کے لیی۔بہارمیں تقریبا1126/مدارس حکومت سے امدادیافتہ ہیں اور 2460/مدارس منظورہوچکے ہیں جوامدادحاصل کرنے کی تگ ودومیں لگے ہوئے ہیں اسی طرح یوپی میں5900/مدارس منظورشدہ ہیں جن میں459/مدارس کوامدادحاصل ہے ، ان میں سے یوپی میں7/لاکھ 70/ہزارجبکہ بہارمیں02/لاکھ طلبہ زیرتعلیم ہیں جوکہ اپنے مستقبل کوسنوارنے کے چکرمیں اپنی آخرت بربادکررہے ہیں۔مدرسہ بورڈ کی مخالفت برائے مخالفت نہیں ہے بلکہ میرے سامنے مدرسہ بورڈسے متعلق ایسے حقائق ہیں جوبیان سے باہرہیں،بالخصوص جب سےحکومت نے مدرسہ بورڈ کی اسنادکواساتذہ بحالی کے لئے منظورکیاہے ،امتحانات میں شریک ہونے والے طلبہ وطالبات کی تعدادکئی گنازیادہ ہوگئی ہے اوررشوت کے بل پرنمبرات بڑھانے کاعمل بھی کافی تیزترہوگیاہے کیوں کہ بہارحکومت نے پہلے بحالی کے لئے نمبرکوہی بنیادبنایاتھا،ٹی ای ٹی کی شرط توبعدمیں آئی ہے،ہزاروں گھریلوخواتین جنہوں نے کبھی مدرسہ یااسکول کامنھ تک نہیں دیکھانوکری کی لالچ میں مدرسہ بورڈ میں داخلہ لے کرامتحانات دئے ،اب یہ نہ پوچھیں کہ وہ امتحانات انہوں نے کس طرح دیئے اورکس طرح فرسٹ پوزیشن اورفرسٹ ڈویزن سے امتحانات میں کامیابی حاصل کی اوراس کی بنیادپرانہیں نوکریاںمل گئیں اوروہ بحیثیت استانی اسکول میں بچوں کی زندگی سے کھیلواڑکرنے پرمامورہوگئیں،آج صرف بہارکی حدتک اگرمیں کہوں تومبالغہ نہ ہوگاکہ اسکولوںمیں اس طرح کے استاذواستانیوں کی بھرمارہیں جنہیں اپنانام تک صحیح سے لکھنانہیں آتالیکن وہ وہاں بحیثیت استاذکام کررہے ہیں،ایک واقعہ جوکہ خود بہارمدرسہ بورڈٹیچرس ایسوسی ایشن کے بڑے ذمہ دارنے مجھے شخصی طورپربتایاوہ مسلمانوں کے لیی کسی درس عبرت سے کم نہیں ہے۔انہوں نے دربھنگہ ضلع کے ایک بلاک کاواقعہ بیان کرتے ہوئے کہاکہ ایک دن ضلع ایجوکیشن افسرنے انہیں فون کرکے کہاکہ آج فلاں بلاک میں نئے اساتذہ کی بحالی کی ایک چھوٹی سی تقریب ہے جس میں مدرسہ بورڈکے فارغین کے درمیان تقررنامہ تقسیم کیاجائے گا،آپ مدرسہ بورڈٹیچرایسوسی ایشن کے ذمہ دارہیں اگرآپ اس تقریب میں شرکت کریں توہمارے لئے بڑی خوشی کی بات ہوگی ، میں نے اس تقریب میں شرکت کی ،اسی دوران ایک ایساشرمناک واقعہ پیش آیاکہ بھری مجلس میں میراسرشرم سے جھک گیاانہوں نے کہاکہ جب ضلع ایجوکیشن آفسرسب کوتقررنامہ تقسیم کررہاتھاتوان سے دستخط بھی لے رہاتھااسی دوران ایک برقعہ پوش خاتون آئیں جسے افسرنے کہاکہ یہاںپرہندی میں لکھیں کہ ’’میں نے اپنانیوکتی پترپایا‘‘اس خاتون کاجواب تھا کہ مجھے ہندی نہیں آتی جب افسرنے مارک شیٹ دیکھاتوہندی میں80/سے زائدنمبرتھے ،اس افسرنے میری جانب دیکھ کرمضحکہ خیزاندازمیں مسکرایا،پھراس نے خاتون سے کہا کہ اچھااردومیں ہی لکھ دیجئے،تواس خاتون نے بڑی مشکل سے اردومیں لکھاجوکہ کچھ اس طرح تھا’’میں نے اپناپتی پایا‘‘اورمزے کی بات یہ ہے کہ اردومیں بھی 80/سے زائد نمبر تھے ،مجموعی طورپروہ سبھی مضامین میں اول مقا م پرتھی لیکن عملی طورپرصفر،بعدمیں اس افسرنے جوکچھ مجھ سے کہااس کالفظ لفظ حقیقت پرمبنی تھا ،اس نے کہاکہ مجھے معلوم ہے کہ آپ لوگ مدرسہ بورڈ میں کیاپڑھاتے ہیں،میں نے تواسی لئے آپ کودعوت دے کربلایاتھاکہ آپ توہنگامہ کرتے ہیں احتجاج کرتے ہیں کہ ہمارے فارغین کونوکری دو،اسکول کے برابرتنخواہ دو،آخرکیوں؟ایسے لوگوں کوبحال کرکے کس کابھلاکریں گے آپ اپنی قوم کایاقوم کے مستقبل ان بچوں کاجنہیں یہ لوگ پڑھائیں گے؟کیایہ قوم کے مستقبل کے ساتھ ظلم نہیں ہے؟کیاایساپیسہ آپ لوگوں کے لئے جائزہے؟شکرکریں سیاست کا کہ ووٹ بینک کے نام پرحکومت کویہ سب کرناپڑتاہے ورنہ حکومت بھی خوب واقف ہے کہ آپ لوگ مدرسہ بورڈ میں کیاکرتے ہیں؟وہ بولے جارہاتھااورمیں سرجھکائے خاموشی سے اس کی باتیں سنتاجارہاتھاکیوں کہ وہ ایسی حقیقت کومیرے سامنے بیان کررہاتھا جس کے لئے میں اورپورامدرسہ بورڈ ذمہ دارہے،اس ایک واقعہ سے آپ بہت کچھ سمجھ سکتے ہیں کہ ایسے مدارس میں کیاہوتاہے جن کاالحاق حکومت سے ہوتاہے،اول توایسے مدارس میں بحالی کے لئےاساتذہ کوبڑی رقم بطوررشوت دینی ہوتی ہے جس میں سبھی برابرکے حصہ دارہوتے ہیں،پھراپنی تنخواہیں جاری کرانے کے لیی ایسوسی ایشن والوں کوہرماہ کمیشن دیناپڑتاہے جو کسی سے پوشیدہ نہیں ہے،ابھی گذشتہ دنوں بھی بہارمدرسہ بورڈ ٹیچرس ایسوسی ایشن کے ایک بڑے ذمہ دارپراس طرح کاالزام لگ چکاہے ،اوریہ کوئی نیاواقعہ نہیں ہے وہ واقعتااس کامجرم ہے،جسے ایک ادنی ٰ ملازم سے لے کرسربراہ تک جانتاہے لیکن ہرایک کواپناحصہ مل جاتاہے اسی لئے سبھی خاموش رہتے ہیں،توایسے حالات میں اساتذہ کیاپڑھائیں گے اور طلبہ وطالبات کے ساتھ ان کاکیارشتہ ہوگا؟ یہ موضوع ایساہے کہ اس پربہت کچھ تفصیل سے لکھاجاسکتاہے لیکن اس مختصرسے مضمون میں ان سب کی گنجائش نہیں ہے ،بس اتنا کہنا کافی ہوگاکہ مدرسہ بورڈ مسلمانوں کے حق میں نہیں ہے بلکہ عملاًیہ مسلمانوں کے خلاف ہے،اگرحکومت مسلمانوں کی اتنی ہی مخلص ہے تووہ مسلمانوں کی فلاح وبہبودکے لئے ان سفارشات پرعمل کرے جوسچرکمیٹی نے پیش کی ہیں،سچرکمیٹی کی رپورٹ نے یہ واضح کردیاکہ مسلمانوں کے صرف4/فیصدبچے ہی مدارس میں پڑھتے ہیں اوراسکول وکالج اور یونیورسٹی تک پہونچنے والے مسلم طلبہ کی تعدادبھی تشویشناک حدتک کم ہے توپھرحکومت96/فیصدی مسلم طلبہ وطالبات کے لئے کیوں نہیں ٹھوس قدم اٹھارہی ہے جوکہ ایک بڑی تعدادہے جس سے مسلمانوں کے ساتھ ملک کابھی فائدہ ہوگا،حکومت کو96/فیصدکی توکوئی فکرنہیں ہے لیکن 4/فیصدکی اتنی فکرہے کہ اپنی ساری توجہ ان4/فیصدپرہی مرکوز کردینا چاہتی ہے ،آخرکیوں؟یہ ایک ایساسوال ہے جس کاجواب سب کومعلوم ہے لیکن بتاناکوئی نہیں چاہتا۔ایسے ماحول میں مالیگاؤں کے ارباب مدارس کا یہ فیصلہ واقعتالائق تحسین اور پورے ملک کے مسلمانوں کے لئےقابل تقلیدہے۔وقت آگیاہے کہ لوگ حکومت کی سازش کوسمجھیں اورمدرسہ جدیدکاری کے خوبصورت جال میں پھنسنے کی بجائے اس کی حقیقت سے ملک کے عوام کوروشناس کرائیں اورجومدرسہ آزادہیں انہیں آزادہی رہنے دیں،تاکہ ہندستان سے اسلام کوختم کرنے کی جومذموم کوشش کی جارہی ہے اسے یہ مدارس ختم کرسکیں۔اگرمدارس کوحکومت کی دسترس سے آزادنہ رکھاگیاتوپھروہ دن دورنہیں کہ ہندستان میں مسلمان تورہیں گے لیکن اسلام باقی نہ رہے گاجیساکہ علامہ اقبال رحمۃٖ اللہ علیہ نے اندلس سے واپسی پرقوم کے نام اپنے خطاب میں جو کچھ کہا تھاوہ آج بھی تاریخ کے صفحات پرسنہرے حرفوںمیں موجودہے،انہوں نے کہاتھا: ’’ان مکتبوں(مدرسوں)کواسی حالت میں رہنے دو،غریب مسلمانوں کے بچوں کوانہی مدرسوں میں پڑھنے دو اگریہ ملااوردرویش نہ رہے توکیاہوگا؟جوکچھ ہوگامیں انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ آیاہوں۔اگرہندستان کے مسلمان ان مدرسوں کے اثرسے محروم ہوگئے توبالکل اسی طرح جس طرح اندلس میں مسلمانوںکی 8/سوبرس حکومت کے باوجودآج غرناطہ و قرطبہ کے کھنڈر اورالحمراء اورباب الخواتین کے نشانات کے سوااسلام کے پیروؤں اوراسلامی تہذیب کے آثارکاکوئی نقش نہیں ملتا، ہندستان میں بھی آگرہ کے تاج محل اورلال قلعہ کے سوا مسلمانوںکی 8/سوسالہ حکومت اوران کی تہذیب کاکوئی نشان نہ ملے گا۔‘‘(علامہ اقبالؒ) جنرل سکریٹری: رابطہ صحافت اسلامی ہند رابطہ کے لئے : gsqasmi99@gmail.com[:fa]مالیگاؤں کے ذمہ داران مدارس کاقابل تقلیدقدم Ghufran-sajiad-1 غفران ساجد قاسمی گذشتہ دنوں دہلی سے شائع ہونے والے ایک موقراردوروزنامہ میں ایک اہم خبرشائع ہوئی جوکہ اپنی معنویت کے اعتبارسے انتہائی اہمیت کی حامل تھی،لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ خبرصرف ایک خبرمحض بن کررہ گئی ،کسی نے اسے لائق توجہ نہیں سمجھا،خبریہ تھی کہ مالیگاؤں  کے ارباب مدارس اسلامیہ اورسرکردہ علماء نے متفقہ طورپریہ فیصلہ کیاہے کہ وہ مدارس کو حکومت کی دسترس سے آزادرکھنے کے لیے کسی طرح کی حکومتی امدادنہیں لیں گے ،اورصرف اورصرف اہل خیرکے تعاون سے مدرسہ کے اخراجات کوپوراکریں گے۔خبرانتہائی اہم اورایک زبردست پیغام ہے ان تمام لوگوں کے لئے جواپنے معمولی ذاتی مفادات کے لئے مدارس کوحکومت کی قربان گاہ پر قربان کردیتے ہیں اوردینی تعلیم کامذا ق بناکر ہزاروں معصوم کی زندگی سے کھیلواڑکرتے ہیں،یہ پیغام ان لوگوں کے لئے بھی ہے جواپنی روزی روٹی کے معمولی مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے ان ریاستوںمیں مدرسہ بورڈکے قیام کا پرزورمطالبہ کررہے ہیں جوریاستیں ابھی تک الحمدللہ اس لعنت سے پاک ہیں،ارباب مدارس کا یہ حوصلہ افزا بیان ایسے وقت میں آیاہے جب کہ حکومت ایک سازش کے تحت مدارس سے روحانیت کوختم کرکے مسلمانوں کے نونہالوں کودین بیزاربنانے کی سرگرمیوںمیں مصروف ہے۔مدارس مسلمانوں کے لیی صرف ایک تعلیم گاہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ مدارس مسلمانوں کے لئے ایک مرکزرشدوہدایت کادرجہ رکھتے ہیں،مدارس کی حقیقت کوجاننے کے لیی مفکراسلام حضرت مولاناابولحسن علی ندویؒ کایہ بیان انتہائی اہمیت کاحامل ہے: ’’مدرسہ کیاہے؟مدرسہ کاکیامقصدہے؟ ’’مدرسہ سب سے بڑی کارگاہ ہے، جہاں آدم گری اورمردم سازی کاکام ہوتاہے،جہاں دین کے داعی اوراسلام کے سپاہی تیارہوتے ہیں،مدرسہ عالم اسلام کابجلی گھر (پاورہاؤس) ہے، جہاں سے اسلامی آبادی بلکہ انسانی آبادی میں بجلی تقسیم ہوتی ہے،مدرسہ وہ کارخانہ ہے جہاں قلب ونگاہ اورذہن ودماغ ڈھلتے ہیں،مدرسہ وہ مقام ہے جہاں سے پوری کائنات کااحتساب ہوتاہے ، اورپوری انسانی زندگی کی نگرانی کی جاتی ہے،جہاں کافرمان پورے عالم پرنافذہے،عالم کافرمان اس پر نافذ نہیں،مدرسہ کا تعلق کسی تقویم، کسی تمدن،کسی عہد،کسی کلچر،زبان وادب سے نہیں کہ اس کی قدامت کاشبہ اوراس کے زوال کاخطرہ ہو،اس کاتعلق براہ راست نبوت محمدیؐ سے ہے جو عالمگیربھی ہے اورزندۂ جاوید بھی،اس کاتعلق اس انسانیت سے ہے جوہردم جواں ہے،اس زندگی سے ہے جوہردم رواں اور دواں ہے،مدرسہ درحقیقت قدیم وجدیم کی بحثوں سے بالاترہے،وہ تو ایسی جگہ ہے جہاں نبوت محمدیؐ کی ابدیت اورزندگی کانمواورحرکت دونوںپائے جاتے ہیں۔‘‘(پاجاسراغ زندگی:94) مدارس کی اسی روحانیت کوباقی رکھنے کے لیی اوراس کی افادیت کوابدی اورلازوال بنانے کے لئے ام المدارس دارالعلوم دیوبندکے بانی حجۃ الاسلام حضرت مولانامحمدقاسم نانوتویؒ نے اپنے رفقاء کے ساتھ مل کرجب دارالعلوم دیوبندکی بنیادرکھی تواس وقت اس کے لئے ایک اصول مرتب کیاجسے تاریخ نے"اصول ہشت گانہ"کے نام سے اپنے صفحات میں محفوظ کرلیاہے،یہ اصول ہشت گانہ آج بھی دارالعلوم دیوبندکے کتب خانہ  میں محفوظ ہے،جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مدارس کی بقاء اورتحفظ کے لئے انتہائی ضروری ہے کہ اسے حکومت کی امداداورگرانٹ سے دوررکھاجائے ورنہ جس دن حکومت کاایک پیسہ بھی مدرسہ کے مدمیں شامل ہوگیاوہ ایک پیسہ مدرسہ کی روحانیت کوختم کرنے کے لئے کافی ہوگا،ملاحظہ فرمائیں حضرت نانوتویؒ کاوہ اصول زریں اورغورکریں کہ کیامدرسہ بورڈقائم ہوناچاہئے ؟کیامدارس کوحکومت کی جھولی میں ڈال کراس کی روحانیت اورابدی افادیت کو ختم کرنے کی ناپاک کوشش کرنے والوں کی حمایت کرنی چاہئے یامخالفت؟حضرت نانوتویؒ نے اپنے قلم سے یہ اصول مرتب کیاتھاجس کاآخری اوراہم اصول یہ تھاکہ: اس مدرسہ میں جب تک آمدنی کی کوئی سبیل یقینی نہیں تب تک یہ مدرسہ انشاء اللہ بشرط توجہ الی اللہ اسی طرح چلے گااوراگرکوئی آمدنی اس کویقینی ہوگئی جیسے جاگیر،کارخانہ تجارت یاکسی امیرمحکم القول کا وعدہ توپھریوں نظرآتاہے کہ یہ خوف ورجاء جوسرمایہ رجوع الی اللہ ہے ہاتھ سے جاتارہے گااورامدادغیبی موقوف ہوجائے گی اورکارکنوںمیں باہم نزاع پیداہوجائے گا‘۔ (تاریخ دارالعلوم :106) تاریخ شاہدہے کہ جن مدارس نے اپنے آپ کوحکومت کی دسترس سے باہررکھااورتوکل علی اللہ کواپناسرمایہ بناکرکام کرتے رہے ان کے فارغین نے ہمیشہ اسلام کوسربلندکیااورجن مدارس کے مفادپرست ذمہ داروں نے اپنے چندذاتی مفادات کے لئے مدارس کوحکومت کی جھولی میں ڈال دی ان کاکیاحشرہورہاہے یہ اہل نظرسےپوشیدہ نہیں ہے۔اس وقت ہندستان کی ۲۸!ریاستوںمیں سے تقریبا13/ریاستوںمیں مدرسہ بورڈکانظام رائج ہے ،جہاں حکومت کی جانب سے مقررکردہ نصاب طلبہ کوپڑھایاجارہا ہے لیکن یہ مدارس برائے نام مدارس ہیں وہاں تعلیم کے نام پرمعصوم طلبہ وطالبات کی زندگی سے کھلواڑکیاجاتاہے ،اوربقول مفکرملت حضرت مولانامحمدولی رحمانی مدظلہ‘ العالی کہ ان مدارس میں ۹۵/فیصد طلبہ صرف امتحان دے کرڈگری حاصل کرنے کے لیی داخلہ لیتے ہیں جنہیں اپنانام تک صحیح سے لکھنانہیں آتاجوکہ امت مسلمہ کے لئے ایک لمحۂ فکریہ ہے۔اوریہ حقیقت ہے کہ یہ مدارس صرف اورصرف ڈگری حاصل کرنے کاایک اہم اورآسان ذریعہ بن چکاہے تاکہ اس کے ذریعہ معاش کے حصول میں آسانی ہواورکہیں اچھی سی نوکری مل جائے جب کہ درحقیقت مدارس فکرمعادیعنی آخرت کوسنوارنے کے لئےہے نہ کہ فکرمعاش کے ذریعہ آخرت کوبگاڑنے کے لیی۔بہارمیں تقریبا1126/مدارس حکومت سے امدادیافتہ ہیں اور 2460/مدارس منظورہوچکے ہیں جوامدادحاصل کرنے کی تگ ودومیں لگے ہوئے ہیں اسی طرح یوپی میں5900/مدارس منظورشدہ ہیں جن میں459/مدارس کوامدادحاصل ہے ، ان میں سے یوپی میں7/لاکھ 70/ہزارجبکہ بہارمیں02/لاکھ طلبہ زیرتعلیم ہیں جوکہ اپنے مستقبل کوسنوارنے کے چکرمیں اپنی آخرت بربادکررہے ہیں۔مدرسہ بورڈ کی مخالفت برائے مخالفت نہیں ہے بلکہ میرے سامنے مدرسہ بورڈسے متعلق ایسے حقائق ہیں جوبیان سے باہرہیں،بالخصوص جب سےحکومت نے مدرسہ بورڈ کی اسنادکواساتذہ بحالی کے لئے منظورکیاہے ،امتحانات میں شریک ہونے والے طلبہ وطالبات کی تعدادکئی گنازیادہ ہوگئی ہے اوررشوت کے بل پرنمبرات بڑھانے کاعمل بھی کافی تیزترہوگیاہے کیوں کہ بہارحکومت نے پہلے بحالی کے لئے نمبرکوہی بنیادبنایاتھا،ٹی ای ٹی کی شرط توبعدمیں آئی ہے،ہزاروں گھریلوخواتین جنہوں نے کبھی مدرسہ یااسکول کامنھ تک نہیں دیکھانوکری کی لالچ میں مدرسہ بورڈ میں داخلہ لے کرامتحانات دئے ،اب یہ نہ پوچھیں کہ وہ امتحانات انہوں نے کس طرح دیئے اورکس طرح فرسٹ پوزیشن اورفرسٹ ڈویزن سے امتحانات میں کامیابی حاصل کی اوراس کی بنیادپرانہیں نوکریاںمل گئیں اوروہ بحیثیت استانی اسکول میں بچوں کی زندگی سے کھیلواڑکرنے پرمامورہوگئیں،آج صرف بہارکی حدتک اگرمیں کہوں تومبالغہ نہ ہوگاکہ اسکولوںمیں اس طرح کے استاذواستانیوں کی بھرمارہیں جنہیں اپنانام تک صحیح سے لکھنانہیں آتالیکن وہ وہاں بحیثیت استاذکام کررہے ہیں،ایک واقعہ جوکہ خود بہارمدرسہ بورڈٹیچرس ایسوسی ایشن کے بڑے ذمہ دارنے مجھے شخصی طورپربتایاوہ مسلمانوں کے لیی کسی درس عبرت سے کم نہیں ہے۔انہوں نے دربھنگہ ضلع کے ایک بلاک کاواقعہ بیان کرتے ہوئے کہاکہ ایک دن ضلع ایجوکیشن افسرنے انہیں فون کرکے کہاکہ آج فلاں بلاک میں نئے اساتذہ کی بحالی کی ایک چھوٹی سی تقریب ہے جس میں مدرسہ بورڈکے فارغین کے درمیان تقررنامہ تقسیم کیاجائے گا،آپ مدرسہ بورڈٹیچرایسوسی ایشن کے ذمہ دارہیں اگرآپ اس تقریب میں شرکت کریں توہمارے لئے بڑی خوشی کی بات ہوگی ، میں نے اس تقریب میں شرکت کی ،اسی دوران ایک ایساشرمناک واقعہ پیش آیاکہ بھری مجلس میں میراسرشرم سے جھک گیاانہوں نے کہاکہ جب ضلع ایجوکیشن آفسرسب کوتقررنامہ تقسیم کررہاتھاتوان سے دستخط بھی لے رہاتھااسی دوران ایک برقعہ پوش خاتون آئیں جسے افسرنے کہاکہ یہاںپرہندی میں لکھیں کہ ’’میں نے اپنانیوکتی پترپایا‘‘اس خاتون کاجواب تھا کہ مجھے ہندی نہیں آتی جب افسرنے مارک شیٹ دیکھاتوہندی میں80/سے زائدنمبرتھے ،اس افسرنے میری جانب دیکھ کرمضحکہ خیزاندازمیں مسکرایا،پھراس نے خاتون سے کہا کہ اچھااردومیں ہی لکھ دیجئے،تواس خاتون نے بڑی مشکل سے اردومیں لکھاجوکہ کچھ اس طرح تھا’’میں نے اپناپتی پایا‘‘اورمزے کی بات یہ ہے کہ اردومیں بھی 80/سے زائد نمبر تھے ،مجموعی طورپروہ سبھی مضامین میں اول مقا م پرتھی لیکن عملی طورپرصفر،بعدمیں اس افسرنے جوکچھ مجھ سے کہااس کالفظ لفظ حقیقت پرمبنی تھا ،اس نے کہاکہ مجھے معلوم ہے کہ آپ لوگ مدرسہ بورڈ میں کیاپڑھاتے ہیں،میں نے تواسی لئے آپ کودعوت دے کربلایاتھاکہ آپ توہنگامہ کرتے ہیں احتجاج کرتے ہیں کہ ہمارے فارغین کونوکری دو،اسکول کے برابرتنخواہ دو،آخرکیوں؟ایسے لوگوں کوبحال کرکے کس کابھلاکریں گے آپ اپنی قوم کایاقوم کے مستقبل ان بچوں کاجنہیں یہ لوگ پڑھائیں گے؟کیایہ قوم کے مستقبل کے ساتھ ظلم نہیں ہے؟کیاایساپیسہ آپ لوگوں کے لئے جائزہے؟شکرکریں سیاست کا کہ ووٹ بینک کے نام پرحکومت کویہ سب کرناپڑتاہے ورنہ حکومت بھی خوب واقف ہے کہ آپ لوگ مدرسہ بورڈ میں کیاکرتے ہیں؟وہ بولے جارہاتھااورمیں سرجھکائے خاموشی سے اس کی باتیں سنتاجارہاتھاکیوں کہ وہ ایسی حقیقت کومیرے سامنے بیان کررہاتھا جس کے لئے میں اورپورامدرسہ بورڈ ذمہ دارہے،اس ایک واقعہ سے آپ بہت کچھ سمجھ سکتے ہیں کہ ایسے مدارس میں کیاہوتاہے جن کاالحاق حکومت سے ہوتاہے،اول توایسے مدارس میں بحالی کے لئےاساتذہ کوبڑی رقم بطوررشوت دینی ہوتی ہے جس میں سبھی برابرکے حصہ دارہوتے ہیں،پھراپنی تنخواہیں جاری کرانے کے لیی ایسوسی ایشن والوں کوہرماہ کمیشن دیناپڑتاہے جو کسی سے پوشیدہ نہیں ہے،ابھی گذشتہ دنوں بھی بہارمدرسہ بورڈ ٹیچرس ایسوسی ایشن کے ایک بڑے ذمہ دارپراس طرح کاالزام لگ چکاہے ،اوریہ کوئی نیاواقعہ نہیں ہے وہ واقعتااس کامجرم ہے،جسے ایک ادنی ٰ ملازم سے لے کرسربراہ تک جانتاہے لیکن ہرایک کواپناحصہ مل جاتاہے اسی لئے سبھی خاموش رہتے ہیں،توایسے حالات میں اساتذہ کیاپڑھائیں گے اور طلبہ وطالبات کے ساتھ ان کاکیارشتہ ہوگا؟ یہ موضوع ایساہے کہ اس پربہت کچھ تفصیل سے لکھاجاسکتاہے لیکن اس مختصرسے مضمون میں ان سب کی گنجائش نہیں ہے ،بس اتنا کہنا کافی ہوگاکہ مدرسہ بورڈ مسلمانوں کے حق میں نہیں ہے بلکہ عملاًیہ مسلمانوں کے خلاف ہے،اگرحکومت مسلمانوں کی اتنی ہی مخلص ہے تووہ مسلمانوں کی فلاح وبہبودکے لئے ان سفارشات پرعمل کرے جوسچرکمیٹی نے پیش کی ہیں،سچرکمیٹی کی رپورٹ نے یہ واضح کردیاکہ مسلمانوں کے صرف4/فیصدبچے ہی مدارس میں پڑھتے ہیں اوراسکول وکالج اور یونیورسٹی تک پہونچنے والے مسلم طلبہ کی تعدادبھی تشویشناک حدتک کم ہے توپھرحکومت96/فیصدی مسلم طلبہ وطالبات کے لئے کیوں نہیں ٹھوس قدم اٹھارہی ہے جوکہ ایک بڑی تعدادہے جس سے مسلمانوں کے ساتھ ملک کابھی فائدہ ہوگا،حکومت کو96/فیصدکی توکوئی فکرنہیں ہے لیکن 4/فیصدکی اتنی فکرہے کہ اپنی ساری توجہ ان4/فیصدپرہی مرکوز کردینا چاہتی ہے ،آخرکیوں؟یہ ایک ایساسوال ہے جس کاجواب سب کومعلوم ہے لیکن بتاناکوئی نہیں چاہتا۔ایسے ماحول میں مالیگاؤں کے ارباب مدارس کا یہ فیصلہ واقعتالائق تحسین اور پورے ملک کے مسلمانوں کے لئےقابل تقلیدہے۔وقت آگیاہے کہ لوگ حکومت کی سازش کوسمجھیں اورمدرسہ جدیدکاری کے خوبصورت جال میں پھنسنے کی بجائے اس کی حقیقت سے ملک کے عوام کوروشناس کرائیں اورجومدرسہ آزادہیں انہیں آزادہی رہنے دیں،تاکہ ہندستان سے اسلام کوختم کرنے کی جومذموم کوشش کی جارہی ہے اسے یہ مدارس ختم کرسکیں۔اگرمدارس کوحکومت کی دسترس سے آزادنہ رکھاگیاتوپھروہ دن دورنہیں کہ ہندستان میں مسلمان تورہیں گے لیکن اسلام باقی نہ رہے گاجیساکہ علامہ اقبال رحمۃٖ اللہ علیہ نے اندلس سے واپسی پرقوم کے نام اپنے خطاب میں جو کچھ کہا تھاوہ آج بھی تاریخ کے صفحات پرسنہرے حرفوںمیں موجودہے،انہوں نے کہاتھا: ’’ان مکتبوں(مدرسوں)کواسی حالت میں رہنے دو،غریب مسلمانوں کے بچوں کوانہی مدرسوں میں پڑھنے دو اگریہ ملااوردرویش نہ رہے توکیاہوگا؟جوکچھ ہوگامیں انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ آیاہوں۔اگرہندستان کے مسلمان ان مدرسوں کے اثرسے محروم ہوگئے توبالکل اسی طرح جس طرح اندلس میں مسلمانوںکی 8/سوبرس حکومت کے باوجودآج غرناطہ و قرطبہ کے کھنڈر اورالحمراء اورباب الخواتین کے نشانات کے سوااسلام کے پیروؤں اوراسلامی تہذیب کے آثارکاکوئی نقش نہیں ملتا، ہندستان میں بھی آگرہ کے تاج محل اورلال قلعہ کے سوا مسلمانوںکی 8/سوسالہ حکومت اوران کی تہذیب کاکوئی نشان نہ ملے گا۔‘‘(علامہ اقبالؒ) جنرل سکریٹری: رابطہ صحافت اسلامی ہند رابطہ کے لئے : gsqasmi99@gmail.com