تبصرہ کتب ۔۔ بحر الفصاحت ۔حصہ چہارم ۔۔۔ تحریر : ملک نواز احمد اعوان

نام کتاب:بحرا لفصاحت . حصہ چہارم (تیسرا جزیرہ) علم الفصاحت و بلاغت مرتب:سید قدرت نقوی صفحات: 42 قیمت 450 روپے ناشر: ڈاکٹر تحسین فراقی، ناظم مجلسِ ترقی ادب 2کلب روڈ۔ لاہور فون : 042-99200856, 99200857 ای میل : majlista2014@gmail.com ویب سائٹ : www.mtalahore.com نام کتاب : بحرالفصاحت .حصہ پنجم علم البیان مصنف : حکیم مولوی نجم الغنی خاں رام پوری صفحات : 240 قیمت 300 ناشر : ڈاکٹر تحسین فراقی ناظم مجلس ترقی ادب 2کلب روڈ۔ لاہور حکیم نجم الغنی خان رام پوری اپنے زمانے کی نابغہ روزگار شخصیت تھے۔ ان کا تعارف پروفیسر محمد ایوب قادری صاحب نے بخوبی کرایا ہے وہ ہم یہاں درج کرتے ہیں: ’’نواب رضا علی خان کے مسند نشین ہونے کے موقع پر جب خواجہ حسن نظامی رام پور تشریف لے گئے تو 2 ربیع الاول 1349 ہجری 29 جولائی 1930 بروز سہ شنبہ مولوی حکیم نجم الغنی خاں سے بھی ملنے گئے۔ اس روداد کو خواجہ صاحب ہی کی زبانِ قلم سے سنیے۔ اس (ناشتہ) کے بعد مولانا نجم الغنی صاحب مؤرخ سے ملنے گیا جو موجودہ زمانے کے سب سے عمدہ اور بہت زیادہ اور نہایت محققانہ اور آزادانہ اور بے باکانہ لکھنے والے مؤرخ ہیں۔ شمس العلماء مولانا ذکا اللہ صاحب مرحوم دہلوی نے آخر زمانے میں تاریخ کی بہت بڑی بڑی جلدیں لکھی ہیں، مگر حکیم نجم الغنی خاں صاحب کی کتابیں تعداد میں بھی بہت زیادہ ہیں اور ضخامت میں بھی زیادہ ہیں۔ تاریخ کے علاوہ طب وغیرہ علوم و فنون کی بھی انہوں نے بہت اچھی اچھی کتابیں لکھی ہیں۔ شہرۂ آفاق فلاسفروں اور مصنفوں کی طرح ایک نہایت مختصر اور سادہ مکان میں بیٹھے تھے۔ چاروں طرف کتابوں اور نئے مسودات کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ ساٹھ ستّر کے قریب عمر ہے۔ بال سب سفید ہوگئے ہیں مگر کام کرنے کی انرجی اور مستعدی نوجوانوں سے زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ بہت عمدہ پھل کھلائے، پان کھلائے اور اپنی تازہ تصانیف بھی دکھائیں۔ ایک کتاب اودے پور کی نسبت لکھی ہے۔ مولانا شبلی مرحوم نے ’اورنگ زیب پر ایک نظر‘ کے نام سے بہت اچھی کتاب شائع کی تھی مگر وہ راجپوتانے کے واقعات سے بے خبر تھے۔ مولانا نجم الغنی خاں صاحب نے راجپوتانہ کی مستند تاریخوں سے اورنگ زیب کی تاریخی حمایت کا حق ادا کیا ہے اور اودے پور کے مہارانا کے اس غرور اور گھمنڈ کو توڑ پھوڑ کر مسمار کردیا ہے جس میں وہ آج تک مبتلا ہے۔ موجودہ مہارانا کے والد 1911ء کے شاہی دربار میں دہلی آئے تو شہر کے باہر ٹھیرے کیونکہ ان کے ہاں یہ عہد ہے کہ دہلی میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوں گے۔ انگریزوں نے بھی اودے پور کے خیالی پلاؤ کی مخالفت نہیں کی اور مہارانا کو دہلی کے اندر آنے کے لیے مجبور نہیں کیا تاکہ ان کی آن بان باقی رہے، مگر مولانا نجم الغنی صاحب کی اس تاریخ کو پڑھ کر اودے پور کے سب نشے ہرن ہوجائیں گے اور وہ طلسم ٹوٹ جائے گا جو اودے پور کی فرضی روایتوں نے ہندو قوم کے دل و دماغ میں بنا رکھا ہے کہ اودے پور کا مہارانا کبھی مسلمان سلطنت کے سامنے نہیں جھکا اور کبھی مسلمانوں سے مغلوب نہیں ہوا۔ میں نے مولانا سے یہ کتاب لے لی ہے اور میں اس کو اپنے اہتمام سے اور اپنے خرچ سے شائع کروں گا۔ مولانا نے اس کا نام ’تاریخ اودے پور‘ رکھا ہے مگر میں نے اس کے نئے نام تجویز کیے ہیں جن میں سے ایک ’غرور شکن‘ ہے اور دوسرا ’اودے پور کا فرضی طلسم‘ ہے۔ یہ کتاب خدا نے چاہا تو بہت جلدی شائع ہوجائے گی۔ مولانا نجم الغنی صاحب بہت زیادہ کام کرتے ہیں۔ ان کی عمر اور ان کی محنت دیکھ کر مجھے بہت غیرت آئی کہ مجھے اپنے زیادہ کام کا فخر رہتا ہے حالانکہ مولانا نجم الغنی صاحب مجھ سے زیادہ بوڑھے ہیں مگر کئی حصے زیادہ کام کرتے ہیں۔ رخصت ہوا تو مولانا سواری تک پہنچانے آئے۔ قدیمی بزرگوں کی تہذیب و شائستگی کا وہ ایک مکمل نمونہ ہیں۔ (ضمیمہ نظام المشائخ دہلی، اگست 1930ء، صفحہ 17۔18) مولانا نجم الغنی خاں رام پوری شعر و شاعری کا بھی ذوق رکھتے تھے، نجمیؔ تخلص تھا۔ وہ اپنی ضخیم اور وقیع تصنیفات کی بدولت زندہ جاوید ہیں۔ ان کی تالیفات کی فہرست درج ذیل ہے: تاریخ اودھ 1910۔1914ء میں حکیم نجم الغنی خاں نے ’تاریخ اودھ‘ کے عنوان سے چار جلدوں میں ایک ضخیم کتاب لکھی جس کا پہلا ایڈیشن مطبع نیراعظم مراد آباد و مطبع مطلع العلوم مراد آباد سے شائع ہوا۔ جنوری 1978ء میںاس کتاب کی پہلی جلد نفیس اکیڈمی کراچی نے نہایت اہتمام سے شائع کی ہے۔ راقم الحروف محمد ایوب قادری نے اس پر مقدمہ لکھا ہے۔ عقود الجواہر فی احوال البواہر سلک الجواہر فی احوال البواہر یہ دونوں رسالے بوہروں کے حالات میں ہیں اور مطبع نیراعظم مراد آباد میں چھپے ہیں۔ اخبار الصنادید .دو حصے یہ روہیلوں اور روہیل کھنڈ کی مفصل تاریخ ہے۔ اس کا پہلا ایڈیشن ’پیسہ‘ اخبار لاہور میں چھپا تھا اور دوسرا ایڈیشن مطبع نول کشور لکھنؤ سے شائع ہوا۔ حکیم نجم الغنی خاں نے اخبار الصنادید علامہ اقبال کی خدمت میں ارسال کیا جس کی رسید اور رائے دیتے ہوئے علامہ اقبال نے حکیم نجم الغنی خاں کو مندرجہ ذیل خط لکھا: ’’لاہور 14 دسمبر 1918ء مخدوم و مکرم جناب قبلہ حکیم صاحب السلام علیکم اخبار الصنادید کی دو جلدوں کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ میں نے پہلی جلد کو بالخصوص نہایت دلچسپی سے پڑھا۔ قوم افغان کی اصلیت پر آپ نے خوب روشنی ڈالی ہے۔ کشامرہ غالباً اور افاغنہ یقینا اسرائیلی الاصل ہیں۔ قاضی امیر احمد شاہ رضوانی جو خود افغان ہیں ایک دفعہ مجھ سے فرماتے تھے کہ لفظ ’’فغ‘‘ قدیم فارسی میں بمعنی بت آیا ہے اور افغان میں الف سالبہ ہے، چونکہ ایران میں بود و باش رکھنے کے وقت افغان بت پرست نہ تھے اس واسطے ایرانیوں نے انہیں افغان کے نام سے موسوم کیا ہے۔ میرے خیال میں حال کی پشتو میں بہت الفاظ عبرانی اصل کے موجود ہیں۔ اگر تحقیق کی جائے تو مجھے یقین ہے نہایت بارآور ہوگی۔ آپ کا طرزِ تحریر نہایت سادہ اور مؤثر ہے اور بحیثیتِ مجموعی آپ کی تصنیف تاریخ کا عمدہ نمونہ ہے۔ آپ کا مخلص محمد اقبال بیرسٹر ایٹ لا‘‘ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کارنامہ راجپوتاں یہ راجستھان کی تاریخ ہے۔ مطبع روزانہ اخبار بریلی سے شائع ہوئی ہے۔ وقائع راجستھان یہ بھی راجپوتانے کی تاریخ ہے اور مطبع روزنامہ ہمدم لکھنؤ سے شائع ہوئی ہے۔ تاریخ راجپوتانہ یہ کتاب مطبع پیسہ اخبار لاہور سے شائع ہوئی ہے۔ نہج الادب فارسی قواعد ، اصول ادب ، صنائع بدائع اور علم بیان پر مفصل تصنیف ہے۔ 1919ء میں مطبع نول کشور لکھنؤ سے شائع ہوئی ہے۔ رسالہ نجم الغنی یہ نہج الادب کا خلاصہ ہے۔ مطبع احمدی رام پور سے شائع ہوا ہے۔ منتہی القواعد عرف قواعد حامدی اردو زبان میں کتاب لکھی گئی ہے۔ شرح نکتہ رسالہ عبدالواسع ہانسوی یہ فارسی رسالہ منتہی القواعد کے ساتھ چھپا ہے۔ بحر الفصاحت یہ اپنے موضوع پر اہم اور ضخیم کتاب ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے اردو فاضل کے کورس میں داخل رہی ہے۔ ایک مرتبہ مطبع سرور قیصری رام پور میں اور دو مرتبہ مطبع نول کشور لکھنؤ سے شائع ہو چکی ہے۔ مفتاح البلاغت یہ بحر الفصاحت کا انتخاب ہے اور مطبع پیسہ اخبار لاہور سے شائع ہوا ہے۔ خواص الادویہ یہ کتاب ادویہ مفردہ کے بیان میں ہے۔ تین جلدوں میں مطبع پیسہ اخبار لاہور سے شائع ہوئی ہے۔ خزانتہ الادویہ یہ کتاب چار جلدوں میں مطبع نول کشور لکھنؤ سے شائع ہوئی ہے۔ خزائن الادویہ یہ کتاب آٹھ ضخیم جلدوں میں مطبع پیسہ اخبار لاہور سے شائع ہوئی ہے۔ قرابا دین نجم الغنی یہ مرکب ادویہ کے بیان میں ضخیم کتاب ہے۔ مطبع نول کشور لکھنؤ سے دو مرتبہ چھپ چکی ہے۔ القول الفیصل فی شرح الطہر المتخلل شرح وقایہ کے مسئلہ متخلل کی شرح عربی زبان میں لکھی ہے۔ مختصر الاصول یہ کتاب اصولِ فقہ میں ہے۔ مطبع نیر اعظم مراد آباد سے شائع ہوچکی ہے۔ مزیل الغواشی اصول الشاشی کی شرح ہے۔ مطبع نول کشور لکھنؤ سے شائع ہوچکی ہے۔ تہذیب العقائد عقائد نسفی کی شرح ہے۔ کئی مرتبہ مطبع نامی لکھنؤ سے شائع ہوچکی ہے۔ تعلیم الایمان فقہ اکبر کی ضخیم شرح ہے۔ مطبع نول کشور لکھنؤ سے شائع ہوچکی ہے۔ تذکرۃ السلوک تصوف و سلوک سے متعلقہ کتاب ہے۔ اس میں مصطلحات صوفیہ کی فہرست باعتبارِ حروفِ تہجی شامل ہے۔ آخر میں دو تین فتوے بھی شامل ہیں۔ شرح سراجی علم فرائض میں نہایت اہم اور مفید کتاب ہے۔ مطبع سرکاری رام پور میں طبع ہوئی ہے۔ معیار الافکار یہ فارسی زبان کا رسالہ مطبع احمدی رام پور سے شائع ہوا ہے۔ شرح چہل کاف یہ رسالہ مطبع نیراعظم مراد آباد سے شائع ہوا ہے۔ مفتاح المطالب یہ رسالہ قرآن کی آیات سے فال نکالنے کے بیان میں ہے اور شیخ محی الدین ابن عربی کے ایک عربی رسالہ کا اردو ترجمہ ہے۔ مطبع سرور قیصری رام پور سے شائع ہوچکا ہے۔ تاریخ ریاست حیدرآباد دکن حیدرآباد دکن کی مفصل تاریخ ہے، مطبع نول کشور لکھنؤ سے شائع ہوچکی ہے۔ مختصر تاریخ رام پور تسہیل اللغات یہ کتاب اردو زبان میں لغات و مصطلحات پر لکھی گئی تھی۔ 1928ء میں حرف ’س‘ تک لکھی جاچکی تھی۔ یہ مواد دو جلدوں میں آیا تھا۔ جلد اول 634 صفحات اور جلد دوم 534 صفحات پر مشتمل تھی۔ مولانا نجم الغنی خاں نے دونوں جلدیں نواب سر رضا علی خاں رئیس رام پور کو پیش کردی تھیں۔ صرف دوسری جلد رضا لائبریری رام پور میں موجود ہے۔ تاریخ اودے پور مولانا نجم الغنی خان سے یہ کتاب خواجہ حسن نظامی نے لے لی تھی، غالباً شائع نہ ہوسکی۔ مذاہب اسلام یہ کتاب فرقہ ہائے اسلام کے عقائد و احوال کے بارے میں ہے۔ دیوان نجمی حکیم نجم الغنی خاں شاعرانہ ذوق رکھتے تھے۔ نوجوانی میں خوب شعر کہتے تھے۔ 16 سال کی عمر تک جو کچھ کہا تھا اس کا انتخاب کرکے دیوان نجمی کے نام سے 27 نومر 1929ء کو رضا لائبریری رام پور میں داخل کردیا ہے۔ اس مجموعہ کلام میں غزلیات و قصائد ہیں۔‘‘ یہ متن مولانا نجم الغنی خاں کی کتاب ’’مذاہب اسلام‘‘ کے مقدمہ از پروفیسر محمد ایوب قادری سے لیا گیا ہے۔ زیر نظر کتاب بحرالفصاحت پانچ جلدوں میں مجلس نے طبع کی: حصہ اول: ماہیت و اقسام شعر حصہ دوم سوم: علم العروض حصہ چہارم: علم المعانی حصہ پنجم:علم البیان حصہ ششم و ہفتم: علم البدیع زیر تبصرہ حصہ چہارم اور حصہ پنجم ہیں۔ علم الفصاحت حصہ چہارم علم المعانی سے مفصل بحث کرتا ہے۔ سید قدرت نقوی تحریر فرماتے ہیں: ’’علم معانی کی تفہیم کا دارو مدار علمِ نحو کے قواعد سے واقفیت پر ہے کیونکہ علمِ معانی میں بھی علمِ نحو کی طرح کلمہ اور کلام سے بحث کی جاتی ہے۔ علمِ نحو میں کلمۂ کلام او ران کی اقسام کی تعریف و درجہ بندی بیان کی جاتی ہے۔ علمِ معانی میں ان امور کا شعر میں مقام اور اس سے پیدا شدہ و صفیت بیان کرتے ہیں۔‘‘ حصہ پنجم علم بیان سے بحث کرتا ہے۔ سید قدرت نقوی تحریر فرماتے ہیں: ’’علمِ بیان، یہ ایسے قاعدوں کا نام ہے کہ اگر کوئی ان کو جانے اور یاد رکھے تو ایک معنی کو کئی طریق سے عباراتِ مختلفہ میں ادا کرسکتا ہے جن میں سے بعض طریق کی دلالت معنی پر بعض طریق سے زیادہ واضح ہوتی ہے۔‘‘ یہ ان کتابوں کا تیسرا ایڈیشن ہے۔ ہر اردو استاد کو چاہیے کہ وہ ان کو بغور پڑھے اور ان سے کماحقہٗ استفادہ کرے اور ان علوم کو اپنے طالب علموں تک منتقل کرے۔کتابیں سفید کاغذ پر عمدہ طبع ہوئی ہیں، مجلّد ہیں، اردو کلاسیکی ادب سیریز میں طبع کی گئی ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل