آپ مسلمان ہیں ، اور ہندوستان میں، آپ فرماتے ہیں کہ آپ کے ہم مذہب قریب سات کرور کی تعداد میں موجود ہیں۔ آپ کے علاوہ اسی سرزمین پر، آپ سے بڑی تعداد رکھنے والی ایک قوم اور بھی آبادہے۔ جو فضا آپ کے لئے ہے، وہی اس کے لئے بھی ہے، جس آب وہوا میں آپ پرورش پارہے ہیں، اُسی میں وہ بھی پل رہی ہے۔ جس خاک کے آپ جزو ہیں، اُسی کی وہ بھی ہے، آپ جس طرح ایک اجنبی حکومت کے غلام اور بے بس وبے اختیار ہیں، ٹھیک اسی طرح وہ بھی ہے۔ مگر باوجود اس کے، یہ کیا بات ہے، کہ آپ روز بروز کمزور، اور وہ قوم طاقتور ہوتی جارہی ہے؟ آپ گھٹتے ہیں، اور وہ بڑھتی جاتی ہے؟ آپ کی شکستیں ، اوراس کی فتحمندیاں، زندگی کے ہر میدان میں بڑھتی ہی جاتی ہیں؟ کیا یہ سب محض ’’گردشِ تقدیر‘‘ اور ’’شومی قسمت‘‘ اور ’’فلک پیر کی دشمنی‘‘ کا نتیجہ ہے، یا اس کی ذمہ داری انسان کے اختیاری اسباب پر بھی ہے؟
ممکن ہے ، کہ آپ اس کے جواب میں اس بڑی قوم کی کثرت تعداد کو پیش کردیں، اور یہ فرمائیں، کہ چونکہ وہ تعداد میں ہم سے تین گنی ہے، اس لئے ترقی کے ہر میدان میں ہم سے آگے ہے۔ لیکن دوسری باتوں کے علاوہ، جو آپ کے اس خیال کو غلط ٹھہرائیں گی، ا س وقت ایک اسی بات کو سوچئے ، کہ اس بڑی قوم کے علاوہ، آپ کے پڑوس میں ایسی چھوٹی قومیں بھی تو آباد ہیں جو تعداد میں آپ سے بہت کم ہیں۔ ایک قوم سکھوں کی ہے، جو آپ کی تعداد کی چوتھائی بھی نہیں۔ دوسری قوم پارسیوں کی ہے، جو تعداد میں شاید آپ کے دسویں حصہ کے برابر بھی نہیں، مگر پنجاب اور ممبئی کی یہ چھوٹی قومیں بھی، ہندوستان کی بڑی قوم کے دوش بہ دوش چل رہی ہیں، اور صرف ایک آپ ہی ہیں جو اس دوڑ میں سب سے پیچھے ہیں! ان سب قوموں کے مدرسوں کی تعداد کو دیکھئے، ان کی بڑی اور چھوٹی تعلیم گاہوں کی اندرونی حالت کی سیر کیجئے، ان کے اخبارات کی تعداد اشاعت کو دریافت کیجئے، ان کی زبانوں میں لکھنے والوں کی مقبولیت اور قدر کا اندازہ کیجئے، ان کے یتیم خانوں کا انتظام ملاحظہ کیجئے، ان کے خاندانوں میں باکار اشخاص کی بڑی تعداد کو شمار میں رکھئے، ان کی ہر قومی وجماعتی ضرورت کے لئے سرمایہ، سامان، اوراشخاص کی فراوانی کو نظرانداز نہ ہونے دیجئے، اور پھر ایک بار اپنے دل سے پوچھئے ، کیا اب بھی وہ افراد قوم کی تعداد کی بیشی یا کمی کو اُتار یا چڑھاؤ کی کوئی معقول وجہ قرار دے سکتاہے؟
آپ کی نظر اب تک ہمیشہ اس پر رہی ہے، کہ دوسروں کا آپ کے ساتھ کیا برتاؤ ہے، لیکن چند لمحوں کے لئے ذرا یہ تو سوچ کر دیکھئے، کہ خود آپ کا اپنے ساتھ کیا برتاؤ رہتاہے؟ آپ کے رہنماؤں نے آپ کے لئے بھی بہت سی درسگاہیں، دینی ودنیوی، انگریزی ومشرقی، ہرطرز اور نمونہ کی کھول رکھی ہیں، ان کی مدد آپ کس حد تک کررہے ہیں؟ یتیم خانے آپ کی قوم کے بچوں کے لئے بھی موجود ہیں، مگر آپ اُن کی امداد کو عملًا کبھی ضروری سمجھتے ہیں؟ سیاسی اور مذہبی انجمنیں ، تنظیمیںایک دو نہیں، بہ کثرت موجود ہیں، ان میں سے کسی ایک کو بھی آپ ’’اپنی ‘‘ سمجھ رہے ہیں؟ اخبارات، انگریزی اور اردو، آپ کے ہاتھ میں بھی، ہر پالیسی کے موجود ہیں، ان میں سے کسی کی تعدادِ اشاعت دوسری قوموں کے اخبارات سے کوئی نسبت رکھتی ہے؟ آپ میں باہمی ہمدردی کے نمونے موجود ہیں؟ آپس میں اتحاد واتفاق کے لئے اپنے ذاتی اغراض کو قربان کردینے کی عادت آپ میں ہے؟ اپنے ہم مذہبوں ، اپنے دوستوں، اپنے عزیزوں کی کامیابی کو آپ اپنی ہی کامیابی سمجھنے پر تیار ہیں؟ آپ کاروبار میں اپنا اعتبار عرصہ تک قائم رکھ سکتے ہیں؟ تجارت میں محنت ودیانت کے ساتھ آپ مشغول رہ سکتے ہیں؟ اپنے اخراجات کو اپنی آمدنی کے اندر محدود رکھنے پر آپ کو قدرت ہے؟ سادگی وکفایت شعاری کے الفاظ آپ کے لغت میں کوئی معنی رکھتے ہیں؟ شریعت نے پنجوقتہ نماز باجماعت ، ہفتہ وار نماز جمعہ، وغیرہ کے ذریعہ سے آپ کی مضبوط شیرازہ بندی کا جو اہتمام کیاتھا، آپ نے اُس نظام کو برقرار رکھنے کی ذرہ بھر بھی کوشش کی؟