صورت گر کچھ خوابوں کے۔۔۔ فیض احمد فیض کا انٹرویو(۱)۔۔۔ ڈاکٹر طاہر مسعود
’’ایک بارفیض ہماری بزم سے یہ کہہ کر رخصت مانگ چکے تھے کہ جب ’’محرکات کی شدت میں کمی واقع ہو جائے تو شاعر کو اہل محفل کا شکریہ ادا کر کے اٹھ جانا چا ہیے‘‘۔
اس لہجے میں بھی اشتراکیت کی وہ نعرے بازی نہیں جو ایسے بائیں بازو کے انقلابیوں کی پہچان ہے۔ یہ ایک تہذیب و شائستگی پر مبنی ایک دھیما لب ولہجہ ہے جو اہل محفل کی دل آزاری بھی نہیں کرتا، یہ کسی انقلابی کا نہیں ایک صحت مند دل و دماغ رکھنے والے آدمی کا انداز و اسلوب کلام ہے جو ماضی میں صوفیوں اور درویشوں سے مخصوص تھا اور فیض کی شاعری میں آ کر عہد جدید کے دکھوں سے آمیز ہو کر کچھ ایسا ہوگیا کہ یہ پہچاننا نقادوں کے لیے دشوار ہوگیا کہ ایک اسلوب کلام، اس دھیمے دھیمے نرم خو انداز میں اس خطے کے تصوف وطریقت کا مزاج سرایت کیے ہوئے ہے۔
فیض اپنے پیش رو اقبال کے بعد مولوی میر حسن کے شاگرد ہوئے۔ مولوی میر حسن طریقت و شریعت دونوں سے گہرائی سے واقف تھے چناں چہ اقبال ان سے کسب فیض کر کے اپنے کلام میں جلال کی صفت الٰہی کا مظہر ہوئے اور فیض صفت جمال کا۔ بس اتنی سی بات ہے جس کا سمجھنا سمجھانا کچھ ایسا مشکل بھی نہ تھا۔ اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کاکام نہیں۔