و هو شهرُ الصَّبرِ و الصَّبرُ ثوابُه الجنَّةُ و هو شهرُ المواساةِ و هو شهرٌ يزادُ رزقُ المؤمنِ فيهِ مَنْ فطَّرَ صائمًا كانَ لَهُ عتقُ رقبةٍ و مغفرةٌ لذنوبِهِ قيلَ يا رسولَ اللهِ ليسَ كلُّنَا نجدُ ما يفطِّرُ الصائمَ قالَ يُعْطِي اللهُ هذَا الثَّوابَ لمَنْ فطَّرَ صائمًا على مَذْقَةِ لبنٍ أو تمرةٍ أو شربةِ ماءٍ و مَنْ أشبعَ صائمًا كانَ لَهُ مغفرةٌ لذنوبِهِ و سقَاهُ اللهُ مِن حوضِي شربةً لا يظمأُ حتَّى يدخلَ الجنَّةَ و كانَ لَهُ مثلُ أجرِهِ مِن غيرِ أنْ ينقصَ مِن أجرِهِ شيئًا و هو شهرٌ أوَّلُه رحمةٌ و أوسطُه مغفرةٌ و آخرُه عتقٌ مِنَ النَّارِ
یہ مہینہ صبر کا ہے اور صبرکا بدلہ جنّت ہے ،اور یہ مہینہ لوگوں کے ساتھ غمخواری کر نے کا ہے اس مہینہ میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے جو شخص کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائے اس کے لیے گناہوں کے معاف ہونے اور آگ سے خلاصی کا سبب ہوگااور روزہ دار کے ثواب کے مانند اس کو ثواب ہوگامگر اس روزہ دار کے ثواب سے کچھ کم نہیں کیا جائے گا صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ہم میں سے ہر شخص تو اتنی وسعت نہیں رکھتاکہ روزہ دار کو افطار کرائے تو آپ نے فرمایا کہ (پیٹ بھر کھلانے پر موقوف نہیں)،یہ ثوب تو اللہ جل شانہ ایک کھجور سے کوئی افطارکرادے یا ایک گھونٹ پانی پلادے یا ایک گھونٹ لسّی پلادے اس پر بھی مرحمت فرمادیتے ہیں یہ ایسا مہینہ ہے کہ اسکا اوّل حصّہ اللہ کی رحمت ہے اوردرمیانی حصّہ مغفرت ہے اور آخری حصّہ آگ سے آزادی ہے ۔یہ ارشاد رسولﷺ کا ہوا۔
نبی اکرمﷺ نے اس مہینہ کی کچھ خصوصیتیں اور آداب ارشاد فرمائے ۔اولاًیہ کہ صبر کامہینہ ہے یعنی اگرروزہ وغیرہ میں کچھ تکلیف ہوتو اسے ذوق وشوق سے برداشت کرنا چاہیے یہ نہیں کہ ماردھاڈ،ہول پکار ،جیساکہ اکثرلوگوں کو گرمی کے رمضان میں عادت ہوتی ہے اسی طرح اگر اتفاق سے سحر نہ کھا ئی گئی تو صبح ہی سے روزے کا سوگ شروع ہوگیا اسی طر ح رات کی تراویح میں اگر وقت ہوتو اس کو مصیبت وآفت نہ سمجھیں پھر ارشاد ہے کہ یہ غمخواری کا مہینہ ہے یعنی غرباء مساکین کے ساتھ مدارت کا برتاؤ اگر دس چیزیں اپنے افطار کے لیے تیارکی ہیں تو دو چار غرباء کے لیے بھی کم ازکم ہونی چاہئیں ورنہ اصل تویہ تھا کہ ان کے لیے اپنے سے افضل نہ ہوتا تو مساوات ہی ہوتی غرض جس چیز کی بھی ہمت ہوسکے اپنے افطار و سحر کے کھانے میں غرباء کا حصہ ضرور لگانا چاہیے ،افطارکرانے کی فضیلت ارشاد فرمانے کہ بعد فرمایا ہے کہ اس مہینے کا اوّل حصہ رحمت ہے یعنی حق تعالیٰ شانہ کا انعام متوجہ ہوتاہے اور رحمتِ عامہ سب مسلمانوں کے لیے ہوتی ہے اس کے بعد جولوگ اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں ان کے لیے اس رحمت میں اضافہ ہوتا ہے اور اس کے درمیانی حصہ سے مغفرت شروع ہوجاتی ہے اس لیے کہ روزوں کا کچھ حصہ گزر چکا ہے اس کا معاوضہ اور اکرام مغفرت کے ساتھ شروع ہوجاتاہے اور آخری حصہ تو بالکل آگ ہی سے خلاصی ہے ہی........بندۂ ناچیز کے خیال میں آدمی تین طرح کے ہیں ایک وہ لوگ جن کے اوپر گناہوں کا بوجھ نہیں ان کے لیے شروع ہی سے رحمت واکرام کی بارش ہوجاتی ہے دوسرے وہ لوگ جومعمولی گناہ گارہیں ان کے لیے کچھ حصہ روزہ رکھنے کے بعد ان روزوں کی برکت اور بدلے میں مغفرت اور گناہوں کی معافی ہوتی ہے تیسرے وہ جو زیادہ گناہ گار ہیں ان کے لیے زیادہ حصہ روزہ رکھنے کے بعد .آگ سے خلاصی ہوتی ہے اور جن لوگوں کے لیے ابتداہی سے رحمت تھی ان کا تو پوچھنا ہی کیا یہ ارشادات ایک شارح حدیث کے تھے حدیث اور شرح حدیث دونوں آپ نے سن لیں؟جس ماہ مبارک کی بابت یہ بشارتیں ہیں وہ اب شروع ہوچکا ،کیا آپ بڑھ بڑھ کر رحمتوں اور برکتوں کی اس لوٹ میں حصہ نہ لیں گے؟جو ان مبارک گھڑیوں کو پاکر انھیں غفلت میں گنوادے اس کی محرومی اور کم نصیبی میں کیا شبہ رہ سکتاہے؟مبارک ہیں وہ جو اس مبارک مہینہ سے پورا فیض اٹھائیں خوش نصیب ہیں وہ جو خوش نصیبوں کے یہ شب وروز ضائع نہ جانے دیں۔