قرآن پاک کے پارہ سیقول کے آخر میں بنی اسرائیل کا ایک قصہ مذکور ہے کہ حضرت موسیٰ ؑکے زمانہ کے بعد،جب ان کی مظلومیت بڑھ گئی اوران میں ظالموں سے مقابلہ و مقاتلہ کی خواہش قدرتاًپیدا ہوئی ،تو اللہ نے طالوت کو ان کی سرداری عنایت کی اور طالوت ان کی فوجوں کو لے کر روانہ ہوا عین اس وقت اس نے اپنی سپاہ کے لیے ایک خاص امتحان بھی رکھ دیا ارشاد ہوتاہے: فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوتُ بِالْجُنُودِ قَالَ إِنَّ اللَّهَ مُبْتَلِيكُمْ بِنَهَرٍ فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي إِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةً بِيَدِهِ (بقرہ۔ع۳۳) پھرجب طالوت اپنی فوج کے ساتھ روانہ ہوا تو اس نے کہا اللہ ایک نہر کے ذریعہ تمھارا امتحان لینے والاہے پس جو شخص اس میں سے پی لے گا وہ مجھ سے نہیں اورجو اسے نہ چکھے وہ مجھ سے ہے، ہاں اگر کوئی اپنے ہاتھ سے محض چلو بھر پی لے تو مضائقہ نہیں۔ ہر شخص اس امتحان میں پو را نہ اترا ،اکثروں نے جی بھر بھر کر پانی پی لیا۔ فَشَرِبُوامِنْہُ اِلَّا قَلِیْلاًمِّنْھُمْ(پھر ان میں سے تھوڑوں کے سوا سب نے پانی پی لیا)یہ لوگ جب دشمن کے زبردست و پر قوت لشکر کے مقابلہ میں پہنچے تو ہمت ہار گئے۔ فَلَمَّا جَاوَزَهُ هُوَ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ قَالُوا لَا طَاقَةَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ جب وہ اس کے پار ہوگیا اور وہ لوگ بھی اس کے ساتھ تھے جو ایمان لا چکے تھے تو ان پانی پینے والوں نے کہا کہ آج ہم میں جالوت اور اس کی سپاہ سے مقابلہ کی طاقت نہیں۔ لیکن جن لوگوں کا ایمان مضبوط تھا اورجن کا بھروسہ اللہ پر تھا ،وہ دشمن کی کثرت تعداد سے مرعوب نہیں ہوئے انھیں اللہ کی مدد پر اعتماد تھا۔ ِ قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلَاقُو اللَّهِ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ جن لوگوں کو یقین تھا کہ وہ اللہ سے مل کررہیں گے انھوں نے کہا کہ اکثر ایسا ہوا کہ چھوٹا گروہ بڑے گروہ پر اللہ کے حکم سے غالب آگیا ہے اور صبر کرنے والوں کے ساتھ تو اللہ ہے۔ اس گروہ نے دشمن سے صف آراء ہونے کے وقت اللہ سے صبر وثبات کی دعائیں مانگنی شروع کیں نتیجہ یہ ہوا کہ اسی کو فتح حاصل ہوئی۔ وَلَمَّا بَرَزُوا لِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ قَالُوا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ - فَهَزَمُوهُمْ بِإِذْنِ اللَّهِ جب یہ لوگ جالوت اور اس کے لشکر کے سامنے نکلے تو انھوں نے کہا اے پر وردگار ہمیں بہت سا صبر عطاکر ،اور ہمارے قدموں کو ثا بت قدم رکھ اور کافروں پر ہمیں نصرت عطا کر پھر انھوں نے اللہ کے حکم سے کافروں کو شکست دی۔ قرآن قصہ کہانی کی کتاب نہیں،اس کی حقیقتیں ابدی ہیں،اس کی حکایتیں ابدی ہیں،طالوت وجالوت کی جنگ بھی اسی طرح ابدی ہے ،جالوت نفس آج بھی ہر انسان کے قالب میں زندہ ہے ،اس کی قوتیں آج ہر کمزور ایمان والے کو بیشمار معلوم ہورہی ہے ،نہر دنیا اپنی زینتوں اور نمائشوں کے ساتھ ہر مؤمن کے لشکر کی راہ میں حائل ہے،طالوتِ شریعت نے آج بھی منادی کرر کھی ہے کہ اس نہر سے بجز ایک جرعہ پر اکتفا کرنے کے اور ہر گز کسی طرح کا سروکار نہیں رکھاجائے ،کمزور ایمان والے آج بھی طالوتِ شریعت کی نافرمانی کر کر کے نہر دنیا کی طرف پوری طرح جھک پڑنے والے ہیں اور پھر خود ہی فریاد بر پا کر تے رہتے ہیں کہ اکثریت ہمیں کچلے اور پیسے ڈالتی ہے ،علاج آج بھی وہی ہے ،جو اس وقت تھا یعنی اپنی کثرتِ تعداد اوراپنے سازو سامان کے بجائے اللہ کی نصرت پر بھروسہ اور اس سے صبر و ثابت قدمی کی طلب و درخواست ۔