عازمینِ حج کے لئے ایک اللہ والے کی قیمتی ہدایات

Bhatkallys

Published in - Other

03:59PM Mon 8 Sep, 2014
مولاناسید احمد ومیض ندوی اللہ والوں کی زبان سے نکلنے والی ہر بات اپنے اندر بے پناہ تاثیر رکھتی ہے، جن کے دل خوفِ خدا سے لبریز اور یادِ الٰہی سے معمور ہوتے ہیں، ان کی ہر بات ’’ازدل خیزد بردل ریزد‘‘ کے مصداق ہوتی ہے، ماضی قریب کے جن اہل اللہ سے اللہ نے رشدوہدایت کاعظیم کام لیا ان میں حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی علیہ الرحمہ ممتاز حیثیت رکھتے ہیں، آپ کے خلفاء سے اللہ تعالیٰ نے عالمی سطح پر کام لیا، دنیا کاکوئی خطہ ایسا نہیں ہے جہاں حضرت کے فیض یافتگان کا فیض نہ پہونچا ہو، حضرت مولانا شاہ محمد ابرار الحق صاحب ہردوئی علیہ الرحمہ حضرت تھانویؒ کے ان خلفاء میں تھے جن کے فیض کا دائرہ کافی وسیع ہے، اس وقت بر صغیر ہندوپاک میں صحت کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کا جو عمومی رجحان پایا جارہا ہے اس میں حضرت ہردوئیؒ کی کاوشوں کا بڑا دخل ہے، حضرت کے یہاں سنتوں کا حد درجہ اہتمام تھا خود بھی مجسمہ سنت تھے اور اپنے متعلقین کو بھی اس کی تاکید فرماتے تھے، حج سے متعلق حضرت کے دو خطابات مطبوعہ شکل میں پائے جاتے ہیں جن میں حضرت نے حجاج کے لئے بڑی مفید کار آمد نصیحتیں فرمائی ہیں، ہمارے عازمین اگر ان کا پاس ولحاظ رکھیں تو انشاء اللہ انہیں حج مقبول کی سعادت حاصل ہوسکتی ہے، عازمین حج ان نصیحتوں کو گرہ میں باندھ کر لے جائیں اور انہیں اپنے ذہن کے نہاں خانوں میں محفوظ رکھیں، ذیل میں اختصار کے ساتھ وہ نصیحتیں درج کی جارہی ہیں: (۱) ۔۔۔ فرمایا ولی اللہ بننے اور اللہ کے قرب خاص کے تین راستے ہیں، ایک طویل راستہ کہ انسان فرائض وواجبات کی پابندی کرے، طاعات کا اہتمام کرے، سنن ومستحبات پر عمل کرتا رہے، گناہوں سے بچتا رہے، اس کے لیے مجاہدات کرتا رہے، ایک اس سے مختصر راستہ ہے، وہ رمضان شریف کے تیس روزے ہیں کوئی شخص قاعدہ سے ان کو رکھ لے ولی بن جائے گا، رمضان کے تیس روزے متقی بننے کی تیس گولیاں ہیں اور ایک اس سے بھی مختصر راستہ ہے، وہ حج ہے، اس میں پیسہ بھی زیادہ خرچ ہوتا ہے، جان بھی خطرہ میں ہوتی ہے، تواس میں مجاہدہ دونوں قسم کاہے، مالی بھی ہے بدنی بھی ہے اور وہ بھی قوی مجاہد ہ ہے، نفع بھی زیادہ ہے اس لیے یہ ولایت کا مختصر راستہ ہے۔ (حج کے اہم حقوق، ص:۱۷) (۲) ۔۔۔ فرمایا احرام میں تلبیہ کی کثرت کرنی چاہیے، اس سے بہت لوگ غافل ہیں، کسی سے ملاقات ہوتو تلبیہ پڑھنا چاہیے، کسی کو رخصت کرتے وقت تلبیہ پڑھنا چاہیے، سواری پڑ چڑھتے وقت، اُترتے وقت، اسی طرح بلندی پر چڑھتے وقت، پستی میں اُترتے وقت تلبیہ پڑھنا چاہیے۔ فرض اور نفل نمازوں کے بعد بھی تلبیہ پڑھنا چاہیے، ایام تشریق میں پہلے تکبیر کہے پھر تلبیہ، ویسے چلتے پھرتے تلبیہ کی کثرت رکھے، ہلکی آواز سے کہے، اسلام میں ہر وقت ادعیہ واذکار منقول ہیں، لیکن احرام میں ہر حال میں اور ہر تغیر کے وقت تلبیہ کا اہتمام ہونا چاہیے، یہ عاشقانہ لباس ہے، جب صورت عاشقوں کی ہے تو کام بھی عاشقوں کا کرے، ہر وقت یہی رٹ لگاتا پھرے کہ حاضر ہوں، مولا خدمت کے لیے حاضر ہوں، دسویں تاریخ کی رمی تک حج کے احرام کا تلبیہ جاری رکھنا چاہیے۔ (تحفۃ الحرم،ص:۶) (۳)۔۔۔فرمایا حرم شریف میں قرآن مجید کی تلاوت کا اہتمام کیجئے، اسی طرح ذکر اللہ کا اہتمام ہونا چاہیے، یہاں حرم مکہ میں کلمہ طیبہ کی کثرت رکھئے، نماز باجماعت حرم شریف میں ادا کرنے کی فکر کیجئے، یہاں ایک نماز کا لاکھ نمازوں کے برابر ثواب ملتا ہے، طواف کی کثرت رکھئے، جس قدر ہوسکے طواف کرتے رہیے، ایک دفعہ حرم شریف میں بیٹھ کر آپس میں مذاکرہ ہورہا تھا کہ کس نے آج کتنے طواف کئے، ہم میں سے ایک صاحب نے بتایا کہ انہوں نے ۲۹ طواف کئے، ہم لوگوں کو بہت مسرت ہوئی، ہم نے کہا آج تو آپ ہم سب میں اول نمبر رہے، ایک اور صاحب پڑوس میں ہماری گفتگو سن رہے تھے، انہوں نے فرمایا آپ لوگوں کے طواف کی تعداد سے ماشاء اللہ خوشی ہوئی، لیکن کسی کو اپنے کثرت طواف پر عجب نہ ہو، اس لیے بتلا تا ہوں کہ مجھے الحمد للہ آج دن بھر میں ۵۲ طوافوں کی توفیق ملی، اس وقت اُن کی عمر ۵۵ تا ۵۶ برس کی رہی ہوگی، لہٰذا اوقات کی حفاظت کریں، ملاقاتوں میں، بازاروں میں، خریداری میں فضول باتوں میں اوقات ضائع نہ کریں، ٹھیک ہے ساتھیوں اور اہل حقوق کے حقوق ادا کرنا بھی ثواب ہے، وہ بھی کرلیں، لیکن اس میں وقت زیادہ صرف نہ کریں۔(تحفۃ الحرم، ص:۸) (۴)۔۔۔ فرمایا حج مبرور وہ حج ہوتا ہے جس میں گناہوں سے حفاظت ہو، اسی لیے حدیث میں فرمایا گیا: من حج البیت فلم یرفث ولم یفسق رجع کیوم ولدتہ أمہ‘‘ اس میں گناہ اور جھگڑوں سے بچنے والے کے لیے حج مبرور کی بشارت ہے اور جس کا حج مبرور ہوتا ہے وہ شخص اتنا ہی اور مقبول ہوتا ہے کہ اس کی کوئی دعاء رد نہیں ہوتی، گویا مستجاب الدعوات بنادیا جاتا ہے، یہ حد ہے کہ اس سے اپنے لیے دعا کرانے کا حکم دیا گیا ہے، لیکن اتنا بڑا مقام جو مل سکتا تھا، گناہوں سے ختم ہوجاتا ہے، اس لیے حج اپنا اگر مقبول ومبرور بنانا چاہتے ہیں تو ہر قسم کے گناہوں سے بچتے رہنا چاہیے۔(تحفۃ الحرم، ص: ۱۲) (۵)۔۔۔ فرمایا دیکھو بھئی ! رمی کے وقت جلد بازی مت کرو، ہر شخص جلد فارغ ہونے کے چکر میں رہتا ہے، اس میں بہت نقصان ہوتا ہے، خصوصاً مستورات ساتھ میں ہوں تومزید احتیاط کی ضرورت ہے، سب ساتھی مل کر جاویں، راستہ میں بھیڑ زیادہ ہو تو توقف کرلیں، ریلا آرہا ہو توایک طرف ہوجاویں، بہت وقت رہتا ہے، بھیڑ کی کی وجہ سے تاخیر ہوجائے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے، غروب کے بعد بھی کرسکتے ہیں، اس لیے جلدی کے مارے اپنے کو خطر میں نہ ڈالیں، سوچ سمجھ کر احتیاط سے رمی کریں۔ (تحفۃ الحرم، ص: ۱۷) (۶)۔۔۔ فرمایا بعض چیزیں خوشبو کی ہوتی ہیں، ان کا استعمال بھی احرام میں درست نہیں ہے، جس طرح خالص خوشبو عطر وغیرہ کا استعمال حرام ہے، وہ چیزیں خواہ برتنے کی ہوں یا کھانے پینے کی، خوشبو کا معیار یہ ہے کہ عقل سلیم اس کو خوشبو سمجھتی ہو، اس سے بچنا چاہیے، ورنہ بہت خسارہ ہوگا، بہت سے لوگ کافور کو، زیتون خوشبو نہیں سمجھتے، حالانکہ یہ بھی خوشبوہے، بعض لوگ حجر اسود پر خوشبو مل دیتے ہیں، بعض لوگ احرام میں ہوتے ہیں، وہ خوشبو اگر ان کو لگ جائے تو دم واجب ہوتا ہے، مسائل سیکھنے کی ضرورت ہے۔ (حوالہ بالا، ص:۱۷) (۷)۔۔۔ فرمایا دم در اصل سزا ہے اس بات کی کہ دین کا کام کرتے ہو مگر طریقہ نہیں سیکھتے، اتنا اہم عمل ہے اور سیکھے بغیر شروع کردیا، اب خلافِ حکم کیا ہے تو ناواقفی کا جرمانہ ادا کرو اور دم لازم ہوتا ہے ترک واجب سے،ایک صاحب نے واجبات حج زبانی یاد کرلئے تھے، اتفاق سے وہ اپنے گروہ سے چھوٹ گئے، پانچ دن کے بعد جب ملے تو معلوم ہوا کہ واجبات یاد رہنے کی وجہ سے کوئی ایسی غلطی نہیں کی جس سے دم واجب ہو، یہ فائدہ ہوتا ہے سیکھنے کا، آج لوگوں میں مسائل کی اہمیت نہیں رہی(حوالہ بالا، ص:۱۸) (۸)۔۔۔ فرمایا احرام میں عورتوں کے لیے صرف ایک مجاہدہ ہے وہ یہ کہ چہرہ نہ ڈھانکیں مگر بے پردگی بھی نہ کریں، اس کے علاوہ لباس معمول کا پہن سکتی ہیں، مگر یہ مجاہدہ بہت اہم ہے، اس کا اہتمام بہت ضروری ہے کہ بے پردگی نہ ہونے پائے، اپنے آپ کو حتی المقدور مردوں سے علیحدہ رکھیں۔(حوالہ بالا، ص:۱۸) (۹)۔۔۔ فرمایا حطیم میں داخل ہونے، ملتزم سے چمٹنے، حجر اسود کا بوسہ لینے وغیرہ میں خواہش وجذبات پر حکم کو مقدم رکھو، حکم یہ ہے کہ یہ سب ا عمال فضیلت ہیں مگر کسی کو ایذاء پہنچانا حرام ہے، حرام سے بچنے کی فکر کریں، خواہ اس کے لیے یہ فضیلت چھوٹ جائیں، مستحبات سے کسی کو ضرر پہنچ رہا ہو تو وہ ممنوعات میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔(حوالہ بالا، ص:۱۹) (۱۰)۔۔۔ فرمایا منٰی میں، عرفات میں، مزدلفہ میں دعاؤں کا خوب اہتمام کرو، خوب دعائیں مانگو، رو رو کر مانگو، رونا نہ آئے تو رونے کی صورت ہی بنالو، بچوں جیسے مانگنا سیکھو، کس طرح بار بار مانگتے ہیں، آخر پانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، سائل اور بھکاریوں سے سیکھو، کس طرح گڑ گڑاتے ہیں اور کیسی حالت بنا کے مانگتے ہیں، ان کو مانگنا آگیا ہے، اسی پرمطمئن ہیں بعض اکابر کے حالات میں ہے کہ عرفات میں زوال سے غروب تک مسلسل دعائیں کرتے رہے، بہت قیمتی وقت ہے، اسے ضائع نہ کرو۔(حوالہ بالا، ص:۲۰) (۱۱)۔۔۔ فرمایا حرم شریف کے قیام کو غنیمت سمجھنا چاہیے،اور اس سے خوب استفادہ کرنا چاہیے، ایک اہم عمل نماز تہجد کا ہے، اس کی بھی پابندی کا اہتمام کریں، کوشش کرنے سے ہر کام آسان ہوجاتا ہے، تھوڑی توجہ اور اہتمام سے کام لیں، انشاء اللہ یہ نعمت بھی مل جائے گی۔(حوالہ بالا،ص:۲۲) (۱۲)۔۔۔ فرمایا حرم شریف میں خصوصیت کے ساتھ لغو کاموں اور لغو باتوں سے بچنے کا اہتمام کرنا چاہیے، بھائی! یہاں کے اوقات بڑے قیمتی ہیں، بڑے قدر ومنزلت کے ہیں، جہاں تک ہوسکے یہاں کے اوقات کو مشغول رکھا جائے، شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب نور اللہ مرقدہ کے یہاں ایک ہی پرہیز ہوتا تھا، سب کے لیے کہ خوب کھاؤ، خوب سوؤ، مگر باتیں نہ کرو، جن لوگوں کو حرم شریف میں حاضری کا موقع ملا ہے ان کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے اپنے دربار میں حاضری کے اسباب پیدا کردئے، جتنے دن بھی یہاں رہنے کا موقع مل جائے اس کو غنیمت سمجھنا چاہیے، یہاں کی برکات زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی فکر وکوشش کرنی چاہیے، طبعی تقاضے اور ضروریات تو ہر ایک کے ساتھ ہیں، اس سے تو بھائی کسی کو روکان نہیں جاسکتا ہے، ان کے لیے تو آدمی جاتا ہی ہے، پس بازار سے بقدر ضرورت تعلق رکھے، حدیث شریف میں آتا ہے ’’اللہ کے یہاں سب سے زیادہ ناپسندیدہ جگہ بازار ہے‘‘۔ (فیض الحرم، ص:۱۵)۸ (۱۳)۔۔۔ ارشاد فرمایا کہ آج کل غفلت، خودرائی اور خود غرضی کا مرض عام ہے، ہر شخص اپنی غرض اور اپنی مصلحت کی خاطر کام کرتا ہے، کسی طرح ہمارا کام ہوجائے، دوسروں کی راحت وآرام جو کہ مومن کی شان ہے کہ اپنے آرام کو دوسرے کی راحت کے واسطے قربان کرنا، ایثار کرنا اس میں کمی آگئی ہے اور آپس میں جو نزاع اور جھگڑے ہوتے ہیں وہ انہیں وجہوں سے ہوتے ہیں، بالخصوص حج کے موقع پر کہ چند آدمیوں کے رہنے کے لیے ایک کمرہ ملا ہوا ہے اور اس میں پنکھا ایک ہی ہے تو اب ہر شخص چاہتا ہے کہ ہم پنکھے کے نیچے لیٹیں، ہوا میں رہیں، اسی میں بعض مرتبہ ایک ہی جگہ پر کئی کئی بسترے ڈال دئے جاتے ہیں، حالانکہ اس کا بھی طریقہ ہے کہ باری بنالیں اور ہر ایک کو باری باری نفع اٹھانے کا موقع مل جائے، ایک صورت اور بھی ہے کہ اُتر دکھن لیٹ جائیں کہ سب کے سر ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوجائیں تو سب لوگ ایک ساتھ استفادہ کرسکتے ہیں تو بات وہی ہے خود غرضی اور خودرائی کی، اس کی ا صلاح کی فکرکرنی چاہیے۔(مجالس محی السنۃ، ص: ۱۲۵) (۱۴)۔۔۔ فرمایا حج کیا ہے اپنی طرف سے اس کا اخفاء ہونا چاہیے، اظہار نہ ہو، جس طرح حج سے پہلے اور حج میں اخلاص کی ضرورت ہے، اسی طرح حج کے بعد بھی اخلاص چاہیے، یہ نہیں کہ ہم کو اللہ نے یہ نعمت دی تو اب ہماری طرف سے یہ معاملہ ہو کہ ہم ایسے تذکرے کریں، ایسے معاملات کریں، جس سے لوگوں کے علم میں آئے کہ ہم حاجی ہیں، جن کو ہمارے حج کا علم نہیں ان کو بھی اس کا علم ہوجائے، اس طرح کے معاملات اور تذکرے سے احتیاط کرنا چاہیے۔(حج کے اہم حقوق، ص:۲۰) (۱۵)۔۔۔ یہاں آکر سارے مشائخ، سارے علماء، سارے وزراء کا امتحان ہوتا ہے، عبادات میں امتحان ہوتا ہے، اخلاق میں بھی امتحان ہوتا ہے، سب سے پہلے نماز میں امتحان ہوتا ہے، صفِ اول میں نماز پڑھنا کتنی بڑی بات ہے، اس سے عجب پیدا ہوسکتا تھا کہ سب سے بڑے ہیں یہاں آکر معلوم ہوتا ہے کہ ہم کتنے پیچھے ہیں اپنے یہاں تو صفِ اول میں پڑھتے تھے اور یہاں پچاس صف پیچھے پڑھ رہے ہیں۔(حوالہ بالاص: ۴۱) (۱۶)۔۔۔ یہاں عبادات کے ساتھ اخلاق کا بھی امتحان ہوتا ہے، خلاف مزاج باتیں پیش آتی رہتی ہیں، بعض اوقات بڑے آدمی کو معمولی آدمی ڈانٹ دیتا ہے، یہاں مستقل رہنے والوں کی حیثیت درباری کی سی ہے اور جو باہر کے لوگ آئے ہوئے ہیں وہ سرکاری مہمان ہیں اب بادشاہ کے گھر والوں کی طرف سے کوئی معاملہ پیش آئے تو اسے برداشت کرنا چاہیے۔(حوالہ بالا ص: ۴۲) (۱۷)۔۔۔ یہاں (حرمین شریفین) ہم کس لیے آتے ہیں اس کا استحضار ہونا چاہیے تکمیلِ اصلاح کے لیے آتے ہیں امتحان کے لیے آتے ہیں ، حلوہ کھلا کر امتحان نہیں لیا جاتا ہے کچھ نہ کچھ مشتقیں پیش آئیں گی، ہر نوع کا مجاہدہ ہے، دنیاوی منافع کے لئے لوگ کیسی کیسی مشتقتیں برداشت کرتے ہیں، اس کے مقابلے میں دینی نفع کے لیے تو اور بھی تحمل ہونا چاہیے۔(حوالہ بالا ص: ۴۳) لوگ پوچھتے ہیں کہ اس سال بیت اللہ کے لیے سفر ہوگا تو عرض کردیا کرتا ہوں کہ ہاں بھائی اللہ تعالیٰ نے تلافی مافات کے لیے تکملِ اصلاح کے لیے ہمیں ایک اور موقع دیا ہے، ہم یہاں پر ہر ایک کو اپنا مصلح سمجھتے ہیں اس لیے الحمد للہ قلب میں کوئی تکلیف اور پریشانی نہیں ہوتی۔(ص: ۴۴) (۱۸)۔۔۔ یہاں (حرمین) کی حاضری کی برکت سے اپنی کمیوں کا احساس ہوا ہے اصلاح کی فکر ہوئی یہ بھی قابلِ شکر بات ہے، ٹی بی کا مریض ہوتا ہے وہ دوا اور پرہیز کے ساتھ اگر پہاڑ پر چلا جائے تو وہاں کی آپ وہوا سے جلدی فائدہ ہوتاہے۔(ص: ۳۱) (۱۹)۔۔۔ بعض دواؤں کی خاصیت ہوتی ہے کہ وہ بیماری کے لئے دافع بھی ہوتی ہیں مانع بھی ہوتی ہیں، یہی معاملہ تہجد کا بھی ہے اس سے خطائیں مٹتی ہیں اور گناہوں سے رکنے کی طاقت بھی پیدا ہوتی ہے جس کو حج کا شرف حاصل ہوا ہے، اس کے لیے اس کا اہتمام اور زیادہ چاہیے۔(حوالہ بالا ص:۲۷) (۲۰)۔۔۔ اللہ کا ذکر بڑی چیز ہے اس کی کثرت کرے، کثرتِ ذکر سے نور پیدا ہوگا، نور سے سرور ہوگا،سرور سے قوت وطاقت پیدا ہوگی جس سے طاعات کا ذوق وشوق ہوجائے گا، اس کی پابندی ہونے لگے گی، گناہوں سے نفرت ہوجائے گی۔(ص:۳۰۔۳۲) (۲۱)۔۔۔ حج کو حاصل کرنے کے لیے دو چیزوں کی ضرورت پڑے گی ایک تو یہ کہ حج کامل ہو دوسرے یہ کہ وہ باقی بھی رہے، کامل حج یہ کہ اس کو قاعدہ کے مطابق کیا جائے، بے اصولی اور قاعدے کی خلاف ورزی نہ کی جائے، پھر یہ کہ حج خالص اللہ کی رضا کے لیے ہو، دوسری چیز یہ کہ یہاں کی حاضری کی برکات سے ہمیں اعمال کی توفیق ہوتی رہے، اس کا اہتمام رکھا جائے، یہاں تہجد کی پابندی کرتا رہے، اس کا اہتمام بدستور رکھا جائے۔(ص:۲۰۔۲۴) حضرت کی درج بالا ہدایات اس قدر اہم ہیں کہ عازمین اگر ان کی رعایت کریں تو ان کا حج ہر طرح محفوظ رہے گا، علاوہ ازیں عازمین کو چاہیے کہ (۱) دورانِ سفر اور قیام حرمین کے درمیان بے صبری کا مظاہرہ نہ کریں، اکثر حجاج بے صبری کرتے ہیں سواری ملنے میں تاخیر پر بے صبری، اسی طرح سواری مل گئی چلنے میں دیر ہورہی ہو یا ایرپورٹ پر قانونی کاروائی کے مراحل کی تکمیل میں تاخیر ہوگئی تو گھبراہٹ کا اظہار ہونے لگتا ہے، اسی طرح معلم کی طرف سے کسی معاملہ میں سستی ہو تو اس پر ہنگامہ کیا جاتا ہے، بے صبری سے گریرز کرنا چاہیے۔ (۲) آج کل ایک عام مرض یہ دیکھا جارہا ہے بہت سے حجاج حکومت معلمین اور حج کمیٹی کے افراد پر تنقیدیں اور تبصرے کرتے ہیں، یہ بے جا تبصرے بالعموم غیبت کے دائرے میں آتے ہیں اور دوسرا یہ کہ اس سے آدمی کا مزاج فاسد ہوتا ہے، طبیعت طاعت سے ہٹ جاتی ہے۔ (۳) عبادت در اصل حکمِ الٰہی کو ماننے کا نام ہے، شوق پورا کرنے کا نام نہیں ہے بہت سی خواتین محرم میسر نہ ہونے کے باوجود غیر محرم کو محرم بنا کر حج کو جاتی ہیں جو غلط ہے۔ (۴) آج کل عرب میں اور بالخصوص سعودی میں ائمہ اربعہ کی شان میں گستاخی اور لوگوں میں غیر مقلدیت کو فروغ دینے کا فتنہ عام ہے، حجاج کو چاہیے کہ مسائل کے سلسلہ میں اپنے علاقے کے علماء سے رجوع کریں اگر بروقت عالم نہ ملے تو مدرسہ صولتیہ سے رجوع کریں۔ (۵) بعض لوگ حج کے موقع پر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے عرب مسلمانوں کی خلاف شرع وضع قطع اور مسنون داڑھی کا عدم اہتمام دیکھ کر اسی کو اصل اسلام سمجھتے ہیں اور اپنی غیر اسلامی وضع قطع کو درست خیال کرتے ہیں تو ویسے لوگوں کو یہ جاننا چاہیے کہ اہل عرب ہمارے لیے قابل حجت نہیں، خلاف شرع چیزوں میں ہمیں ان کی تقلید نہیں کرنا چاہیے، البتہ ان کی برائی اور غیبت کرنے سے بھی گریز کرنا چاہیے کہ وہ عرب ہونے اور مقامات مقدسہ سے نسبت کے سبب لائق احترام ہیں۔ (۶) بعضے لوگ حرمین میں بھی ویسے ہی رہتے ہیں جیسے اپنے وطن میں ہوتے ہیں مسجد حرام اور مسجد نبوی انتہائی قابلِ احترام مقامات ہیں، بعضوں کودیکھا جاتا ہے کہ حرمین شریفین میں اس طرح داخل ہوتے ہیں کہ کان سے فون لگاہوتا ہے باتیں کرتے ہوئے آداب کی رعایت کیے بغیر داخل ہوتے ہیں جبکہ دعا پڑھ کر دائیں پیر پہلے داخل کرنا چاہیے اور دل خوفِ خدا سے معمور ہونا چاہیے۔ (۷) بعضے خواتین استلام حجر کی خاطر مردوں کی بھیڑ میں گھس جاتی ہیں جبکہ دور سے بھی استلام کیا جاسکتا ہے، ایک سنت پر عمل کے لیے مردوں کے ساتھ دھکم پیل کیا جاتا ہے جو کہ ممنوع ہے، اسی طرح بعضے مرد خواتین کی بھیڑ میں جاتے ہیں۔ (۸) رمی جمار کی راتیں منی میں گذرانا ہے، لیکن لوگ بھیڑ بھاڑ سے بچنے اور سہولت کے لیے اپنے کمروں میں گذارتے ہیں، آرام وراحت کے بجائے مسنون اعمال کی فکر کرنی چاہیے۔ (۹) بعض حجاج رمی جمار میں سنت کے مطابق کنکر لینے کے بجائے بڑے بڑے کنکر پتھر حتی کہ چپل اور جوتوں کا استعمال کرتے ہیں جو کہ غلط ہے، ایسی حرکتوں سے گریز کرنا چاہیے۔ (۱۰) صفا ومروہ کے درمیان سعی کے وقت میلین اخضرین پر دوڑنا مردوں کے لیے ہے لیکن بعض خواتین بھی دوڑتی ہیں جو کہ صحیح نہیں ہے۔ (۱۱) بہت سے حجاج قربانی سے پہلے بال منڈواتے ہیں جب کہ احناف کے یہاں ترتیب واجب ہے، بہت سے لوگ غیر مستند علماء کے کہنے پر ترتیب میں کوتاہی کرتے ہیں یا دیکھا دیکھی کرنے کا مزاج عام ہوتا ہے، ایسا نہیں کرنا چاہیے حج کے ہر عمل کو مستند علماء سے پوچھ کر صحیح مسنون طریقہ پر ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ (۱۲) بالعموم ہوٹلوں میں ٹی وی نصب ہوتا ہے بہت سے حجاج خبریں دیکھنے کے بہانے ٹی وی بینی کر کے فحاشی اور بے حیائی کے مرتکب ہوتے ہیں، حرمین میں حجاج کے لیے ٹی وی کا نظم در اصل حاجیوں کا حج خراب کرنے کی سازش ہے، حاجیوں کو اس سے بالکلیہ احتراز کرنا چاہیے۔ (۱۳) ایام حج میں بہت سے عرب اصحابِ ثروت کھانے کی پاکٹ اور جوس وغیرہ کی بوتلیں تقسیم کرتے ہیں جب کھانے کی گاڑیاں آتی ہیں تو کچھ لوگ اس طرح ان پر ٹوٹ پڑتے ہیں گویا وہ یہاں اسی کے لیے آئے ہوں، ایک ایک حاجی کئی کئی ڈبے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جبکہ تقسیم کرنے والے حرام حرام کے نعرے لگارہے ہوتے ہیں، یہ انتہائی گری ہوئی حرکت ہے، حجاج تو کیا عام ا نسانوں کو بھی یہ زیب نہیں دیتا۔ (۱۴) طواف نگاہیں نیچی رکھے خشوع وخضوع کے ساتھ کرنا چاہیے دوران طواف کعبۃ اللہ کی طرف دیکھتے رہنا ممنوع ہے، الا یہ کہ رکن یمانی پر پہونچے یا حجر اسود کا استلام کرے تو ہاتھ اٹھائے، بعض لوگ ناواقفی کے سبب موقع بے موقع ہاتھ اٹھاتے ہیں، ایک ہاتھ اٹھاتا ہے تو دوسرے پیچھے کے لوگ اس کا دیکھا دیکھی ہاتھ اٹھاتے ہیں، بعض لوگ مقام ابراہیم پر ہاتھ لگاتے ہیں حبکہ بے اصل بات ہے۔ (۱۵) روانگی کے وقت بہت سے حجاج حج ہاوز پر اپنی خواتین کی بھیڑ جمع کرتے ہیں اور بہت سی جوان لڑکیاں حج ہاؤز کے پاس بے پردہ گھومتی ہیں، عازمین کو چاہیے کہ اول تو خواتین کی بھیڑ جمع نہ کریں، آخری صورت میں حجاب کا پابند بنائیں۔ (۱۶) دورانِ حج ایک سنگین گناہ جو عام ہوچکا ہے وہ تصویر کشی کا گناہ ہے، حج کو نکلنے سے لیکر ایامِ حج کے دوران بھی موبائل کے ذریعہ تصویر کشی بڑے اہتمام سے کی جاتی ہے، حتی کہ حرم شریف میں کعبہ کی طرف پیٹھ کر کے کھڑے ہو کر تصویر لی جاتی ہے، اسی طرح روضۂ اقدس کے پاس جو کہ انتہائی احترام کی جگہ ہے، بہت سے لوگ موبائل کے ذریعہ ویڈیو گرافی کرتے ہیں،تصویر کشی گناہِ کبیرہ ہے، جس پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، اس سے بالکلیہ گریز کرنا چاہیے۔