ستمبر09 :-: ممتاز شاعر " شاعر رومان" اخترؔ شیرانی کی برسی ہے

Bhatkallys

Published in - Other

01:52PM Sat 9 Sep, 2017
از: ابوالحسن علی بھٹکلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بیسویں صدی کے جن اردو شعرا نے رومانوی شاعر کی حیثیت سے نام پیدا کیا ان میں اختر شیرانی کو غیر معمولی حیثیت حاصل ہے۔ اختر شیرانی کا اصل نام محمد داؤد خان تھا۔ وہ 4مئی 1905 کو بھارتی ریاست راجستھان کے علاقے ٹونک میں پیدا ہوئے۔ وہ چھوٹی عمر میں ہی لاہور چلے آئے۔ انہوں نے منشی فاضل اور ادبی فاضل کیا، یہ عربی اور فارسی کی ڈگریاں تھیں۔ اپنے والد کی تمام تر کاوشوں کے باوجود وہ اپنی تعلیم جاری نہ رکھ سکے اور کل وقتی شاعر بن گئے۔ مولانا تاجور نجیب آبادی ان کے استاد تھے۔ اختر شیرانی بہت اختراع پسند تھے، انہوں نے اردو شاعری کو نئی سمتوں اور زاویوں سے آشنا کیا۔ انہیں شاعر رومان کا خطاب دیا گیا۔ ان کے مجموعی طور پر 9 شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں اخترستان، نگارشات اختر، لالہ طور، طیور آوارہ، نغمہ حرم، صبح بہار اور شہناز شامل ہیں۔ وہ ادبی جرائد سے بھی وابستہ رہے۔ اختر شیرانی کی شاعری کے بنیادی اوصاف میں نغمگی، رجاؤ، لطافت اور اختراع پسندی شامل ہے اس کے علاوہ انہوں نے فطرت نگاری بھی بڑے شاندار انداز میں کی۔ شاعر رومان اختر شیرانی کا انتقال 9 ستمبر 1948 کو ہوا اور لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔ اردو ادب میں جب بھی رومانوی شاعری کا ذکر ہوگا اختر شیرانی کا نام سرفہرست ہوگا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اختر شیرانی کا دور عجیب متشائم دور ہے ۔ کیونکہ اس دور میں ایسے بے شمار دبستان اور ان کے مختلف نظریات منصہء شہود پر آۓ جن کے لۓ ہندوستان کے سیاسی پلیٹ فارم پر عرصہ سے دھواں دھار تقریریں ہوا کرتی تھیں گاندھی جی انگریزی سامراج سے ٹکر لینے کے منصوبے بنا رہے تھے ، محمد علی جناح مسلمانوں کی آزادی کے لۓ تگ و دو میں مصروف تھے۔حالیؔ کی مدھم راگنی اُن کو خوابِ غفلت سے بیدار کر رہی تھی۔اسی زمانے میں بے شمار سماجی ، سیاسی ، تہذیبی ، تمدنی اور معاشرتی اقدار تبدیل ہو رہی تھیں اور بہت سی نئی قدریں ملک میں ترویج پا رہی تھیں ۔ اسی زمانے میں اگر آپ علی گڑھ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھیں تو سر سید احمد دہلوی اپنی تحریک کو کامیاب بنانے کے لۓ دن رات کوشاں تھے۔ادھر پنجاب میں علامہ اقبالؒ مسلمانوں کو ان کی عظمتِ گزشتہ اسلاف کے کارنامے اور واقعات رفتہ کے حسیں مرقعے دکھا کر ان میں آزادی کی روح پھونک رہے تھے۔اسی زمانے میں جوشؔ ملیح آبادی انقالب زندہ آباد کے پر جوش نعرے لگاتے ہوۓ دکھائی دیتے ہیں ۔دوسری جانب دیکھیۓ تو سیمابؔ اکبر آبادی ، عزیزؔ لکھنوی، جگرؔ مراد آبادی، اصغرؔ گونڈوی اپنی پرانی روشوں پر گامزن دکھائی دیتے ہیں جو کسی زمانے میں میرؔ اور سوداؔ نے دریافت کی تھیں اور ان کے سامنے غزل کا وہی میدان موجود ہے جس میں مصحفیؔ و انشاءؔ، ناسخؔ و آتشؔ کئی مرتبہ اشہبِ افکار دوڑآ چکے ہیں اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی سعی کرتے رہتے ہیں ۔ اگرچہ ان سب کی مزنل ایک ہی ہے مگر راستے جدا جدا ہیں ۔ سب ہی منزل پر پہنچنے کی سئی پیہم میں مصروف نظر آتے ہیں۔ مگر ان سب سے الگ تھلگ زمانہ کا اثر اور رنگ قبول کۓ بغیر اخترؔ شیرانی محبت و الفت کے نشہ میں سرشار چناروں کی جانفزاء چھاؤں میں بیٹھے حسن و عشق کے دلربا گیت گا رہے ہیں اور اپنے احساسات و جذبات اور وارداتِ قلبی کو اشعار کے لۓ سانچوں میں ڈھالتے چلے جا رہے ہیں۔ان کے نغموں میں زندگی ، جوش ، حسن ، اصلیت ، سوز، درد ، روانی ، ترنم ، شباب ، مسرت، محبت و الفت اور ہیجان غرضیکہ سبھی کچھ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں وہ تمام شعری محاسن بدرجہ اتم موجود ہیں ۔ جو ایک اچھی شاعری کا طرہ امتیاز ہوتے ہیں ۔ ان کی شاعری دراصل نغمات کی شاعری ہے جس میں شعریت کے علاوہ موسیقیت و غنائیت بھی موجود ہے ۔ یہی غنائیت موسیقیت اور شعریت کا مرکب اخترؔ شیرانی کی شاعری کہلاتا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ موسیقیت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اختر شیرانی کی شاعری کی روح رواں اور بنیادی خصوصیت ان کی موسیقیت و غنائیت ہے اور یہ غنائیت صرف انہی سے مخصوص ہے اور انھی کا حصہ ہے۔ اس غنائیت و موسیقیت سے ان کی شاعری کو الگ الگ کر کے دیکھنا گوشت کو ناخن سے الگ کرنے کے مترادف ہے ۔ وہ ایک بہت بڑے موسیقار ہیں ، اور موسیقی کے جملہ نشیب و فراز سے پوری طرح آگاہ ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں موسیقی کا شدید طوفان امڈتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس طوفان میں اس قدر جوش اور روانی ہے کہ قاری کو بھی اپنے ساتھ دکھائی دیتا ہے ۔ اور اس کے دل اور روح کے دامن کو مسرتوں کے پھولوں سے بھر دیتا ہے اور قاری لطف اندوز ہوۓ بغیر نہیں رہ سکتا۔ اور وہ بخوبی جانتے ہیں کہ کس کس حرف کے استعمال سے موسیقیت کے عنصر میں اضافہ ہو سکتا ہے چنانچہ وہ ویسے ہی الفاظ موقع اور محل کے مطابق اشعار میں سموتے ہیں اسی لۓ ان کے الفاظ لڑی میں پروۓ ہوۓ ان موتیوں کی مانند ہوتے ہیں جن میں چمک اور کشش دونوں موجود ہوتی ہیں مثلاً: دامانِ خرابہ زار میں ہے اک شاعر نوجوان کی تربت یا وادیِ نوبہار میں ہے اک نگہت رائگاں کی تربت شاعر کو مگر خبر نہیں کچھ وہ تیرہ نصیب سو رہا ہے اُس پر نہیں حال کا اثر کچھ جاگا تھا ، غریب سو رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان اشعار میں اختر شیرانی نے حرف " ر" کی تکرار سے حسرت اور سوگواری کے جذبے کو ظاہر کیا ہے ۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ حرف " ر" کا صوتی آہنگ حسرت بھرے مضامین ادا کرنے کے لۓ نہایت موزوں ہے ۔ لہذا شاعر کی تربت کی حسرت اور ویرانی کو اور زیادہ اجاگر کرنے کے لۓ " ر" کی تکرار سے کام لیا ہے اور جذبے کی اس شدت کو نمایاں کرنے میں وہ یہاں بڑی حس تک کامیاب رہے ہیں ۔ اسی طرح حروف " س" اور " ش" کی آوازیں سکون ، سکوت اور خاموشی جیسے موضوعات کو ادا کرنے میں بیحد ممدو معاون ہوتی ہیں۔ یہ آوازیں نہ صرف موضوع کے پس منظر کو ابھارتی ہیں بلکہ اس میں زور اور حسن بھی پیدا کرتی ہیں ۔ ذیل کے ان اشعار میں ان حروف کی صوتیات سے پورا استفادہ کرتے ہوۓ اخترؔ نے شام کی خاموش فضا اندھیرے کے دلچسپ سکوت اور گلیوں کی شمعوں پر پھیلے ہوۓ سایوں کے منظر کو نہایت اچھے انداز میں پیش کیا ہے ۔ لکھتے ہیں : او دیس سے آنے والے بتا کیا شام پڑے سڑکوں پہ وہی دلچسپ اندھیرا ہوتا ہے اور گلیوں کی دھندلی شمعوں پر سایوں کا بسیرا ہوتا ہے باغوں کے اندھیرے گوشوں میں ؛ جس طرح سویرا ہوتا ہے اور دیس سے آنے والے بتا ۔۔ ان اشعار میں دیس ، سے ، شام ، سڑکوں ، دلسچسپ ، شمعوں ، سایوں ، بسیرا ، جس ، گوشوں ، سویرا ایسے الفاظ ہیں جن میں " س" اور "ش" کے حروف آتے ہیں ۔ اختر شیرانی نے ایسے الفاظ یکجا کر کے نہ صرف منظر میں حسن پیدا کیا ہے بلکہ بے حد روانی اور موسیقی پیدا کی ہے۔ بس یہی موسیقی پیدا کی ہے۔ بس یہی موسیقی ان کی شاعری کا طرہ امتیاز ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رُومانیت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اردو ادب سے ذرا بھی دلسپی رکھنے والا ہر شخص نہایت آسانی سے کہہ سکتا ہے کہ اختر شیرانی رومانی شاعر تھے یا اختر شیرانی کی شاعری رومانیت سے بھرپور ہے ۔ مگر یہ بتانا مشکل ہے کہ رومانی شاعری ہوتی کیا ہے؟ یا رومانیت کن عناصر ترکیبی سے معرض وجود میں آتی ہے ۔ روحانیت حسن و عشق یا محبت و الفت کی نشاط انگیز میٹھی میٹھی جادوبیانی ، سحر طرازی اور خارجیت کی مصوری کو بھی ہم رومانیت کا نام نہیں دے سکتے اور نہ ہی الفاظ اورغنتائی شاعری کو رومانیت کہا جا سکتا ہے ۔ حقیقت میں رومانیت زندگی کی ایک خاص طرح کی کیفیت کا نام ہے جس میں عقلیت سے زیادہ جذباتیت کے عناصر غالب ہوتے ہیں بلکہ جذباتی کیفیات کا رنگ اس قدر شوخ اور گہرا ہوتا ہے کہ اس کے سامنے عقلی کیفیات کا رنگ قدرے ماند پڑ جاتا ہے بلکہ کسی حد تک جذبات رنگ میں ہی مدغم ہو جاتا ہے اسی جذباتی رنگ کا تازیانہ جب قوت متخیلہ کے رہوار پر لگتا ہے تو اس میں برق کی سی تیزی اور شاہینِ قہستانی کی سی بلند پروازی پیدا ہو جاتی ہے اور وہ سدرۃ المنتہا سے بھی آگے ، بہت آگے نکل جاتا ہے اور شاعر دور ۔۔۔ بہت افق کے اس پار اپنی نئی دنیا آباد کر لیتا ہے ۔ اس نئی دنیا میں اسے آرام و راحت ، سکون و امن ، مسرت و شادمانی ، یک جہتی ، ہم آہنگی ، حسن و رعنائی ، دلکشی و زیبائی مت و الفت غرضیکہ وہ تمام نعمتیں اسے مسکراتے ہوۓ خوش آمدید کہتی ہیں ۔ جن سے وہ اس مادی دنیا میں محروم رہتا ہے ۔ بالفاظ دیگر رومانیت روح اور دل کی مخصوص بالیدگی کا نام ہے جس کی بنا پر روح کا افق وسیع سے وسیع تو ہو جاتا ہے ۔ پھر اس افق پر ایک نہیں بلکہ ہزاروں مہر و ماہ درخشاں دکھائی دیتے ہیں جن کی ضیا باری سے کائنات کا ذرہ ذرہ جگمگانے لگتا ہے اور رومانی شاعر اس جگمگاہٹ اور روشنی میں ایک طرح کی دلی مسرت اور ذہنی سکون محسوس کرتا ہت جو اس کے لۓ مادی دنیا میں سرے سے ہی مفقود ہوتا ہے ۔ مگر اسے روح اور تخیل کی دنیا میں میسر آتا ہے ۔ پروفیسر اختر اورینوی رومانیت کے متعلق یوں رقمطراز ہیں کہ " نفس کی ایک مخصوص حالت کو رومانیت سے تعبیر کرتے ہیں جن میں جذباتی کیفیات عقلی سے زیادہ نمایاں ہوتی ہیں اور تخیل و جذبات کا ابھر جانا رومانیت کی روح رواں ہے اور رومانیت کی ایک اہم خصویصیت انفرادیت ہے مگر انفرادیت رومانیت کا سبب نہیں نتیجہ ہے ۔ رومانی تخیل کائنات کو ایک نۓ طور پر دیکھتی ہے اور رومانی جذباتِ عالم کو ایک جدید رنگ میں ڈوبا ہوا پاتے ہیں اور ان کا لازمی نتیجہ انفرادیت ہے" یہی وجہ ہے کہ ایک رومانی شاعر اس جہان رنگ و بو کے مصائب و تکالیف ، غم و آلام ، سماجی بندھنوں ، معاشرتی قیود، مکاریوں ، فریب کاریوں اور تخریب کاریوں کے ببولوں سے دامن بچانے کے لۓ اس دنیا میں پناہ لیتا ہے ۔ جو اس کے تخیلات کی پیداوار ہوتی ہے جس میں اسے مادی دنیا کی چیخ و پکار ، آہ و فغاں اور نالہ و شیون سنائی نہیں دیتے بلکہ شہنائی کے سریلے نغمے سنائی دیتے ہیں جو روح کی گہرائیوں میں اتر جاتے ہیں ۔ یہی اس کی رومانی دنیا ہے جہاں اس کی شاعری رومانیت کی سہانی آغوش میں پرورش پاتی ہے۔ اخترؔ شیرانی سکون و امن اور عالم حسن کی تلاش میں اس مادی دنیا سے دور ۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت دور تخیلات کی دنیا میں چلے جانے کے متمنی ہیں جہاں ہر طرف حسن کے جلوے اور نیرنگیاں ہیں ۔ صداقت اور حقیقت ہے ، سکون اور مسرت ہے ۔ غرضیکہ وہ سبھی کچھ ہے جو اس مادی دنیا میں موجود نہیں کیونکہ یہ مادی دنیا اخترؔ کے نزدیک ایک ایسی پاپ کی نگری ہے جہاں انسان نہیں ، حیوان ، وحشی اور درندے آباد ہیں جہاں ارمان کچلے اور مسلے جاتے ہیں اور امیدوں کا خون ہوتا ہے ۔انسان ابدی نیند سوتا ہے اور فتنہ و شر جیسے تخریبی عناصر ہمہ وقت بیدار رہتے ہیں ۔ یہ دنیا جذبات کا مذبح اور آرزوؤں کا مقتل ہے ۔ یہاں خود غرضی ، سردمہری ، شر پسندی ، نفس پرستی اور انسان کشی جیسے ناپانک اور زہریلے خیالات جنم لیتے ہیں۔ اسی لۓ اخترؔ رہبر عشق سے التجا کرتے ہیں۔ اے عشق کہیں لے چل یہ جبر کدہ ، آزاد افکار کا دشمن ہے ارمانوں کا قاتل ہے امیدوں کا رہزن ہے جذبات کا مقتل ہے جذبات کا مدفن ہے چل یاں سے کہیں لے چل اے عشق کہیں لے چل اک مذبح جذبات و افکار ہے دنیا اک مسکن اشرار و آزاد ہے دنیا اک مقتلِ احرار و ابرار ہے دنیا دور اس سے کہیں لے چل اے عشق کہیں لے چل اخترؔ اس مطلب پرستوں کی دنیا سے بے حد بیزار نظر آتے ہیں لٰہذا اسے نفرت گہہ عالم بلکہ لعنت گہہ ہستی کہہ کر پکارتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک یہ مقہور و مجبور نفس پرستوں کی ایک ایسی بستی ہے جہاں پاپ کے زہریلے ناگ روپ بہروپ دھار کر انسانیت کو ڈستے ہیں اور اس کی رگوں سے صداقت و شرافت کا خون چوس کر حیا سوزی ، نفرت اور عداوت کا زہر بھر دیتے ہیں؎ اے عشق کہیں لے چل اس پاپ کی بستی سے نفرت گہہ عالم سے لعنت گہہ ہستی سے ان نفس پرستوں سے اس نفس پرستی سے دور اور کہیں ے چل اے عشق کہیں لے چل دراصل اختر شیرانی نفس پرستوں کی اس دنیا کو چھوڑ کر ایک ایسی دنیا میں جانے کے خواہشمند ہیں جہاں پاپ ، خود غرضی ، نفس پرستی ، شرپسندی اور جذبات کشی کے عفریت کے بھانک سایے نہیں ہوتے اور نہ ہی وہ دنیا پاکیزہ جذبات و احساسات کا مقتل اور مدفن ہے بلکہ وہ ایک ایسی دنیا ہے جہاں طور کی مانند نور یزداں کی بارش ہوتی ہے ۔ کوہساروں پر گھٹائیں گِھر گِھر کر آتی ہیں۔ گیت گاتے ہوۓ چشمے اور دریا بہتے ہیں ۔ صحراؤں ، ہواؤں ، فضاؤں اور وادیوں پر ہمیشہ ایک خواب کی سی کیفیت طاری رہتی ہے ۔ بادل پریوں کی مانند ساری کائنات کو اپنے سفید پروں کی آغوش میں لے لیتے ہیں ۔ پھر مینہ کی پھوار پڑنے لگتی ہے ۔اس دنیا کے ذرے ذرے سے حوروں کا معصوم تبسم اور حسن ازلی جھلکتا ہے اور تمام سر زمین جنت کی مانند تقدیس کے نور میں دھل جاتی ہے۔ پھولوں کے کنج مہکتے ہیں ۔ پودے ہواؤں کے جھولون میں لہکتے ہیں ۔ ستارے جھلملاتے ہیں اور طیور خوش الحان بیٹھے سروں میں محبت و سکون کے سہانے نغمے گاتے ہیں اور بہاریں رقص کرتی ہیں؎ اے عشق ہمیں لے چل اک نور کی وادی میں اک خواب کی دنیا میں ، اک طور کی وادی میں حوروں کے خیالاتِ مسرور کی وادی میں تاحلد بریں لے چل اے عشق کہیں لے چل ان چاند ستاروں کے بکھرے ہوۓ شہروں میں ان نور کی کرنوں کی ٹھہری ہوئی لہروں میں ٹھہری ہوئی نہروں میں سوئی ہوئی لہروں میں اے خضرِ حسیں لے چل اے عشق کہیں لے چل اخترؔ شیرانی کی یہ رومانی دنیا ایسی پرسکون اور امن و امان کی دنیا ہے جہاں برکھا رت میں گھنگھرو گھٹائیں چاروں اور چھا جاتی ہیں ۔ پہاڑوں کے دامن میں مستانہ ہوائیں ہزاروں مے خانے اپنے شانوں پر اٹھاۓ ہوۓ جھومتی جھامتی چلی آتی ہیں ۔ خوشیوں کے پھول مسکراتے ہیں ۔ چاندنی راتیں دیوانہ وار رقص کرتی ہیں ۔ پریوں کے دلربا نغمے کوہساروں اور وادیوں میں گونجتے ہیں ۔ شباب و حسن کی رنگیں بہاریں آبشاروں کی صورت میں فضاؤں میں گیت بکھیرتے ہوۓ پہاڑوں کی رفعتوں سے وادیوں میں گرتی ہیں ۔ یہی وہ دنیا ہے جو اخترؔ کی رومانی اور تخیلاتی دنیا ہے ۔ جہاں پہنچنے کے لۓ وہ اپنی محبوبہ سلمٰی کا آنچل تھامتے ہوۓ کہتے ہیں ؎ جہاں شام و سحر نیلی گھٹائیں گھر کے آتی ہیں افق کی گود میں نیلم کی پریاں مسکراتی ہیں فضاؤں میں بہاریں ہی بہاریں لہلہاتی ہیں مری سلمٰی مجھے لے چل تو ان رنگیں بہاروں میں جہاں فطرت مچلتی ہے لہکتے ابر پاروں میں بہشتوں کی لطافت ہے جہاں کی زندگانی میں مزہ آتا ہے کوثر کا جہاں کے سادہ پانی میں خدائی حسن عریاں ہے جہاں کی نوجوانی میں مری سلمٰی، مجھے لے چل تو ان رنگیں بہاروں میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محا کات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اخترؔ شیرانی جہاں بہت بڑے موسیقار ہیں وہاں بہت بڑے مصور اور بت گر بھی ہیں ۔ وہ مصوری اور بت تراشی کے فن سے اسی طرح واقف ہیں جس طرح موسیقی کے فن میں مہارت رکھتے ہیں کیونکہ وہ اپنے موقلم سے ایسی بے مثال تصویریں اور بت خانے بناتے ہیں جو نہ صرف اپنے حسن و جمال میں یکتاۓ روزگار ہوتے ہیں بلکہ جذبات و احساسات کی دولت سے بھی مالا مال ہوتے ہیں ۔ اور یہ مسلمہ امر ہے کہ فن خواہ مصوری ہو یا سنگ تراشی ، کتابت ہو یا موسیقی کوئی فن ہو جب تک اس میں فنکار کا خلوصِ دل اور خونِ جگر شامل نہ ہو اس وقت تک فن کو معراج حاصل نہیں ہوتی اور نہ ہی فنکار کوئی عجوبہ روزگار تخلیق کر سکتا ہے جس کو دیکھ کر ناظرین انگشت بدنداں رہ جائیں اور جو فنکار کی شہرت و عظمت کا باعث بن سکے ۔ جس طرح گوءٹے کا فاؤسٹ، لینا ڈور کی مونا لیزا، ملٹن کی گم شدہ جنت،فطشے کا مردِ کامل اور اقبال کا مرد مومن دنیا کے ایسے زندہ جاوید شہکار ہیں جو سراپا ابدیت کے رنگ میں ڈوبے ہوۓ ہیں اور لافانی و انمٹ ہیں جو صدیاں گزر جانے کے بعد آج بھی فنکاروں کے نام روشن کر رہے ہیں ۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ فن میں زندگی اور حسن پیدا کرنے کے لۓ فنکار کو خلوصِ دل اور خونِ جگر سے کامم لینا پڑتا ہے ۔ خونِ جگر سے فن نہ صرف رفعتوں سے ہمکنار ہوتا ہے بلکہ اس میں جاودانی عناصر پیدا ہو جاتے ہیں جو فن کے ساتھ فنکار کو بھی زندہ جاوید بنا دیتے ہیں ۔ اخترؔ شیرانی اپنی تصویروں کے لۓ چونکہ خونِ جگر اور خلوصِ دل سے تیار کرتے ہیں لٰہذا ان کی تصویروں میں ابدیت ہے جاودانی رنگ ہے ۔ انمٹ عناصر ہیں مثلاً اپنی محبوبہ سلمٰی کی تصویر بے جان الفاظ کے ذریعے کچھ اس طرح خوبصورت اور جاندار بناتے ہیں کہ قاری دیکھ کر حیران و ششدر رہ جاتا ہے۔ یہ معصومانہ چہرہ غنچہء شاداب کا عالم یہ مستانہ نگاہیں ، اک بہشتی خواب کا عالم سراپاۓ خیالِ حور ، جسم ناز میں تیرا مجسم خندہء خواب پری روۓ حسیں تیرا یہ موتی، یہ جبیں ، یا انجم و مہتاب کا عالم پریشاں خواب کا گیسوۓ شب تاب کا عالم تو از سر تا پا اک نکہت و تنویر ہے سلمٰی شراب و شعر و موسیقی میں پنہاں تیری رنگت ہے مرے خاموش دل میں موجزن تیری محبت ہے بہار اور خواب کا ہیکل ، تری تصویر ہے سلمٰی ان اشعار کو پڑھ کر آنکھوں کے سامنے فوراً ایک ایسی نوجوان دوشیزہ کی تصویر آ جاتی ہے جس کا معصوم بھولا بھالا چہرہ پھولوں کی مانند شگفتہ ہے اور آنکھوں میں خمار و مستی کے پیمانے چھلک رہے ہیں ۔ گورا جسم کسی نازنیں حور کے مرمریں بدن کی یاد تازہ کرتا ہے ۔ پیشانی چاند ستاروں کی مانند درخشاں ہے جس پر ژولیدہ زلفیں عجب ستم ڈھا رہی ہیں یوں معلوم ہوتا ہے ۔ یوں نظر آتا ہے جیسے سیاہ بادلوں میں چاند گھرا ہوا ہو۔اس کا معصوم حسن شراب و شعر و موسیقی کا مرکب ہے۔ اسی طرح ایک اور جگہ اخترؔ شیرانی اپنے رنگیں برش سے ایک ایسی لڑکی کی تصویر بناتے ہیں جو اندھی ہے ۔ یہ اندھی لڑکی جو نوجوان و نوخیز دوشیزہ ہے ساحل دریا سے پانی کی گاگر بھر کر لکڑی ٹیکتی ہوئی گھر واپس آ رہی ہے ۔اس کی جوانی کا کنول شگفتہ ہے ۔ وہ جوان ہونے کے علاوہ حسیں بھی ہے ۔ اس کے معصوم چہرے پر سرخ و سفید رنگ کی لکیریں آنکھ مچولی کھیل رہی ہیں ۔ رخسار پھولوں کی مانند سرخ اور نرم ہیں غرضیکہ اس میں حسن کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے لیکن اس کے دل میں جزبات و احساسات کا محشر برپا ہے ۔ وہ قدرت کی ستم ظریفی پر بے حد ملول ہے ۔ اسے رہ رہ کر یہ غم ستا رہا ہے کہ قدرت نے اسے بینائی سے کیوں محروم کر دیا ؟ اس اس کا دامن کیوں اس نعمت سے خالی رہ گیا ؟ وہ گہرے سرمئی بادلوں کی گھن گرج سن رہی ہے ۔ پھولوں کی جانفزا خوشبو سونگھ رہی ہے ۔ ہواؤں اور فضاؤں میں نمی اور خنکی محسوس کر رہی ہے ساحل سے ٹکراتی ہوئی موجوں کا ترنم سن رہی ہے۔ ان تمام مناظر کو دیکھنے کی حسرت اس کے دل میں غؐ کا سنگین پتھر بن کر رہ گئی ہے جسے وہ کبھی بھی اور کسی صورت بھی دور نہیں کر سکتی۔ اخترؔ کی یہ لافانی تصویر اور اس کے جذبات و احساسات و جذبات ملاحظہ ہوں: آسماں پر ہیں گھنیری ٢ بدلیاں چھائی ہوئی! سارے عالم پر ہے اِک گہرا نشہ پھیلا ہوا ساحلِ دریا کا منظر کس قدر دلچسپ ہے ایک اِک ذرّہ پہ ہیں رنگینیوں کی بارشیں! اِس بہارستان کے دامن میں ہے محوِ خرام سینہ پر معصومیت کا نُور، مہتاب آفریں سینہ و بازو پہ عریانی کے جلوے موجزن ایک لکڑی کے سہارے ہاتھ میں پانی لئے ! چاند سے سینہ میں اِک ننّھا سا دل دھڑکا ہوا! پاؤں رکھتی ہے کہیں جلدی میں پڑتا ہے کہیں راستے میں سوچتی جاتی ہے دل ہی دل میں یوں آج کے دن کیوں نہ حاصل ہو گئیں آنکھیں مجھے؟ اِک اندھیرے کے سوا کچھ بھی نظر آتا نہیں آہ ، لیکن یہ ہوا، یہ شام کی ٹھنڈی ہوا آ رہی ہے ہر طرف سے مست خوشبو کی لَپٹ ! کاش میں بھی دیکھ سکتی یہ مناظر ایک بار رات دن ، شام و سحر ‘ یکساں ہیں سب میرے لئے سنتی ہوں یہ محفلِ ہستی بہت دلچسپ ہے! سنتی ہوں تارے چمکتے ہیں فلک پر رات کو کوئی کہتا ہے زمیں سے آسماں تک ہے فضا! میں سمجھتی ہوں کہ ہر سُو اِک دھوئیں کی نہر ہے! ایک دن کے واسطے آنکھیں جو مل جائیں مجھے ہاں، مگر میرے نصیبوں میں نہیں کوئی خوشی میرے مالک ! رحم! مجھ کو میری آنکھیں بخش دے نیلگوں پریاں اُڑی جاتی ہیں گھبرائی ہوئی! ساری دُنیا پر ہے اِک دوشیزگی چھائی ہوئی! جس پہ گرتی ٣ ہے نگاہِ شوق للچائی ہوئی ! ایک اِک پتّی پہ ہیں شادابیاں چھائی ہوئی! ایک محروم ِ نظر، دوشیزہ گھبرائی ہوئی!٤ چہرہ پر دوشیزگی کی سُرخیاں چھائی ہوئی! شانہ و گردن پہ کافر زُلف بکھرائی ہوئی! ٥ آ رہی ہے ساحل ِ دریا سے گھبرائی ہوئی! پُھول سے گالوں پہ اِک افسُردگی چھائی ہوئی سبزہ پر مچلی ہوئی ٹھوکر ہے گھبرای ہوئی! ”مجھ پہ فطرت کی یہ کیسی ظلم فرمائی ہوئی؟ آج کے دن کیوں نہ حاصل اِن کو بینائی ہوئی؟ چار سو٦ ہے دُھندلی دُھندلی سی گھٹا چھائی ہوئی! کہہ رہی ہے جنگلوں پر ہے بہار آئی ہوئی! وادیاں قدرت نے ہیں٧ پُھولوں سے مہکائی ہوئی! سبزہ و گُل کی ہے کیا کچھ محفل آرائی ہوئی! اِک سیاہی سی ہے ، ہر دم ہر طرف چھائی ہوئی! اس کے ہر ذرّہ پہ ہیں رنگینیاں چھائی ہوئی! جن کی تابانی سے ہیں شمعیں بھی شرمائی ہوئی! ٨ اور اُس میں دُھندلی دُھندلی رنگتیں چھائی ہوئی! ٩ اور میں اُس میں تیرتی پھرتی ہوں گھبرائی ہوئی! تووہ سب کچھ دیکھ لوں جس سے ہوں ترسائی ہوئی! یوں تو دنیا میں سبھی پر لُطف فرمائی ہوئی! مجھ سے غافل کیوں تری شانِ مسیحائی ہوئی الغرض وہ اس طرح کی آرزو دل میں لئے جا رہی ہے اپنے گھر کی سمت گھبرائی ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فطرت پرستی:۔ اس سلسلے میں اختر اورینوی لکھتے ہیں، ” اختر کیٹس کی طرح الفاظ سے بت گری بھی کرتا ہے اس مجسم تصویر کشی میں اختر کا بڑا درجہ ہے۔“ رومانی شاعر عموماً فطرت پرست ہوتے ہیں وہ مناظر ِ قدرت کو دیکھ کر اس دنیا کی آلائیشوں اور ہنگامہ خیزیوں سے صرفِ نظر کرکے تخیل کی بلند پروازیاں شروع کر دیتے ہیں اختر شیرانی کی رومانیت میں بھی فطرت کو بڑا دخل حاصل ہے وہ فطرت کی صناعی میں تصرف سے باز نہیں رہتے اور مناظرِ قدرت میں اپنے معجزہ قلم کے ذریعے رنگ آمیزی کرتے ہیں اختر کی منظر نگاری میں جوش کی طرح کی مثالیت پسندی کی جھلک نمایاں ہے۔ گنگناتی ہوئی ، ہنستی ہوئی ،اٹھلاتی ہوئی شام بنگال اُٹھی زلفوں کو لہراتی ہوئی بھر کے دامن میں حسینوں کا لہکتا ہوا نور قصہ طور کو ہر گام پہ دھراتی ، ہوئی حسن پرستی:۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر یونس رقم طراز ہیں کہ، ” اختر شیرانی ایک مخلص اور جذباتی انسان تھے انہیں عقل و خرد کے بکھیڑوں سے کوئی واسطہ نہ تھا وہ سوچنے کے لئے بھی دماغ کے بجائے دل سے کام لیتے تھے ان کی اس جذباتیت کو ان کی حسن پرستی نے اور جلا دی ہے حسن پرستی اُن کا شعار ہے ان کا مزاج لڑکپن سے عاشقانہ تھا۔“ حسن کی تلاش اور اُس کے لئے بے چینی اختر کو فردوس ارضی کی سیر کراتی ہے۔ اختر صرف نسوانی حسن سے متاثر نہیں ہوتے بلکہ ان کی رومانیت انہیں پہاڑوں ، وادیوں ، کہساروں مرغزاروں اور صحرائوں میں بھی حسن کی تلاش میں لے جاتی ہے وہ سچے رومانی کی طرح حسن کا کوئی نہ کوئی پہلو دریافت کرلیتے ہیں ایسے میں ان کی منظر نگاری قابلِ دید ہوتی ہے ان مناظر میں وہ بعض اوقات کوئی خیالی پیکر بنا لیتے ہیں ۔ مثلاً ان کی نظم ”جوگن “ میں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے سنہرے پانی میں چاندنی سے پائوں لٹکائے سر جوئبار بیٹھا ہواور کوئی جوگن جنگل میں گا رہی ہو۔ یا گائوں کی معصوم پنہاریاں پنگھٹ پر پانی بھر رہی ہوں۔ ا ک نہر بہہ رہی ہے تھوڑے سے فاصلے پر گاتی ہوئی جو اپنی منزل کو جارہی ہے یا جل پری ، رو پہلی موجوں کے بربطوں پر تاروں کے دیوتا کو نغمے سنا رہی ہے دیکھو! وہ کوئی جوگن جنگل میں گار ہی ہے تخیلاتی اور مثالی دنیا:۔ محبت کے علاوہ اختر شیرانی ایک ایسی تخیلاتی اور مثالی دنیا کی تعمیر کے آرزو مند ہیں جہاں فطرت اپنی تمام تر رعنائیوں اور جلوہ سامانیوں کے ساتھ بے نقاب ہوتی ہے جہاں سرود و نور کی بارش برستی ہے ۔آبشاریں گاتی اور جھرنے رقص کرتے ہیں ۔ فطرت کی اس دلفریب اور دلکش وادی میں وصالِ محبوب نہ صرف دنیا کے غم و الم کو نقش و نگار ِ طاق نسیاں بنا دیتا ہے بلکہ فطری حسن کے لطف کو مئے دو آتشہ کر دیتا ہے۔ اختر لکھتے ہیں۔ مری آغوش میں ہوگا وہ جسم مرمریں اُس کا وہ اُس کے کاکل مشکیں وہ روئے نازنیں اُس کا و ہ رخسار حسیں اُس کے وہ حسن یاسیمیں اُس کا وہ جس سے شوق کی دنیا کو مہکائے گی وادی میں سنا ہے میری سلمیٰ رات کو آئے گی وادی میں ! انقلاب پسندی اور ماضی پرستی:۔ رومانی شعراءانقلاب پسند ہوتے ہیں وہ ماضی کی یادوں میں اپنے آپ کو گم رکھتے ہیں وہ انقلاب پسند ضرور ہوتے ہیں لیکن ان میں قوتِ عمل کی کمی ہوتی ہے۔ اس لئے وہ انقلاب برپا کرنے سے قاصر رہتے ہیں ۔ وہ دنیا سے مایوس ہیں اور یہاں ہونے والے ظلم و ستم کے بارے میں کہتے ہیں، جہاں کا ذرہ ذرہ درسِ خونخواری سکھاتا ہے جہاں حیران یزداں اور شیطاں مسکراتا ہے جہاں حیوانیت ہروقت سرور ِ بغاوت ہے یہ دنیا دیکھنے میں کس قدر معصوم جنت ہے اختر ایسے میں ایک سیاسی و سماجی اور معاشی انقلاب برپا کرنے کی آرزو کرنے لگتے ہیں تاکہ زمین و آسمان اپنے معاملات بدل ڈالے وہ کہتے ہیں، اُٹھا جام ساقی جہاں کو بدل دیں نظام زمیں و زماں کو بدل دیں لیکن ایک سچے رومانی کی طرح یہ صرف ان کی سوچ ہی ہے ورنہ عملی اعتبار سے وہ اتنی قوت نہیں پاتے کہ اپنے حسب ِمنشاءکوئی تبدیلی لا سکیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سلمٰی عرب کے زمانہ جاہلیت میں بڑے بڑے سالانہ میلے لگتے تھے اور ان میلوں میں اکثر عالی شان مشاعرے بھی ممنعقد ہوتے تھے جن میں اس عہد کے مشہور شعراء اپنے اپنے کلام اعلٰی سے سامعین کو نوازتے تھے ۔ ان میں سے سالِ رواں کا جو بہترین کلام ہوتا تھا ۔ سونے کے پانی سے لکھ کر کعبہ میں آویزاں کر دیا جاتا تھا ۔ اس زمانے میں عام رواج تھا کہ شاعر کلام میں اپنی محبوبہ کا حقیقی نام استعمال کرنے کی بجاۓ اسے فرضی نام سے مخاطب کرتا تھا ۔ چنانچہ چند ایک فرضٰ نام مثلاً عذرا ، عنیزہ اور سلمٰی وغیرہ بہت مقبول ہو گۓ تھے اور تقریباً ہر شاعر اپنی محبوبہ کا صحیح نام استعمال کرنے کی بجاۓ ان فرضی ناموں کا ہی سہارا لیتا تھا ۔ لٰہذا اختر شیرانی کے ہاں بھی سلمٰی کام نام عربی شاعری سے مستعار لیا گیا ہے ورنہ حقیقت میں سلمٰی نام کی ایسی کوئی لڑکی نہ تھی جس سے اخترؔ والہانہ عشق کرتے تھے اور رات دن اسی کے گیر گاتے رہتے تھے۔ سلمٰٰ کا نام اخترؔ کی شاعری میں اس کثرت سے استعمال ہوا ہے کہ وہ خود ایک زندہ حقیقت بن گئی ۔ جس سے انحراف دشوار ہو گیا ہے کیونکہ اخترؔ شیرانی نے اس نام کے ساتھ ایسے واقعات ، حوالات ، جذبات و احساسات اور خیالات پیش کۓ ہیں جو عشقِ مجازی میں ناگزیر ہیں اور جو تقریباً ہر عاشق کو مادی عشق میں پیش آتے ہیں ۔ مثلاً جب ایک عاشق کو عشق میں مایوسیوں اور ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کسی صورت بھی وصالِ محبوب ممکن دکھائی نہیں دیتا تو وہ اپنی زندگی کو آنسوؤں اور آہوں کے سپرد کر دیتا ہے ۔ یا پھر بے حد مایوسی اور ناکامی کی حالت میں اپنی زندگی کو شراب و ساغر میں ڈبو دیتا ہے اور اپنے آپ کو گناہوں کے تاریک غاروں میں دھکیل دیتا ہے کیونکہ وہ اس دنیا و مافیہا سے بالکل بے خبر رہنا چاہتا ہے ۔ بالکل ایسے ہی حقیقی جذبات کی ہو بہو عکاسی اخترؔ نے اپنی ایک غزل میں کی ہے ۔ دل و دماغ کو رو لُوں گا، آہ کر لوں گا تمہارے عشق میں سب کچھ تباہ کر لوں گا! اگر مجھے نہ مِلیں تُم، تمہارے سر کی قسم! میں اپنی ساری جوانی تباہ کر لُوں گا مجھے جو دیر و حرم میں، کہیں جگہ نہ ملی تیرے خیال ہی کو سجدہ گاہ کر لوں گا! جو تم سے کر دیا محروم، آسماں نے مجھے میں اپنی زندگی صَرفِ گناہ کر لوں گا رقیب سے بھی ملوں گا، تمہارے حُکم پہ میں جو اَب تلک نہ کیا تھا اب آہ کر لوں گا! پھر ایک جگہ اور اسی طرح عشق میں مایوس ہو کر فرماتے ہیں رسمِ فرہاد ہے دنیا میں ابھی تک زندہ یہ تماشا بھی کبھی ان کو دکھا دینا تھا ہو کے ناکام ہوس کار بنے کیوں اخترؔ یاد سلمٰی میں جوانی کو گنوا دینا تھا غرضیکہ یہ سب وہی جذبات و احساسات ہیں جو ایک عاشقِ صادق کو عشق کی منزل میں عموماً پیش آتے ہیں ۔ اخترؔ ان جذبات کی عکاسی اس طرح فنکارانہ انداز میں کرتے ہیں کہ اس کی صداقت میں کسی قسم کا وہم و گمان بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے اشعار پڑھ کر قاری کو لامحالہ ایمان لانا پڑتا ہے کہ سلمٰی نام کی ضرور کوئی ایسی لڑکی ہو گی جس سے اخترؔ عشق فرماتے ہوں گے اور حقیقت یہ ہے کہ سلمٰی کسی لڑکی کا نام نہیں تھا اور نہ ہی اخترؔ کو کسی ایسی لڑکی سے محبت تھی جس کا نام سلمٰی ہو ۔ یہ محض ایک فرضی نام ہے جو عربی سے مستعار ہے ۔ مگر یہ اخترؔ کا بہت بڑا کمال ہے کہ انھوں نے ایک فرضی نام کو ایسے خوبصورت انداز سے نسائی پیکر میں ڈھالا ہے کہ وہ ایک سچ مچ گوشت پوست کی جیتی جاگتی نوجوان حسین دوشیزہ بن گئی ہے جو شرم و حیا کی پتلی ، محبت کی دیوی ، حسن و رعنائی کا مجسمہ اور جمال و زیبائش کا حسیں پیکر ہے اور جملہ نسوانی خصوصیات سے ہر طرح مزین ہے جس کو اخترؔ بے حد پیار کرتے ہیں اور اس کی ہر ادا پر جان اپنی نثار کرتے ہیں اور اس کی ہر ادا پر جان اپنی نثار کرتے ہیں ۔ جمالِ سلمٰی ۔ سلمٰی ( نورجہاں کے مزار پر) ۔ وقت کی قدر ۔ انتظار ۔ سلمٰی ۔ ایک تصویر دیکھ کر ۔ اعتراف محبت ۔ بستی کی لڑکیوں میں ۔ ایسی بے شمار نظمیں ہیں جن مین اخترؔ و سلمٰی کے عشق و محبت کی داستانیں بکھری ہوئی ہیں ۔ اور جن سے ان کے عشق کی صداقت کی تائید ہوتی ہے ۔ انھی نظموں کو سامنے رکھ کر بہت سے لوگوں نے اخترؔ و سلمٰی کے بارے میں بے شمار جھوٹی حکایتیں اور روایتیں گھڑ لی ہیں ۔اور ان کو بڑے بے ڈھب طریقے سے مشتہر کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی لکھتے ہیں " اختر کی شاعری میں ایک لفظ بار بار آتا ہے اور وہ لفظ ہے سلمٰی ۔ اس نام نے اختر کی ذات اور کلام کے بارے میں بہت سی حکایتیں اور رواتیں وابستہ کر دی ہیں اور بہت سے لوگوں نے اس نام کی آڑ میں اپنا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیا ہے ۔ اور بعض ستم ظریف تو دعوٰی کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے کہ اختر نے جب رات کو سلمٰی سے ملنے جاتے تھے تو وہ مکان سے باہر پہرہ دیا کرتے تھے" ڈاکٹر موصوف آگے چل کر لکھتے ہیں " اگر بیس سال کے تعلقات کچھ حقیقت رکھتے ہیں اور اگر ان تعلقات کے بعد کوئی شخص اختر کو جاننے اور پہچاننے کا تھوڑا بہت دعوٰی کر سکتا ہے تو مجھے یہ عرض کرنے میں کوئی نہ ہو گا کہ میں نے اس طویل مدت میں اخترؔ کے ہاتھ میں نہ کسی خاتوں کا لہکتا ہوا آنچل دیکھا اور نہ ہی انھیں کسی مہکتے ہوۓ دروازے پر دستک دیتے دیکھا۔