آب بیتی الحاج محی الدین منیری علیہ الرحمۃ ۔09- علی گڑھ کے روز و شب۔۔۔ بقلم :عبد المتین منیری

مرکز نظام الدین سے ہم لوگ علی گڑھ پہنچے ،یہاں کا ماحول ہمارے لئے اجنبی تھا ، کوئی جاننے والا نہیں تھا، میٹرک میں فیل ہونے کے سبب یونیورسٹی میں داخلہ ناممکن تھا ، ہماری خواہش میٹرک کا امتحان دینے کی تھی اور امتحان میں ابھی تین ماہ باقی تھے۔ یہاں رہنے کا بھی کوئی ٹھکانہ نہیں تھا، آخر کار اقبال نامی ایک شخص سے ملاقات ہوئی جو ہمیں صدر الصدور مولانا حبیب الرحمن شیروانی کی خدمت میں لے گیا۔ مولاناشیروانی اس وقت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے۔ اور مرجع خلائق تھے۔ ہندوستان بھر میں ان کا بڑا شہرہ تھا۔ ہمارے احوال و کوائف جان کر ہمدردی کا اظہار کیا اور اپنے بنگلہ ہی میں رہنے کی ہدایت کی ۔ یہاں پر ہم آٹھ دس دن رہے ، یہاں پر مہمان نوازی میں کوئی کسرنہیں چھوڑی گئی ، ہمیں اچھا کھانا یہاں پر ملتا تھا۔
آج کل ان کے فرزند عبیدالرحمن شیروانی یونیورسٹی کے کسی بڑے عہدے پر فائز ہیں ، یہ بھی دارالعلوم ندوۃ العلماء کی مجلس شوریٰ کے رکن ہیں۔ شوریٰ کے اجلاس میں ملاقات ہوتی رہتی ہے ، جب میں نے انہیں ان کی کوٹھی پر رہنے کا واقعہ بیان کیا تو بہت خوش ہوئے ، باربار اپنے یہاں بلاتے رہتے ہیں۔
امتحان کے سلسلے میں ہم نے منٹوسرکل ہائی اسکول کے صدر مدرس سے ملاقات کی ،وہیں پر قاضی عبدالرشید نامی ایک ڈبل ایم اے شخص سے شناسائی ہوئی ، سلام کرنے کا ان کا انداز نرالا تھا، جوش اور جھٹکے سے سلام علیکم کہتے تھے ۔ انہوں نے حالات سن کر اطمینان دلایا کہ فکر کی کوئی بات نہیں ، انشاء اللہ کوئی انتظام ہوجائے گا۔ یونیورسٹی رجسٹرار کے ہیڈ کلرک مقصود علی خان سے ان کے گھر پر جا کر ملاقات کی ۔ میرے پاس برتھ سرٹیفکٹ یا کوئی اور اسکول سرٹیفکٹ نہیں تھی ۔ بدھوؤں کی طرح سیدھے اٹھ کر امتحان کے لئے آئے تھے ، مقصود علی صاحب کے چہرے پر یوں ڈاڑھی نہیں تھی ، لیکن ایسا دیندار شخص میں نے کم ہی دیکھا ہے ، ان کی مجلس میں غلطی سے قرآن کی طرف پیٹھ کر کے ہم بیٹھ گئے ، جیسے ہی اس حالت پر ان کی نظر پڑی کیفیت دگر گوں ہوگئی ، وہ دہشت زدہ سے ہوگئے ، فوراً ہمیں قرآن کے فضائل پر درس دیا اور ہماری غلطی پر تنبیہ کیا ۔ انہوں نے ہمارے ساتھ بڑا ہمدردانہ سلوک کیا ، یہ انہی کی رہنمائی تھی جس نے خالی ہاتھ جانے کے باوجود پرائیوٹ میٹرک امتحان دینے کی راہ کھولی۔
شیروانی صاحب کے یہاں کچھ دن گزارنے کے بعد ہمیں اسٹڈی کے لئے پرسکون جگہ کی تلاش ہوئی ، جیب میںڈھیلا پیسہ نہیں تھا۔ سیدحیات نامی کمسٹری کے ایک پروفیسر نے جو کہ ریلوے لائن کی دوسری طرف دھنولانامی علاقہ میں رہتے تھے ، ہمیں ایک خالی کمرہ دیا اور کہا کہ یہاں پرسکون ہے کوئی آتا جاتانہیں ، دلجمعی کے ساتھ امتحان کی تیاری کرو۔
یہی حالات تھے کہ اتفاقاً ہمیں ایک ہمدرد ، غم گسار جناب منظر جلیسری کی صورت میں مل گیا۔ آپ ایک اچھے شاعر تھے، ان کی کئی کتابیں شائع ہوچکی ہیں، ان کا یونین بکڈپو کے نام سے ایک مکتبہ تھا، ان سے ہمارے تعلقات استوار ہوئے ، وہ ہمیں گھر سے کھانالاکر دیتے تھے ، جب میں بیمار ہوا تو انہوں نے ایسی تیمار داری کا حق نبھایا کہ اب بھی ان کے لئے دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔ وہ بکڈپو بند کرکے گھر جاتے تھے اور ڈھائی میل کا فاصلہ سائیکل پر طے کرکے میرے لئے گلے ہوئے چاول وغیرہ لاتے ۔ ڈاکٹر وغیرہ کے پاس لے جاتے ، چندسال قبل ان سے ملاقات ہوئی تھی ، علی گڑھ اولڈ بوائز کی ایک اسکیم لے کر آئے تھے ان کی خاطر مدارات کا موقع مجھے ملاتھا۔
ہم دھنولا ہی میں امتحان کی تیاری کرتے رہے ، کھانے پینے کے لئے ہمارے پاس تھا ہی کیا ، چنے وغیرہ پر گذارہ کرتے رہے ۔لیکن امتحان کا شوق سرپر سوار تھا ، محی الدین مومن اس وقت میرے رفیق تھے۔ ہمارے میٹرک پاس نہ کرنے اور یہاں کے تدریسی موضوعات مختلف ہونے کی وجہ سے ہمیں خصوصی ٹیوشن کی ضرورت پیش آئی ، یہاں پر ٹیوشن مفت ملاکرتے تھے۔ عربی کے لکچرر مولانا فضل اللہ تھے ، ان کے پاس ایک ماہ ٹیوشن لیا ، اردو کے پروفیسر عزیز تھے ، پروفیسر رشید احمد صدیقی تھے ، ان سبھوں سے تعلقات استوار رہے، ان سب کا میرے ساتھ محبانہ سلوک رہا ، اور بعد میں انہوںنے میری بڑی عزت بھی کی۔ علی گڑھ میں ہمارا میٹرک کا امتحان ہوگیا، کامیاب ہوکر ہم واپس لوٹے ، ادھر ادھر کاروبار کرنے کی کوشش کی ، نوکری کا پھر موقع نہیں ملا۔
00971555636151