ستمبر 09 :-:نامور شاعر اکبر الہٰ آبادی کی برسی ہے

Bhatkallys

Published in - Other

01:56PM Sat 9 Sep, 2017
از: ابوالحسن علی بھٹکلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اکبر سید گھرانے کے فرد تھے۔اکبر کی پیدائش سید تفغل حسین کے دو بیٹے ہوۓ۔بڑے بیٹے اکبر حسین(اکبر الہٰ آبادی) اور چھوٹے بیٹے اکبر حسن۔اکبر الہٰ آبادی 1261ھ میں پیدا ہوۓ۔ان کا سال پیدائش بلاتفاق یہی ہے اور اس کے قطعی ثبوت موجود ہیں۔ان کے فرزند عشرت حسین کے بقول ان کا تاریخی نام خورشید عالم تھا حسن نظامی نے ان لفظوں میں اس تاریخی نام کی تصدیق کی ہے۔خورشید عالم نام کا حضرت اکبر نے مجھ سے ذکر فرمایا تھا اور کہا تھا کہ تاریخ ایسے آدمی سے نکلوانی چاہیۓ  جو ذع علم اور ذی فہم ہونے کے ساتھ ہمدرد بھی ہو۔خورشید عالم سے حروف ابجد کے حساب سے بارہ سو اکسٹھ اعداد برآمد ہوتے ہیں۔ عشرت حسین نے مزید لکھا ہے۔کہ 1261ھ ہفتے کے دن،عید کے مہینے میں قبلہ کی ولادت ہوئی۔یعنی ماہ شوال کو ماہ ولادت ہوئی۔دوم یہ کہ ہفتے کا دن یوم پیدائش تھا مگر ایک ماہ میں عمومآ چار ہفتے آتے ہیں ،اس لیے یہ شوال کا کون سا ہفتہ تھا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔کیونکہ کسی سوانح نگار نے اس کی وضاحت نہیں کی۔گویا اکبر کی تاریخ پیدائش  تو معلوم نہیں ،البتہ پیدائش ہفتہ،شوال کا مہینہ اور سال 1261ھ تھا۔اب سوال یہ ہے کہ سنہ عیسوی کے حساب سے سال پیدائش کیا بنتا ہے؟اصل دقت یہیں سے شروع ہوتی ہے ۔اب جتنی تحریریں اس سلسلے میں موجود ہیں وہ متفقہ چور پر 1846ء کو سال پیدائش قرار دیتی ہیں۔بعض تحریروں میں تاریخ اور مہینے کا بھی تعین کر دیا گیا ہے اور 16 نومبر 1846ء کو اکبر کی پیدائش کا دن قرار دیا گیا ہے۔مثالیں:"حیات اکبر" کے حاشیۓ میں ملا واحدی نے 16 نومبر 1846ء لکھا ہے۔"روح اکبر" مصنف عبدالجلیل"سید اکبر حسین قصبہ بارہ میں 16 نومبر 1846ء میں پیدا ہوۓ۔"تاریخ ادب اردو" مترجمہ(سکینہ) محمد عسکری: 16 نومبر 1846 تاریخ ولادت ہے۔ہسٹری آف اردو لٹریچر:محمد صادق کے مطابق بھی 16 نومبر 1846ء ہے۔ان کے علاوہ متعدد کتابوں میں تاریخ اور مہینہ تو نہیں لکھا گیا مگر سال پیدائش 1846ء ہی قرار دیا گیا ہے۔گویا ان تمامصنفین نے یہ باتیں تسلیم کی ہیں کہ اکبر شوال کے مہینے میں ہفتے کے روز 1261ھ کو پیدا ہوۓ مگر تعجب اس بات پر ہے کہ کسی لکھنے والے نے یہ نہیں دیکھا کہ ہجری اور عیسوی سنین میں مطابقت ہے یا نہیں؟میں نے جب سال ہجری کو عیسوی میں تبدیل کیا تو معلوم ہوا کہ شوال 1261ھ کے حساب سے اکتوبر 1845ء بنتا ہے۔اس کی تفصیل یہ ہے۔ یکم محرم 1261ھ ۔۔۔۔۔۔ 30 دسمبر 1845ء یکم ذوالحجہ 1261ھ کو 30 نومبر 1845ء یکم ذیقعدہ 1261ھ کو یکم اکتوبر 1845ء یکم شوال 1261ھ کو یکم اکتوبر 1845ء اکبر کی پیدائش چونکہ شوال کے مہینے میں ہوئی اور 1261ھ میں شوال اور اکتوبر کے مہینے تقریبآ ساتھ ساتھ چلتے رہے اس لیے اکتوبر 1845ء اکبر کا ماہ و سال والادت ہوا۔غالبآ نومبر 1846ء غلط عمل تقویم کا نتیجہ ہے ۔مگر تعجب اس بات پر ہے کہ جب شوال کی صحیح تاریخ معلوم ہی نہیں تو نومبر کی کوئی قطعی تاریخ کس طرح متعین کر لی گئی؟بعض شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ خود اکبر 1845ء ہی کو اپنا سال ولادت قرار دیتے تھے۔مثلآ "کلیات اکبر" جلد اول(جو اکبر کی زیر نگرانی شائع ہوئی) میں دور اول کی غزلیات سے پہلے یہ عبارت لکھی ہے" دور اول 1862ء تا 1875ء(سترہ سے تیس سال عمر تک غزلیں)یعنی 1862ء میں ان کی عمر سترہ سال تھی۔اس لحاظ سے ان کا سال پیدائش 1862 - 17 برابر ہے 1845ء۔اسی طرح 1875ء میں اگر عمر 30 سال ہو تو بھی سال ولادت 1875-30 برابر ہے 1845ء نکلتا ہے۔1845ء کا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ عشرت حسین(جو اکبر کے بعد سنین اکبر کے سلسلے میں زیادہ مستند ہیں) لکھتے ہیں۔شروع 1859ء میں جب بنسن نامی مجسٹریٹ نے ایک واقعے کے بعد انہیں ملازمت دی،ان کی عمر چودہ سال تھی۔1859ء میں سے چودہ گھٹاۓ جائیں تو 1845ء حاصل ہوتا ہے۔ اس تمام بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اکبر کا سال پیدائش قمری اعتبار سے 1261ھ ہے۔چونکہ ان کا  ماہ ولادت شوال ہے،اس حساب سے شمسی تقیم کے مطابق وہ اکتوبر 1845ء میں پیدا ہوۓ۔پیدائش کی صحیح عیسوی تاریخ کا تعین نہیں کیا جا سکتا کیونکہ شوال کی قطعی تاریخ معلوم نہیں ہے۔ اکبر کا بچپن بارہ کے علاوہ داؤد نگر اور سورام وغیرہ میں گزرا۔1856ء میں جب اکبر گیارہ برس کے تھے ان کے والدین الہٰ آباد میں آ کر آباد ہو گۓ تھے۔اس زمانے میں لوگ انگریزی تعلیم سے اجتناب کرتے تھے مگر اکبر کے خاندان کے کئی افراد پہلے سے سرکار انگریزی کے ملازم تھے اس لیے ان کے والدین کو اس تعلیم سے وحشت نہیں تھی۔ چناچہ انہیں الہٰ آباد کے مشن سکول میں داخل کرا دیا گیا لیکن یہاں انہوں نے ایک سال سے زیادہ تعلیم حاصل نہ کی تھی کہ پورا ملک 1857ء کے عظیم ہنگامے کی لپیٹ میں آ گیا۔1858ء میں انگریز دوبارہ ملک پر پوری طرح قابض ہو گۓ مگر اکبر سے مشن سکول ہمیشہ کے لیے چھوٹ گیا۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ قبل غدر ایک گاؤں سے تیس روپے ماہوار آمدنی تھی غدر نے یہ آمدنی بند کر دی تھی۔اس وقت انہوں نے انگریزی کی ایک دو کتابیں پڑھیں تھیں۔گھر پر کچھ فارسی،عربی اور ریاضی میں بھی استعداد بہم پہنچائی تھی۔پھر کچھ مدت مولوی محمد فاروق چریا کوٹی کے درس میں بھی شرکت کی تھی۔اکبر کے حصول تعلیم کا زمانہ محض چار پانچ برسوں تک محیط ہے۔انہوں نے اس کے بعد ذاتی مطالعہ ہمیشہ جاری رکھا اور وفات تک مختلف علوم کی دقیق کتابوں کے مطالعے میں منہمک رہے۔ ملازمتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اکبر کو اوائل عمر ہی سے تلاش روزگار میں سرگرداں ہونا پڑا۔ناموافق حالات میں والدین نے محسوس کیا کہ تعلیم کی بجاۓ ملازمت کرانی چاہیۓ۔1858ء سے ملازمت کی تلاش شروع کی۔پہلے پہل کچھ عارضی ملازمتیں ملیں مگر ان کے درمیان بیکاری کے وقفے بھی تسلسل سے آتے رہے۔ان کی ملازمتوں کی کیفیت کچھ اس طرح ہے۔ منصفی گیٹ گنج الہٰ آباد میں اقبال دعویٰ لکھتے رہے۔پھر ایک وکیل سے محرری سیکھی۔پروانہ نویسی سیکھی اور یہ کام بھی کیا۔1863ء میں ایک جگہ ایسٹ انڈیا ریلوے،دریاۓ جمنا پر پل بنوا رہی تھی جس کے لیے پتھر مرزا پور سے آتا تھا۔ایک ٹھیکدار کے پاس پتھر گننے اور پیمائش کے لۓ 15 روپے ماہانہ کام کیا۔ریلوے میں بطور کلرک کام کیا۔پھر عدالتوں میں پروانہ نویسی کا کام کیا وہاں سے خٰال آیا کہ وکالت کا امتحان دیا جاۓ۔اس زمانے میں قاعدہ تھا کہ وکالت کا امتحان کوئی درجہ اول میں پاس کرتا اس کو ہائی کورٹ میں پریکٹس کی اجازت مل جاتی تھی۔اکبر نے 1867ء میں یہ امتحان دیا س وقت انگریزی میں مہارت نہیں تھی چناچہ تیسرے درجے میں کامیاب ہوۓ۔اور وکالت شروع کر دی۔1869ء میں تحصیلدار کی عارضی اسامی ملی کچھ عرصہ تحصیلدار رہے۔پھر چیف جسٹس کے مثل خواں بن گۓ تین سال یہ کام کیا۔1873ء میں دوبارہ وکالت کا امتحان دیا اسوقت انہیں انگریزی کی قابلیت بڑھ گئی تھی۔امتحان میں کامیاب ہوۓ۔پھر ہائی کورٹ میں وکالت کی۔پھر 26 نومبر 1880ء کو مزرا پور میں تین ماہ کے لۓ قائم مقام منصف مقرر ہوۓ۔اپریل 1881ء میں بجنور کے قائم مقام منصف مقرر ہوۓ۔22 ستمبر 1884ء کو اہیں منصف درجہ اول بنا دیا گیا۔اسی طرح وہ ترقی کرتے رہے اور پھر انہیں 1898ء میں "خان بہادر" کا خطاب ملا۔اکبر انصاف پسند اور ماہر قنون جج تھے ان کے بعض عدالتی فیصلے بہت مشہور تھے۔ جوانی اور شادیاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اکبر ترقیوں پر ترقیاں پاتے رہے مگر ابتدا سے ان کی ذاتی زندگی بڑی ناہموار اور نا آسودہ سی رہی۔ان کی پہلی شادی بالکل چھوٹی عمر میں ہوئی۔1859ء میں جب ان کی عمر چودہ سال تھی انہیں شادی کے بندھن میں باندھ دیا گیا۔الہٰ آباد کے ایک گاؤں کے زمیندار کی بیٹی خدیجہ خاتون سے ہوئی تھی۔چونکہ یہ شادی بچپن میں ان کی مرضی کے خلاف ہوئی تھی اس لۓ کامیاب نہ ہوئی۔اس کے بعد اکبر نے الہٰ آباد میں کوٹھوں پر جانا شروع کیا ان کے استاد وحید الدین طوائفوں سے رسم و راہ رکھتے تھے۔اکبر نے خود بھی اسے تسلیم کیا ہے کہتے تھے۔ میری لائف لکھو ایام جوانی کے سوا سب بتا دوں گا تمھیں افتد دانی کے سوا اکبر کو موسیقی سے بہت دلچسپی تھی۔وہ ستار بجا لیتے تھے۔ان کے اشعار میں راگ راگنیوں اور سازوں کے نام کئی جگہ آۓ ہیں غالباۤ یہی شوق انہیں اس بازار میں لے گیا اور ان کے طویل قیام کا باعث ہوا۔ قرائن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ 1875ء کے قریب قریب یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔اس ختم ہونے کی وجہ بظاہر یہ ہوئی کہ ان کی شادی ایک طوائف بوٹا جان سے ہو گئی۔ایک کم عمر نوخیز طوائف سے عقد کر لیا لیکن بہت جلد اس کا انتقال ہو گیا۔اکبر کو بوٹا جان کی وفات سے بہت صدمہ ہوا۔بوٹا جان کی وفات کا رنج اور اس سے لگاؤ اکبر کے اس موقعے پر لکھے ہوۓ مرثیۓ سے ظاہر ہے جس کا مطلع یہ ہے: آں نو بہار خوبی ماہ دو ہفتہ من در نابہار عمرش رفت از فضاۓ ہستی اسی سال 1876ء ماہ نومبر میں اکبر کی تیسری شادی ہوئی۔اس وقت وہ الہٰ آباد کے وکیل تھے۔یہ شادی الہٰ آباد کے ایک شخص میر امداد حسین کی لڑکی فاطمہ صغریٰ سے ہوئی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عمر کے آخری آٹھ سال اکبر نے آرزوۓ مرگ میں گزارے۔بہت آزردہ رہتے تھے۔احباب کے نام جو خطوط انہوں نے اس زمانے میں لکھے ہیں ،ان میں تواتر کے ساتھ ضعف بدن اور کثرت امراض کا ذکر کیا گیا ہے۔ دنیا کی کیا حقیقت اور ہم کو کیا تعلق وہ کیا ہے اک جھلک ہے، ہم کیا ہیں اک نظر میں اسی طرح انہوں نے  اپنے حال کا ذکر اس شعر میں کیا تھا ان مصائب میں بھی مایوس نہیں ہوں اکبر قید ہستی سے رہائی کی خوشی باقی ہے ایک اور شعر اب میری زندگی میں نہیں نور انبساط یہ شمع جل رہی ہے مگر ہے بجھی ہوئی ان آخری برسوں کی افسردہ دل شکستہ اور بجھی بجھی زندگی کے ساتھ کئی برسوں تک اکبر کو موت کا انتظار کرنا پڑا۔آخر موت کا وقت معین آ پہنچا،چناچہ 06 محرم 1340ھ مطابق 09 ستمبر 1921ء کو جمعہ کے دن تین بجنے میں تین منٹ رہتے تھے جب انہوں نے الہٰ آباد میں وفات پائی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منتخب کلام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سترہ اور اٹھارہ سال کی عمر میں لکھی گئی دو منتخب غزل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جانبِ زنجیر گیسو پھر کِھنچا جاتا ہے دل دیکھۓ اب میرے سر پر کیا بلا لاتا ہے دل لوگ کیوں کر چھوڑ دیتے ہیں محبت دفعتاۤ میں تو جب یہ قصد کرتا ہوں مچل جاتا ہے دل رکھ کے تصویر خیالی یار کی پیشِ نظر رات بھر مجھ کو شبِ فرقت میں تڑپاتا ہے دل داغ ہاۓ سینہ گل ہیں آہِ سرد اپنی نسیم گلشنِ ہستی میں کیا اچھی ہوا کھاتا ہے دل بارگاہِ عِشق کہیۓ تیرے دولت خانہ کو جو کوئی آتا ہے یاں تجھ سے لگا جاتا ہے دل خوف کے پردے میں چھپ جاتی ہے جانِ ناتواں عاشقی کے معرکہ میں کام آ جاتا ہے دل ساتھ ساتھ اپنے جنازے کے یہ چلاتی تھی روح ان کو مٹی میں ملانے کے لۓ جاتا ہے دل شیخ اگر کعبہ میں خوش ہے برہمن بت خانہ میں اپنے اپنے طور پر ہر شخص بہلاتا ہے دل قصد کرتا ہوں جو اٹھنے کا تو فرماتے ہیں وہ اور بیٹھو دو گھڑی صاحب کہ گھبراتا ہے دل یہ نہیں کہتے یہیں رہ جاؤ اب تم رات کو بس انہیں باتوں سے اکبرؔ میرا جل جاتا ہے دل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تصور سے غم فرقت کے اپنا جی دہلتا ہے کہ یہ کم بخت آخر سینے سے دم لے کے ٹلتا ہے خدا کی شان وہ میرا تڑپنا دل لگی سمجھیں کسی کی جان جاتی ہے کسی کا جی بہلتا ہے خیالِ زلف میں اے دل نہ طے کر منزلِ الفت اندھیری رات میں نادان کوئی راہ چلتا ہے وہ جوں جوں ہوتے ہیں ہشیار بڑھتی ہے مری وحشت سنبھالیں ہوش وہ اپنا یہاں دل کب سنبھلتا ہے مریضِ غم کیا کرتا ہے ضبطِ نالہ ہمت سے مگر منہ زرد ہو جاتا ہے جب کروٹ بدلتا ہے وصالَ یار کا وعدہ ہے کل اور آج موت آئی کریں کیا اب مقدر پر کسی کا زور چلتا ہے محبت ان سے کر کے پھنس گۓ ہیں ہم تو آفت میں نہ دل قابو میں آتا ہے نہ ان پر زور چلتا ہے کیا کرتا ہوں موزوں وصف ان کے روۓ روشن کا میرا ہر شعر اکبرؔ نور کے سانچے میں ڈھلتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ یہ رنگ طبع ہوتا نہ یہ دل میں جوش ہوتا یہ جنوں اگر نہ ہوتا تو کہاں یہ ہوش ہوتا غم دہر سے بچاتا ہے بشر کو مست رہنا مجھے شاعری نہ آتی تو میں بادہ نوش ہوتا تمھیں دیکھ سن کے فطرت نے یہ نقش کھینچے ورنہ نہ یہ ہوتی چشم نرگس نہ یہ گل کا گوش ہوتا دل و دیں ہیں سب کے صدقے جو وہ خود نما بنا ہے کوئی زندہ ہی نہ رہتا جو وہ خود فروش ہوتا نہ ابھارتا جو گردوں تو وہ کیوں یہ ظلم کرتے کچھ اثر فغاں میں ہوتا تو میں کیوں خموش ہوتا حسن نظامیؔ اکبرؔ کا کلام سن کے بولے میں تجھے ولی سمجھتا جو خرقہ پوش ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جان ہی لینے کی حکمت میں ترقی دیکھی موت کا روکنے والا کوئی پیدا نہ ہوا کوئی حسرت مرے دل میں کبھی آئی ہی نہیں تھا ہی ایسا کہ یہ مقبول تمنا نہ ہوا اس کی بیٹی نے اٹھا رکھی ہے دنیا سر پر خیریت گزری کہ انگور کے بیٹا نہ ہوا دل فریبی مری دنیا نے تو بے حد چاہی میری ہی ہمت و غیرت کا تقاضا نہ ہوا ضبط سے کام لیا دل نے تو کیا فخر کروں اس میں کیا عشق کی عزت تھی کہ رسوا نہ ہوا مجھ کو حیرت ہے یہ کس پیچ میں آیا ذاہد دام ہستی میں پھنسا زلف کا سودا نہ ہوا بے دریغ آپ پہ دی جان کیا یہ میں نے مرحبا منہ سے کہیں آپ سے اتنا نہ ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حیا سے سر جھکا لینا ادا سے مسکرا دینا حسینوں کو بھی کتنا سہل ہے بجلی گرا دینا یہ طرز احسان کرنے کا تمہیں کو زیب دیتا ہے مرض میں مبتلا کر کے مریضوں کو دوا دینا بلائیں لیتے ہیں ان کی ہم ان پر جان دیتے ہیں یہ سودا دید کے قابل ہے کیا لینا ہے کیا دینا خدا کی یاد میں محویت دل بادشاہی ہے مگر آساں نہیں ہے ساری دنیا کو بھلا دینا