سفر حجاز۔۔۔(09) ۔۔۔ مدینہ منورہ۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

03:01PM Wed 30 Jun, 2021

باب (۹) مدینہ

بوئے یار مہر بانم می رسد    بوئے جاناں سوئے جانم می رسد

باز آمد آبِ ما در جوئے ما    باز آمد شاہِ ما در کوئے ما

  ۱۱ /اپریل۲۹ ء پنجشنبہ، یکم ذیقعدہ  ۱۳۴۷ھ آج کی صبح کتنی مبارک صبح ہے، آج کے دن زندگی کا سب سے بڑا ارمان پورا ہونے کو ہے،آج ذرّہ آفتاب بن رہا ہے، آج بھاگا ہوا غلام اپنے آقا و مولا کے دربار میں حاضر ہو رہا ہے، آج گنہگار امتی کو شفیع و شفیق رسول اللہ ﷺ کے آستانہ پر سلام کی عزت حاصل ہو رہی ہے، ہندوستان کی عورتیں ذیقعدہ کو ’’خالی‘‘ کا مہینہ کہتی ہیں، پر جس کے نصیب میں اس ’’خالی‘‘ مہینہ میں دولت سے مالا مال ہونا مقدر ہو چکا ہو وہ اس مہینہ کو کیا کہہ کر پکارے؟ ’’جمعرات‘‘ کو شاید قافیہ کی رعایت سے ’’پیروں کی کرامات‘‘ کہتے ہیں، ہر جمعرات ایسی ہی ہوتی ہوگی لیکن جس جمعرات کو کسی کی قسمت میں یہ کرامت لکھی ہو اس کا تو جی میں آتا ہے کہ پیروں اور بزرگوں کی نہیں،تباہ کاروں اور سیاہ کاروں کی کرامات ،نام رکھیے!

عاذ لا چند ایں صداع و ماجرا   پند کم دہ بعد ازیں دیوانہ را

غیر جدآں نگار مقبلم               گرد و صد زنجیر آری بگلم

وقت آں آمد کہ من عریاں شوم    جسم بگزارم سراسر جاں شوم

شب منزل بیر حسان میں گزاری تھی،صبح سویرے روانہ ہوئے،اور سات بجے مسجد میں دم لیا۔سرزمین طیبہ کے انوار و آثار صبح ہی سے شروع ہوگئے تھے،روحانی انوار تو خیر جس کسی کو نظر آتے ہوں گے،اس کے لئے ہیں،باقی مادی فضا کی خوش آئند تبدیلیاں تو ہم بے بصروں کو بھی محسوس ہورہی تھیں۔

خوش عقیدگی کا سوال نہیں،محض ثبات حواس و ادراک کی ضرورت ہے،۹ بجے کھڑے کھڑے چند منٹ کے لیے ایک اور منزل پر رکے اس کا نام اس وقت یاد نہیں آتا،یہ آخری منزل ہے۔اس کے بعد کوئی اور درمیانی منزل نہیں ،صرف منزل مقصود ہے۔اب گویا نواح مدینہ شروع ہوگیا،کھجور نہایت شاداب و شیریں سامنے لگے ہوئے،ہوا لطیف و خوشگوار ،فضا خوش منظر ،سبزہ جو راستہ بھر کہیں نظر نہیں آیا تھا،اب ہر طرف دکھائی دے رہا ہے۔ریت کے میدان اور ریگستان کے بجائے اب ہر طرف پہاڑیوں کا سلسلہ،سڑک اتنی ہموار و نفیس کہ معلوم ہوتا ہے کہ عرب نہیں ہندوستان میں سفر کررہے ہیں،دس بجے ،سوا دس بجے،ساڑھے دس بجے،ادھر وقت کی گھڑیاں گزررہی ہیں،اور ادھردلوں کا شوق و اشتیاق ہے کہ ہر منٹ ،ہر سیکنڈ بڑھتا جارہا ہے،کسی کے ہاتھ میں مناسک و آداب زیارت کے رسالے ہیں،وہ انھیں دیکھ دیکھ کر دعائیں یاد کررہا ہے،اور کوئی خالی درود شریف کا ورد کیے جارہا ہے،ہر قلب اپنے اپنے حال میں گرفتار ،ہر دل اپنی اپنی جگہ مضطر و بیقرار ،کسی کی آنکھیں اشک بار اور کسی کا دماغ نشہ لذت و فرحت سے سرشار !اپنی اپنی نسبتیں اور اپنا اپنا اعتبار !۔

فقیہ نامور صاحب فتح القدیر ابن ہمام نے لکھا ہے   ،ادب و تعظیم کے خیال سے جو کچھ بھی کیا جائے اچھا ہی ہے۔

سارا قافلہ ذوق و شوق کی تصویر ،اور تو اور نجدی شوفر تک چند لمحوں کے لیے بجائے "نجدی" کے "وجدی " بنا ہوا ،مولانا مناظر فرط گریہ سے بیتاب ضبط و احتیاط کے باوجود بھی چیخ نکل جانے پر مجبور ،ایک سرگشتہ و دیوانہ ،عقل سے دور علم سے بیگانہ ،نہ گریاں  نہ شاداں ،نہ اپنی حضوری کی خوش بختی پر خوش اور نہ تباہ کاریوں کی یاد پر مغموم محض اس الجھن میں گرفتار کہ یا الہیٰ یہ بیداری ہے یا خواب ،کہاں یہ ارض پاک اور کہاں یہ بے مایہ مشت خاک !کہاں مدینہ کی سرزمین اور کہاں اس ننگ خلائق کی جبیں! کہاں سید الانبیاء کا آستانہ اور کہاں اس روسیاہ کا سروشانہ! کہاں وہ پاک سرزمین کہ گر اس پر قدسیوں کو بھی چلنا نصیب ہوتو ان کے فخر و  شرف کا نصیبا جاگ جائے اور کہاں ایک آوارہ و ناکارہ بے تکلف اسے پامال کرنے کی جرات کر بیٹھے ،عراقی نے کہا تھا کہ ناپاک کے سجدہ کرنے سے زمین فرط اذیت سے چیخ اٹھتی ہے۔

بہ زمین چو سجدہ کردم ززمیں ندا برآمد

تو مرا خراب کردی بہ ایں سجدہ ریائئ

تو جب ہر معمولی اور عام خطہ زمین ریاکار کے سجدہ سے یہ ایذا محسوس کرتا ہے تو پھر اس عظمت و تقدس والی سرزمین کے جگر و سینہ پر ایک ریاکار کے بار قدم سے کیا گزر گئی ہوگی!

عزیزو اور بزرگو!یہ شاعری نہیں،وہم و تخلیل کی کرشمہ  سازی نہیں ،ابوداؤد اور صحیح مسلم میں حضرت حذیفہؓ کی زبانی بیان ہے کہ میں راستہ میں جارہا تھا،اور مجھے غسل کی حاجت تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے ہوئے ملے،اور میری طرف بڑھے  (فاھوی الیہ) لیکن میں الگ ہٹ گیا  (فحادعنہ) اور اس کے بعد غسل سے فراغت کرکے جب خدمت والا میں حاضر ہوا ہوں تو میں نے عرض کیا کہ میں اس وقت پاک حالت میں نہ تھا ۔اور اسی طرح  نامور آقا کے ایک دوسرے نامور خادم ابوہریرہ ؓ اپنی آپ بیتی بیان کرتے ہیں کہ مجھے ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم راستہ میں مل گئے اور مجھے اس وقت غسل کی حاجت تھی اور میں الگ ہٹ گیا ،اور غسل کرنے کے بعد مجلس مبارک میں حاضر ہوا ،اللہ اللہ !یہ احتیاط  کون لوگ کررہے ہیں؟ حذیفہ ؓ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما جو پاکوں کے سردار کےفیض صحبت سے خود پاک و پاکیزہ بن چکے ہیں! اور جو خود اس درجہ پر پہونچ چکے ہیں کہ ان کا سایہ ناپاکوں کو پاک بنادینے کے لیے کافی ہے!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ازخود ان کی جانب التفات فرماتے ہیں ،اور بڑھ کر ملنا چاہتے ہیں،لیکن ادھر یہ حالت کہ بجائے سر کے بل دوڑنے کے،الٹے پاؤں واپسی اور علیحدگی اور کنارہ کشی ہوتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عارضی آزردگی کا خطرہ قبول کرلیا جاتا ہے،لیکن یہ گوارا نہیں ہوتا کہ اپنی عارضی اور محض ضابطہ کی ناپاکی کو اس سراپائے نور کے مقابل لایا جائے جو ہمہ لطافت و ہمہ نظافت ہے!۔

جب حذیفہ ؓ اور ابوہریرہ ؓ کا ایک عارضی اور وقتی اور محض فقہی ناپاکی کی بنا پر یہ حال ہوا ہو،یہ احساس ہو،تو اسے دین متین کے حاملو ! اور اے شریعت اسلامیہ مفتیو ! اس کے متعلق کیا فتویٰ دوگے جس کی گندگی عارضی نہیں،دائمی ہے،وقتی نہیں مستقل ہے،جسم کے اوپر نہیں روح کے اندر ہے،ظاہر میں نہیں باطن میں ہے پانی کے چند لوٹوں سے دھل جانے والی نہیں دریا اور سمندر میں غوطہ کھاکر بھی جوں کی توں رہ جانے والی ہے!۔

ادب کا تقاضا کہ شہر کچھ دور باقی رہے تو سواریوں سے اترکر پیدل چلیے ،شوق دل کا فتویٰ کہ ضروریات سے فارغ ہوکر،نہا دھوکر سفر کے گرد آلودہ کپڑوں  کی  جگہ نئے کپڑے بدل کر شہر کے اندر قدم رکھیے ،لیکن سواری اپنے اختیار کی نہیں موٹر کے شوفروں کی ہر طرح خاطر مدارت کی کہ کسی طرح مان جائیں ،لیکن جواب یہی ملتارہاکہ حکومت کے قانون اور سرکار کے ضابطہ سے مجبوری ہے۔جوجگہ کاروں کے ٹھہرنے کی اور مسافروں کے اترنے کی مقرر ہے ٹھیک وہیں پہنچ کر لاری رکےگی نہ اس سے چارگز ادھرنہ چار گز ادھر!لیجئے بات کہتے کہتے گیارہ بج گئے اورسواد شہر نظر آنے لگا شوفر نے پکارکر ،مدینہ مدینہ،!!اور سر سبز درخت اور شہر کی عمارتیں دھندلی دھندلی دکھائی دینے لگی۔اقبال۔

   خاک یثرب ازدوعالم خوشتر است۔

   اے خنک شہرے کہ آبجا دلبر ست۔

   درد  دل مسلم مقام مصطفیٰ است۔

   آبروئے    ماز نامِ   مصطفیٰ  است۔

 اَلّٰلھُمَّ ھٰذَا حَرَمُ نَبیْکَ فَاجْعٰلْہُ لِیْ وَقٔایَۃً مِنَ النَّارِ وَاَمَاناً مِنَ الْعَذَابِ وَسّوءِ الْحِجَابِ۔۔

 اے اللہ یہ تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حرم ہے پس اسے میرے حق میں دوزخ سے سپر اور عذاب سے اور حساب کی خرابی سے امن رکھنے والا بنادے!۔

    اب لاریاں قدم قدم پر رکنا شروع ہوئیں کہیں سرکاری کارندے پیادے شوفروں سے سوال وجواب کررہے ہیں اور کہیں مزدوروں کی جماعت اہل قافلہ سے سوالوں کی بھر مار کررہی ہے۔

     کس شہر سے آ رہےہو ؟کتنے آدمی ہو؟ کس رباط میں ٹھہرو گے ۔

اس قسم کے سوالات کے مسلسل جوابات دیتے ہوئے ٹھیک دوپہر کے وقت ہندوستان کے حساب سے بارہ بجے تھے اور عربی گھڑیوں میں چھ بجے کا وقت تھا فصیل شہر کے اندر داخل ہوئے اور لاری ریلوے اسٹیشن کے سامنے والے میدان میں اپنے اڈے پر پہنچ کر رک گئی یہ اسٹیشن وہی ہے جو مشہور ہے حجاز ریلوے کے سلسلہ میں ترکوں کے زمانہ میں تعمیر ہوا تھا عمارت نہایت وسیع اور عالیشان ہے شام سےزمانہ میں ریلوں کی آمدورفت شروع بھی ہو گئی تھی ریل کی پٹڑیاں اب تک بچھی ہوئی ہیں اور انجن اور گاڑیاں اب تک کھڑی ہوئی ہیں یہ ریل اس پیمانہ کی تھی جسے ہندوستان میں چھوٹی  کہتے ہیں۔

  بِسمِ اللہِ ماشاءاللہ وَلاقُوّۃَ اِلَّا بِااللّٰہ رَبِّ اَدخِلْنِی مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدقٍ وَاجْعَلِی منْ الّدُنکَ سُلطَانًانَصیرَا ۔۔ اَلّٰلھُمَّ ھٰذَا حَرَمُ رسولک فَااجْعلہُ وِقَایَۃَ من النّار واماناٍ من العَذاب وسؤءالحساب ۔    اَلّٰلھُمَّ افْتَحْ لی اَبواب رَحمتک وارزُقنی من زیارت رَسُولِک صلی اللہ علیہ وسلم مارزقت اولیائک وآَھْلِ طَاعَتک وأخلصنی من النار واغفرلی وارحمنی یاخیر مسئول۔!

  اللہ کے نام کے ساتھ داخل ہوتا ہوں اللہ نے جو چاہا ہاں  ہوا کسی میں قدرت نہیں بجز اللہ کے اے پروردگار  مجھے خوبی کے ساتھ داخل کیجیو اور خوبی ہی کے ساتھ باہر نکالیو۔مجھے غلبہ دیجیو اپنی نصرت کے ساتھ ملا ہوا دعا اے اللہ تیرے رسول کا حرم ہے بس اسے میرے حق میں سپر بنا دے مجھے دوزخ سے اور حساب کی خرابی سے امن رکھنے والا بنا دے ۔اے اللہ مجھ پر اپنی رحمت کے دروازے کھول دے اور نصیب کر مجھے زیارت اپنے رسول کی جوکہ تو نے اپنے اولیاء اور اپنے طاعت گزاروں کو۔بچا مجھے دوزخ کی آگ سے سے اور میری مغفرت کر اور مجھ پر رحم کر ان سب سے سے بہتر دل کے سامنے عرض حاجت کی گئی!۔

   اسٹیشن مسجد نبوی سے کوئی میل بھر کے فاصلہ پر ہوگا یہیں ترکوں کی بنائی ہوئی ایک مسجد بھی ہے جس کی سمت قبلہ کہا جاتا ہے بہت غلط واقع ہوئی ہے اوراس لیے جماعت میں صفیں ترچھی کھڑی ہوتی ہیں،سامان اٹھانے کے لیے مزدور بکثرت مل جاتے ہیں،ضعیفوں ،عورتوں ،بچوں اور ناتوانوں کے لیے حیدرآبادی جھٹکے کی قسم کی سواریاں بھی مل جاتی ہیں،جنھیں یہاں کی زبان میں عربیات  کہتے ہیں،مزدور ہوں یا سواریاں ،سب کی اجرتیں پہلے سے چکاکر طے کرلینا ضروری ہے ورنہ بعد کو خواہ مخواہ بدمزگی واقع ہوتی ہے،اور جو مقام شکستگی و  افقار کا ہے وہاں خواہ مخواہ زبان بدزبانی پر کھلتی ہے۔

مکہ کے معلموں کی طرح مدینہ میں بھی ایک پیشہ ور جماعت موجود ہے جس کا کام زائروں کے قیام کا بندوبست کرنا اور انھیں آداب زیارت تلقین کرنا ہے ،یہ لوگ مزور کہلاتے ہیں،ہندوستان کا ایک ایک شہر مزور کے حصہ میں تقسیم ہے اسی لیے شہر میں داخل ہونے سے پہلے ہی یہ سوال کرلیا جاتا ہے کہ کس شہر سے آئے ہو،خود مزورین تو بہت کم آتے ہیں البتہ ان کے کارندے اور ملازمین لازمی طور پر ہر قافلہ کو ملتے ہیں،اور جو قافلہ جس شہر کا ہوتا ہے اس کے قیام کا ذمہ دار اس شہر کا مزور ہوجاتا ہے،زائروں اور مزوروں کے لئے عام طریقہ یہی ہے ،ان کے علاوہ ہندوستان کے بعض صاحب خیر رئیسوں کی طرف سے رباطیں بھی قائم ہیں ،مثلاﹰ رباط ٹونک ،رباط بھوپال ،رباط حیدرباد،   رباط ٹونک تک پہونچنا نہیں ہوا (لیکن  یہ ذکر اس وقت کا ہے جب ہندوستان کی مسلم ریاستیں قائم و موجود تھیں) ،اس کی تعریف سننے میں آئی ہے۔رباط بھوپال حرم سے نصف فرلانگ کے فاصلہ پر ہے۔عمارت گو بہت زیادہ وسیع نہیں،تاہم اچھی حالت میں ہے۔اور تھوڑے سے آدمی اس میں پوری آسائش کے ساتھ رہ سکتے ہیں،حیدرآباد کی طرف سے کم سے کم دو عمارتیں ہیں۔ایک رباط حسین بی کہلاتی ہے اور دوسری کو مکان حسین بی کہتے ہیں،اور شاید ان کے علاوہ بھی کوئی عمارت ہے۔حسین بی کا مکان گو مختصر ہے لیکن اچھی حالت میں ہے۔حسین بی کی رباط گو بہت وسیع اور چو ڑی منزلی عمارت ہے لیکن بہت بوسیدہ اور مرمت طلب حالت میں ہے۔ان حیدرآبادی عمارتوں کے مہتمم شیخ جعفر داغستانی ایک معقول و خوش اخلاق شخص ہیں جو مزوری بھی کرتے ہیں۔ہم سب لوگوں کے ٹھہرنے کا انتظام ریاست حیدرآباد کی طرف سے انھیں سرکاری عمارتوں میں ہوگیا تھا،اور ان داغستانی صاحب کے نام تعارف نامہ بھی اختر یار جنگ بہادر معتمد امور مملکت آصفیہ نے دے دیا تھا۔( اصل نام منشی لطیف احمد مینائی رامپوری تھا۔مشہور شاعر امیر مینائی کے فرزند تھے ،چند سال ہوئے انتقال ہوگیا)۔ بزرگوں نے افضل اور مستحب اس کو بتایا ہے کہ مدینہ طیبہ پہونچتے ہی سب سے پہلے ہی روضہ اقدس پر حاضری دی جائے لیکن ایسے نصیب صرف

خوش نصیبوں ہی کے ہوسکتے ہیں۔یہاں اکیس آدمیوں کا قافلہ ہمراہ تھا،جس میں اچھی خاصی تعداد بوڑھے مردوں اور بوڑھی عورتوں کی تھی سب سے پہلی فکر قدرتاً ان کے ٹھہرانے اور سامان کے ٹھکانے لگانے کی ہوئی لاری سے اترکر سامنے آنے والی مسجد میں چار چار رکعتیں نفل کی پڑھیں اور سامان اعرابیوں پر لاد کر ہم لوگ پاپیادہ روانہ ہوئے۔مقام کی اجنبیت زبان کی اجنبیت راستہ کی ناواقفیت بہرحال کچھ دیر کے بعد پتہ لگاتے لگاتے۔مکان حسین بی تک پہونچے داغستانی صاحب معلوم ہوا کہ ظہرکی نماز پڑھنے حرم گئےہوئےہیں اور ابھی واپس بھی نہیں ہوئے ہیں۔وہ خدا معلوم کتنی دیرواپس ہوں ؟عورتوں کواتنی دیر کہاں بٹھایا جائے خوداتنی دیرتک عرب کی اس تیز دھوپ میں ٹھیک دوپہر کے وقت کہاں بیٹھ کر انتظار کیاجائے؟یہی سوالات پیش نظر تھے کہ مکان کے کوٹھے سے ایک صاحب نے میرا نام لےکرپکارا کہ یہاں کون شناسا نکل آئےاتنےمیں وہ صاحب اترکرنیچے آئےتومعلوم ہوا کہ منشی امیر احمد صاحب علوی کاکوردی ڈپٹی مجسٹریٹ وڈسٹرکٹ جج نیمچ چھاؤنی ہیں کئی ماہ قبل سے یہاں مقیم ہیں اس وقت ان کاملنانعمت غیر مترقبہ تھاخود مہمان تھے مگر ہمارے میزبان بن گئے،منشی صاحب اردو کے ممتاز ادیب اور اہل قلم ہیں۔اور متعدد ادبی کتابوں کے مصنف ہیں لیکن یہ لوگوں کو معلوم ہوگاکہ محض اہل قلم نہیں اہل دل بھی ہیں تھوڑی دیر میں صوبہ بہار کے ایک ہومیوپیتھک ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب سے بھی ملاقات ہوگئی۔جوریاست حیدرآباد کیطرف سےدوسال سے خدمت حجاج

کیلئے حجاز آرہے ہیں۔ان کی وسعت اخلاق نے ثابت کردیا کے مسافر نوازی میں صبح بہار کا قدم صوبہ اودھ سے کچھ پیچھے نہیں اتنے میں داغستانی بھی آگئے ہائے مولوی لطف اللہ صاحب مونگیری کا قافلہ  اسی مکان میں رہ گیا اور ہم سولہ آدمی رباط حسین بی میں منتقل ہو گئے۔

      اس سارے اہتمام و انتظام میں ظہر کا وقت تو جاہی چکاتھاعصرکابھی اول وقت چلا گیا اور یہ دونوں نمازیں بجائے حرم شریف میں پڑھنے کے گھر میں پڑھیں۔اب ڈر ہوا کہیں خدانخواستہ مغرب کا وقت نہ چلا جائےجلدی جلدی حجامت بنوائی غسل کیا کپڑے پہنے اور حرم شریف کی حاضری کی فکر ہوئی جسم ان تیاریوں میں مصروف لیکن دل کس حالت میں؟آداب زیارت کے جتنے رسالے نظر سے گزرے یہ سب میں لکھا ہوا ملا کہ غسل کرے خوشبو لگائے کپڑے نئے پہنے لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ دل کیوں کر قابو میں کیا جائے؟ اس وقت اپنے دل کا کیا حال خوش ہو رہا ہے؟مغموم ہے ؟حیرت طاری ہے؟ ہیبت سے دھڑک رہا ہے؟شوق سے اچھل رہا ہے ؟آخر کیا ہے؟۔

کون بتلائے اور بتلانے کے لئے الفاظ کہاں سےلائے؟زبان گوشت اور پوست کی بنی ہوئی زبان اور زبان گفتگو کی ترجمانی کر سکتی ہے. لیکن دل کی ترجمانی کے لیے تو دل ہی کی زبان چاہیے کاغذ کے نقوش اور سیاہی کے حروف میں اسے کیونکر منتقل کیا جائے۔

              کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟

http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/