نومبر 08 :-: آگہی اور حیرت کے شاعر‘ جون ایلیا کی برسی ہے

Bhatkallys

Published in - Other

12:31PM Thu 9 Nov, 2017
از: ابوالحسن علی بھٹکلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاعری روما نی جذبوں کے بیان اور شاعر کے داخلی احساسا ت کو اس کے مشاہدے اور تجربے سے آمیز کر تے ہو ئے بیا ن ہو تی ہے۔ایک تصور سے ہزار تصویر وں کی جھلک اور کسی ان دیکھی دنیا کی جستجو جو شاید نہیں ہے لیکن اس کا گما ن شاعر کو ہو تا ہے کہ وہ تو ہے۔جون ایلیا محض انکا ر نہیں کر تے بلکہ انکار کو ایک نئی سمت اور روایت کا عنوان دیتے ہیں۔ جو ن ایلیا اردو شاعری میں حیرتوں کے نئے در وا کر تے ہیں اور وہ بعض صورتوں میں اپنے لیے شاعر ی کر تے ہیں کہ ان کا ہم نو ا کو ئی نہیں ہے۔ ان کے اشعار تہہ در تہہ پر توں کے حامل ہیں۔ شعر و نثر میں علم و آگہی کا خزینہ دینے والے اپنی ذات میں ایک دبستان کا درجہ رکھتے ہیں۔شاعری کو کبھی انہوں نے ذریعہ معاش نہیں سمجھا۔ غزل کے قوافی اور ردیف میں بھی انہو ں نے روایت کو تج کے ایک نئی طرح کو وضع کیا۔ اور نظم میں ان کا مخاطب بھی محبوب کی ذات نہیں ہے بلکہ اس کے اوصاف ہی ان کو پیش نظر ہیں۔ جو ن ایلیا کی تشکیل کی ہو ئی روایت کیا ان کے ساتھ ہی اختتام پذیر ہو گئی ہے۔ اس کا تعین مستقبل میں ہو گا ایک ہی مژدہ صبح لاتی ہے دھوپ آنگن میں پھیل جاتی ہے رنگ موسم ہے اور بادِ صبا ….. شہر کوچوں میں خاک اڑاتی ہے فرش پر کا غذ اُڑتے پھرتے ہیں اور میز پر گرد جمتی جاتی ہے سوچتا ہوں کہ اس کی یاد آخر اب کے رات بھر جگاتی ہے سو گئے پیٹر جاگ اٹھی خوشبو زندگی خواب کیوں دکھا تی ہے کیا ستم ہے کہ تری صورت بھی غور کر نے پر یا د آتی ہے …. کون اس گھر کی دیکھ بھال کر ے روز ایک چیز ٹوٹ جاتی ہے - جو ن ایلیا 14 دسمبر 1931کو امروہہ (اتر پر دیش ) میں پیدا ہو ئے۔ وہ شاعر اور صحافی رئیس امروہی اورفلاسفر سید محمدتقی کے بھائی تھے۔زاہدہ حنا ان کی بیوی تھیں۔ جون ایلیا کو یو ں ہفت زباں کہا جا سکتا ہے کہ وہ عربی، فارسی انگریزی اور عبرانی زبانو ں کو فراوانی سے بولتے تھے۔ ان کے والد شفق حسن ایلیا شاعر اور ماہر فلکیا ت تھے۔ان کی اوائل جوانی میں ہی پاکستان معرض وجو د میں آگیا تھا۔ کیمو نسٹ ہو نے کے باوصف جو ن ایلیا اس تقسیم کے خلا ف تھے۔ لیکن بالآخر انہوں نے اسے ایک سمجھوتے کے طور پر قبول کر لیا اور 1957 میں پاکستان ہجرت کر آئے۔ یہا ں انہوں نے کر اچی میں اپنا مستقل مسکن بنا یا۔ابتدا ہی میں ان کی شاعری نے مقامی ادبی حلقوں میں بے حد داد و تحسین پا ئی۔ شاعر پیرزادہ قاسم نے کہا تھا کہ ’’ جو ن ایلیا زبان کے ضمن میں بہت ہی الگ اور منفر د اسلو ب رکھتے ہیں جو کلاسیکل روایت رکھتا ہے۔ انہو ں نے نئے مو ضوعات کو اپنی شاعری کا مو ضوع بنا یا۔ زندگی بھر وہ کسی آئیڈل ازم کا شکا ر نہیں ہو ئے اور ہمیشہ اس سے دور رہے۔حتیٰ کہ غصے اور انتشار کا بھی شکا رہوئے، ان کو شاید یہ احساس ہو ا کہ ان کی ذہا نت ختم ہو چکی ہے۔ ان کی شاعری کا پہلا مجمو عہ ’’شاید‘‘ 1991 میں شائع ہو ا تھا، اس وقت ان کی عمر ساٹھ برس تھی۔اس کے پیش لفظ میں انہو ں نے اپنے شاعری کی بنیادی عنا صر کو منظقی انداز میں بیان کیا ہے۔ یہ پیش لفظ جدید اردو نثر کی بہترین مثال متصور کیا جا تا ہے۔ ان کا دوسرا مجموعہ کلا م ’’ یعنی ‘‘ 2003 میں شائع ہو ا۔ ان کی وفات کے بعد ان کے ایک دوست خالد انصاری نے ان کے تین شاعری کے مجموعے ’’ گمان ‘‘۔ ’’ لیکن ‘‘ اور ’’ گویا‘‘ مرتب کر کے شائع کئے۔ نقاد محمد علی صدیقی نے جو ن ایلیا کو بیسویں صدی کے تین بڑے شاعروں میں سے ایک شما ر کیا۔ ان کے بھا ئی شاعر رئیس امروہی کو قتل کیا گیا اور ان کے قاتل تاحال گرفتار نہیں کئے جا سکے۔ شاعری کے علا وہ جو ن ایلیا کے نثری کا ر ہا ئے نما یاں میں اسلام میں اسماعیلی فرقے کے حوالے تحریریں اور تراجم شامل ہیں۔ وہ اسلا می تاریخ، فلا سفی اور روایت کا علم رکھتے تھے۔ انہوں نے ایک اردو جریدے ’’ انشا‘‘ کی ادارت کے فرائض بھی انجا م دئیے، یہاں ان کی ملاقات افسانہ نگا ر زاہدہ حنا سے ہو ئی، جن سے انہوں نے شادی کر لی اور ان کے تین بچے دو بیٹیاں اور ایک بیٹا تولد ہو ئے۔ 1980میں دونو ں کے درمیان طلا ق ہو گئی۔ جس کے بعد وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکا ر ہو گئے اور خود کو شراب میں ڈبو لیا۔ اسی عالم بے خودی میں 8نو مبر 2002 ء کو طویل علالت کے بعد ان کا انتقال ہو گیا۔ ان ایک نظم ’وصال ‘ ہے وہ میرا خیال تھی سو وہ تھی میں اس کا خیال تھا سو میں تھا اب دونو ں خیال مر چکے ہیں جو ن ایلیا کی شاعری کو بہت کم نقاد میسر آئے۔ کہ اس فلسفہ گنجلک کو سلجھا نا ہر کسی کے بس کی بات نہ تھی۔ مشاعرے کو اپنے لحن اور انداز سے ایک نیا آہنگ دینے والے جو ن ایلیا نے جو کچھ بھی کہا اپنی تحریروں اور کلا م میں ہی بیا ن کیا ہے۔ ان کی شاعری کے پر ستار ان کے معتقدات جاننے کے لیے ان سے رجوع کر تے تو وہ ہمیشہ ٹال دیا کر تے تھے اور کہتے کہ جو بھی کہنا تھا کہہ دیا ہے۔ ہے یہ بازار جھو ٹ کا بازار پھر یہی جنس کیو ں نہ تولیں ہم کرکے اک دوسرے سے عہد وفا آؤ کچھ دیر جھو ٹ بولیں ہم جون ایلیا نے اپنے ایک مکالمے میں کہا کہ ’’ ہم نے شاعر ہی ہو نا تھا یہ تو طے تھا، مگر ہمارا مقصد شاعری سے نام کما نا مقصود نہ تھا بلکہ کچھ بھی نہیں کما نا چاہتے تھے۔ادھر آئے اور شعر کہنا شروع کئے۔ کوئی استاد نہیں کیا زانوئے تلمذ طے کر تے۔ نہ اصلاح لینے کی نو بت آئی۔ کہ یہ تو زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ آخری وقت میں خاک مسلمان ہو ں گے۔ ہم نے کوئی ارادہ نہیں باندھا کہ فلاں ہما را محبوب ہے اور ہم نے اسی کے قصیدے گنگنانے ہیں۔ ہم تو ایک سنسان رہ گزر پر چل پڑے۔ پھول، پا ت اور شجر کہیں بعد میں دکھا ئی دئیے۔ اجالا بھی نہیں تھا۔ ایک مو ہوم سی کر ن امڈتی اور ڈوبتی جا تی تھی اور ہم اسی کو ڈھونڈتے ہو ئے یہا ں تک آگئے۔ کچھ وہم سے دل و دما غ میں وہ پیدا ہو ئے۔ ہم نے اسی لیے اپنے پہلے مجموعہ کلا م کا نام ’’ شاید‘‘ تجویز کیا۔ یہ ہماری زندگی کا عنوان بھی ہو سکتا ہے۔ہماری نثر درحقیقت ہمارے خیال کی داستان ہے۔ اس کو من و عن بیا ن کیا ہے۔زندگی جیسے بھی کی ہے۔ بس نبھا نے کی کو شش ضرور کی ہے۔ ناصح کبھی کبھار اس خیال میں رخنہ ڈالنے آجا تے اور ہم اس کی طرف کم ہی متوجہ ہوتے تھے۔اس کا اپنا پیشہ تھا اور ہم نے خیال آرائی کو کبھی پیشہ نہیں جانا ہے۔ ادبی تحریکیں کس لیے ؟ ترقی پسند، جدت پسند، رجعت پسند محض لیبل ہیں۔ ان سے کچھ بیا ن نہیں ہو تا۔ یہ محض قدغنیں ہیں ان سے ایک فن کار کا کیا واسطہ اب کی بار اس کا ہدف میری انا تھی سو صلح کا پرچم جلا دیا میں نے عشق سمجھتے تھے جس کو وہ شاید تھا بس اک نارسائی کا رشتہ میرے اور اس کے درمیاں نکلا عمر بھر کی جدائی کا رشتہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جون ایلیا نے اپنا پہلا شعر 8 سال کی عمر میں لکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چاہ میں اس کی طمانچے کھائے ہیں دیکھ لو سرخی مرے رخسار کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔