آب بیتی الحاج محی الدین منیری علیہ الرحمۃ ۔08- شیخ التبلیغ ،مولانا محمد الیاس کاندھلوی کی خدمت میں

Bhatkallys

Published in - Other

08:20PM Mon 30 Apr, 2018
 بقلم : عبد المتین منیری ۔ بھٹکل M : 00971555636151

            علی گڑھ جانے کے لئے کانپور اسٹیشن پر گاڑی بدلنی پڑتی تھی ، ابھی ہم اسٹیشن ہی پر تھے کہ ایک طرف مولانا علی میاں سات آٹھ علماء کے ساتھ نظر آئے ، مولانا سے سرسری سا تعارف پہلے سے تھا، وہ جانتے تھے کہ میں بھٹکل سے ہوں اور مولانا خواجہ بہاؤ الدین اکرمی  سے میری رشتہ داری ہے، مولانا خواجہ صاحب ندوہ میں ایک دو سال ان کے شریک درس رہے تھے۔ جب میں نے مولانا کو سلام کیا تو پوچھا کہاں جارہے ہو منیری صاحب؟ میں انہیں علی گڑھ امتحان کے ارادہ سے جانے کی اطلاع دی ۔ مولانا فرمانے لگے میرے ساتھ دہلی چلئے ، میںنے بتایا کہ علی گڑھ کا ٹکٹ کاٹ چکا ہوں، اب دہلی کیسے جاؤں ؟ مولانا نے کہا کہ فکر نہ کیجئے ، اس پر میں نے مولاناسے کہا کہ دہلی جاکر رہوں گا کہاں ؟ مولانانے کہااس کی فکر چھوڑدیجئے ، آخر کار مولانا کے ارشاد پر میں نے علی گڑھ کا ٹکٹ ٹرانسفر کیا اور دہلی کے لئے روانہ ہوگیا ۔ یہ میرا پہلی مرتبہ دلی جانا ہواتھا۔ غالباً یہ۱۹۴۳ء کا زمانہ تھا ، کڑاکے کی سردی پڑرہی تھی، ٹھنڈ کے مارے ہمارا براحال تھا ۔ مولانا  ہمیں تبلیغی جماعت کے مرکز نظام الدین لے گئے ۔ اور وہاں پر ہمیں ایک کمرہ دے دیا ، یہاں موٹے موٹے لحاف رکھے ہوئے تھے ، ہم نے اس سے پہلے ایسے لحاف کہاں دیکھے تھے؟۔

            مرکز میں ہی مولانانے ہماری ملاقات تبلیغی جماعت کے بانی حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی ؒ سے کرائی ۔ آپ نے ہمیں یہیں پر رہنے کی ہدایت کی ۔ آٹھ دس روز ہمار امرکز میںرہنا ہوا۔ روزانہ بعدنمازفجر آپ کے درسوں میں شرکت ہوتی ، ویسے اس زمانے میں ہمارا شعور اتنا پختہ نہیں ہوا تھا ، باوجود اس کے حضرت کی باتوں کا دل پر گہرا اثر ہوتا تھا۔

            ایک مرتبہ صبح تڑکے ہم سب بیٹھے ہوئے تھے ، حضرت نے مولانا علی میاں کو حکم دیا کہ ذاکر حسین کو لاکر میرے سامنے بٹھاؤ۔ اس وقت ساتھی ڈاکٹر ذاکر حسین کو لے کر آگئے ۔ ابھی وہ صدر جمہوریہ وغیرہ نہیں بنے تھے۔ بس جامعہ ملیہ کے وائس چانسلر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔ مجھے ان کا حضرت کے سامنے دو زانوبیٹھنا ،حضرت کا  دل کا ایک ایک کھوٹ کھول کھول کر ڈاکٹر صاحب کے سامنے رکھنا ، اور ڈاکٹر صاحب کی آنکھوں میں آنسوؤں کی جھڑی لگنا اچھی طرح یادہے۔

            اس کے بعد حضرت بیمار ہوگئے ، ان کی کھٹیا ایک کھلی جگہ پر رکھی گئی ، معائنہ کے لئے ایک نیک مسلمان  معالج آتے تھے ، تشخیص کے بعد انہوںنے مولاناسے درخواست کی کہ بولنا بند کریں ، اس سے بیماری بڑھنے کا خطرہ ہے۔ اور تفصیل سے بولنے کی وجہ سے ہونے والے نقصانات سے آگاہ کیا۔ یہ سننا تھا کہ حضرت کو جوش آگیا اور فرمایا کہ تمہیں علاج کے لئے بلایا ہے میری زبان بند ی کے لئے نہیںبلایا ، اللہ کے دین کی خاطر بول کر مرجانا ، خاموش رہ کر زندہ رہنے سے بہتر ہے۔ ڈاکٹر بے چارہ کیا کرتا، خاموش رہ گیا۔

            ہم نے جب علی گڑھ کا پروگرام کیا تو مولاناعلی میاں کو اس سے آگاہ کیا۔ آپ میرا بازو پکڑکر مولانا الیاسؒ کی خدمت میں لے گئے اور بتایا کہ منیری صاحب امتحان دینے کے لئے علی گڑھ جارہے ہیں ۔ آپ پہلو پر بیٹھے ہوئے تھے جھٹ سے سیدھے بیٹھ گئے ، عادت کے مطابق ادھ پون گھنٹہ نصیحتیں کیں اور مختلف باتیں بتلائیں۔ پھر سینے سے لگایا اور بھینچا، سرپرہاتھ رکھا اور بہت کچھ سمجھایا ۔ بہت دعائیں دیں اور بڑے جوش اور ولولہ کے ساتھ ہدایت کی کہ اگر دین زندہ رہے گا تو تم زندہ رہوگے ۔ زندگی کے کسی بھی مسئلہ کے لئے دین کو نہ چھوڑو، رخصت کے وقت معانقہ کیا ، سینے سے لگایا ، پیٹھ کو سہلایا ، سرپر ہاتھ رکھا ، اس طرح ادھ پون گھنٹہ کرتے رہے ۔ اس موقع پر مولانا علی میاں اور آئے ہوئے بہت سے دیہاتی موجود تھے۔ میرا دل بھی حضرت کے رویہ پر وفور جذبات سے بھر گیا ، اس قیام میں عجیب کیفیات کا نظارہ ہوا۔