نومبر 08 :  کو ڈاکٹر علامہ اقبالؒ کا یومِ پیدائش ہے

Bhatkallys

Published in - Other

12:29PM Thu 9 Nov, 2017
از: ابوالحسن علی بھٹکلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آباؤ اجداد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اقبال کے آباؤ اجداد ہندو برہمن تھے ۔ کشمیر کے ایک قدیم پنڈت گھرانے سے ان کا تعلق تھا ۔ گوت "سپرو" تھی کشمیر پنڈت اعلٰی درجہ کا سیاسی فہم رکھنے کے ساتھ ساتھ فارسی میں اچھی دسترس رکھتے تھے ۔ "سپرو" کشمیری لفظ ہے۔ اس کے معنی میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ اقبال بھی اپنی ھیات میں ُ سپرو" کے صحیح معنی کا کھوج نہیں لگا سکے تھے ۔ ابھی تک اس کے تین معنی سامنے آۓ ہیں: بقول محمد دین فوقؔ: " وہ لڑکا جو چھوٹی عمر میں بڑوں کی سی ذہانے دکھاۓ،" بقول شیخ نور محمد: " کسمیر کے برہمنوں میں سب سے پہلے جس گروہ نے مسلمانوں کے علوم و زبان یعنی فارسی کی طرف توجہ کی اور اس میں امتیاز حاصل کر کے حکومت اسلامی کا اعتماد حاصل کیا۔" یعنی وہ شخص جو سب سے پہلے پڑھنا شروع کر دے۔ دیوان ٹیک چند کمشنر پنجاب نے اقبال کو بتایا کہ: لفظ " سپرو" کا تعلق ایران کے قدیم بادشاہ پور سے ہے ۔ سپرو اصل میں وہ ایرانی ہیں جو اسلام سے بہت پہلے ایران چھوڑ کر کشمیر چلے آۓ تھے ۔ اور اپنی ذہانت و فطانت کی وجہ سے برہمنوں میں داخل ہو گۓ ۔ پنجاب میں اقبال کے سوا کوئی ایسا مسلمان گھرانہ نظر نہیں آتا جو کشمیری برہمن سپرو سے تعلق رکھتا ہو ۔ بھارت میں ہندو سپروؤں کے چند گھرانے ملتے ہیں۔ 1۔ ڈاکٹر سر تچ بہادر سپرو: ایک معروف شخصیت تھے وکالت کرتے تھے ۔ ماہوار رسالہ کشمیر درپن نکالا کرتے تھے۔ اقبال نے ان کا ذکر کیا ہے ۔ 2۔ پنڈت تربہون ناتھ سپرو: اردو کے شاعر تھے ۔ ہجرؔ تخلص کرتے تھے ان کے والد پنڈت بشمر ناتھ سپرو المختلص صابرؔ 1832ء تا 1873ء دہلی کالج کے پڑھے ہوۓ تھے اور اردو کے شاعر تھے ۔ صابر کے دادا پنڈت سدا سکھ حیدرآباد میں رینیو کمشنر تھے ۔ ان چند سپرو و اصحاب سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس گوت کے پیشتر افراد علم و ادب اور قانون کے پیشے سے وابستہ تھے۔ منجھے ہوۓ سیاست دان تھے ۔ فلاسفر تھے ۔ اردو اور فارسی کا اعلٰی اور صاف ستھرا ذوق رکھتے تھے ۔ اردو اور فارسی کے بہترین شاعر تھے ۔ وہ اعتراف کرتے ہیں: میں اصل کا خاص سومناتی آبا مرے لاتی و مناتی اس وابستگی کے باوجود وہ کس فخر سے کہتے ہیں: مرا بنگر کہ در ہندوستان دیگر نمی بینی برہمن زادہء رمز آشنائی روم و تبریز است ترجمہ: مجھے دیکھو ۔ کیونکہ مجھ سا کوئی دوسرا تم ہندوستان میں نہیں دیکھو گے کہ ایک برہمن زادہ روم و تبریز کے اسرار و رموز سے آشنا ہے۔ محققین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اقبال کے جد اعلٰی بابا لول حج موضع چکو پرگز آورن کے تھے ۔ بابا صاحب پندھرویں صدی میں مسلمان ہوۓ تھے اور شیخ نور الدین ولی کے چوتھے خلیفہ نصر الدین رشی کے مرید ہوۓ۔ بابا لول حج کی نسل سے ایک بزرگ شیخ اکبر نام کے ہوۓ جو اقبال کے پپردادا تھے ۔ یہ بات زیادہ قرین قیاس ہے کہ شیخ اکبر کشمیر سے ہجرت کر کے پنجاب میں آباد ہو گۓ تھے۔ جمال الدین یا ان کے چاروں فرزند اٹھارویں صدی کے آخر میں یا انیسیویں صدی کے شروع میں سیالکوٹ چلے آۓ ۔ جمال الدین کے تین صاحبزادے محمد رفیق ، عبدالرحمٰن اور محمد رمضان نے شہر سیالکوٹ میں رہائش رکھی چوتھے صاحبزادے عبداللہ موضع جیٹھی کے میں آباد ہو گۓ۔ قیاس اغلب ہے کہ یہ چاروں بھائی کاروبار کرتے تھے ۔ شروع شروع میں محمد رفیق نے سیالکوٹ کے محلہ کھٹیکاں میں رہائش رکھی یہیں اقبال کے والد شیخ نور محمد اور چچا شیخ غلام محمد پیدا ہوۓ ۔ 1861ء میں دودروازہ مسجد کے قریب محلہ کشمیری میں ایک مکان خرید کر رہنے لگے۔وقت کے ساتھ ساتھ اس مکان میں اضافہ ہوتا رہا ۔ یہ مکان بعد میں اقبال منزل کہلایا ۔ اس وقت یہ مکان یک منزلہ تھا اور مکان کے صحن کا دروازہ محلہ چوڑی گراں کی جانب کھلتا تھا ۔ اسی مکان کی ایک تنگ و تاریک کوٹھڑی میں اقبال پپیدا ہوۓ ۔ 1889ء کے لگ بھگ شیخ نور محمد نے اس مکان سے ملحقہ ایک دو منزلہ مکان خریدا اور مکان کو نۓ سرے سے تعمیر کرنے کے لیے میونسپل کمیٹی میں درخواس دی ، کچھ عرصہ بعد پہلے مکان کی پشت پر بازار چوڑی گراں کی جانب دو دکانیں بھی خری لی گئیں ، بعد میں شیخ عطا محمد نے جدی مکان سے ملحق ایک اور دکان خرید لی ۔ اسی طرح سب قطعات پر ایک سہ منزلہ عمارت تعمیرکی گئی جو اب اقبال منزل کی شکل میں موجود ہے ۔شیخ نور محمد نے بازار چوڑی گراں میں ایک اور مکان خرید کر کراۓ پر چڑھا دیا ۔ 1892ء میں سمند خان اور اللہ بخش کرایہ دار کی حیثیت سے رہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بچپن و لڑکپن اور لڑکپن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اقبال کی پیدائش کے وقت شیخ نور محمد کا گھر زیادہ بڑا نہیں تھا ۔ متوسط طبقہ  کا یہ گھرانہ تھا ، گھر میں سات آٹھ افراد تھے ۔ نور محمد ٹوپیاں یا کلاہ سیتے تھے ، اس فن میں انہیں مہارت حاصل تھی۔ دکان میں شاگرد تھے ۔ لیکن تصدیق سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انہوں نے ملازم بھی رکھے تھے ۔ لوگ ان کو شیخ نتھو ٹوپیاں والا کہتے تھے ۔ ماں باپ ننھے منے بچے اقبال سے خوب پیار کرتے ۔ شیخ نور محمد کے شاگرد لڑکے بھی اقبال کو اٹھاتے اور کھلاتے ۔ بڑا بھائی شیخ عطا محمد جو ان سے تقریباۤ سترہ سال بڑا تھا ، چھوٹے بھائی اقبال کو گود میں اٹھا کر پیار کرتا، کھلانے کے لیے باہر لے جاتا ، اقبال کی بڑی بہن فاطمہ بی بی کی اس وقت عمر کیا تھا ، کچھ معلوم نہیں ۔ ماں امام بیبی گھر کا کام کاج کرتیں اور فاطمہ چھوٹے بھائی کو کھلاتی ۔ دوسری بہن طالع بی بی تقریباۤ پانچ برس کی بچی تھی ۔ وہ بھی اپنے چھوٹے بھائی سے پیار کرتی ۔ اٹھانے کے لیے سعی کرتی ضد کرتی لیکن بے جی اور فاطمہ اسے اٹھانے نہیں دیتیں کہ کہیں گرا نہ دے ۔ اقبال کے ننھیال والے بھی اسے اٹھاتے، پیار کرتے چچی بھی معصوم بچے سے پیار کرتی ۔ وہ حسرت بھری نظروں سے بچے کو دیکھتی کہ اللہ نے سولہ سترہ برس بعد اس کی جیٹھانی کو ایک اور خوبصورت بچے سے نوازا ہے۔ جبکہ وہ بچے سے ابھی تک محروم ہے ۔ اس کی جیٹھانی نے چند سال ہوۓ اسے اپنا بچہ دیا تھا لیکن وہ زندہ نہ رہ سکا ۔ جیٹھانی کے اس جذبہ و خلوص کی وہ قدر کرتی اور نومولود کی زندگی اور روشن مستقبل کے لیے دعاگو ہوتی بچے کے دادا شیخ محمد رفیق اور چچا غلام محمد بچے کو نہ دیکھ سکے ۔ کیونکہ اس کی پیدائش سے قبل ہیضہ کی وبا میں دونوں روپڑ میں چل بسے تھے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اقبال کو قدرت نے شاعر پیدا کیا تھا ۔ سکول میں انہوں نے شعر کہنے شروع کر دیۓ تھے ، کس عمر میں پہلا موذوں شعر کہا؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔ سید نذیر نیازی کا یہ کہنا کہ شاعری کا باقاعدہ آغاز 1885ء یا شاید اس کچھ پہلے ہو گیا تھا درست نہیں معلوم ہوتا ۔ موذوں شعر کہنے کا زمانہ 1888ء سے 1889ء تک کا ہو سکتا ہے ۔ آٹھویں جماعت میں وہ سیالکوٹ کی شعری محفلوں میں شرکت کرنے لگے تھے ۔ اس عمر میں انہیں موسیقی سے بھی لگاؤ پیدا ہوا ۔ طبیعت حسن و جمال کی طرف مائل ہونے لگی ۔ لطیف جذبات و احساسات جنم لینے لگے لگے ۔ زبان و تحریر میں ایک عالم کی سی جھلکیاں ظاہر ہونے لگیں ۔ اقبال اپنی کتابوں پر عموماۤ انگریزی کی یہ تحریر لکھا کرتے تھے ۔ “ Steel not the book for fear of shame look down and see my powerful name” Muhammad Iqbal اس زمانے میں شعری نشستیں منعقد کرنے والے کون کون صاحب تھے؟ کون کون سے شعرا ان مشاعروں میں اپنا کلام سناتے تھے؟ حتمی طور پر کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ مولوی سید میر حسن کا یہ کہنا کہ اس دور کے بزرگ شاعر عشق پیچہ ہوا کرتے تھے ۔ غالباۤ ان کی صدارت میں یہ مشاعرے ہوتے ۔ اس دور کے چند شعرا جن کا محقیقین کھوج لگا سے یہ ہیں: سید حامد شاہ حامدؔ، پادری امام دین شہبازؔ ، غلامیؔ سیالکوٹی، میراں بخش جلوہؔ سیالکوٹی ، محمد اسماعیل ساغرؔ، غلام قادر فصیححؔ ، محمد ابراہیم میرؔ ، نور اؒحسن نقشبندیؔ  اور غلام محمد شگفتہؔ۔ نویں یا دسویں جماعت میں اقبال نے مرزا داغؔ دہلوی کی طرف رجوع کیا ۔ سلسلہ تلمذ قائم ہو گیا ۔ استاد نے کہہ دیا کہ شاگرد کے کلام میں اصلاح کی ضروت نہیں ۔ بذریعی ڈاک تعلقات قائم ہوۓ ۔ دونوں میں بلمشافہ ملاقات نہ ہو سکی ۔ اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ میر حسن نے داغؔ کی طرف رجوع کرنے کا مشورہ دیا تھا ۔ سکاچ مشن کالج میں تعلیم کے دوران چند اور طلبا شعرا کا اضافہ ہو گیا مثلاۤ فضل الٰہی بیدلؔ ، لچھن داس نیرؔ ، اور خواجہ مسیح پال امین حزینؔ ، اس دور میں اقبال اپنی غزلیں باہر کے ادبی رسائل میں اقبال اپنی غزلیں باہر کے ادبی رسائل میں بھیجنے لگے ۔ رسالہ دہلی کی جلد شمارہ 5 کے صفحہ 3 پر اقبال کی پہلی غزل دستیاب ہوئی ہے ۔ نومبر 1893ء کا یہ شمارہ ہے ۔ اقبال ان دنوں فرسٹ ائیر کے طالب علم تھے ۔ ایڈیٹر نے غزل کے لی طرح مصرع: " خوب طوطی بولتا ہے ان دنوں صیاد کا" یاد فریاد قافیہ دیا ہوا تھا ۔ اقبال نے آٹھ شعروں پر مشتمل ایک غزل کہی جس کا پہلا شعر ہے: کیا مزا بُلبل کو آیا شیوہ بیداد کا ڈھونڈتی پھرتی ہے اُڑ اُڑ کر جو گھر صیاد کا مقطع حاضر ہے: بھول جاتے ہیں مجھے سب یار کے جورو ستم میں تو دیوانہ ہوں اے اقبالؔ! تیری یا کا اسی رسالہ کی جلد نمبر 4 شمارہ 20 بابت فروری 1894ء پر اقبال کی دوسری غزل چھپی ہے ، طرح مصرع تھا: یہ اشارے مجھے پیغام قضا دیتے ہیں اس طرح پر اقبال نے دس اشعار کی ایک غزل کہی ۔ اس کا پہلا شعر ملاحظہ ہو : جان دے کر تمھیں جینے کی دعا دیتے ہیں پھر بھی کہتے ہو کہ عاشق ہمیں کیا دیتے ہیں مقطع ہے : گرم ہم پر کبھی ہوتا ہے جو وہ بت اقبالؔ حضرت داغؔ کے اشعار سنا دیتے ہیں اس شمارے میں اقبال کو شاگرد بلبل ہند حضرت داغؔ دہلوی لکھا ہے۔ گزشتہ صدی کی نویں دہائی کے شروع سال میں شہر میں مشن کے دو پرانچ سکول موجود تھے ۔ ایک رنگپورہ میں اور دوسرا قلعہ پر ۔ 1882ء میں رنگپورہ کے برانچ سکول کو فنڈ نہ ہونے کی وجہ سے بند کر دیا گیا اور اس کے ستر طلبا کو قلعہ پرا واق برانچ سکول میں منتقل کر دیا گیا جہاں اسی لڑکے پڑھتے تھے ۔ قلعہ پر واقع برانچ سکول کشمیری محلہ کے قریب تھا اس لیے شیخ نور محمد نے 1882ء میں اقبال کو اس برانچ سکول کی پہلی کچی جماعت میں داخل کرایا ۔ یہ روایت کمزور ہے کہ مولوی سید میر حسن نے انہیں سکول میں داخل کرایا تھا۔ پہلی جماعت کی ماہوار فیس ایک آنہ تھی ۔ پہلی کچی جماعت میں اقبال نے میجر ڈبلیو آر ایم ہال رائڈ ڈائریکٹر آف پبلک انسٹرکش پنجاب لاہور کا مرتب کردہ اردو قائدہ پڑھا ۔ یہ قائدہ آٹھ صفحات پر مشتمل تھا  قائدہ میں تصویریں نہیں تھیں ۔ اس جماعت میں حساب کی ابتدائی گنتی  سکھائی گئی ہو گی۔ ابتدائی تعلیم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 1883ء کے لگ بھگ عام مسلمان بچوں کی طرح انہیں محملہ میں قریب ترین مسجد سید حسام الدین میں قرآن پاک مناظرہ پڑھنے کے لیے بھیج دیا ۔ یہ مولوی سید میر حسن کے برادر عم زاد حکیم حسام الدین نے 1876ء میں تعمیر کی تھی ۔ یہاں حکیم صاحب کے بہنوئی سید عمر شاہ بچوں کو قرآن پاک پڑھایا کرتے تھے ۔ کرم بی نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ عمر شاہ مکتب میں انہیں اقبال کے ساتھ پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے ۔ اقبال نے قرآن مجید کا ابتدائی حصہ یہاں پڑھا ۔ کچھ عرصے بعد عمر شاہ نے بچوں کو پڑھانے کا سلسلہ بند کر دیا ۔ اقبال مولانا غلام حسن کے پاس پڑھنے کے لیے جانے لگے ۔ مولانا موصوف شیخ نور محمد کے بڑے گہرے دوست تھے اور شوالہ یتجہ سنگھ کی مسجد میں مسلمان بچوں کو پڑھایا کرتے تھے ۔ اقبال یہاں 1885ء تک پڑھتے رہے ۔اس کے ساتھ ساتھ وہ برانچ سکول کی پہلی کچی جماعت میں 1883ء میں داخلہ بھی لے چکے تھے ۔ 188٪ء میں جب اقبال نے پہلی پکی جماعت پاس کی تو وہ مولانا غلام حسن کے پاس ہی مسجد میں قرآن پڑھتے تھے ۔ ایک روز سید میر حسن مولانا غلام حسن کو ملنے کے لیے مسجد میں آۓ۔دورانِ ملاقات انہوں نے اقبال کو دیکھا ۔استفسار کرنے پر معلوم ہوا کہ شیخ نور محمد کا صاحبزادہ ہے ۔ مولوی سید میر حسن نے اس بچہ کو خود پڑھانے کی پیش کش کی ۔ مولانا غلام حسن کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا ۔ میر صاحب نے شیخ نور محمد سے بھی کہا کہ وہ اپنے بچے کو ان کے ہاں پڑھنے کے لیے بھیجا کریں اس طرح اقبال مولوی سید میر حسن کے ہاں پڑھنے کے لیے جانے لگے۔ پہلی پکی جماعت: 1884ء میں اقبال پہلی کچی جماعت پاس کر کے سکاچ مشن برانچ سکول کی پہلی پکی جماعت میں داخل ہوۓ ۔ ماہوار فیس آیک آنہ تھی برانچ سکول میں دو مسیحی استاد تعلیم دیتے تھے ۔ ان کے ناموں کا علم نہیں ہو سکا ۔ 1884ء میں برانچ سکول میں طلبا کی تعداد 112 تھی ۔ راۓ  گوپال سنگھ لاہور سرکل کے اسسٹنٹ انسپکٹر آف سکولز تھے ۔ انھوں نے یکم اپریل 1885ء کی پہلی ، دوسری اور تیسری پوزیشن  کو سکاچ مشن کے پرائمری حصہ کا امتحان لیا ۔ 8 اپریل 188٪ء کو اپنی تحریری رپورٹ دی ۔ رپورٹ میں ہر جماعت کے طلبا کے نام بھی درج کیے ہیں ۔ جن کا راۓ صاحب نے امتحان لیا ۔ اس رپورٹ سے یہ تصدیق ہوتی ہے کہ اپریل 1885ء میں اقبال نے پہلی پکی جماعت پاس کی۔ دوسری اور تیسری جماعت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قرین قیاس ہے کہ اقبال نے دوسری اور تیسری جماعت ایک سال میں پاس کیں ۔ 1885ء میں پہلی جماعت پاس کر کے وہ مولوی سید میر حسن سے پرائیویٹ طور پر گھر پڑھنے لگے تھے جس کی وجہ سے ان کی تعلیمی استعداد میں اضافہ ہوا اور اس طرح وہ ایک سال میں دو جماعتیں پاس کرنے میں کامیاب ہو سکے ۔ 1886ء میں اقبال نے تیسری جماعت پاس کی ۔ اس امتحان کو لوئر پرائمری سکول ایگزیمینیشن کہا جاتا تھا ۔ چوتھی جماعت ۔۔۔۔۔۔ اَپر پرائمری سکول ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اَپر پرائمری سکول میں دو جماعتیں ہوتی تھیں یعنی چوتھی اور پانچویں جماعت ۔ ان جماعتوں میں انگریزی اور ورنیکلر دونوں قسم کی تعلیم دی جاتی تھی ۔ 1877ء میں اقبال نے چوتھی پاس کی ۔ چوتھی جماعت میں ایک سپیشل جماعت بھی ہوا کرتی تھی ۔ سکاچ مشن کی چوتھی جماعت میں انگریزی بھی پڑھائی جاتی تھی ۔ مذکورہ انگریزی جماعت کا با محوارہ اردو ترجمہ غلام حیدر سیکنڈ ہیڈ ماسٹر مدرسہ پنڈ دانخان ضلع جہلم نے کیا تھا ۔ اقبال نے چوتھی جماعت میں انگریزی پڑھی ۔ روایت ہے کہ انگریزی کا پہلا سبق انہوں نے سید حامد شاہ سے لیا تھا۔ پانچویں جماعت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 1888ء میں اقبال نے پانچویں جماعت یعنی اپر پرائمری سکول کا امتحان پاس کیا ۔ امتحان پاس کرنے پر پنجاب یونیورسٹی کی جانب سے حلقہ کا انپکٹر آف سکولز باقاعدہ ایک سند جاری کرتا تھا ، اس سند پر امیدوار کو باقاعدہ سرکاری ملازمت مل جاتی تھی۔امتحان میں پوزیشن حاصل کرنے والے لڑکے کو ڈسٹرکٹ بورڈ اور میونسپل کمیٹی تین روپے وظیفہ ماہوار دیتی تھی۔ انہوں نے امتحان میں نمایا پوزیشن حاصل کرنے پر وظیفہ حاصل کیا ۔ چھٹی جماعت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حصہ مڈل میں چھٹی ، ساتویں اور آٹھویں جماعتوں کی تعلیم دی جاتی تھی ۔ اقبال نے 1888ء میں اَپر پرائمری سکول کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کیا اور اپریل 1888ء میں اقبال چھٹی جماعت میں براہِ راست مولوی سید میر حسن سے اردو، فارسی اور عربی پڑھنے کا موقع ملا ۔ ساتویں جماعت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 1889ء میں اقبال چھٹی جماعت پاس کر کے ساتویں جماعت میں داخل ہو گۓ۔ اس جماعت میں بھی مولوی سید میر حسن سے اردو، فارسی اور عربی پڑھنے کا موقع میسر ہوا۔ آٹھویں جماعت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مارچ 1890ء میں اقبال نے ساتویں جماعت پاس کی ۔ اپریل 1890ء میں مڈل کے آخری درجہ یعنی آٹھویں جماعت میں ترقی پائی۔ آٹھویں جماعت میں درج ذیل اساتذہ سے مختلف مضامین پڑھے : نرسنگھ اور ہرنام سنگھ سے انگریزی پڑھی۔ اردو ، فارسی اور عربی کے استاد مولوی میر حسن ہی تھے ۔ ماسٹر ہرنام سنگھ سے ریاضی ، علم  مساحت اور حفظانِ صحت کے مضامین بھی پڑھے ۔ اس جماعت میں اقبال سیالکوٹ کی شعری محفلوں میں شرکت کرنے لگے اور اپنا کلام شریک مشاعرہ کو سنانے لگے۔ نویں اور دسویں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اقبال اپریل 1891ء میں نویں ماعت میں داخل ہو گۓ ۔ مارچ 1892ء میں نویں جماعت کا سکول کا امتحان دیا تو کامیاب ہونے پر اپریل 1892ءمیں دسویں جماعت میں ترقی پائی ۔ اقبال نے مارچ کے تیسرے ہفتے سوموار کے روز 20 مارچ 1893ء کو پنجاب یونیورسٹی کے تحت انٹرنس کا امتحان دیا ۔ رولنمبر 880 تھا ۔ امتحانی مرکز گجرات تھا ۔ سیالکوٹ سنٹر نہیں تھا ۔ اقبال ریل گاڑی کے ذریعے گجرات گۓ ۔ گجرات میں ان کے ہونے والے سسر موجود تھے ۔ سسرال والوں کے ہاں قیام کرنا شیخ نور محمد جیسے بزرگ اور پارسا شخص کے لیے معیوب تھا ۔ انھوں نے بیٹے کو ان کے ہاں ٹھرنے کی اجازت نہ دی بلکہ سکول کے دوسرے لڑکوں کے ہمراہ گجرات کے سکاچ مشن ہائی سکول میں قیام کیا ۔ کھانے پینے کا انتظام سب لڑکوں نے اکھٹا ہی کیا ۔ امتحان کے سلسلے میں دو ہفتہ  کے لگ بھگ قیام رہا ۔ یکم مئی 1893ء بروز سوموار کو انٹرنس کے نتائج کا اعلان ہوا ۔ اقبال نے 670 نمبروں میں سے 424 نمبر حاصل کیے ۔ فرسٹ ڈویژن حاصل کی ۔ میرٹ کے لحاظ سے یونیورسٹی میں آٹھوان نمبر تھا ، حکومت نے بارہ روپے ماہوار وظیفہ دیا۔ انٹرمیڈیٹ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انٹرنس کے نتائج کا اعلان یکم مئی 1893ء بروز سوموار ہوا ۔لڑکوں کو اس نتیجہ کا کب علم ہوا؟ کچھ معلوم نہیں ۔ 2 مئی کو سکاچ مشن سکول میں بذریعہ ڈاک نتیجہ پہنچ گیا ہو گا ۔ کیونکہ 3 مئی کو ایک لڑکا جگن ناتھ سکاچ مشن سکول کی فرسٹ ائیر میں داخلہ لیتا ہے ۔ اقبال کو اپنے نتیجہ کا دیر سے علم ہوا ہو گا ۔ وہ چار مئی کو دولہا بنے گھوڑے پر سوار تھے کہ انہیں امتحان میں کامیابی کا ایک تار موصول ہوا ۔ تار میں مبارکباد دی گئی تھی ۔ یہ تار غالباۤ ان کے سسر اور شیخ نور محمد کے سمدھی ڈاکٹر شیخ عطا محمد نے گجرات سے اقبال کی امتحان میں کامیابی پر دیا ہو گا ۔ اقبال کی برات 4 مئی کو گجرات گئی وہ کریم بی بی کو بیاہ کر لاۓ ۔ اگلے روز یعنی 5 مئی کو انھوں نے کالج میں داخلہ لیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اقبال کی ابتدائی زندگی از ڈاکٹر سید سلطان محمود ایم اے ۔ پی ایچ ڈی لیکچرار اردو گورنمنٹ ڈگری کالج پسرور