سفر حجاز۔۔۔(08)۔۔۔ جدہ ۔ راہ مدینہ۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

06:34PM Mon 28 Jun, 2021

باب (۸)۔ جدّہ  – راہ مدینہ

       صالح بسؔیونی نے ہمیں اپنے ذاتی مکان میں ٹھہرایا، بمبئی کی طرح یہاں بھی عموماً کئی کئی منزلوں کے مکانوں کا رواج ہے۔ یہ مکان بھی کئی منزل کا ہے ہم لوگوں کو جگہ دوسری منزل میں ملی۔ اس میں دو کمرے ہیں، ایک بڑا اور ایک اوسط درجے کا عورتوں کو بڑے کمرے میں کردیا، چھوٹے کمرے کو مردانہ رکھا ہے سامان زیادہ تر نیچے کی منزل میں رہنے دیا، سولہ آدمیوں کے لیے دوکمروں کی گنجائش ناکافی معلوم ہو رہی ہے۔ صحن نہ ہونے سے گرمی علی الخصوص محسوس ہورہی ہے — لیکن یہ بھی درحقیقت اللہ کی ناشکری ہے، سینکڑوں ہزاروں اللہ کے بندے ایسے بھی ہیں جنھیں اتنی جگہ کیا معنی اس کی آدھی بلکہ چوتھائی بھی نصیب نہیں وہ صبر اور شکر کے ساتھ تیز دھوپ میں تپتی ہوئی زمین کے اوپر سڑکوں اور راستوں میں بستر جمائے بیٹھے ہیں، وہ بھی انسان ہیں، وہ بھی حاجی ہیں، وہ بھی پردیسی ہیں، وہ بھی اللہ ہی کی راہ میں گھر بار، عزیزوں، دوستوں کو چھوڑ کر نکلے ہیں، اور ان میں سب کے سب مفلس اور کنگلے بھی نہیں، کیا انھیں آرام کی خواہش نہیں؟ کیاانھیں موسم کی سختیوں کا احساس نہیں ہوتا؟ – جدّہ کا رقبہ کچھ بہت بڑا نہیں۔ اس لیے مقامات زیادہ دور دور نہیں، جہاں ہم ٹھہرے ہیں، بازار یہاں سے قریب ہیں، ڈاکخانہ بھی زیادہ فاصلہ پر نہیں اور مسجد تو بالکل پڑوس ہی میں ہے، اتفاق سے آج ہی ہندوستان کی ڈاک روانہ ہونے کا دن ہے۔ خطوط لکھ کر لیٹر بکس میں ڈالے نہیں گئے بلکہ پوسٹ ماسٹر صاحب کے ہاتھ میں دے دیے گئے۔

        سامنے ایک لق و دق شاندار و آراستہ عمارت کھڑی ہوئی ہے معلوم ہوا کہ شیخ محمد نصیف صاحب کا مکان ہے۔ یہ یہاں کے امیر کبیر ہیں۔ بمبئی سے ایک صاحب نے اپنی کسی ضرورت کے متعلق ایک خط ان کے نام مجھے دیا تھا، اسے لے کر مولانا مناؔظر احسن صاحب کے ہمراہ دوپہر کو ان کے ہاں گیا، عربی وسعت اخلاق اور حجازی شان مسافر نوازی کے ساتھ پیش آئے۔ اُردو نہیں جانتے صرف عربی میں گفتگو کر سکتے ہی۔ چنانچہ مولانا سے عربی میں گفتگو ہوتی رہی۔ ایک عظیم الشان کتب خانہ کے مالک ہیں۔ بڑی بڑی الماریوں میں نفاست و سلیقہ کے ساتھ کتابیں چُنی ہوئی ہیں۔ اور گفتگو کے بعد معلوم ہوا کہ کتابوں کا ذخیرہ محض الماریوں کی زینت کے لیے نہیں بلکہ دل و دماغ میں بھی اپنا گھر بنا چکا ہے، ظہر کی نماز انھیں کے مکان پر جماعت کے ساتھ بخدی امام کے پیچھے پڑھی۔ یہیں ایک صاحب سے یہ کہہ کر ملایا گیا کہ وہ شیخ محمد بن عبدالوہاب کے پوتے ہیں اور یہ بھی کہا گیا کہ نجد کے مشاہیر علماء میں ہیں۔ مولانا مناؔظر صاحب نے ان سے کچھ مذہبی سوالات کیے، جوابات اس معیار پر نہ ملے جس کی توقع ایک صاحب نظر عالم سے ہوسکتی ہے۔ اور اگر یہی معیار علماء بخد کے علم و فضل کا ہے تو یہ تو کچھ زیادہ بلند نہیں۔ سُنا ہے کہ سلطان ابن سعود جب جدہ آتے ہیں تو شیخ محمد نصیف ہی کے ہاں فروکش ہوتے ہیں ۱۹۲۶ء میں ہندوستان کا وفد خلافت، جو سلطانی مہمان تھا، وہ بھی جدہ میں شیخ موصوف ہی کے ہاں ٹھہرایا گیا تھا، بسیونی کے ہاں بند کمروں میں شب بسر کرنے میں دقت تھی۔ شب میں میں نے اور مولانا مناؔظر صاحب نے شیخ موصوف سے ان کے کھلے ہوئے ہوا دار چبوترہ پر لیٹے رہنے کی اجازت مانگی شیخ نے اپنے لطف و کرم سے یہ مسرت تمام اجازت دے دی۔ اور ہم دونوں کی رات بڑے آرام سے اور شیخ کی شکر گزاری کے ساتھ بسر ہوئی۔

        جدہ اترتے ہی سفر مدینہ کے لیے روپیہ کی ضرورت پڑی، عؔمر بھائی چؔاند بھائی نے جدہ میں ہنڈیاں ایک ہی نام کے دوساہوکاروں شیخ جمال الدین اور سیٹھ جمال الدین پٹنی کے نام دی تھیں۔ دونوں سے ملاقات ہوئی، اول الذکر نے بڑی مستعدی اور مستعدی سے بڑھ کر ہمدردی اور دلسوزی کے ساتھ سارا کام کردیا۔ یہی نہیں کہ رقم فوراً ادا کردی، بلکہ یہ صحیح و ضروری مشورہ دے کر کہ اندرون حجاز انگریزی نوٹ اور روپیہ سے کہیں بڑھ کر انگریزی گنیاں کام دیتی ہیں(وہ صورت ۱۹۲۹ء میں تھی۔ ۱۹۴۶ء میں اس سے بالکل مختلف ہوگئی ہے۔)۔ رقم کو نوٹ سے گنیوں میں تبدیل کردیا، روپیہ ہاتھ میں آتے ہی چلنے کی فکر ہوئی جدہ اور مدینہ کے درمیان اونٹ کے قافلے بھی چلتے ہیں ۔ (اونٹ اب ۱۹۴۹ء میں کہاں ؟  شام کو روانگی طے پا گئی۔ لاری کی سرکاری شرح آمدورفت فی کس پندرہ گنی تھی، لیکن مختلف موٹر کمپنیوں میں مقابلہ جاری تھا۔ اس لیے ارزانی ہوکر فی کس دس گنی تقریباً (۱۳۵ روپیہ انگریزی) کی شرح آمدورفت رہ گئی تھی مولوی شاہ لطف اللہ صاحب مونگیری کی پانچ آدمیوں کی پارٹی بھی ہمارے ہی ہمراہ چلنے پر آمادہ ہوئی، اس طرح کل ۲۱ آدمی ہوئے۔ دو موٹر لاریاں تیرہ تیرہ نشستوں کی کی گئیں اور الفضل صاحب کی عنایت سے ہمارے لیے مخصوص ہوگئیں یعنی ۲۱ آدمیوں کے ٹکٹ سے ۲۶ آدمیوں کی جگہ مل گئی۔اور اب لاریاں بھی بکثرت چلنے لگی ہیں۔ ہم لوگوں نے لاری ہی پر  چلنا طے کیا، حجاز میں قدم رکھتے ہی مسافر بالکل معلم یا ان کے وکیل کے ہاتھ میں آجاتا ہے بغیر ان کے وساطت کے کسی سواری کے لیے معاملت نہیں کرسکتا۔ وکیل صاحبوں کے مصالح و اغراض قدرتاً اس کے مقتضی ہوتے ہیں کہ جتنے دن بھی ممکن ہو، حاجیوں کو جدہ میں پڑا  رہنے دیا جائے اور جب وہ سواری کے لیے تقاضہ کریں تو انھیں ٹال دیا جائے یہی صورت ہمارے ساتھ پیش آنی شروع ہوئی۔

       جدہ میں منشی احسان اللہ صاحب پنجابی (نائب قنصل برائے حجاج ہند) کی ذات ہندوستانی حاجیوں کے حق میں بڑی کارآمد ہے جہاز پر ان سے تعارف ہوچکا تھا۔ سہ پہر کو ان سے ان کے گھر پر ملاقات ہوئی، اخلاق و محبت سے پیش آئے ہمارے وکیل صاحب کو مہمانوں کی کثرت و ہجوم کی بنا پر ہم لوگوں کی جانب توجہ کرنے کی فرصت کم ملتی تھی اور سواری کے جلد بہم پہونچنے کی طرف سے انھیں قطعاً مایوس کردیا تھا۔ منشی صاحب سے جب ملاقات ہوئی اور ان چیزوں کا تذکرہ آیا تو انھوں نے ٹیلیفون دے کر وکیل صاحب کو فوراً  طلب کیا۔ وکیل صاحب کا اخلاق اسی لمحہ سے بدل گیا۔ اب ہم لوگوں پر توجہ کرنے کی فرصت بھی انھیں زائد تھی اور سواری کے لیے بھی وعدہ ہوگیا کہ کل مل جائے گی، جدہ میں حکومت حجاز کی طرف سے جو حاکم اعلیٰ رہتےہیں ان کا اسم شریف حاجی عبداللہ رضا زینل ہے۔ جدہ میں ٹرنر ماریسن کمپنی کے ایجنٹ بھی یہی ہیں۔ بڑے متمول تاجروں میں ان کا شمار ہے۔ بمبئی میں ان کے بھتیجے محمد علی زینل موتیوں کی تجارت لاکھوں روپیہ کی کرتے ہیں۔ مولانا شوکت علی کے توسط سے بمبئی میں ان سے ملاقات ہوگئی تھی۔ بلکہ ان کے ہاں دعوت بھی کھائی تھی۔ انھیں نے ازراہ عنایت اپنے چچا صاحب کے  نام ایک تعارف نامہ دے دیا تھا۔ سہ پہر کو منشی صاحب اپنے ہمراہ ان کے ہاں لے گئے۔ حج کمیٹی کا اجلاس ہورہا تھا اور وکیل صاحبوں کو بدعنوانیوں پر سزائیں مل رہی تھیں۔ زؔینل صاحب کو دیکھا، سن سفید داڑھی چہرہ شرافت و نورانیت کی ایک تصویر بڑی خاطر سے پیش آئے، پوچھا کہ کسی قسم کی تکلیف تو نہیں ہے؟ جدہ بھر میں صحیح و پاکیزہ عربی بولتے ہوئے صرف دو ہی صاحبوں کو پایا، ایک شیخ نصیف کو اور دوسرے حاجی عبداللہ زؔینل کو ورنہ تو ہر شخص کی زبان سے وہ زبان سنی، جسے خدا معلوم عربی کہا ہی کیوں جاتا ہے۔؟ شام کے وقت منشی صاحب اپنے موٹر پر سمندر کے کنارے ہوا خوری کے لیے گئے اور وہیں نماز مغرب پڑھی، عشا کی نماز پڑوس کی مسجد میں آکر پڑھی۔

       ۹ اپریل سہ شنبہ۔ وکیل صاحب نے آج لاری دلانے کا وعدہ کرلیا تھا، لیکن یہ وعدہ اطمینان و اعتبار کے لیے کافی نہ تھا۔ اگر آج شام کو وہ انکار کردیتے تو ان کا تو کوئی نقصان نہ ہوتا، لیکن ہم لوگوں کا ایک دن خواہ مخواہ ضائع ہوجاتا اور نہ صرف یہ کہ مدینہ طیبہ کی حاضری ایک دن کی تاخیر ہوجاتی بلکہ وہاں کی مدت قیام میں بھی ایک دن گھٹ جاتا۔ وکیل صاحب کے لیے ہماری التجائیں اور درخواستیں قطعاً غیر موثر تھیں۔ آج صبح میں مولانا مناظر احسن صاحب کے ہمراہ شیخ عبدالرحمن محمد الفضل سے ملا جو بمبئی کے عبداللہ الفضل کے حقیقی بھائی ہیں اور جدہ کے مشاہیر اور سلطان کے حاشیہ نشینوں میں ہیں، یہ بہت خوب شخص نکلے۔ خلافت کمیٹی، علی برادران، خدام الحرمین اور ہندوستان کے اور بہت سے مسائٖل پر آزادی و بے تکلفی سے باتیں کرتے رہے، شرکتہ الحرمین کے نام سے ایک موٹر کمپنی انھیں کی ہے۔ سفر مدینہ کی عجلت ہم لوگوں میں دیکھ کر انھوں نے پورا اطمینان دلایا کہ وکیل پر تاکید کرکے آج ہی لاری کا انتظام کردیا جائے گا اور شام تک قافلہ روانہ ہوجائے گا۔ اس کے بعد وکیل صاحب کو بھی کوئی راہ گریز باقی نہ رہی، اور آج           روانگی شام کو قرار پائی تھی، عین مغرب کے وقت دونوں لاریاں دروازہ پر آکر لگ گئیں، سب کے سوار ہونے، سامان لادنے، پوری پیشگی اجرت دے کر اس کی رسید حاصل کرنے اور حکومت و بلدیہ کے دوسرے مراحل طے کرنے میں عشاء کا وقت آگیا، اور عین اس وقت جبکہ مسجدوں میں عشاء کی اذانیں ہورہی تھیں ہمارا قافلہ شہر کے پھاٹک سے روانہ ہوا۔ جدہ سے مدینہ تک لاری راستہ میں آرام لیتی، اور سستانی ہوئی ڈیڑھ دو دن میں پہونچتی ہے۔ اور اونٹوں سے یہ فاصلہ دس دن میں طے ہوتا ہے، جا بجا منزلیں بنی ہوئی ہیں، لاریاں عموماً جہاں ٹھہرتی ہیں ان میں سے مشہور منزلیں، طوال، قدیمہ، رابغ، مستورہ، بیردرویش، بیر حسان، میجد ہیں۔ ہر منزل پر پانی، چائے قہوہ، کی دوکانیں ہیں۔ اکثر منزلوں پر روٹی اور پکا ہوا گوشت یا اُبلی ہوئی مچھلیاں مل جاتی ہیں مگر گوشت بدوی مذاق کا ہوتا ہے ہندوستانیوں کے ذائقہ کا نہیں، گوبھوک کے وقت ہر شے اچھی معلوم ہوتی ہے بعض منزلوں مثلاً رابغ کا پانی بہت نفیس ہے۔ اور بعض بیر حسان وغیرہ کا اس کے بالکل برعکس پیٹ کی آگ ہر جگہ بجھائی جاسکتی ہے، لیکن اگر زبان کا ذائقہ بھی مطلوب ہے تو ان منزلوں کے کھانے کے بھروسے پر ہرگز نہ رہنا چاہیے بلکہ اپنے مذاق و پسند کے مطابق کچھ ناشتہ ضرور ساتھ رکھنا چاہیے۔ بعض منزلوں میں تربوز اور بعض میں کھجور بھی مل جاتی ہے بری بڑی منزلوں میں رات کو سونے یا دن کو لیٹنے یا بیٹھنے کے لیے بان کے اونچے اونچے تکیہ دار کھاٹ مناسب کرایہ پر مل جاتے ہیں۔ گوشت کی بنی ہوئی چیزیں تو گرم موسم میں زیادہ ٹھہر نہیں سکتیں، البتہ ستو، بسکٹ، مکھن وغیرہ اگر اس سفر میں ساتھ رہیں تو کھانے کا مسئلہ با آسانی حل ہوتا رہتا ہے سڑکیں اچھی بری کیا معنی، کہنا چاہیے کہ سرے سے ہیں ہی نہیں چلتے چلتے جو راستہ بن گئے ہیں انھیں کا نام سڑک رکھ لیا گیاہے۔ حیرت ہے کہ سعودی حکومت جولاریوں، موٹروں کی سرپرستی میں اتنی عالی ہمتی دکھا رہی ہے (شاید اس لیے کہ موٹر کمپنیوں سے خوب بھاری بھاری تیکس وصول ہوتے رہتے

 ہیں) سڑکوں کی تعمیر کی طرف سے اس درجہ غافل و بے پروا ہے (شاید اس لیے کہ سڑک کوئی آمدنی کی مد نہیں، محض خرچ ہی خرچ کا  کام ہے) حالانکہ بہتر سے بہتر سواری بھی بغیر اچھی سڑک کے بیکار ہے۔ راستہ کی اسی ابتری کا نتیجہ ہے کہ سواری کی دو لاریوں کے ساتھ حوادث ناگہانی کے اندیشہ سے ایک ایک خالی لاری بھی رکھی جاتی ہے اور یہ اندیشہ محض موہوم نہیں اکثر ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں، خود ہمارے ساتھ جو لاری زنانہ قافلہ کی تھی دوپہر کے وقت ایک جگہ ریت میں دھنس گئی اور کسی سے ہٹ نہ سکی، مجبوراً  سواریوں کو اس خالی لاری میں منتقل کرنا پڑا۔

              موٹریں روانہ ہوئیں اور شب کی تاریکیوں میں سفر شروع ہوا، کس کا سفر کہاں کا شروع ہوا؟— کون بتائے؟ کس کی زبان جواب دے؟ حاضری کی اجازت اسے مرحمت ہورہی ہے، جس کے نامۂ اعمال کی سیاہیاں شاید شب تارکی تاریکیوں سے بھی سیاہ تر ہیں۔ حضوری اس کے آستانہ پر ہورہی ہے جو خود الطارق بنکر رات کی تاریکیوں کو منور کرنے آیا جس کا ظہور اس گھڑی ہوا جب دنیا پر تاریکیوں اور سیاہیوں کے ایک سے ایک گہرے پردے پڑے ہوئے تھے، اور جو اپنے ہمراہ نور اور اُجالا لے کر آیا— ایں! یہ دل کیوں دھڑکتا جاتا ہے؟ یہ آنکھیں کیوں پُر نم ہورہی ہیں؟ یہ زبان کیوں خشک ہوئی چلی جاتی ہے؟ سامنا اس کا تو نہیں جو محض حاکم و آمر ہے، شارع و داعی ہے، دودھ کا دودھ پانی کا پانی الگ کرنے والا ہے۔ حاضری تو اس کے دربار کی ہے جو ہمہ رحمت وہمہ مرحمت ہے، جو بدکاروں کی پردہ پوشی کرنے والا ہے، جس کا نام شفیع المذنبین ہے۔ یعنی نیکوں اور پاکوں کا نہیں، گناہگاروں کا نجات دلانے والا، تباہ کاروں کا سہارا ! یہ سب کچھ سہی یہ سب صحیح، پر دل اب بھی اپنے قابو میں نہیں، نفس کی شرارتیں، اندر کی خباثتیں قلب کی قساوتیں ایک ایک کرکے بے پردہ بے نقاب سامنے آرہی ہیں! اور ریا و نفاق کا جامہ ہر ہر لمحہ چاک ہورہا ہے، جدہ سے نکلتے ہی ریت شروع ہوجاتی ہے راستہ کا بیشتر حصہ بالکل رتیلا ہے اور جب مدینہ طیبہ کی مسافت بقدر ایک ثلث رہ جاتی ہے تو پہاڑیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور زمین بالکل پتھریلی ملنے لگتی ہے، ان ناہمواریوں کا قدرتی نتیجہ یہ ہے کہ لاریاں گویا اچھلتی ہوئی چلتی ہیں اور دھکے دھچکے قدم قدم پر لگتے رہتے ہیں، ادھر دھچکا لگا اور ادھر زبان اعتراض پر کھلی! — اے ریاکار! آج تیری اصلیت ظاہر ہوگئی ہے! اے ظاہر دار اس وقت تیری کیچلی اُتر رہی ہے، جب قوالی کی محفلوں میں یا شاعری کی دنیا میں دشت یثرب میں ناقہ کے پیچھے دوڑتے رہنے" کا یا تلووں میں خارصحرائے مدینہ کے چبھنے" کا ذکر آتا تھا، تو خوب گردن ہلا ہلا کر چھومتا تھا، جوش و مستی کا اظہار کرتا تھا اور ہمہ تن اشتیاق و تمنابن بن جاتا تھا، پھر آج تو یہ منظر سامنے ہے تصور و خیال میں نہیں، مادی آنکھوں کے روبرو ہے۔ اس خاک کا سرمہ آنکھوں میں کیوں نہیں لگاتا؟ یہاں کے کانٹوں کو اپنے پیروں میں کیوں نہیں چبھنے دیتا؟ اس دشت میں "جیب و گریباں کی دھجیاں اڑاتے ہوئے کیوں نہیں دوڑ لگاتا؟ محبت رسولؐ کے دعوے زبانی تھے، دوستوں اور معتقدوں کے مجمع میں عشق سرکار مدینہ کی خوب خوب لاف زنی ہوتی تھی آج سارے دعووں کی حقیقت کھل گئی، مرکز نور سے جوں جوں قرب حاصل ہوتا جاتا ہے، ہر شے کی اصلیت سے نقاب اٹھتا جارہا ہے۔ اے نفس کے غلام! کیا تو یہ سمجھے ہوئے تھا، کہ تیری ریاکاری اور ظاہر داریوں پر پردہ یوں ہی پڑا رہنے دیا جائے گا؟

       ہماری طرح خدا معلوم کتنی اور موٹریں اور لاریاں سواریوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی اسی راستہ پر چل رہی ہیں۔ ہزارہا انسان اونٹوں کے قافلوں میں چلتے ہوئے مل رہے ہیں، سیکڑوں آدمی پیدل سفر کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، ان میں عورتیں بھی ہیں اور مرد بھی، بوڑھے بھی ہیں اور بچے بھی، غریب بھی ہیں اور امیر بھی بنگالی بھی ہیں اور پنجابی بھی، دکھنی بھی ہیں اور گجراتی بھی، حجازی بھی ہیں اور نجدی بھی مصری بھی ہیں اور سوڈانی بھی، جاوی بھی ہیں اور چینی بھی، برمی بھی ہیں اور بخاری بھی، افغانی بھی ہیں اور مراقشی بھی، یہ سب کے سب وطن اور عزیزان وطن کو چھوڑے ہوئے۔ تپتی ہوئی ریگ میں چلچلاتی ہوئی دھوپ میں کشمیر اور شملہ کو چھوڑ کر سبزہ زاروں اور آبشاروں کو بھلاکر، بھوک اور پیاس کی مشقتیں جھیلتے ہوئے اور گرد و غبار میں غسل کرتے ہوئے کہاں کو چل رہے ہیں؟ راؔمپور کے حاتم وقت رئیس کلب علی خاں کو کس راستہ کی خاک پھانکنے پر فخر تھا؟ بھوؔپال کی اہل دل فَرمانروا سلطان جہاں بیگم کو کس کے آستانہ کی گدائی پر ناز رہا ہے! مملکت آصفیہ کے تاجدار میر عثمان علی خاں نامدار کے دل کو آج بھی کس کے کوچہ کی آرزوئے جاروب کشی تڑپائے ہوئے ہے؟ محمدؐ کے نام سے ابوجہل اور ابو لہب کی طرح جلنے والے محمدؐ کی سیرت پاک کو اپنی ناپاکیوں اور گندگیوں پر قیاس کرکے مسخ کرکرکے پیش کرنے والے آج کاش اپنے اپنےا متی کے گھروندوں سے باہر نکل کر دیکھیں کہ اس دور یا جوجیت، اس غلبۂ دجالیت کے باوجود دنیا کی کسی یونیورسٹی اور کسی کالج میں کسی جامعہ اور کسی اکاڈیمی میں، کسی کتب خانہ اور کسی تجربہ گاہ میں کسی "ماہرفن" کے لکچر روم میں کسی پروفیسر کے حلقۂ درس میں، وہ کشش اور دلکشی وہ قوت جذب ہے جو اس مقام میں ہے، جہاں اس امی کاجد ظاہری آرام فرما رہا ہے جو اپنے رب کی سب سے زیادہ تعریف کرنے والا (احمدؐ) تھا اور جس کو اس کے رب نے "تعریف کیا گیا" (محمدؐ) کہہ کر پکارا؟۔

http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/