آب بیتی الحاج محی الدین منیری علیہ الرحمۃ -07-ادارہ تعلیمات اسلام میں داخلہ

تحریر : عبد المتین منیری
میری ابھی شادی ہوچکی تھی ، تعلیم نامکمل ہونے کا احساس دل میں شدت سے ستانے لگا اور اس کا خبط سرپرسوار ہوگیا ۔ محی الدین مومن اس وقت بمبئی میں رہتے تھے ، انہیں ساتھ لے کر لکھنو روانہ ہوگیا۔ اس وقت مولانا عبدالحمید ندوی بھٹکل چھوڑ چکے تھے ، لکھنو کے محلہ نظیرآباد میں انہوں نے کپڑے کی ایک دکان لگائی تھی ، میں مولانا کے پاس نظیر آباد جاکر اترا، اور تعلیم مکمل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ یہ مولانا عمران خان ندوی مرحوم کے دارالعلوم ندوۃ العلماء میں اہتمام کا دور تھا۔ ابھی چند روز قبل آپ کا انتقال ہوا ہے ، بڑی رعب دار شخصیت کے مالک تھے ، ان کے ہاتھ میں ایک موٹا ڈنڈا ہوا کرتاتھا ، ایسا محسوس ہوتا کہ کسی کے سرپروہ پڑجائے تو ا س کا کام تمام کردے۔
میں جب ندوہ داخلہ کے لئے گیا اسٹرائک زوروں پر تھی ،چہار سوایک فساد برپا تھا، جب میں نے داخلہ کی درخواست دی تو عمران خان صاحب نے یہ کہہ کر میری درخواست مسترد کردی کہ مجھے کچھ آتا نہیں ہے۔ اب کیا کریں ، ناچار مولانا ندوی ؒ کی دکان پر وقت گزرنے لگا ۔ مولانا عمران خان دکان کے پاس اپنے ایک دوست مطلوب الرحمن سے ملنے ،بڑی آواز سے مطلوب الرحمن صاحب کہتے ہوئے تشریف لاتے ، ان کی آواز سن کر دل کڑھتا کہ اس شخص نے مجھے تعلیم سے محروم کردیا ۔ اس وقت نہ میری کوئی حیثیت تھی ، نہ زبان کھولنے کی طاقت، ایک مجبوری کی حالت تھی۔
اسٹرائک کی وجہ سے مولانا عبدالسلام قدوائی ندوی مرحوم نے ادارہ تعلیمات اسلام کے نام سے ایک ادارہ ندوہ سے نکل کر قائم کیا تھا۔ وہ بڑے زیرک عالم دین تھے، وکیلوں ، کالج کے فارغین ، پروفیسروں کے لئے علحدہ علحدہ ایک ایک گھنٹہ مخصوص کرکے انہوںنے روزانہ درس کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ انہیں میں نے مولاناعمران خان کے میرے ندوہ میں داخلہ نہ کرنے کی اطلاع دی ، اور گذارش کی کہ میں سیکھنا چاہتاہوں ، آپ کے کسی مناسب گروپ کے ساتھ مجھے بٹھا دیجئے ، اس طرح دوماہ تک ان کی خدمت میں حاضر ہوکر سیکھتا رہا، وہ روزانہ ایک ایک موضوع کو منتخب کرکے درس دیتے ۔
ان کے رفقاء میں ایک مولانا عبدالغفار ندوی بھی تھے ۔ چھوٹی چھوٹی کتابیں لکھ کر ادارہ تعلیمات اسلام کے نام سے شائع کرتے ۔ وہ مولانا مودودی ؒ کے ابتدائی ساتھیوں میں سے تھے ۔ جماعت اسلامی میں ان کاایک مقام تھا ، دوچار سال قبل ندوہ میں ان سے ملاقات ہوئی تھی ، کافی بوڑھے ہوچکے ہیں ، پرانی یادیں تازہ کرنے پر بڑے خوش ہوئے اور قدر ومنزلت کا معاملہ کیا۔
وہیں پر مولانا ابراہیم عمادی سے ملاقات ہوئی ، آپ ندوہ میں مولانا سید ابوالحسن ندوی کے ہم عصر ساتھیوں میں تھے۔ عرصہ تک انہوںنے بمبئی کے بیگ محمد ہائی اسکول میں پڑھایا ، یہاں پڑھے ہوئے قدیم طلبا انہیں خوب پہچانتے ہیں، بڑی دردمندی سے وہ مجھے سمجھانے لگے کہ ادارہ تعلیمات میں تین گھنٹہ روزانہ پڑھنے سے کیا بنے گا، سارا دن تو ضائع جارہاہے، علی گڑھ جاکر میٹرک کا امتحان دینے کی کوشش کیوں نہیں کرتے ، ان کی اس ہدایت پر میں علی گڑھ کے لئے روانہ ہوا۔