نومبر 07 :-: نامور  شاعر اور برصغیر پاک و ہند کے آخری مغل فرماں روا بہادر شاہ ظفرّ کا یوم وفات ہے

Bhatkallys

Published in - Other

12:27PM Thu 9 Nov, 2017
از: ابوالحسن علی بھٹکلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہادر شاہ ظفرؔ کا پورا نام ابو ظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ تھا۔ان کی ولادت ان کے والد اکبر شاہ ثانی کے زمانہ ولی عہدی میں ان کی ہندو بیوی لال بائی کے بطن سے ہوئی۔ظفرؔ کی تاریخ پیدائش 28 شعبان 1189ھ مطابق 14 اکتوبر 1775ء ہے۔وہ ہفتے کے روز غروبِ آفتاب کے وقت پیدا ہوۓ تھے۔ابو ظفرؔ ان کا تاریخی نام تھا۔جس کے اعداد 1189 ہوتے ہیں۔اپنے تاریخی نام ابو ظفرؔ کی رعایت سے ہی انھوں نے اپنا تخلص ظفرؔ رکھا تھا۔بہادر شاہ ظفرؔ کے جد امجد شاہ اول(ابنِ اورنگ زیب) کا لقب بھی بہاد شاہ تھا اس لیے بہادر شاہ ظفر،بہادر ثانی کہلاتے تھے۔عرش تیمور کا بیان ہے کہ بہادر شاہ ظففر کا عرف مرزا بن تھا۔ بہادر شاہ ظفر کی تعلیم و تربیت قلعہ مُعلٰی میں پورے اہتمام کے ساتھ ہوئی اور انھوں نے مختلف علوم و فنون میں مہارت حاصل کی۔ شاہ عالم ثانی کا انتقال 1806ء میں اس وقت ہوا جب ظفرؔ کی عمر اکتیس برس تھی اس لیے یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ انھوں نے شاہ عالم ثانی کی صحبت کا فیض اٹھایا۔ شاہ عالم ثانی کی تربیت کے نتیجے میں پڑھیں کئی زبانوں پر قدرت حاصل ہو گئی۔چناچہ اردو اور فارسی کے ساتھ ساتھ برج بھاشا اور پنجابی میں بھی ان کا کلام موجود ہے۔ ظفرؔ منکسر المزاج اور خلیق انسان تھے۔ان کی طبیعت میں حلم و ترحم تھا اور نخوت و غرور کو ان کے مزاج سے دور کی نسبت تھی۔ شاہانہ عیش و عشرت کے ساتھ زندگی گزارنے کے باوجود انھوں نے کبھی شراب کو ہاتھ نہیں لگایا تھا۔ اکبر شاہ ثانی کے گیارہ لڑکے اور چھ لڑکیاں تھیں ظفرؔ ان میں سب سے چھوٹے بڑے تھے۔ظفرؔ سے چھوٹے مرزا بابر اور ان سے چھوٹے مرزا جہانگیر تھے جن کو بادشاہ ولی عہد بنانا چاہتے تھے۔مرزا جہانگیر سے چھوٹے مرزا سلیم تھے۔یہ بھی بادشاہ کے چہیتے تھے۔مرزا جہانگیر کے انتقال کے بعد اکبر شاہ ثانی  کی تمام کوشش یہی تھی کہ مرزا سلیم کو ولی عہد بنا دیا جاۓ انگریز اکبر شاہ ثانی کے سب سے بڑے لڑکے ابو ظفرؔ کے حق میں تھے۔اس لیے اکبر شاہ ثانی کو اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی اور بالآخر ظفر ہی ولی عہد منتخب ہوۓ۔ ظفرؔ کی ولی عہدی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مغل بادشاہوں کا یہ دستور تھا کہ وہ اپنا ولی عہد اور جانشین اس شہزادے کو مقررکرتے تھے جسے وہ اہل سمجھتے تھے یا جسے وہ پسند کرتے تھے۔کسی شہزادے کا محض فرزندِ اکبر ہونا ولی عہدی کی ضمانت نہیں تھا۔ شاہ عالم ثانی کے زمانے سے مغل بادشاہ انگریزوں کے پنشن خوار ہو گۓ تھے۔اس لیے ان کا دائرہ اختیار بھی تنگ ہو گیا تھا۔چنانچہ اکبر شاہ ثانی سے ایسٹ انڈیا کمپنی نے ولی عہدی کے انتخاب کا حق بھی چھین لیا۔اکبر شاہ ثانی کی ایک بیگم جن کا نام ممتاز محل تھا بادشاہ کی بہت چہیتی تھیں۔وہ اکبر شاہ ثانی کے منجھلے بیٹے مرزا جہانگیر کی والدہ تھیں۔بیگم ممتاز یہ چاہتی تھیں کہ ان کا فرزند ہی ولی عہد منتخب ہو۔انگریزوں کو اس تجویز سے اتفاق نہیں تھا۔ وہ اس کے برخلاف اکبر شاہ ثانی کے فرزند مرزا ابو ظفرؔ کو ولی عہد کا مستحق سمجھتے تھے۔یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ذاتی طور پر اکبر شاہ ثانی۔مرزا جہانگیر اور مرزا ابو المظفر میں کس کو زیادہ پسند کرتے تھے لیکن یہ ضرور ہے کہ ممتاز محل نے انھیں اس بات کے لیے پوری طرح طرح ہموار کر لیا تھا کہ وہ مرزا جہانگیر کی ولی عہدی کے لیے کوشش کریں۔ جنانچہ اکبر شاہ ثانی نے پہلے تو انگریزوں سے درخواست کی کہ وہ ان کے اس حق کو تسلیم کریں کہ انھیں ولی عہد منتخب کرنے کا اختیار ہے لیکن جب انگریزوں نے ان کی یہ بات نہ مانی اور وہ ابو المظفر کو ولی عہدی کا مستحق قرار دیتے رہے تو اکبر شاہ ثانی نے ظفرؔ پر یہ الزام لگایا کہ وہ نیک کردار انسان نہیں ہیں۔ادھر ظفرؔ نے بھی اپنے حق کے لیے کوششیں شروع کر دیں۔جب اکبر شاہ ثانی کو ظفرؔ کی اس کا گزاری کا علم ہوا تو وہ بے حد رنجیدہ ہوۓ اور انھوں نے عجلت سے کام لیتے ہوۓ مرزا جہانگیر کی جانشینی کی تاریخ مقرر کر کے گورنر جرنل کو اس کی اطلاع دے دی۔لیکن جب لارڈ منٹو کو یہ اطلاع ملی تو انھوں نے مرزا جہانگیر کو ولی عہد تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔اس کے بعد ایک آخری کوشش مرزا جہانگیر کی دادی یعنی اکبر شاہ ثانی کی والدہ کی طرف سے کی گئی۔1812ء میں وہ کسی بہانے سے لکھنؤ گئیں اور مرزا جہانگیر کو بھی اپنے ساتھ لے گئیں۔لکھنؤ میں انھوں نے نواب وزیر سے مدد حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن انگریزوں کو اس بات کا علم ہو گیا۔چنانچہ اس سلسلے میں بادشاہ کو سخت تنبیہہ کی گئی اور ان کا الاؤنس اس وقت تک بند کر دیا گیا جب تک کہ وہ انگریزوں کی ہدایات پر عمل نہ کرنے لگیں۔ خیر زمانے کو یہی منظور تھا کہ مغل سلطنت کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفرؔ ہوں اور ایسا ہی ہوا۔انگریزوں کی منشا کے مطابق وہ ولی عہد منتخب ہوۓ اور اکبر شاہ ثانی کے انتقال کے بعد تخت پر بیٹھے۔ اکبر شاہ ثانی کے انتقال کے بعد بہادر شاہ ظفر کی تخت نشینی کا ذکر کرتے ہوۓ اخبار جامِ جہاں نما لکھتا ہے: چھ گھڑی رات باقی تھی کہ طامس مٹکاف سوار ہو کر قلعے تشریف لاۓ۔مرزا ولی عہد بہادر کو تختِ سلطنت پر جلوس کرایا ،ایک سو بیس اشرفیاں نذر کیں اور پانچ اشرفیاں ولی عہد جدید مرزا دارا بخت کو نذر کیں 25 اکتوبر 1837ء(فارسی سے ترجمہ) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آمدنی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہادر شاہ ظفر کے والد اکبر شاہ ثانی کو انگریزی سرکار سے ایک لاکھ  روپے ماہانہ پنشن ملتی تھی لیکن ان کے پاس اپنے والد شاہ عالم ثانی کا اندوختہ بھی تھا اس لیے وہ نسبتاۤ آسائش کے ساتھ بسر کرتے رہے۔آخر عمر میں جب یہ اندوختہ ختم ہو گیا اورمحض سرکاری پنشن میں اضافے کا مطالبہ کیا۔لیکن اس مطالبے پر انگریزوں نے توجہ نہیں کی ۔چنانچہ اس سلسلے میں اکبر شاہ ثانی نے راجا رام موہن راۓ کو اپنا سفیر بنا کر انگلستان کے لیے روانہ کیا۔راجا رام موہن راۓ کا قیام انگلستان میں تین برس رہا اور وہیں بالآخر وہ فوت ہو گۓ۔راجا رام موہن راۓ کے مشن کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔بہادر شاہ ظفر کی تخت نشینی کے وقت لال قلعے میں شاہی ٹھاٹ باٹ کے اعتبار سے عسرت اور تنگدستی کا زمانہ تھا۔اخراجات کا وہی عالم تھا اور آمدنی کے ذرائع مسدود تھے۔جس طرح بہادر شاہ ظفرؔ کے والد نے راجا رام موہن راۓ کی خدمات حاصل کی تھیں اسی طرح ظفرؔ نے بھی اپنی مطلب برآری کے لیے ایک انگریز کو منتخب کیا تھا۔اس انگریز کا نام جارج طامس تھا،اس شخص کی تحریر و تقریر کی بڑی شہرت تھی اور اسے ہندوستانی زبان زبان پر عبور کامل تھا۔ جارج طامس بہادر شاہ ظفرؔ کے سفیر بن کر انگلستان گۓ اور انھوں نے وہاں وہی فرائض انجام دینے کی کوشش کی،جو راجا رام موہن راۓ نے کی تھی لیکن ایسا لگتا ہے کہ جارج طامس کی کوششوں کا بھی پہلا جیسا ہی انجام ہوا۔ بہادر شاہ ظفرؔ کو برٹش گورننمنٹ کی طرف سے بارہ لاکھ روپے وظیفے کے علاوہ کچھ اور مالی امداد بھی ملتی تھی لیکن اس کی صورت یہ تھی عیدین۔نوروز یا بادشاہ کی سالگرہ کے دن گورنر جنرل اور کمانڈ انچیف کی طرف سے بادشاہ کو نذر پیش کی جاتی تھی۔اس طرح کچھ رقم بادشاہ کو ان تقریبات کے اخراجات کے لیے مل جاتی تھی۔لیکن بعد میں یہ سلسلہ ختم کر دیا گیا اور بادشاہ کی آمدنی کا یہ ذریعہ بند ہو گیا۔بڑی تگ و دو کے بعد سات آٹھ سال بعد جا کر نتیجہ برآمد ہوا کہ تہوار اور تقاریب کے لیے خرچ تین لاکھ روپے سالانہ یعنی پچیس ہزار روپے ماہانہ کا اضافہ ہوا۔(سخت شرائط کے ساتھ) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہادر شاہ ظفر کے اخراجات زیادہ اور آمدنی کم تھی جس وجہ سے انھیں بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا قرضے لینے پڑے ملازمین کی تنخواہوں کے لالے پڑے۔بہادر شاہ ظفرؔ کے اختیارات قلعے کی چار دیواری تک ہی محدود تھے لیکن اس کے باوجود وہ خود کو سچ مچ کا بادشاہ سمجھتے تھے اور شاہانہ ٹھاٹ باٹ سے ہی زندگی گزارنے کی کوشش کرتے تھے۔اکثر خزانے میں پھوٹی کوڑی بھی نہیں بچتی تھی اور انھیں قرضے لینا پڑتے تھے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عیش و عشرت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہادر شاہ ظفرؔ کیسے بھی بادشاہ سہی لیکن بادشاہوں جیسی رنگین طبیعت انھوں نے بھی پائی تھی۔ اگرچہ ان کے پاس نہ روپے کی فراوانی تھی اور نہ وہ شان و شوکت لیکن اپنے پیش رووں کی طرح عیش و عشرت کے دلدادہ بھی تھے۔انھوں نے شراب نوشی تو نہیں کی لیکن عیش کوشی کے بعض اور سامان انھیں بھی میسر رہے۔65 برس کی عمر میں انھوں نے زینت محل بیگم سے شادی کی ،71 برس کی عمر میں شاہ آبادی بیگم سے نکاح کر لیا اور 72 برس کی عمر میں ایک مطربہء زہرہ پیکر پر فریفتہ ہو گۓ اور اسے بھی نکاح کر لیا اور اسے اختر محل کے خطاب سے نوازا۔بہادر شاہ ظفرؔ طوائفوں کا ناچ بڑے شوق سے دیکھتے تھے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ظفرؔ کی بیماری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہادر شاہ ظفرؔ نے طویل عمر پائی تھی۔ باسٹھ سال کی عمر میں وہ تخت نشین ہوۓ۔چوں کہ وہ طبعی عمر کو پہنچ چکے تھے اس لیے انگریزوں کو بے چینی کے ساتھ ان کی موت کا انتظار تھا۔انگریز بہادر شاہ ظفرؔ کی آنکھ بند ہوتے ہی اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنا دینا چاہتے تھے۔ جب ان کی عمر لگ بھگ اٹھتر سال تھی تو وہ کسی موذی مرض کا شکار ہو گۓ۔ اسپیرؔ نے بادشاہ کی بیماری کا تذکرہ کرتے ہوۓ ایک جگہ لکھا ہے: بہادر شاہ ظفرؔ کو ایسی کوئی بیماری نہیں ہوئی جس کا شکار عام طور پر مغل بادشاہ کثرتِ شراب نوشی کے سبب ہوا کرتے تھے۔شراب نوشی کے سوا بہادر شاہ نے مغل بادشاہوں کے تمام شوق پورے کیے۔1853ء میں ان پر آنتوں کی بیماری کا حملہ ہوا اور ابھی وہ اس سے پوری طرح شفا یاب بھی نہیں ہوۓ تھے کہ کثرت عیاشی نے انھیں موت کے منہ پر لاکھڑا کیا۔آم کا شوق ہند کے باشندوں کی ایک عام کمزوری ہے۔بادشاہ بھی اس کمزوری کا شکار تھے۔بادشاہ پر جب آنتوں کی بیماری کا پہلا حملہ ہوا تو اس کا سبب یہ تھا کہ انھوں نے آم اور سرخ مرچ کا مرکب کھایا تھا اس کے بعد جب دہلی کے ریزیڈنٹ نے انھیں اور آم بھیجے تو انھوں نے وہ آم بھی کھا لیے۔(انگریزی سے ترجمہ) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسپیرؔ کے قول کے مطابق بادشاہ کو یہ جان لیوا مرض 1853ء میں لاحق ہوا۔اسوقت ولی عہد دارا بختؔ کا انتقال ہوۓ چار برس ہو چکے تھے اور انگریزوں اور بادشاہ کے درمیان ولی عہدی کا جھگڑا شباب پر تھا۔انگریز بادشاہ کی مرضی کے خلاف مرزا فخروؔ کو قلعہ خالی کر دینے کی شرط پر ولی عہد تسلیم کر چکے تھے اور اب انگریزوں کو اپنے منصوبوں کی تکمیل کے لیے بادشاہ کی موت کا بے چینی سے انتظار تھا ۔سی۔ایف اینڈریوس نے اس ضمن میں ایک واقعہ نقل کیا ہے جو ہو سکتا ہے اس بیماری سے متعلق ہو جس کا ذکر اسپیرؔ کے حوالے سے اوپر آ چکا ہے۔ اینڈریوس لکھتا ہے: ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ شہنشاہ بہادر شاہ ظفرؔ بیمار ہو گۓ اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ اس بیماری سے جاں بر نہ ہو سکیں گے۔برطانوی ایڈمنسٹریٹر نے صرف اس خیال سے کہ کہیں شہنشاہ کا انتقال ہوتے ہی حصولِ تخت کے لیے شہزادوں میں باہمی تنازعات نہ شروع ہو جائین قلعے کے دروازوں پر سپاہیوں کی ایک پلٹن بٹھا دی جنھیں یہ احکام دیے گۓ تھے کہ وہ ایک قدم آگے نہ بڑھیں اور نہ کسی طرح سے مداخلت ہی کریں ۔قلعے کے ملازموں نے بوڑھے بیمار بادشاہ کو اس واقعے کی اطلاع دی۔جب انھوں نے یہ خبر سنی تو برطانوی کمشنر کے نام جو شہر کے باہر رہا کرتا تھا یہ پروقار درخواست لکھ بھیجی: جناب عالی کیا آپ کا خیال یہ ہے کہ میری لاش انگریزوں سے جنگ کرے گی۔ کیا مجھے اطمینان و سکون کے ساتھ مرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ جب کمشنر موصوف کو یہ پیغام ملا اس نے معذرت کے ساتھ سپاہیوں کی پلٹن کو فوراۤ واپس بلا لیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بیگمات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہادر شاہ ظفرؔ کی شادی کا سلسلہ لڑکپن کی عمر سے شروع ہو گیا تھا یہاں تک کہ اپنے تخت نشین ہونے سے پہلے ہی وہ پوتوں پوتیوں والے بن چکے تھے۔بہادر شاہ ظفرؔ کی بیگماتت کی صحیح تعداد کا پتا نہیں چلرا ۔مختلف ذرائع سے جو چند نام سامنے آتے ہیں ان میں شرافت محل بیگم،زینت محل بیگم، تاج محل بیگم،شاہ آبادی بیگم، اختر محل بیگم اور سردار محل بیگم کے نام ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اولاد و اخلاف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عرش تیموری نے بہادر شان ظفر کی اولاد یعنی بیٹوں اور بیٹیوں کی جو تفصیل بیان کی ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ ان کے سولہ لڑکے اور اکتیس لڑکیاں تھیں بیٹے: مرزا دارا بخت بہادر میراں شاہ ولی عہد اول،مرزا محمد شاہ رخ بہاد ،وزیراعظم و مختار عام،مرزا کیومرث بہادر ولی عہد دوم بقول مرزا غیاث الدین مصنف باغ شاداب،مرزا محمد شاہ رخ وزیر اعظم و مختار عام،مرزا قویش بہادر جو زمانہ غدر میں ولی عہد کے مستحق تھے، مرزا ظہیر الدین عرف مرزا مغل بہادر،مرزا فرخندہ بخش بہادر،مرزا خضر سلطان بہادر،مرزا بختاور شاہ بہادر،مرزا سہراب ہندی، مرزا ابو النصر،مرزا محمدی بہادر، مرزا عبداللہ بہادر،مرزا کوچک سلطان بہادر،مرزا شاہ عباس بہادر اور مرزا جواں بخت بہادر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بیٹیاں: کاشفہ بیگم، ننھی بیگم، آغا بیگم، بلاقی بیگم، براقی بیگم، شبیہہ بیگم،مکھولی بیگم، دبیر النساء بیگم،حسن زمانی بیگم،نواب بیگم،حاجی بیگم،کلثوم بیگم، جمیا بیگم،اورنگ زمانی بیگم،پیاری بیگم،بستی بیگم،ننھی بیگم،حمید الزمانی بیگم،ثالث زمانی بیگم،قطبی بیگم،بلاقن بیگم،مریم زمانی بیگم، رابعہ بیگم،حاتم زمانی بیگم، قریشیہ سلطان بیگم، سلطان زمانی بیگم، خیرا النساء بیگم، ستاری بیگم، افسر زمانی بیگم ، تہنیت آرا بیگم اور خاتون زمانی بیگم۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 1857ء ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 1857ء کی تحریک انقلاب میں جسے انگریزوں نے "غدر" کا نام دیا ہے ملک کے مختلف طبقوں نے اپنے اپنے مخصوص نقطہء نظر سے حصہ لیا تھا۔ اس انقلاب میں فوج کے علاوہ حکمران حکمران طبقہ ملازمت پیشہ اور طبقہ علما سبھی طرح کے لوگ شامل تھے۔ان سب کے مقاصد جدا جدا تھے لیکن چونکہ سبھی کو ایک مشترکہ دشمن کا سامنا تھا اس لیے وہ بظاہر آپس میں متحد تھے۔ہنگامے کی ابتدا تو تقریباۤ 26 فروری 1857ء کو ہو چکی تھی  اسی دن منگل پانڈے کے خون میں جوش آیا اور اس نے میجر ہڈسن کو گولی کا نشانہ بنایا اور ساتھ ہی کیپٹن واگھ کو بھی ختم کر دیا۔اپریل کے مہینے میں میرٹھ،انبالہ اور لکھنؤ وغیرہ میں بہت سے انگریزوں کے مکانات جلا دیے گۓ۔10 مئی کو میرٹھ میں ہنگامہ برپا ہوا جیل کی دیواریں گرا دی گئیں اور ہندو مسلم سپاہ انگریزوں کا خاتمہ کرنے پر تل گئیں۔11 مئی کو پیر کے روز صبح آٹھ بجے یہ لوگ دین دین کے نعرے لگاتے ہوۓ دہلی میں داخل ہوۓ۔26 فروری سے 11 مئی تک تقریباۤ ڈھائی مہینے ملک کے مختلف مقامات میں فوجی بد نظمی اور انگریزوں کے کشت و خون کی وارداتیں ہوتی رہیں لیکن بہادر شاہ ظفرؔ ان تمام معاملات سے قطعی بے تعلق تھے۔11 مئی کی صبح کو جب بادشاہ حسب معمول بیدار ہوۓ تو انھوں نے غیر متوقع طور پر انقلابیوں کو انگریزوں کے خلاف سرگرم عمل پایا ۔بادشان ان معاملات سے اتنے بے تعلق تھے کہ شروع میں انھیں یہ بھی اندازہ نہیں ہو سکا کہ اس ہنگامے کی نوعیت کیا ہے۔اور جب کچھ دیر بعد بادشاہ کے علم میں یہ بات آ گئی کہ یہ جم غفیر ان ہندوستانی سپاہ کا ہے جنھوں نے انگریزوں کے خلاف بغاوت کر دی ہے تو یہ بات ان کے لے اور بھی پریشان کن تھی۔چنانچہ شروع میں انھوں نے کوشش کی کہ باغی سپاہ اپنے ارادے سے باز آ جائیں انھوں نے انگریزوں کو بھی اپنی مدد  کے لیے قلعے میں بلا بھیجا اور باغی سپاہیوں سے یہاں تک کہا کہ وہ انگریزوں سے صلھ صفائی کرا دیں گے۔گویا اس وقت بادشاہ ظفرؔ کی حیثیت باغیوں اور انگریزوں کے درمیان ایک ثالث ایک غیر جانب دار ادارے کی سی تھی۔اسوقت بادشاہ باغیوں سے بہت برہم تھے ان کا خیال تھا کہ باغیوں نے دہلی آ کر ان کا سکون برباد کر دیا ہے ۔وہ خود کو اس لائق نہیں سمھجتے تھے کہ باغیوں کی قیادت کر سکیں لیکن ایک دو روز کے اندر دہلی پر انقلابیوں کا پوارا قبضہ ہو گیا تو بادشاہ کو اس بات پر زبردستی مجبور کیا گیا کہ وہ اس تحریک کی قیادت اپنے ہاتھ میں لیں بادشاہ نے شروع میں اس اعزاز کو بادل نخواستہ قبول کیا لیکن جیسے جیسے تحریک زور پکڑتی گئی وہ اس میں مبتلا ہوتے چلے گۓ اور پھر وہ آخرِ وقت تک تحریک کے ساتھ رہے۔جس طرح اس بات کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ بہادر شاہ ظفرؔ ہی 1857ء کی تحریک انقلاب کے بانی تھے اسی طرح یہ ثابت کرنا بھی مشکل بلکہ ناممکن ہے کہ 12 مئی سے 14 ستمبر کے درمیانی عرصے میں انگریزوں کے ساتھ ان کی کوئی خفیہ ساز باز تھی یا یہ کہ تحریک کے دوران انھوں نے کسی قسم کی غداری کا ثبوت دیا۔ اس تحریک میں بہت سی کوتاہیاں اور کم زوریاں تھیں ۔اس لیے تحریک نے جلد ہی دم توڑ دیا اور اسی کے ساتھ مغل حکومت کے آخری چشم و چراغ اور نام نہاد بادشاہ بہادر شاہ ظففرؔ کو بھی لے ڈوبی۔14 ستمبر سے 19 ستمر تک لگاتار پانچ دن تک شہر میں قتل و غارت کی گرم بازاری رہی۔19 ستمبر کو ہفتے کے روز بادشاہ نے قلعہ چھوڑ دیا اور بیگمات اور شہزادوں کے ساتھ نظام الدین چلے گۓ۔تین روز تک بہادر شاہ ظفر اور ان کا خاندان ہمایوں کے مقبرے میں بت سروسامنی کے عالم میں پڑے رہے۔بخت خان بادشاہ کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتا تھا تا کہ دہلی ہاتھ سے نکل جانے کے باوجود یہ جنگ بہادر شاہ ظفرؔ کے جھنڈے تلے جاری رکھی جا سکے۔دوسری طرف انگریز اس خطرے کو محسوس کرتے ہوۓ شہنشاہ کو گرفتار کرنا چاہتے تھے۔انھیں ڈر تھا کہ اگر بادشاہ فرار ہو گۓ تو وہ ہندوستان گیر تحریک کا مرکز بنے رہیں گے لیکن دہلی کی فتح کے بعد اب بہادر شاہ ظفرؔ پہلے سے بھی زیادہ کمزور اور بزدل ہو گۓ تھے۔دوسری طرف انگریزوں کے وفادار اس کوشش میں لگے ہوۓ تھے کہ بادشاہ کو گرفتار کرا کے وہ انگریزوں کے حلقہ مقربین میں داخل ہو جائیں چنانچہ اس طرح مرزا الٰہی بخش کی کوششوں سے 21 ستمبر کو میجر ہدسن نے بادشاہ اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کو جاں بخشی کی ضمانت پر گرفتار کر لیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ظفرؔ کی بے چارگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گرفتاری کے بعد دہلی میں ظفرؔ نے بقیہ دن بہت ہی بے چارگی کے عالم میں گزارے بعض معاصرین نے ان کی اس بے چارگی کا نقشہ بڑے رقت آمیز انداز میں بیان کیا ہے۔گرتھس نام کے ایک یورپی باشنے نے بادشاہ کو ان کی گرفتاری کے اگلے روز یعنی 22 ستمبر کو دیکھا۔وہ لکھتے ہیں: مکان کے صحن میں ایک معمولی سی کھاٹ پر ایک گدا بچھا ہوا تھا اور اس پر سلطنتِ مغلیہ کا آخری تاج دار ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھا تھا۔ اس کی موجودہ ہئیت میں کوئی علامت جاہ و جلال کی نہ تھی ۔ایک سفید دراز ریش جو سینے تک لٹکی ہوئی تھی۔ میانہ قد ستر برس سے زیادہ عمر۔ وہ سفید لباس پہنے ہوۓ تھا، سفید ہی رنگ کی ایک مخروطی شکل کی پگڑی اس کے روبرو دھری تھی۔دو ملازم اس کی پشت پر کھڑے مورچھلوں سے ہوا کر رہے تھے۔مورچھل جو شہنشاہیت کی علامت تھے۔ یہ مورچھل ایک ایسے شخص کے لیے، جو اپنا تمام شاہانہ ٹھاٹھ باٹ کھو چکا تھا اور اس وقت اپنے دشمن کی قید میں تھا ایک قابلِ رحم دھوکا تھے۔اس کے منھ سے ایک لفظ بھی نہ نکلتا تھا۔وہ دن رات خامش بیٹھا رہتا۔اس کی نگاہیں فرش پر گڑی رہتیں۔ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے وہ اپنی موجودہ حالت سے بلکل بے نیاز ہے۔بادشاہ کی چارپائی سے تین فٹ کے فاصلے پر ایک چارپائی مڑی تھی، اس پر وہ افسر بیٹھا تھا جو یہاں تعینات تھا ۔دو یورپین گشتی سنتری بھری ہوئی بنفوقیں لیے بادشاہ کے دونوں طرف کھڑے تھے۔افسر کو اختیار دیا گیا تھا کہ اگر بادشاہ فرار ہونے کی ذرا بھی کوشش کریں تو انھیں فوراۤ گولی مار دی جاۓ۔(انگریزی سے ترجمہ) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ظفرؔ کا مقدمہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہادر شاہ ظفرؔ 22 ستمبر 1857 کو ہمایوں کے مقبرے سے گرفتار کیے گۓ۔ چار ماہ اور چھ روز تک وہ ناظر حسین مرزا کے تنگ و تاریک مکان میں انتہائی مجبوری اور بے بسی کے عالم میں قید رہے۔اس دوران ہر لمحہ ان کے سر پر خوف منڈلاتا رہا ہو گا کہ نہ جانے کب انگریز انھیں اور ان کے متعلقین کو قتل کر ڈالیں ۔انگریزوں کو اب یہ طاقت حاصل ہو گئی تھی کہ دنیا کی کوئی قوت اور دنیا کا کوئی قانون انھیں مجبور نہیں کر سکتا کہ وہ بادشاہ کے ساتھ کوئی منصفانہ یا ہمدردانہ سلوک کریں، لیکن ان کے نام نہاد لبرزم کا تقاضا تھا کہ وہ بادشاہ کو من مانی سزا دینے سے پہلے ان پر مقدمہ چلائیں اور پھر انھیں مجرم ثابت کر کے سزا دین۔ بہادر شاہ ظفرؔ کے مقدمے کی کاروائی لال قلعے کے دیوان خاص میں عمل میں لائی گئی ۔کاروائی 27 جنوری 1558ء کو بدھ کے روز یورپین فوجی کمیشن کے تحت کرنل ڈیوس کی صدارت میں شروع ہوئی ۔مقدمے کی کاروائی عدالت کی بائیس نشستوں میں مکمل ہوئی اور بالآخر 9 مارچ 1858ء کو یہ مقدمہ کمپنی کے حق میں اور بادشاہ کے خلاف فیصل ہوا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ظفرؔ رنگون میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہادر شاہ ظفرؔ اپنے قافلے کے ساتھ 9 دسمبر 1858ء کو رنگون پہنچے۔ سیاسی قیدی جب رنگون پہنچے تو اس وقت تک ان کے قیام کا کوئی معقل انتظام نہیں ہوا تھا اس لیے ان کو مین گارڈ کے احطاے مین ٹھرایا گیا ۔ان میں کچھ لوگوں کے لیے خیمے نصب کیے گۓ۔بعد میں قیدیوں کے لیے کمرے تعمیر کر کے انہیں وہاں رکھا گیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ظفرؔ کی وفات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہادر شاہ ظفر کب کے عمرِ طبعی کو پہنچ چکے تھے،ضعیف العمری میں انھیں جن مصائب و آلام سے دوچار ہونا پڑا۔وہ اچھے خاصے تندرست انسان کے لیے بھی جان لیوا ثابت ہو سکتے تھے۔تخت و تاج چھن گیا،عزت و وقار ختم ہو گیا ۔جلاوطن کر کے ہزاروں میل دور پردیس میں ڈال دیے گۓ۔لیکن حوادث کے اس طوفان میں ان کی زندگی کی شمع کسی نہ کسی رنگ مین جلتی رہی یہاں تک کہ سحر آ پہنچی ۔رنگون میں وہ اکثر بیمار رہا کرتے تھے اور ان کے ممعالج نے بہت پہلے یہ پیشن گوئی کر دی تھی کہ اب ان کی زندگی غیر یقینی ہے۔اکتوبر 1862ء میں ان کی حالت زیادہ خراب ہو گئی۔سیاسی قیدیوں کا نگراں نیلسن ڈیوس معاملے کی نزاکت کو سمجھ گیا لٰہیذا اس نے اپنی کارگزاری کا روزنامچہ پابندی سے لکھنا شروع کر دیا ۔بہادر شاہ ظفرؔ کی زندگی کے آخری چند روز کس طرح گزرے اور کیسے عبرت ناک زندگی سے بالآخر انھوں نے اپنا دامن چھڑایا ۔اس کا اندازہ ڈیوس کے روزنامچے سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے: رنگون جمعرات 23 اکتوبر 1862ء سیاسی قیدیوں کو دیکھا، سب ٹھیک تھا، ابو ظفرؔ کمزور ہوتے جا رہے ہیں رنگون اتوار 26 اکتوبر 1862ء ابو ظفرؔ کا خادم احمد بیگ کہتا ہے وہ کمزور ہیں اور انھیں کھانا کھانے میں بھی تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ رنگون پیر 28 اکتوبر 1862ء سیاسی قیدیوں کو دیکھا ،ابو ظفرؔ بدستور کم زور ہوتے جا رہے ہیں اور ان کی حالت غیر ہوتی جا رہی ہے۔ رنگون بدھ 29 اکتوبر سیاسی قیدیوں کو دیکھا ابو ظفرؔ کی حالت اچھی نہیں۔ رنگون ہفتہ یکم نومبر سیاسی قیدیوں کو دیکھا،ابو ظفرؔ کی حالت تشوشناک ہے۔ رنگون پیر 3 نومبر۔ابو ظفرؔ کے حلق پر فالج کا اثر ہے اس لیے کم مقدار میں بھی کھانا کھانا ان کے لیے مشکل ہے۔ رنگون 5 نومبر بدھ ۔ سول سرجن کو امید نہیں کہ ابو ظفرؔ زیادہ دن جئیں گے۔ رنگون جمعرات 6 نومبر ۔ابو ظفر کے حلق پر فالج کا اثر ہے اور بظاہر وہ ڈاکٹر کے ہاتھوں سے نکلتے جا رہے ہیں ۔ان کی آخری آرام گا کے طور پر جو جگہ مقرر کی گئی ہے میں نے اس کے قریب اینٹیں اور گارا اکھٹا کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ رنگون جمعہ 7 نومبر۔ابو ظفرؔ محمد بہار شاہ آج صبح پانچ بجے انتقال کر گۓ۔چونکہ تمام تیاریاں مکمل تھیں اس لیے آج ہی شام چار بجے میں گیٹ گارڈ کے عقب میں اینٹوں کی قبر میں ان کی تدفین کر دی گئی اور قبر کی اوپری سطح مٹی ڈال کر سطحِ زمین کے ساتھ ہموار کر دی گئی ہے، تھوڑے فاصلے پر بانسوں کا احاطہ کھینچ دیا گیا ہے۔ تاکہ جب تک بانس گل سڑ کر گریں زمین پر گھاس اُگ چکی ہو اور کوئی علامت ایسی باقی نہ رہے جس سے آخری مغل بادشاہ کی قبر کی نشان دہی کی جا سکے۔ مرحوم کی تجہیز و تکفین کے لیے ایک ملا کی خدمات حاصل کی گئی تھیں جنازے کو ایک صندوق میں رکھ کر اوپر سے سرخ رنگ کی ایک سوتی چادر سے ڈھانپ دیا گیا تھا۔ مسلمانوں کا ایک ہجوم بازار سے آ کر احاطے کے قریب جمع ہو گیا تھا لیکن میت کو چھو نہ سکے ۔کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا ۔بادشاہ کے دونوں بیٹے جواں بخت اور شاہ عباس اور بادشاہ کا خادم احمد بیگ جنازے کے ساتھ تھے ۔شاہی خاندان کے دیگر افراد نچوں اور عورتوں کو جنازے میں شرکت کی اجازت نہیں تھی۔ جیسا کہ ڈیوس کے خط سے پتا چلتا ہے کہ بہادر شاہ ظفر کی تدفین اس طرح کی گئی کہ ان کی قبر کا نشان بھی نہ ملے اور ایسا ہی ہوا بھی ۔ظفرؔ کی وفات کے کچھ عرصے بعد کچھ مسلمان ہندستان سے رنگون گۓ اور انھوں نے بہادر شاہ ظفرؔ کی قبر پر فاتحہ پڑھنی چاہی تو اس جگہ جہاں ظفرؔ کو دفن کیا گیا تھا انھیں سواۓ ایک چٹیل میدان کے اور کچھ نہ ملا ۔ان لوگوں نے بااثر حلقوں میں جا کر اس بات کی کوشش کی کہ بہادر شاہ ظفرؔ کے مزار کی باقاعدہ تعمیر ہو جاۓ، اس سلسلے میں بہادر شاہ درگاہ ٹرسٹ کا قیام عمل میں آیا ۔اس ٹرسٹ نے عوام کے نام ایک اشتہار جاری کیا جس میں اپیل کی گئی تھی کہ وہ بہادر شاہ ظفرؔ کے مزار کی تعمیر کے لیے چندہ دیں ٹرسٹ نے ایک معقول رقم جمع کر لی اور اس سرماۓ سے ظفرؔ کا مزار تعمیر کرایا گیا