سفرحجاز۔۔۔(07)۔۔۔ جدہ۔۔۔ از:مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

09:18AM Fri 11 Jun, 2021

               باب 07

              جدہ

  8 اپریل دوشنبہ خدا خدا کرکے 2360 میل کی سمندری اور وطن سے ممبئی تک صدہا میل  کی زمینی مسافت طے کر کے آج جدہ پہونچنے کا دن ہے،آج دلوں کے شوق و اشتیاق کا کیا کہنا؟ اسباب کی بندش رات ہی سے شروع ہو گئی تھی، صبح سویرے سے جہاز کے بالائی عرشوں پر حاجیوں کے پرے جمے ہوئے، سب کی نگاہیں ساحل کی طرف لگی ہوئی۔ ساحل جوں جوں قریب آتا جاتا ہے، پانی کا رنگ بجائے نیلے کے سبز ہوتا جا رہا ہے اور بحری پہاڑیاں کثرت سے نمودار ہوتی جارہی ہیں، دن نکلنے کے بعد ساحل سے ایک کشتی جہاز کی طرف آتی ہوئی نظر آئی۔ اس کشتی پر عرب کپتان سوار ہے۔ اندرون ساحل جہاز کی رہنمائی یہی عرب کپتان کرے گا، لیجئے وہ کشتی جہاز سے آکر لگی اور عرب کپتان دم  بھر میں کھٹ کھٹ کرتا ہوا جہاز کے سب سے بالائی حصہ میں کپتان کے پاس پہونچ گیا، اب اس وقت سے جہاز کی رہنمائی کا مالک و مختار یہی عرب ہے۔۔۔۔شاید یہ غیبی اشارہ ہے کہ ملک عرب میں داخلہ کے وقت رہنمائی کا فرض عرب ہی رہنما کے ہاتھوں انجام پاتا رہے۔ آٹھ بجے، ساڑھے آٹھ بجے اب جدہ کی عمارتیں صاف نظر آنے لگیں، مگر شہر اب بھی ڈھائی تین میل دور ہے، نو بجتے بجتے جہاز لنگر انداز تھا، مگر بمبئی کی طرح جدہ میں جہازوں کے لیے کوئی پلیٹ فارم نہیں اور کیوں ہونے لگا تھا؟(1949ءمیں اخبارات میں پڑھا کہ اب ڈک یا پلیٹ فارم کا انتظام ہو رہا ہے۔) جدہ میں جہاز آخر حاجیوں ہی کے تو ٹھہرتے ہیں اور حاجی کیوں یہ ہر مرتبہ بھول جاتے ہیں کہ اس دور علم و تمدن میں ان کا وجود جانوروں اور چوپایوں سے کچھ ہی بہتر ہے۔ ساتویں صدی عیسوی کے ’’کہنہ فرسودہ‘‘ احکام وشرائع پر عمل کرنے والے آخر اس کی توقع ہی کیوں قائم کرتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ خرچ  کرنے پر بھی ان کے نصیب میں بیسویں صدی عیسوی کی سہولتیں اور آسائشیں آسکیں گی؟

  جہاز کی حرکت رکی اور جہاز پر حرکت شروع ہوئی، چیخ و پکار، غل و شور، دوڑ بھاگ، ظاہر ہے کہ جہاز کہیں بھاگا نہیں جا رہا ہے، ٹھہرنے ہی کے واسطے رکا ہے اور نہ جدہ  کی زمین کہیں پھیلی جارہی ہے لیکن اتنا صبر کسی کو اور اتنے انتظار کی توفیق کسے؟ جہاز سے کشتیوں پر اترنے کے لئے زینے صرف دو اور دو زینوں پر ڈیڑھ ہزار کے مجمع کا ہجوم! بجائے اس کے کہ ایک باقاعدہ قطار قائم کرکے ہر شخص بغیر دھکے دیے اور بغیر دھکے کھائے بہ سہولت اطمینان اتر سکے، ہر شخص بے تاب کہ سب سے پہلے خود ہی اترے گا اور اپنا اسباب اتارے گا۔ یہ اسے گھسیٹ رہا ہے اور وہ اسے ڈھکیل رہا ہے، یہ ایک کو دھکا دے رہا ہے، دوسرا اسے کہنیاں مار رہا ہے، طاقتوروں اور چیرہ دستوں کی بن آئی، باقی کمزوروں اور ناتواں، بیماروں اور بچوں، بوڑھوں اور بوڑھیوں پر جو کچھ گزر رہی ہے، اس کی بجز خدائے علیم و بصیر، سمیع و خبیر کے اور کسے خبر ! ایک نفسا نفسی کا عالم ہے، ہر سمت محشرِ اضطراب! یہ ان لوگوں کا حال ہے جو ایثار و بے نفسی کا سبق لینے نکلے ہیں۔ یہ اس سفر میں پیش آرہا ہے جس کا مقصد ہی صبر و ضبط نفس کی تعلیم ہے!یہ عین اسی گھڑی پیش آرہا ہے جس وقت دوسروں کی خدمت و اعانت  ہی سب سے بڑا مقصود ہونا تھا! غیروں کے جو مظالم آپ پر ہوتے چلے آئے ہیں اور آج بھی زور و شور سے ہو رہے ہیں۔ ان کا دکھڑا تو آپ بڑے درد کےلہجہ میں روتے رہتے ہیں۔لیکن ایک مرتبہ ذرا آئینہ ہاتھ میں لے کر ارشاد ہو کہ خود آپ نے اپنے اوپر ظلم کرنے میں کونسی کسر اٹھا رکھی ہے؟ (وَما اَصابَکُم مِن مُصیبۃ  فبما کسبت ایدیکم ویعفوا عن کثیر)۔

  جہاز کے رکتے ہی دو موٹر لانچ (دخانی کشتیاں) نمودار ہوئیں، ایک میں جہازی کمپنی (ٹرنرماریسن )کے کچھ عہدہ دار تھے اور دوسری میں انگریزی قنصل خانہ کے افسر، ان کے علاوہ کچھ سعودی حکومت کے نمائندے بھی تھے، ڈاکٹر وغیرہ۔ مسافروں کو اترنے کی اجازت ملنے سے قبل ان سب حضرات کو اپنے اپنے سرکاری

خدمات کے ضابطے اور رسوم پورا کرنے تھے اور ان کے لیے خاصا وقت درکار تھا، ٹرنر ماریسن کے دفتر میں ہمارے جوارِ وطن سیدن پور ضلع بارہ بنکی کے رہنے والے قاضی عزؔیز الدین صاحب سالہا سال کے کارکن اور بڑے کار گزار ہیں، ان کی کار گزاریوں کے واقعات اپنے جوار کے بعض حاجیوں کی زبانی سن چکا تھا، یہ جہاز پر اپنی سرکاری ضرورتوں سے آتے رہتے تھے، کپتان کے کمرے سے نکل رہے تھے کہ مجھ سے تعارف ہوا، پردیس میں دیس کے آدمی کی شکل دیکھ کر طبیعت کو قدرتاً جو خوشی حاصل ہوتی ہے، اس کا اندازہ وہی کر سکتے ہیں جنہیں خود کبھی ایسی صورت پیش آچکی ہو، بڑے ہی لطف و اخلاق سے ملے، چند ہی منٹ بعد ایک ان سے بھی زیادہ کارآمد اور صاحب اختیارمنشی احسان اللہ صاحب سے ملاقات ہوئی، یہ عرصے سے جدّہ کے انگریزی قنصل خانہ میں ہیں اور اس وقت شعبۂ حجّاج کے ذمہ دار افسر ہیں، ان کی بابت مختلف روایات وحکایات سننے میں آئی تھیں تاہم اتنے جزو پر سب کا اتفاق تھا کہ یہ جس پر مہربان ہو جاتے ہیں، اس کا کام اپنے اثر و اقتدار سے خوب نکال دیتے ہیں، آدمی باخبر ہیں، اخبارات وغیرہ پڑھتے رہتے ہیں، میرے نام سے واقف نکلے اور بڑی خندہ جبینی سے پیش آئے، بعض احباب سے ان کے نام کے تعارف نامے میں نے لے لیے تھے، لیکن ان کی خوش اخلاقی کے بعد یہ تعارف نامے غیر ضروری تھے، ان دونوں جدید مہربانوں نے صلاح دی کہ اپنی پارٹی کو مع اسباب کے سرِدست جہاز پر چھوڑے جاؤں اور خود ان کے ساتھ ان کی سرکاری کشتی پر چلا چلوں، بالآخر یہی طے پایا، اور اپنے قافلے کو جہاز پر چھوڑ کر میں تنِ تنہا قاضی عزیز الدین صاحب کے ہمراہ ٹرنر ماریسن کمپنی کے موٹر لانچ پر سوار ہو کر ساحل کو روانہ ہوا، اسی موٹر لانچ پر ہمارے جہاز کے کپتان پی ایچ وارڈ اور چودھری محمد علی رئیس ردولی بھی آئے۔

 ساحل پر قدم رکھتے ہی قاضی صاحب تو ’’رُو کردہ ازما یکطرف‘‘ بغیر ہمیں کوئی ہدایت دیے، کپتان کو ساتھ لیے اپنے دفتر کی طرف چلے گئے، اور ہم نو وارد اجنبیوں کو بالکل ہماری قسمت پر چھوڑ گئے، میں تنہا تھا، چودھری صاحب کے ساتھ مستورات بھی تھیں اور کچھ سامان بھی، اب محکمۂ بحری کے مختلف لوگوں نے ہم سے سوالات شروع کیے اور زبان کی اجنبیت کا عملاً احساس اس وقت سے شروع ہوا، وہ لوگ نہ فارسی بول سکتے تھے نہ انگریزی نہ اردو، رہی عربی سو عربی اوّل یہاں آتی ہی کیا ہے، اور ٹوٹے پھوٹے ایک آدھ فقرے بولنے کی جو کوشش کی جاتی، سو اس کتابی عربی کو وہاں کے لوگ ’’نحوی‘‘ کہتے، اور اس پر ہنستے جیسے یہ سرے سے عربی ہی نہیں، عرب کی موجودہ بول چال واقعی قدیم ادبی عربی سے اتنی اجنبی ہو ہی گئی ہے! پاسپورٹ کی دکھائی یہیں ہوتی ہے اور اس کی اصلی ضرورت سفر بھر میں اسی موقع پر پیش آتی ہے، بہرحال چنگی خانہ کے مختلف عمّال کے سامنے حاضری دینی پڑی، میرے پاس اسباب مطلق نہ تھا، صرف گلے میں ایک تھیلا پڑا تھا، اس میں چند تعارف نامے اور ہنڈیاں وغیرہ تھیں، محکمہ چنگی کے مختلف عمال اپنی ساری قوت تفتیش و تحقیق انھیں کاغذات کی الٹ پلٹ میں صرف فرماتے تھے اور یہ اندازہ ہوتا رہا کہ ’’سرخ فیتہ‘‘ (RED TAPE) خواہ بحرہند کے ساحل پر ہو یا بحراحمر کے، ہرجگہ یکساں ہی ہوتا ہے اور دفتر شاہی ہند کی ہو یا عرب کی، فرق کچھ یوں ہی سا رکھتی ہے، چودھری صاحب کے ساتھ چونکہ باکس غیرہ بھی تھے، اس لئے قدرتاً ان بیچارے سے بازپرس بھی زائد ہوتی رہی اور غالباً باکس کھلوا کر دیکھے گئے اور اس داروگیر میں میں اور وہ علیحدہ ہوگئے اور میں بغیر کسی رفیق اور رہنما کے اس اجنبی مقام میں بالکل تنہا رہ گیا، بارے تھوڑی ہی دیر کی حیرانی و سرگشتگی کے بعد ہمارے وکیل کا ایک ملازم مل گیا اور وہ وکیل صاحب کے مکان تک لے آیا، فاصلہ گو دو تین فرلانگ سے زائد نہ تھا لیکن ایک تو عرب کی دوپہر اور پھر مقام کی اجنبیت۔ اسی لئے اتنی مسافت بھی اس وقت پیدل طے کرنا بہت کھل گئی۔

سفر حجاز میں جہاں تک حج و متعلقات حج کاتعلق ہے، ہر حاجی کی عقل کل اس کا ’’معلم‘‘ ہوتا ہے، ہندوستان کے لیے حکومتِ حجاز کی طرف سے سیکڑوں بلکہ شاید ہزاروں کو ’’معلمی‘‘ کی اجازت حاصل ہے، ادھرحاجی نے سر زمین عرب پر قدم رکھا، ادھر اس کی زندگی کا ہرہر قدم معلم یا اس کے نائبوں کےحدود اختیارمیں آ گیا۔ مکہ میں قیام کا انتظام، طواف کا انتظام، سعی کا انتظام، منیٰ، عرفات، مزدلفہ میں رہنے کا انتظام، قربانی کا انتظام، سواری کا انتظام، غرض چھوٹی بڑی ہر شے معلم ہی کے ذریعہ سے طے پاتی ہے، جدہ میں ہر معلم کی طرف سے ایک نمائندہ یا ایجنٹ مقرر رہتا ہے، جو یہاں کی اصطلاح میں اس کا وکیل کہلاتا ہے اور جس طرح مکہ میں حاجی کے لیے معلم ہی سب کچھ ہوتا ہے، وہی حیثیت اور وہی مرتبہ یہاں جدہ میں ’’وکیل‘‘ صاحب کو حاصل رہتا ہے، ہم سے ساحل پر اترتے ہی قبل اس کے کہ محصول خانہ اور چنگی گھر کے مرحلے طے ہوں دریافت کیا  گیا تھا تمہارا معلم کون ہے؟ اور جب جواب میں عبدالقادر سکندر کا نام بتایا گیا تو ان کے وکیل جدہ صالح بسیونی نے بڑھ کر ہمارے پاسپورٹ کو بلکہ خود ہم کو اپنے قبضہ میں کیا۔سکندر کے وکیل جدہ کا نام محمودبسیونی ہے، مگر اب وہ کبر سنی کی بنا پر خانہ نشین ہوگئے ہیں۔ صالح بسیونی ان کے لڑکے ادھیڑ عمر کے ہیں اور چونکہ ہندوستان میں عرصہ تک رہ چکے ہیں، اس لیے اردو بخوبی سمجھ لیتے اور الٹی سیدھی  بول بھی لیتے ہیں، ان کا نوجوان لڑکا مصطفیٰ بسیونی گو بے تکلف ہونے سے قبل اردو بولتے ہوئے شرماتا ہے لیکن حاجیوں کا کام نکالنے میں، انھیں آرام پہونچانے میں اپنے والد سے کہیں بڑھ کر ہے (ان سطور کی تحریر کے تین چار سال بعد غالباً 1933ء میں شیخ مصطفیٰ بسیونی ہندوستان آئے اور دریا باد کو بھی مشرف کیا، اس وقت تک وہ اپنے اخلاق وغیرہ کے لحاظ سے اور بہتر ہو چکے تھے، خدا کرے بخیریت ہوں، ان کے والد اسی زمانہ میں سنا تھا کہ آنکھوں سے معذور ہو چکے ہیں۔) ہم کو انھیں وکیل صاحب کے مکان میں لایا گیا، تھوڑی دیر کے بعد ہمارے سارے قافلہ کے لوگ بھی پہونچ گئے اور دوپہر ہوتے ہوتے ’’چار درویش‘‘ کے چہار چند یعنی زن و مرد پورے سولہ درویش ان کے مکان میں اکٹھا ہو گئے۔

 جدہ ہندوستان کے شہر کے معیار سے کوئی بڑا شہر نہیں، کوئی پندرہ ہزار کی آبادی ہو گی (انسائیکلوپیڈیا آف اسلام میں آبادی 30 ہزار درج ہے اور یہی صحیح معلوم ہوتی ہے، 15 ہزار سفرنامہ کے پہلے ایڈیشن میں اب یاد نہیں آتا کہ کس سند کے اعتماد پر لکھ دی گئی تھی، زمین پتھریلی ہے علاقہ سنگستانی ہے، عرض البلد 21 درجہ 28 دقیقہ ہے اور طول البلد 39 ڈگری 16 دقیقہ ہے) لیکن اپنی جغرافیائی ہیئت کے لحاظ سے اہمیت بہت خاصی رکھتا ہے، بازار اچھا بڑا ہے، ہر قسم کی چیزیں مل جاتی ہیں اور گرانی کچھ ایسی زائد نہیں، سکہ ہر ملک کے چل جاتے ہیں، ہندوستان کے چاندی کے سکے بے تکلف چلتے ہیں، البتہ نکل کی ریزگاری نہیں چلتی، ہندی سکہ کا تبادلہ حجازی سکہ سے باآسانی ہو جاتا ہے، کھانے کی دوکانیں بکثرت اور پیٹ بھرنے کے قابل کھانا قدم قدم پر مل جاتا ہے، البتہ اچھے ہوٹل ذرا تلاش کے بعد ہی ملتے ہیں اور ان کے نرخ کا تحمل بھی ہر شخص کے بس کی بات نہیں، ڈاک خانہ ہے، اسپتال ہے، مہینے میں تین مرتبہ ہندوستان کی ڈاک نکلتی ہے لیکن ہندوستان کے ڈاکخانوں سے یہاں کے ڈاک خانہ کو کوئی نسبت نہیں، ہر کام توکل پر چلتا ہے،  صفائی کا انتظام خاطر خواہ نہیں، یہاں کی مکھیاں اپنی کثرت کے لحاظ سے ضرب المثل ہیں۔

عرب کی سرزمین شروع ہو چکتی ہے، اس لیے گرمی کی بابت کچھ کہنا تحصیل حاصل ہے، برف مل جاتی ہے،  اگرچہ گراں قیمت پر، پانی کی قدر جہاز ہی سے شروع ہو جاتی ہے اور عرب پہونچ کر تو پانی کے بارے میں ہندوستان کی پڑی ہوئی مسرفانہ عادتوں کی اچھی خاصی اصلاح ہو جاتی ہے، جدّہ میں میٹھا پانی یعنی سمندر کا صاف شدہ پانی تلاش سے اور خاصی گراں شرح پر ملتا ہے۔ (جدہ 1929ء تک جدید معیار سے ایک ’’نیم متمدن‘‘ قسم کا شہر تھا لیکن اس کے بعد جو امریکہ اور برطانیہ سے ’’صاحب‘‘ لوگوں اور میم صاحبات کی بھرمار شروع ہوئی، اس کے بعد اس کا حالت پر قائم رہ جانا کیوں کر ممکن تھا؟ اب سنا ہے کہ وہ جدّہ ’’متمدن‘‘ شہر ہو گیا ہے، اچھے اچھے اونچے ہوٹل ہی نہیں بلکہ نشاط خانے اور رقص خانے تک موجود!)۔

 کھاری سمندری پانی البتہ بہ افراط، مکانات کی وضع بمبئی کے مکانات سے ملتی جلتی، یعنی صحن کا رواج برائے نام اور اوپر تلے چار چار پانچ پانچ منزلوں کا رواج عام، انھیں کمروں کو کھڑکیوں کی مدد سے خاصا ہوا دار بنا لیا جاتا ہے۔ ہندوستان کے لوگوں کو جس شے کی زیادہ تکلیف ہوتی ہے، وہ یہاں کے پاخانے ہیں، مہتروں کی قسم سے  کوئی قوم یہاں موجود نہیں، نتیجہ یہ ہے کہ مکان میں بہت گہرے سنڈاس، کنویں کی طرح گہرے بنے ہوئے ہیں، انھیں میں رفع حاجت کی جاتی ہے اور ان کی عفونت مکان کے دوسرے حصوں تک پھیلی رہتی ہے، زبان موجودہ بگڑی ہوئی عربی ہے، جسے قرآن مجید کی عربی سے کوئی نسبت نہیں، تاہم اردو بھی اچھی خاصی سمجھ لی جاتی ہے اور محض اردوداں بھی اپنا کام نکال ہی لیتے ہیں، حاجیوں کے ہجوم کے زمانے میں ہر ہر گھر مسافر خانہ بنا ہوا ، اس پر بھی ہزار ہا غریب حاجی سڑکوں پر اور گلیوں میں پڑے ہوئے، مملکتِ آصفیہ حیدرآباد، ریاست بھوپال اور ریاست ٹونک کی طرف سے مکہ و مدینہ میں رباطیں (قیام گاہیں) بنی ہوئی  ہیں، اگر جدہ میں ہندوستانیوں کے لیے دو ایک بڑی رباطیں بن جائیں اور انتظام اچھے ہاتھوں میں رہے، (یہ سب خواب ہندوستان کی ’’آزادی‘‘ سے پہلے کے ہیں) تو کم سے کم حاجیوں کی ایک جماعت کو تو بڑی سہولت حاصل ہو جائے۔

 آبادی میں ہندوستانی عنصر بالکل غائب نہیں، مہاجنی اور تجارت کے سلسلہ میں صوبہ بمبئی خصوصا علاقۂ گجرات و کاٹھیاوار کے لوگ اکثر نظر آئے، انگریز قنصل خانے میں نیز موٹر کمپنیوں میں صوبہ پنجاب کی نمائندگی ممتاز ہے، جہازی کمپنیوں کے دفتر میں بمبئی، بہار اور اودھ کے چہرے اور حلیے نظر آتے ہیں۔

 جدّہ سرزمینِ عرب کا پھاٹک ہے، حکومتِ اسلام کا پہلا شہر ہے، برا یا بھلا جیسا بھی ہے، اپنا ہے، اپنوں اور اپنے والوں کی چاہت کسے  نہیں ہوتی، لیکن اے سب عزتوں کے مالک! ایک گستاخ مشت خاک کو یہ کہنے کی اجازت دے کہ۔۔۔۔اب تو کسی کو بھی اپنا کہتے ہوئے دل لرزتا ہے اور زبان ہچکچاتی ہے،خیر قرطبہ ،غرناطہ کو تو مدت ہوئی بھول چکے،لیکن ابھی کل کی بات ہے کہ بصرہ اپنا تھا، بغداد اپنا تھا، حلب اپنا تھا، بیروت اپنا تھا، دمشق اپنا تھا، بیت المقدس اپنا تھا، قاہرہ اپنا تھا، استنبول اپنا تھا اور کچھ ہی قبل شاہ جہاں آباد اپنا تھا، اکبر آباد اپنا تھا، حیدرآباد اپنا تھا، لکھنؤ اپنا تھا، عظیم آباد اپنا تھا، سورت اپنا تھا، بیجاپور اپنا تھا، کرناٹک اپنا تھا، آج ان میں سے کوئی اپنا ہے؟ پھر جدہ غریب کی خیر کب تک منائی جاسکتی ہے؟ یاجوج کا پھریرا گو آج ضابطہ و رسم کے ساتھ وہاں نہ لہرارہا ہو،لیکن جدہ کے کوچہ و بازار، در و دیوار سب یاجوج ہی کی عظمت کے نقیب بن چکے ہیں۔ دوکانوں میں مال ہے تو ولایتی جسموں پر لباس ہے تو ولایتی ،بازاروں میں سودا ہے تو ولایتی، مکانوں میں سامان ہے تو ولایتی، عقلیں مرغوب،قلوب مفلوج ،کس چیز سے دل کو سمجھائیے اور کیا کہہ کر اپنے کو دھوکہ دیجئے! سرزمینِ اسلام کا اسلامی شہر اور دل ترستا رہ گیا کہ کسی محدث کی زیارت سے آنکھیں روشن ہوں، کسی بزرگ صاحب باطن کی نگاہ  کرم دل کو گرمائے ۔کسی فقیہ کے حلقہ درس و افتاء کی تازگی و شگفتگی، تھکے ماندے سے مسافر کی خستگی و ماندگی کو دور کردے! پر آہ یہ کچھ بھی نہ ہونا تھا! ہر تمنا ناکام ، ہر آرزو منفعل ہوکر رہنی تھی، سو ہوکر رہی، مسجد میں نماز کئی وقت پڑھی، پر شہر کے عمائد و اکابر ایک وقت بھی مسجد کے اندر نہ دکھائی دیئے اور دل نے تاسف کے ساتھ کہا کہ حضرت اکبر مرحوم کا تجربہ:

     کونسل میں بہت سید،مسجد میں فقط جمن!۔

ہندوستان ہی تک محدود نہ تھا، دریائے جمنا کا  کنارہ ہو یا بحر احمر کا ساحل،آج مسجد کی آبادی جہاں کہیں بھی قائم ہے،میاں جمن ہی کے دم سے!۔

ناقل: محمد بشارت نواز

https://telegram.me/ilmokitab/