سفرحجاز۔۔۔(06)۔۔۔ کامران۔۔۔ احرام۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

01:42PM Thu 10 Jun, 2021

        باب (٦)۔

        کامران___احرام

کامران کی مستقل لغویت کے تذکرہ کو کہاں تک پھیلایا جائے، جو کچھ بھی پیش آتا ہے، بہ ارادہ الٰہی کسی مصلحت و حکمت تکوینی ہی کی بناء پر پیش آتا ہے، صبر کے سوا چارہ نہیں، شکر سے بہتر مداوا نہیں، لیکن یہ جو کچھ لکھا گیا ’’جگ بیتی‘‘ تھی۔ ’’آپ بیتی‘‘ یہاں بھی سفر کی دوسری منزلوں کی طرف نسبتاً بڑے مزے کی رہی۔ ادھر ہماری کشتی کنارے سے لگی، اُدھر اسی لمحہ ڈاکٹر کی سرکاری موٹر لانچ بھی پہونچی، اور ساحل پرقدم رکھتے ہی ڈاکٹر قاسم چوہان سے تعارف ہوا۔ یہ چیف میڈیکل آفیسر کہلاتے ہیں، اور یہاں کے سیاہ و سپید کے مالک ہیں، ان کے ’’اوصاف حمیدہ‘‘ حیدرآباد کے بعض دوستوں سے خوب سن چکا تھا تاہم میرے ساتھ فی الجملہ مہربانی ہی سے پیش آتے رہے (سبب ظاہری یہ تھا کہ مولانا شوکت علی نے تار پر میرا تعارف پہلے ہی کردیا تھا) دوسروں کو صرف ایک لنگی ملتی تھی، مجھے دو لنگیاں عنایت فرمائیں۔ دوسروں کو غسل کے لیے پون پون گھنٹہ انتظار کرنا پڑتا ہے، میرے لیے جلدی کرا دی، دوسروں کو چھپروں کے نیچے رہنا ہوتا ہے، مجھے پختہ بارک میں بلا کرایہ رہنے دیا، ان ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں دوستانہ گزارش ہے کہ اگر آپ نے وسیع اختیارات کے اظہار میں کسی قدر کمی فرما دیں تو خود انھیں کے حق میں بہتر ہوگا۔ ان کے ماتحتوں میں ڈاکٹر حاجی خان کا برتاؤ تمام حاجیوں کے ساتھ اچھا دیکھنے میں آیا۔ ڈاکٹر فقیر اللہ بھی بھلے آدمی معلوم ہوئے۔ جزیرہ کا بڑا حاکم برٹش ملٹری ایڈمنسٹریٹر کہلاتا ہے۔ اس وقت جو حاکم ہے اس کا نام ای ویکم ہے۔ فوجی کپتان کا عہدہ رکھتا ہے، خلیق اور خوش مزاج ہے، میں غسل کرکے بھیگی لنگی باندھے ابھی جامہ خانہ میں کھڑا اپنے کپڑے تلاش کر رہا تھا کہ ایک انگریز کو میں نے اپنے پاس کھڑا ہوا پایا جو اردو میں مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ سب اچھا ہے؟ ڈاکٹر چوہان بھی پاس ہی ٹہل رہے  تھے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ انگریزی جانتے ہیں۔ اس کے بعد انگریزی میں باتیں ہونے لگیں اور تھوڑے تھوڑے وقفے کے ساتھ بہت دیر تک جاری رہیں۔ بڑی بے تکلفی سے سیاستِ حاضرہ سے لے کر اپنی بیوی بچوں تک ہر مسئلہ کو اپنا موضوعِ گفتگو رکھا، علی برادران کا بھی ذکر آیا اور ’’بڑے بھائی‘‘ خدا معلوم اس خبر کو کس دل سے سنیں گے کہ جتنی دیر تک ان کا ذکر خیر رہا اس سے کہیں زیادہ دیر تک ’’چھوٹے بھائی‘‘ اور ان کے اخبار ہمدرد کا رہا! (کھلا ہوا اشارہ مولانا شوکت علی مرحوم اور مولانا محمد علی مغفور کی جانب ہے، دونوں بھائیوں میں بڑی بے تکلفی تھی اور خوب نوک جھونک رہا کرتی تھی۔)۔

کیمپ میں ایک چھوٹی سی مسجد بھی بنی ہوئی ہے۔ جمعہ کی نماز اسی میں پڑھی، عرب کی سرزمین پر یہ پہلی نماز اور پہلا جمعہ نصیب ہوا، سہ پہر تک  کیمپ کے ’’بازار‘‘ میں سناٹا تھا۔ یعنی خشک روٹی اور چائے کے کوئی شے نہیں ملتی تھی، شام سے کچھ قبل کچا گوشت فروخت ہونے لگا جو قیمت میں خاصا گراں تھا اور جسے پکانا صرف انھیں لوگوں کے لیے ممکن تھا جو پکانے کا پورا سامان اپنے ہمراہ لے کر جہاز سے اترے تھے۔ کیمپ کے ایک گوشہ میں پانچ یا چھ پاخانے بنے ہوئے ہیں، صبح کے وقت جب ڈیڑھ دو ہزار انسانوں کا مجمع جس میں بدتہذیب اور گنوار مرد بھی شامل ہوتے ہیں، اور پردہ نشین شریف خاندانوں کی حیادار اور شرمیلی بہو بیٹیاں بھی، لوٹا ہاتھ میں لیے ہوئے ان چند پاخانوں پر حملہ آور ہوتا ہے تو اس وقت کی کشمکش اور چپقلش دیکھنے کے لائق ہوتی ہے، لیکن اس کی شکایت ہی کیا اور اس کا شکوہ کیوں؟ یہ کیمپ آخر حاجیوں ہی کا کیمپ ہوتا ہے اور حاجی غریب کسی یاجوجی حکومت سے راحت و آرائش کی توقع ہی کیوں رکھے؟ اس کا کام تو فی کس ۔۔۔۔۔ کے حساب سے قرنطینہ کامران کی فیس دے دینا ہے، اور بس راحت و آرائش ہی کا اگر خیال ہے تو اس روشنی اور روشن خیالی کے زمانہ میں حج و عمرہ، طواف و سعی، زیارت و عبادت کے لیے سفر ہی کیوں اختیار کیا جائے؟

 جس کو ہوں دین و دل عزیز

اس کی گلی میں جائے کیوں؟

کیمپ کا وسیع احاطہ لوہے کی تاروں سے گھرا ہوا ہے، جس کے باہر قدم رکھنا ممکن نہیں۔ جیسے مجرموں کو جانوروں کے ایک باڑہ میں بند کر دیا گیا ہو۔  کامران میں انگریزی ڈاک خانہ بھی ہے۔ بہت سے لوگوں نے خطوط لکھ کر یہاں سے وطن روانہ کیے۔ شب یہیں بسر کی، 6 اپریل کی صبح کو اس قید ’’فرنگ‘‘ سے نہ سہی ’’قرنطینہ فرنگ‘‘ سے نکلنے کی اجازت ملی، اور خاص عنایت و اہتمام سے کام لے کر سب سے پہلی کشتی ہماری ٹکڑی کو دلائی گئی، سب مسافروں کے جہاز تک پہونچنے میں کوئی چار گھنٹے لگے ہوں گے، دس بجے کے قریب جہاز نے لنگر اٹھا دیا اور روانہ ہوا۔

کامران کی بے احتیاطیاں، اب رنگ لائیں، سرکاری غسل خانے میں ماہرین فن ڈاکٹروں کے زیرِ ہدایت و نگرانی جو بدپرہیزیاں کرائی گئی تھیں، ان کا اثر ظاہر ہونا تو کامران ہی سے شروع ہوگیا تھا، اب پوری طرح نمودار ہوگیا، کسی کو کھانسی، کسی کو حرارت، کتنوں کو زکام اور کتنے اچھے خاصے تیز بخار میں پڑ گئے، لکھنؤ کی ایک بی بی کو جو پہلے سے بھی کسی قدر علیل تھیں، اتنا تیز بخار چڑھا کے چند روز کے بعد ان کی جان ہی لے کر اترا، اناللہ۔ مولوی عبد الباری بیچارے کو دمہ کا دورہ پڑگیا، غرض جس کو دیکھیے، کامران کی یادگار کوئی نہ کوئی بیماری لیے ہوئے ہے۔ یہ نتیجہ ہے سرکاری اہتمامِ صحت کا۔ یہ ثمرہ ہے حاجیوں کے ساتھ سرکار کی ہمدردی و غمخواری کا۔  کامران کے قریب کا سمندر بھی کسی قدر پرشور ہے۔ اس لیے اب جو جہاز چلا تو اس میں حرکت بھی زیادہ محسوس ہونے لگی اور بہت سے دورانِ سر اور متلی میں مبتلا ہو گئے،لیکن بحمداللہ یہ شکایت بہت زائد بڑھنے نہیں پائی اور رات تک از خود سکون ہو گیا۔

  7 /اپریل ( 26/شوال )یکشنبہ آج جہاز یلملم کے سامنے سے گزرنے والا ہے، جو اہل ہند کا میقات ہے، (کہا جاتا ہے کہ یہ پہاڑی مکہ معظمہ سے تیس میل جنوب میں واقع ہے اور اس کا موجودہ نام سعدیہ ہے، پرانی کتابوں میں اسی کو اہل ہند کا میقات لکھا چلا آتا ہے، لیکن حال کے بعض ممتاز فاضلوں نے جن کی نظر فقہ کے ساتھ ساتھ جغرافیہ پر بھی ہے صاف صاف لکھ دیا ہے کہ ہندی حاجیوں کے لیے بجائے یلملم کی مفروضہ میقات کے جدّہ بلکہ اس کے چند میل بعد سے بھی احرام باندھنا بالکل جائز ہے۔  صدؔق باؔبت ماہ مئی جون جولائی سنہ 1947 میں متعدد مراسلے اسی موضوع پر نکل چکے ہیں۔) میقات اس مقام کو کہتے ہیں جہاں سے عازمانِ حج اپنا معمولی لباس اتار کر احرام باندھتے ہیں، جب جہاز یلملم کے مقابل آ جاتا ہے تو حاجیوں کی اطلاع کے لیے زور سے سیٹی دے دی جاتی ہے، آج حاجیوں کی خوشی کا کیا پوچھنا ہے، جہاز یلملم کے سامنے تو کوئی پانچ بجے سہ پہر کو پہونچے گا اور جہاز کی سیٹی اسی وقت ہوگی لیکن حاجیوں میں چہل پہل صبح ہی سے شروع ہو گئی، حجامتیں بنوائی جا رہی ہیں،غسل کیے جا رہے ہیں، خوش خوش احرام کی نئی نئی اجلی اجلی چادریں نکالی جا رہی ہیں، نفل نمازیں پڑھی جا رہی ہیں، (حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب احرام باندھ کر دوگانہ ادا کیا تو پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ کافرون پڑھی تھی اور دوسری رکعت میں سورہ اخلاص) جہاز پر بہت سے معلم یا ان کے ایجنٹ بمبئی ہی سے ہمراہ ہو لیے ہیں، سب اپنے اپنے حاجیوں کی ٹولیاں بنائے ہوئے انھیں احرام باندھنے کی نیت کی تلقین کرا رہے ہیں، احرام بندھوا رہے ہیں، لیجئے دوپہر تک سب کے احرام بندھ گئے، سب کے سب اپنے ہاتھوں ہنسی خوشی گویا کفن پوش ہوگئے، دل مسرت سے باغ باغ ہوئے جاتے ہیں، ایک دوسرے کو مبارکبادیں دی جا رہی ہیں، اور ہر طرف سے ’’لبیک‘‘ ،  ’’لبیک‘‘ کی صدائیں بلند ہونی شروع ہو گئی ہیں۔

(نیت احرام کے یہ الفاظ کتابوں میں نقل ہوئے ہیں :۔

 أللّٰھم انی أرید الحج فیسّرہ لی وتقبّلہ منّی وأعنّی علیہ و بارک لی فیہ نویت الحج وأحرمت بہ للہ تعالیٰ۔

 (اے اللہ میں نے حج کا ارادہ کیا پس تو اس کو میرے لیے آسان کردے اور اس کو میری طرف سے قبول کر اور میری اس میں مدد کر اور مجھے اس میں برکت دے ،میں نے حج کی نیت کی اور میں نے اس کا احرام باندھا اللہ تعالیٰ کے لیے)۔

 اگر بجائے حج کے پہلے عمرہ مقصود ہو تو الحج کی جگہ العمرۃ  لایا جائے اور ضمیر ہ(ٗ مذکر) کی جگہ ھا (مؤنث)۔

تلبیہ کے الفاظ یہ ہیں: لبّيك أللّٰهم لبّيك، لبّيك لا شريك لك لبّيك إنّ الحمد والنّعمۃ لك والملك لا شريك لک

 فقہاء کہتے ہیں کہ الفاظ یہی ادا کیے جائیں، حنفیہ کے ہاں ان میں کمی نہیں ہو سکتی، زیادتی کا مضائقہ نہیں، شافعیہ کے یہاں کمی و زیادتی دونوں کی گنجائش نہیں۔)۔

آپ نے دیکھا؟ دیکھتے ہی دیکھتے پوششں و لباس کے سارے امتیازات مٹ گئے! سنتے چلے آئے ہیں کہ ’’الناس بااللباس‘‘ انسان اپنی پوشاک سے پہچانا جاتا ہے اور اس کے مرتبہ کا اندازہ اس کے لباس سے کیا جاتا ہے، اب کس لباس سے خادم کو مخدوم سے پہچانا جائے گا اور کس پوشاک سے غلام کو آقا سے الگ کیا جائے گا؟ ابھی کل تک جہاز کی اس وسیع آبادی میں بڑے بھی تھے اور چھوٹے بھی، امیر بھی تھے اور فقیر بھی، رئیس بھی تھے اور مزدور بھی، خوشحال بھی اور مفلس بھی، عالم بھی اور جاہل بھی، نامور بھی اور گمنام بھی،  تعلقدار بھی اور رعایا بھی، مجسٹریٹ بھی اور چپڑاسی بھی، پرآج کس کو کس سے شناخت کیا جائے؟سب سے بڑے مہا راجہ اور شہنشاہ اعظم کی راجدھانی کے حدود شروع ہو گئے، اب نہ کوئی راجہ ہے نہ کوئی ٹھاکر، سب کے سب اسی کی پرجا،  کل کے کل اسی کے چاکر، سارے کے سارے اسی کی رعایا ہیں! مالک کے دربار کی سرحدیں شروع ہوگئیں، اب نہ کوئی بڑا ہے نہ چھوٹا، نہ کوئی امیر ہے نہ کوئی وزیر، نہ کوئی عالم ہے نہ کوئی حاکم، نہ کوئی خان بہادر ہے نہ کوئی لیڈر، سارے کے سارے اسی ملک الملوک کے غلام ہیں اور سب کے سب اسی کے بیکس اور بے بس بندے! اب نہ ہیٹ ہے اور نہ پگڑی، نہ عمامہ ہے نہ شملہ، نہ ترکی ٹاپی ہے نہ گاندھی کیپ، نہ قمیص ہے نہ عبا، نہ کوٹ ہے نہ شیروانی، نہ کالر ہے نہ ٹائی، نہ پتلون ہے نہ پاجامہ، سب کی زبان پر لبیک لبیک کے ترانے ہیں اور سب کے جسموں پر بےسلی ہوئی  دو دو چادریں، یہ وائسرائے کا دربار نہیں۔ لاٹ صاحب کا ڈنر نہیں، ہائیکورٹ کی عدالت نہیں ،یہاں نہ ابوننگ ڈریس کی ضرورت نہ گاؤن کی حاجت، نہ پاتا بہ اور دستانہ  کی احتیاج! یہ اللہ کے دربار کی حاضری ہے جو لاٹ صاحب اور بڑے لاٹ صاحب ،جرمنی کے ڈکٹیٹر اور برطانیہ کے تاجدار ،روس کے صدر اعظم اور امریکا کے صدر جمہوریہ، اٹلی کے مسولینی اور انگلستان کے چرچل، ترکی کے مصطفےٰ کمال اور ہندوستان کے جواہر لال، سب کی جانوں اور سب کی زندگیوں کا یکساں مالک ہے! اس دربار کی وردی سب سے انوکھی، سب سے نرالی، سب سے الگ ہے۔ یہاں قدر زرتن کلاہوں کی نہیں، یہاں عزت رنگین قباؤں کی نہیں، یہاں طلب صرف کفن پوشوں کی ہے یا ان کی جو انھیں کی وضع اختیار کیے ہوئے ہیں، ان کی جو جیتے جی مُردوں کا لباس پہن چکے ہیں، ان کی جو اس لباس کی یاد تازہ کیے ہوئے ہیں، جس کے زیب تن کرنے کے بعد پھر قطعاً کوئی دنیاوی لباس جسم کو مس نہ کرسکے گا! مبارک ہیں وہ جو زندگی میں اپنے نفسوں کو مُردہ کرچکے ہیں! آج ان کا لباس ہی مُردوں کا لباس نہیں، ان کا نفس بھی مُردوں کا نفس بن چکا ہے۔ (فلارفث ولا فسوق ولا جدال فی الحج) لڑنا جھگڑنا، شہوتوں اور خواہشوں میں مبتلا ہونا زندوں کا کام ہے۔ مُردوں کو بھی کسی نے رفث اور فسوق اور جدال میں مبتلا دیکھا ہے؟

لبّيك أللّٰهم لبّيك، لبّيك لا شريك لك لبّيك إنّ الحمد والنّعمۃ لك والملك لا شريك لک لبیک آلہ الحق لبیک وسعدیک والخیر بیدک۔۔۔نماز کے بعد صدائیں ہیں تو یہی، اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے، چڑھتے اترتے ایک دوسرے سے ملتے جلتے، صاحب سلامت کرتے، صدائیں ہیں تو یہی، ملائکہ کو اگر رشک کا موقع ہوسکتا ہے تو یہی ،آج حاجیوں سے بڑھ کر خوشی کس کو ہوسکتی ہے؟ جس محبوب کی خاطر اپنا گھر بار چھوڑا، وطن چھوڑا، دوست چھوڑے، عزیز چھوڑے، سفر کی ساری کڑیاں جھیلیں، اسی کے شہر کا پہلا پھاٹک کھل گیا، داخلہ کی اجازت مل گئی۔ حاجیوں سے زیادہ خوش نصیب آج کون ہوگا؟ اور ان سے زیادہ خوشی اس وقت کس کو ہوگی؟ ڈیڑھ ہزار حاجیوں میں سے تقریباً سب کے سب احرام پوش ہوگئے۔ البتہ دیوانوں کی ایک  مختصر جماعت ایسی تھی جس نے احرام نہیں باندھا۔ اس جماعت کا ایک خادم گھر سے یہی نیت کرکے نکلا تھا کہ جدہ پہونچ کر پہلے سیدھے آستانۂ نبویﷺ پر حاضری دی جاوے گی اور پھر وہاں سے ان شاءاللہ حج بیت کی نیت کی جائے گی، بایزید بسطامیؒ کی بابت منقول ہے کہ آپ حج کے ساتھ ضمناً و تبعاً مدینہ منورہ کی زیارت خلاف ادب اور اپنے لیے ناجائز سمجھتے تھے بلکہ اس کے لیے ایک مستقل سفر، تازہ احرام کے ساتھ اختیار فرماتے تھے، خیر یہ تو دوسرے عالم کے لوگوں کی باتیں ہیں لیکن اگر کسی امتی کو وہیں سے سفر حج اختیار کرنے کی سعادت حاصل ہو، جہاں سے اس کے رسول برحق نے کیا تھا اور اسی مقام سے احرام حج باندھنے کی دولت نصیب ہوجائے، جہاں سے خود مرشد اعظم ﷺ نے باندھا تھا، یہ تو سنت سے انحراف نہ ہوا، شاید ان کا اتباع ہی ہوا۔

معلموں کی ایک خاصی جماعت  (اللہ ان پر رحم فرمائے اور انھیں راہ ہدایت دکھائے) جو بمبئی سے جہاز پر ہمراہ ہوگئی تھی، اس نے کامران سے غل مچانا شروع کردیا کہ جدہ سے کسی کو براہ راست مدینہ منورہ جانے کے لیے سواری نہ ملے گی اور سعودی حکومت نے مدینہ منورہ کا براہ راست سفر حاجیوں کے لیے بند رکھا ہے، اس لیے سب کو مکہ معظمہ کے قصد سے یلملم ہی میں احرام باندھنا چاہیئے، اس جماعت میں سب سے پیش پیش خود ہمارے معلم عبدالقادر سکندر تھے (1948ء میں مکہ معظمہ میں انتقال کیا ،کئی سال قبل سے وہیں گوشہ نشیں ہوگئے تھے۔) جو کسی زمانہ میں عرب (یا ترک جیسا کہ ان کے نام سے شبہ ہوتا ہے) رہے ہوں گے۔ مگر اب تو سالہا سال سے لکھنؤی ہی ہیں اور بمبئی سے جہاز پر ہمراہ تھے۔ بہت سے نیک دل و سادہ مزاج احباب جو اپنے ظرف پر معلموں کو بھی قیاس فرمارہے تھے، دھوکے میں آگئے اور معلموں کے ہنگامہ سے متاثر ہوکر جہاز پر سب کے ساتھ احرام بند ہوگئے لیکن بحمدللہ ایک مختصر گروہ آخر تک اس چال میں نہ آیا اور مدینہ پاک کی حاضری سے ابتدا کرنے کی نیت پر قائم رہا۔موجودہ حالات حجاز کی جو ’’طلسم ہوشربا‘‘ سکندر صاحب نے سنانی شروع کی تھی، یہ اس کی پہلی حکایت تھی۔آئندہ کے لیے تمام عازمان حج کی خدمت میں بڑے اخلاص کے ساتھ گزارش ہے کہ اپنے معلموں کی صداقت و دیانت کے متعلق بہت زیادہ حسن ظن نہ قائم فرما لیا کریں اور ان کی بہم پہونچائی ہوئی اطلاعات کی تحقیق دوسرے ذرائع سے بھی کر لیا کریں۔

ناقل: محمد بشارت نواز

https://telegram.me/ilmokitab/