آب بیتی الحاج محی الدین منیری علیہ الرحمۃ    -06- انجمن سے استعفی ۔۔۔ بقلم : عبد المتین منیری

Bhatkallys

Published in - Other

07:08PM Tue 24 Apr, 2018

            میں نے انجمن میں بحیثیتِ مدرس دو سال خدمت انجام دی ، جب میںہائی اسکول میں پڑھاتا تھا میری کل تنخواہ بائیس روپیہ تھی ، میں نے انجمن انتظامیہ کو درخواست دی کہ گھریلو ذمہ داریوں کے پیش نظر میری تنخواہ بہت کم ہے ، لہذا میری تنخواہ میں اضافہ کرکے اسے تیس روپیہ ماہانہ کیا جائے۔

            مجلس انتظامیہ کے محی الدین صاحبان میری درخواست پر غورکرنے کے لئے جمع ہوگئے اور مجھ سے جرح شروع کی کہ کیاتمھارے بڑے بھائی کماتے نہیں ہیں، جو تنخواہ میں اضافہ کی درخواست لے کر آئے ہو؟ تمھارے مصارف کیا ہیں ؟ میں گذارش کی کہ اگر میری تنخواہ میں مطلوبہ اضافہ کیا جائے تو آئندہ زندگی  انجمن کے لئے وقف کرنے کو تیار ہوں۔ مجلس انتظامیہ نے میری تنخواہ میں اضافہ سے انکارکردیا ۔ اس کی اطلاع میں نے جا کر مولانا ندوی ؒ کو دی اور بتایا کہ اب میرا یہاں رہنا ممکن نہیں ۔ آخر کار ملازمت سے مستعفی ہوکر بمبئی کے لئے روانہ ہوگیا۔

            جب میں بھٹکل میں تھا  توگھر کے گذر اوقات اور ضروری اخراجات میں بڑی زحمت پیش آتی تھی ، انجمن میں تدریس کے ساتھ ساتھ میں نے دو تین سال سلطانی مسجد میں امامت کے فرائض بھی انجام دئیے، امامت کی تنخواہ ماہانہ آٹھ روپئے ملا کرتی تھی ، ویسے سلطانی مسجد کے ذرائع آمدنی محدود تھے۔ چونکہ یہ مسجد سلطان ٹیپو کی بنائی ہوئی ہے حکومت کی جانب سے تصدیق کے نام سے تین ماہ کے وقفہ سے پچیس تیس روپئے آجایا کرتے تھے ۔ نماز ی کبھی کبھار چٹائی وغیرہ وقف بھی کرتے ۔ یہ چٹائیاں جنازہ کو ڈھانپنے کے کام آتیں۔ لہذا جب بھی کسی گھر میں میت ہوتی ، یہ چٹائیاں چارآنے کے عوض کرایہ پر اٹھائی جاتیں۔ مسجد کے پڑوس ہی میں ایک چھوٹا سا گھر ہے جس میں مسجد کے مینیجنگ ٹرسٹی سید اسماعیل مرحوم رہا کرتے تھے ، ان کا جسم بھاری بھرکم تھا۔شیرینی وغیرہ تقسیم کرنے کے موقعوں پر بچے ان کی رعب دار شخصیت سے دب کر خاموش بیٹھتے تھے ۔ اس وقت بونگو احمد مسجد کے موذن تھے میرے بعد درجن باپا مرحوم مسجد کے امام بنے۔

            انجمن سے مستعفی ہونے کے بعد مولاناندوی ؒ نے نل بازار میں واقع ڈی اے ابوبکر و اسماعیل میں نوکری طے کرکے مجھے بمبئی بھیج دیا۔ اس زمانے میں میں کافی متحرک تھا، دوست و احباب کی کثرت تھی ، کافی مدت گذار کر بھٹکل سے آیا تھا، دوستوں سے خط و کتابت کا سلسلہ جاری رہتا، انہیں حالات وکوائف سے آگاہ کرتا۔ یہاں کے کھانوں کی تعریف کرتا ، لنگیوں کے بیوپار کی تفصیل لکھتا۔ ڈی اے ابوبکر مرحوم کو میری مسلسل خط و کتابت پر شک ہونے لگا ، وہ سوچنے لگے اسے آئے ہوئے ابھی دس دن بھی نہیں ہوئے یہ خطوط پر خطوط لکھے جارہاہے ، نہ جانے آئندہ اس سے کس قسم کا نقصان درپیش ہو، اورہمیں پریشانی کا سامنا کرناپڑے۔ ایک نادیدہ خطرہ کے خوف نے انہیں خوف زدہ کردیا۔ ابھی میری ملازمت پر بیس ہی روز گزرے تھے انہوںنے کسی کام کے بہانے مجھے مدنپورہ بھیج دیااور چند لوگوں کو ساتھ لے کر میراصندوقچہ کھولا، ایک ایک چیز کی تلاشی لی ، انہیں اس میں چند خط اور ایک روپیہ ہاتھ لگا۔ آپ نے ایک ایک خط کو غور سے پڑھا ، دل ہی دل میں گھبرانے لگے ، ان کے خیال میں مجھے لانے کی تو وہ غلطی کرچکے تھے ، لہذا مجھے واپس لوٹانے کی فکر میں لگے رہے۔ آخر کار مجھے واپس بھٹکل جانے کے لئے کہہ ہی دیا۔ میں نے اس سے انکار کردیا اور کہا کہ اگر واپس بھیجنا ہی ہے تو تین ماہ کی تنخواہ اور واپسی کا ٹکٹ فراہم کریں۔ اس پر آپس میںتوتکار بھی ہوئی ،میں نے بھی ان پر  ہاتھ اٹھادیا۔ جب انہوںنے میرے مطالبات ماننے سے صاف انکار کردیا تو میں نے سو پچاس آدمیوں کو دوکان کے سامنے اکٹھا کرکے جوشیلی تقریرکی ، ان کے خلاف جذبات کو ابھارا۔

            اس وقت دراصل میرے جذبات میں عجیب قسم کاتناؤ تھا جب میں دکانداروں کو دیکھتا کہ باہر کھڑے ہوکر گاہکوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لئے غلط قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں اور آوازیں لگاتے ہیں کہ ہم لنگی کے بادشاہ ہے تم ادھر مت جاؤ ، ہمارے پاس بزنس کرو، ہم سستا دیگا تو غصہ کے مارے میرا سر چکرانے لگتا۔ عبدالقادر حافظکا مرحوم بھی اس زمانے میں ہمارے پڑوس کی دکان بمبئی لنگی مارٹ میں ملازمت کرتے تھے ان سے بھی میری دوستی تھی۔

            بالآخر میری ان حرکتوں سے زچ ہوکر ابوبکر صاحب نے ہاتھ جوڑے اور کہاکہ میں تمہیں مطلوبہ کرایہ اور تنخواہ دیتاہوں ، اب ہمارا پیچھاچھوڑو اور بھٹکل چلے جاؤ۔ اس کی وجہ سے کچھ عرصہ ہمارے تعلقات کشیدہ رہے، لیکن یہ کشیدگی ہمیشہ باقی نہیں رہی۔ تعلقات معمول پر آنے کے بعد میری بڑی قدر و منزلت کرتے تھے اور عزت دیتے تھے ۔ کچھ عرصہ بعد میں دوبارہ بمبئی واپس آیا۔ مولانا خواجہ بہاؤ الدین اکرمی ندوی ؒ نے جے جے اسپتال کے پاس ایک دکان لی ۔ اور اس میں لنگیوں کا کاروبار شروع کردیا۔ میں بھی ان کی تجارت میں شریک ہوگیا۔ مولانا مدراس سے لنگیاں بھیجتے ، میں انہیں دکان پر بیچتا۔ اب یہ دکان نیا اردو کتاب گھر کے نام سے قائم ہے ۔ اسکول کے ایک مقامی ہیڈماسٹر نے ابتداء میں اس کا ایک چھوٹا ساحصہ پندرہ روپیہ ماہوار پر لیا تھا۔ پھر آہستہ سے آئندہ ادائیگی کے وعدہ پر تھوڑی سی رقم دے کر اسے ہتھیالیا۔ عمارت کی تعمیر کے فوراًبعد یہ دکان ہم نے لی تھی۔