آب بیتی الحاج محی الدین منیری علیہ الرحمۃ    -05 - طالب علمانہ شرارتیں ۔۔۔ بقلم : عبد المتین منیری

Bhatkallys

Published in - Other

02:00AM Fri 20 Apr, 2018

            طلبہ کو امتحان کے دنوں میں فکر دامن گیر رہتی ہے کہ کس طرح سوالات حاصل کئے جائیں ۔ ہمیں بھی یہی فکر لگی رہتی تھی ، امتحان کے قریبی ایام میں ہم بھی اساتذہ کو سوالات کے لئے تنگ کیا کرتے، انجمن میں ایک استاد ہوا کرتے تھے جن کانام﴿ نائینن﴾ تھا۔ ہم ساتھیوںنے ان کے پرچے چرانے کی سازش رچائی اور ایک رات ان کے کمرے کا تالہ کھولنے میں کامیابی حاصل کرلی ۔ لیکن مشکل یہ آپڑی کہ تالہ بند نہ کرسکے۔ لہذا منڈلی علاقہ میں سوئے ہوئے لوہار کا دروازہ کھٹکھٹایا جو انگیٹھی میںلوہے کو جلاتااور ہتھوڑا مارمارکر اس کی سلاخیں بناتا تھا۔ ہم نے اس سے کھلے ہوئے تالہ کو بندکرنے کی کوئی صورت نکالنے کی درخواست کی۔ اس نے آٹھ دس آنے کے بدلے، جو اس زمانے کے لحاظ سے بہت زیادہ تھے بند کرنے کی کنجی بنا کردی۔ گویا گویا کرکے رات کے ڈیڑھ بجے ساتھیوں کا پہرا لگا کر ہم نے یہ تالہ بند کردیا۔

            صبح جب ﴿ نائینن﴾نے کمرہ کھولنے کی کوشش کی تو تالہ کسی طرح نہیں کھلا۔ انہیں لڑکوں کی گڑبڑ کا شبہ ہوااورکافی پریشانی لاحق ہوئی، کیونکہ سرشام جب وہ کمرہ بند کرگئے تھے تو تالہ صحیح سالم تھا ۔ انہوںنے انجمن انتظامیہ کو اس سے آگاہ کیا۔ بسیار کوشش کے بعد تالہ توڑا گیا اور اس کی تحقیق شروع ہوئی ۔﴿ نائینن﴾ بڑے شفیق استاد تھے، نظم وضبط برقرار رکھنے کی خاطر انہوں نے ہرایک طالب علم کو علحدہ علحدہ بلاکر تحقیق کی ۔ سبھوں نے اس فعل سے انکارکیا۔ انہیں جب کامیابی نہ ملی تو انجمن انتظامیہ نے اپنے طورپر تحقیق شروع کی۔ اس وقت انجمن انتظامیہ میں سے صدیقہ محی الدین بوٹا، قاسمجی محی الدین ، دامدا محی الدین بڈوروغیرہ کئی محی الدین اکٹھے ہوئے تھے۔ یہ حضرات درجات میں آتے، ہر ایک کو گھورتے ، انہیں دیکھ کر ہمار ا جسم کپکپانے لگتا۔ دل ودماغ خوف و ڈر سے تھرتھراتے، اس جھک جھک نے ہمیں بہت پریشان کردیا، انہوںنے مجھ سے بھی پوچھ گچھ کی۔

            آخر تنگ آکر ہم لوگوں نے مولانا ندوی ؒ کو عصر کی نماز کے بعد سلطانی مسجد میں پکڑ لیا۔ مولانا ہمیشہ عصر کی نماز اسی مسجد میں پڑھتے اور نماز کے بعد نگاہیں نیچی کرکے گھرروانہ ہوتے تھے، یہ ان کی عادت تھی۔ مولاناسے ہم نے رات کو تالہ توڑنے ، پرچے چرانے ، ممبران انتظامیہ کے بار بار درجات میں آنے، دھمکانے اور ہرایک کو گھورکر دیکھنے ،دل میں ہول اٹھنے اور خوف سے کانپنے کی پوری داستان بے کم و کاست سنادی۔ اور مولانا سے ہم نے درخواست کی کہ کسی طرح اس شرارت کے برے نتائج سے ہماری حفاظت کی کوئی راہ نکالیں ۔ مولانا یہ سن کر خوب ہنسے اور اہمیں اطمینان دلایا کہ فکرمند ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ، اس مسئلہ کو نبٹانے کی کوئی سبیل نکالتاہوں۔ پھر مولانانے اس موضوع پر ذمہ داران سے گفتگو کی اور ان کی توجہ اس مسئلہ سے ہٹانے میں کامیابی حاصل کرلی۔

            مولانا کے پڑھانے کا انداز بہت نرالا تھا۔ جب تفسیر قرآن بیان کرتے تو ساری تفصیلات سے آگاہ کرتے ، حالانکہ میری کسی دینی مدرسہ میں تعلیم نہیں ہوئی ، باوجود اس کے دین سے جو تعلق اور دلچسپی ہے یہ صرف انجمن میں مولاناہی کی دین ہے۔

            انجمن میں ہمارے ایک استاد تھے﴿ مسٹر کوٹی﴾، آپ ، انگریزی ، تاریخ وغیرہ کے اسباق پڑھایا کرتے تھے ۔ آپ نے بھٹکل بندرکے نام سے بڑی محنت سے ایک تحقیقی کتاب لکھی ہے ، جس میں بڑی قیمتی معلومات جمع کی گئی ہیں۔

            ایک دفعہ کا ذکرہے ، امتحان کا زمانہ تھا اور تاریخ کا پرچہ ان کے ذمہ تھا۔ میں ایک دوست کو لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ہم نے سبق یاد نہیں کیا ہے، سوال بتادیجئے سر؟اچھا سوالات کے لئے آئے ہو؟۔ بیٹھو ، پھر فرمایا۔ یہ دیانت کے خلاف ہے ، تم یاد کرو منیری ، پھر کچھ دیر باتیں ہوئیں ، ان باتوں میں اتنی مٹھاس تھی کہ ان میں ہم ایسے محو ہوگئے کہ ہمارے سان وگمان میں بھی نہ رہا کہ انہوںنے ہمیں سوالات بتا دئیے ہیں۔

            مولاناندوی ؒ پرچہ کی تیاری کے بعد اس کی نگہداشت میں بڑی احتیاط برتتے۔ خود اپنے ہاتھ سے ماچس دکھا کر سائیکلو اسٹائل پیپر جلا کر راکھ کرتے۔ اس وقت کسی کو قریب بھی پھٹکنے نہ دیتے۔ ایک روز ہم لوگوںنے مولانا کاپیچھا کیا، سائیکلو اسٹائل جلاتے وقت دور درخت پر بیٹھ کر اس کا نظارہ کرتے رہے ، جب مولانا اپنا کام پورا کرکے نمازِ عصر کے لئے روانہ ہوئے ، ہم نے کاربن کا جلا ہو ابرادہ جمع کرکے سوالات اکٹھے کئے۔

یہ ہماری طالب علمانہ شرارتیں تھیں ، استاد خود کو بہت زیادہ ہوشیار اور چالاک سمجھنے لگے یہ اس کی نادانی ہوگی۔ کیونکہ طالب علمانہ شرارتوں کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا۔