سفر حجاز۔۔۔(05)۔۔۔ سمندر ۔۔۔ کامران۔۔۔ تحریر:مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

01:24PM Wed 9 Jun, 2021

باب (۵)۔

        سمندر۔۔۔۔ کامران

29مارچ ساحل بمبئی سے جہاز 11 بجے شب کو چھوٹا تھا۔رات تو خیر جوں توں کٹ گئی، صبح اٹھ کر دیکھا تو ہر طرف عالم آب، جہاں تک بھی نظر کام کرتی ہے بجز پانی کے اور کچھ دکھائی نہیں دیتا، اپنی عمر میں یہ منظر کبھی کاہے کو دیکھا تھا۔ بڑے سے بڑے دریا جو ابتک دیکھے تھے، وہ بھلا سمندر کے مقابلہ میں کیا حیثیت  رکھتے ہیں، صبح سے دوپہر، اور دوپہر سے شام اور شام سے پھر صبح، نہ کہیں جہاز رکتا ہے، نہ کوئی اسٹیشن آتا ہے، ہر وقت ایک ہی فضا محیط، ہر سمت ایک ہی منظر قائم! دن طلوع ہوتے ہیں اور ختم ہوجاتے ہیں، راتیں آتی ہیں اور گزر جاتی ہیں، نہ کوئی خط نہ کوئی تار، نہ اخبارات نہ ڈاک کے انبار! نہ کسی عزیز کی خبر نہ دوست کی، نہ اپنوں کا حال معلوم نہ بیگانوں کا، اپنا مٹی کا گھروندا ہے کہ ہر لحظہ پیچھے چھوٹتا جارہا ہے، پردہ گھر جسے لامکان کے مکین نے اپنا گھر کہہ کر پکارا ہے، ہر آن نزدیک سے نزدیک تر ہوتا جارہا ہے۔ زمین چھوٹ گئی لیکن آسمان نہیں چھوٹا۔ادھر جہاز ہوا اور پانی سے ہچکولے کھارہا ہے۔ ادھر دل کی کشتی ہے کہ یاس و امید کی کشمکش میں ابھی ڈوبی اور ابھی ابھری (خدا نہ کرے کہ کبھی بھی ڈوبے) دل ابھی اپنی اس خوش نصیبی پر نازاں کہ کشش کس کو کہاں سے کہاں لے جارہی ہے اور ابھی اس خوف سے لرزاں کہ اپنی محرومیوں اور شوربختیوں سے دیکھیے اب بھی نجات ملتی ہے یا نہیں۔ ابوجہل اور ابولہب تو آخر عمر پھر اسی بیت اللہ کے جوار میں رہے پھر انھیں تو کچھ بھی حاصل نہ ہوا، مدینہ کے منافق روزانہ ہی دیدارِ رسول ﷺ سے مشرف ہوتے رہے پھر ان کے دلوں کے پتھر تو نہ پسیجے! لیکن یہ کیا وہم آرائی اور کیسی پریشاں خیالی ہے، وہ کریم جو اپنے گھر مہمان بلارہا ہے، کیا وہ اپنے در کے گداگروں کی جھولی میں بھیک بھی نہ ڈالے گا؟ اس کی رحمت کی فروانی اور کرم کی ارزانی نہ حق کو دیکھتی ہے اور نہ استحقاق کو، اسے تو محض عطا و بخشش، محض نوازنے اور سرفرازنے سے سروکار ہے، اور بس!

گھنٹہ دو گھنٹہ نہیں، دن دو دن بھی نہیں، پورا ایک ہفتہ ہوگیا اور خشکی کا کہیں نشان نہیں، جنگل اور بیابان کے درندے اور باغ و صحرا کے چرندے کیسے، ہوا کے پرندے تک نہیں! اِدھر پانی اُدھر پانی، آگے پیچھے، داہنے بائیں، ہر سِمت پانی ہی پانی! اوپر نیلا آسمان، نیچے نیلا سمندر! زمین کی بے بساطی اب جاکر محسوس ہوئی! خشکی کے بڑے بڑے شہر، اور صوبے، آبادیوں اور بستیاں، جنگل اور پہاڑیاں، سڑکیں اور ریل کی پٹریاں، ریگ کے تودے اور پہاڑوں کی چوٹیاں، جن کی وسعت اور کثرت، عظمت و ہیبت، اب تک دماغوں میں رچی اور آنکھوں کو بسی ہوئی تھی، اب معلوم ہوا کہ خالق کے بحر قدرت کے سامنے نہیں بلکہ اپنی ہی جیسی ایک دوسری مخلوق کے سامنے کتنی حقیر اور کیسی بے حقیقت چیزیں ہیں! جل جلالہ! جس سمندر کو دیکھتے دیکھتے آنکھیں تھک جاتی ہیں (یعنی بحرہند) جو معلوم ہوتا ہے کہ اب کبھی ختم نہ ہوگا، وہ دنیا کے پانچ بڑے سمندروں میں سے صرف ایک سمندر ہے اور ان پانچوں میں بھی سب سے بڑا نہیں بلکہ دو سے چھوٹا! پھر ظاہر ہے کہ وہ بھی پورے کا پورا بہ یک وقت پیش نظر نہیں بلکہ اس کا ایک مختصر جزو آنکھوں کے سامنے ہے۔ اللہ اکبر! جب ایک جزو اور ادنیٰ جز میں یہ ہیبت رکھ دی گئی ہے تو کل کے مشاہدہ سے کیا کیفیت طاری ہوگی! آج یہ مہیب اور لق و دق سمندر اور کرۂ ارض کے سارے معلوم سمندر ’’یاجوج‘‘کے قبضہ میں ہیں۔ وہ جسے چاہے اس میں جہاز اور کشتی چلانے کی اجازت دے اور جب جس کو چاہے، اللہ کی کاریگری کے اس نادر نمونہ سے فائدہ اٹھانے سے روک دے! خلق خدا کی ہو تو ہو لیکن سمندر اور سمندروں کے بندرگاہ، جہاز اور ان کے پھریرے، محکمہ بحری (ایڈمرالیٹی) اور خداوندان بحر (SEALORDS) کروزر اور ڈریڈناٹ، تارپیڈو، اور ڈسٹرائر، آج ہانکے پکارے کہہ رہے ہیں کہ ’’امر‘‘اور ’’حکم‘‘ (نعوذباللہ ) یاجوج کا ہے۔۔۔۔۔پھر اگر ایسے حال میں آپ کسی سچے ﷺ کا قول سنتے ہیں کہ یاجوج و ماجوج سمندر کا پانی پی جائیں گے تو آپ اس پیشنگوئی کے پورے ہونے کے لیے کسی زمانہ مستقبل کا کیوں انتظار کرنے لگتے ہیں؟

قل لو كان البحر مدادا لكلمات ربي لنفد البحر قبل ان تنفد كلمات ربي ولو جئنا بمثله مددا۔ دل نے کہا کہ یہی وہ سمندر ہے جس کی بابت ارشاد ہوا ہے کہ اگر سارا سمندر روشنائی بن جائے اور اسی جیسا ایک اور سمندر بھی روشنائی بنا دیا جائے جب بھی قدرت الہٰیہ کے بحر بیکراں کے کلمات لکھنے سے قاصر رہے گا، لیکن روشنائی آئندہ ہی کیوں بنے روشنائی تو یہ اب بھی بنا ہوا ہے، نیلی روشنائی ہی کی طرح نیلا ہے، بحر قدرت و صنعت کے اتھاہ اور بےپایاں ہونے کا یہ کیسا نادر نمونہ ہے! اسی کے ساتھ ہی نظروں کے سامنے یہ سماں بھی آ گیا کہ ایک روز یہ سارا بحراعظم یہ سارا لق و دق سمندر موجیں مارتے ہوئے پانی کے بجائے، آگ سے لپکتے ہوئے شعلوں اور دھوئیں کے تیرہ تار بادلوں میں تبدیل ہوکر رہے گا! یہ وہ دن ہوگا جب ’’یاجوج‘‘اپنے مایۂ ناز جنگی جہازوں اور آبدوز کشتیوں، اپنے تیل کے چشموں اور اپنے پٹرول کے خزانوں کی بھڑکائی ہوئی آگ کے شعلوں سے، لنکا کے روایتی روان کی طرح، خود بھی جل رہا ہوگا اور جب اس کے حرص و ہوس، اس کی ملک گیری اور زر پرستی، اس کی قیصریت (امپریل ازم) اور کیپٹل ازم (سرمایہ داری)اور سوشلزم (اشترکیت) اور کمیونزم (اشتمالیت) اور خدا معلوم کس کس ’’ازم‘‘کے انگارے سمندر میں آگ لگاکر خود اسی مادی دنیا میں اس کو دوزخ  کا نمونہ دکھا رہے ہوں گے! یہ وہ دن ہوگا جب ارشاد ربانی واذا البحار سجرت کی تفسیر و تاویل کے لیے نہ تفسیروں کے اوراق الٹنے کی ضرورت ہوگی، نہ اہل لغت کے کلام سے سند لانے کی، بلکہ عالم و عامی سب اپنی آنکھوں سے مجاز کا نہیں حقیقت کا مشاہدہ کرلیں گے۔ آج ’’یاجوج‘‘ کو مہلت ہے، آج وہ جتنا چاہے ہمارے دلوں اور دماغوں کو، ہماری عقلوں اور ذہنوں کو، ہماری آنکھوں اور کانوں کو اپنے اقبال و حشم سے، اپنی تہذیب و تعلیم سے، اپنے علوم اور اپنے فنون سے، اپنے ڈاکٹروں اور اپنے انجینئروں سے، اپنے سائینس اور اپنے آرٹ سے، اپنی توپوں اور اپنی رائفلوں سے، اپنی مشین گنوں اور اپنی سنگینوں سے، اپنے خزانوں اور اپنے طیاروں سے، اپنے بموں اور ایٹم بموں سے مرعوب اور مخبوط اور مفلوج کرے، لیکن یہ مہلت دائمی نہیں، اور کسے خبر کہ پردہ اٹھنے کا وقت قریب ہی آلگا ہو!

4 اپریل۔جمعرات: آج سہ پہر سے دور دور کے پہاڑی ساحل دکھائی دینے لگے ہیں اور آبادی کے دیکھنے کو آنکھیں ایسی ترسی ہوئی ہیں کہ آبادی کی ان بعید اور دھندلی علامتوں کو بھی غنیمت سمجھ کر بڑے شوق و اشتیاق کے ساتھ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اور دوربینیں لگا لگا کر انھیں دیکھا جارہا ہے۔ شب میں جہاز عدن کے قریب سے بغیر لنگر انداز ہوئے گزرگیا، اور ہم لوگوں کے حصہ میں دور سے شہر کی صرف روشنیاں آئیں۔

5 اپریل جمعہ۔آج آٹھ بجے صبح جہاز کامران میں لنگر انداز ہوا، کامران چارہزار کی آبادی کا ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے، جنگ عمومی کے بعد ترکوں سے نکل کر انگریزی قبضہ میں آگیا ہے۔ ایک انگریز حاکم برٹش ملٹری ایڈمنسٹریٹر کے نام سے رہتا ہے۔جن حاجیوں کے جہاز عدن میں نہیں رکتے، عرب کی سرزمین پر ان کا پہلاقدم یہیں پڑتا ہے۔ اصلی نام قمران تھا، مگر اب شاید اس مناسبت  سے کہ یہ زمین کامیابی و کامرانی کا پہلا نشان ہے۔ اس کا نام بھی عام زبانوں پر کامران ہوگیا ہے۔ یہاں حاجیوں کا ’’قرنطینہ‘‘ ہوتا ہے یعنی سرکار برطانیہ کو اپنی غریب رعایا کی جان و صحت کا اس قدر درد رہتا ہے کہ اگرچہ ہر حاجی گھر سے چیچک کے ٹیکہ کا  ڈاکٹری سرٹیفکیٹ لےکر چلتا ہے اور باوجود اس کے کہ بمبئی (یا کراچی) میں سوار ہوتے وقت ڈاکٹری معائنہ ہوچکتا ہے، پھر بھی حاجیوں کے جہاز یہاں روکے جاتے ہیں اور حاجی یہاں غسل اور ڈاکٹری معائنہ کے لیے مجبور کیے جاتے ہیں،  کاش اس ’’دلسوزی‘‘اور ’’غمخواری‘‘ کا عشر عشیر بھی فرنگستان کے مسافروں کے حصہ میں آتا!

جس مقام پر جہاز لنگر انداز ہوتا ہے، ساحل وہاں سے ڈیڑھ میل کے فاصلہ پر ہے۔اتنی مسافت کشتی پر طے کرنا ہوتی ہے۔ جہاں کشتی رکتی ہے وہاں سے مقام غسل تک بھی دو تین فرلانگ کا فاصلہ ہے۔ چنانچہ ہم لوگ بھی اتارے اور پہونچائے گئے۔ کامران گویا حاجیوں کا غسل خانہ ہے۔غسل عموماً تفریح و انبساط کا ذریعہ ہوتا ہے، مگر یہ سرکاری غسل جو بڑے بڑے ڈاکٹروں کی نگرانی و اہتمام میں دیا جاتا ہے۔ بجائے لطف و تفریح کے، انقباض و تکلیف بلکہ تعذیب کا ایک آلہ ہوتا ہے۔ حاجی اپنے اپنے سامان کا بیشتر حصہ جہاز ہی پر چھوڑ آتے ہیں، صرف مختصر سامان لے لے کر اترتے ہیں۔ سب سے پہلے انھیں غسل خانہ کے برآمدہ میں لاکر بٹھایا جاتا ہے اور جس وقت ان کی ٹولی کی باری آتی ہے، ایک بڑے کمرے کے اندر سب کو داخل کرکے ان کے سارے کپڑے اتروا کر ایک مختصر لنگی جو ناف سے گھٹنے تک شاید ہی پہونچ سکتی ہو، باندھنے کو عنایت ہوتی ہے، اسی کو نہاتے وقت باندھنا، اسی کو نہانے کے بعد باندھے رکھنا، اسی سے بھیگا ہوا جسم خشک کرنا، یہ ساری ضرورتیں ماہرین فن اطباء سرکاری کے نزدیک اسی ’’چار گرہ کپڑے‘‘سے پوری ہوسکتی ہیں! جن قوموں کے دماغ سرے سے ستر پوشی کے مفہوم سے ناآشنا ہیں، اور جن کے ہاں سب کے سامنے برہنہ غسل کرنا داخل تہذیب ہے، وہ اگر مشرقی اور اسلامی جذبات کا اتنا بھی لحاظ کرلیتے ہیں، تو یہ ان کا غایت کرم اگر نہیں تو اور کیا ہے! (جن خوش نصیبوں کے ساتھ خاص رعایت و نوازش مدنظر  ہوتی ہے، جیسی میرے حق میں ہوئی، انھیں بجائے ایک کے دو لنگیاں عنایت فرما دی جاتی ہیں) یہ ’’لنگوٹی‘‘ جسم پر لپٹوانے کے بعد سب کے سروں پر حمام کی ٹوٹیاں کھول دی جاتی ہیں اور سب کو دو دو بار، ایک بار دواؤں کے پانی سے اور ایک بار سادہ سرد پانی سے نہلایا جاتا ہے، اس غسل کے معاً بعد دوسرے کمرہ (جامہ خانہ) میں لاکر بجلی کے پنکھے کھول دیے جاتے ہیں اور نہائے ہوئے حاجیوں کے بھیگے ہوئے اور تربتر جسم کو جس کے خشک کرنے کے لیے کسی حاجی کے پاس قطعاً  کوئی کپڑا نہیں ہوتا، پنکھے کی ہوا سے خشک کیا جاتا ہے اور اکثر حاجیوں کو چونکہ دوسری لنگی نصیب نہیں ہوتی، اس لیے اس حالت میں وہی بھیگی ہوئی لنگی ان کے جسم سے بدستور لپٹی ہوئی رہتی ہے۔

اس کا نام اہتمام صحت ہے! یہ ’’سرکار‘‘ کی طرف سے حاجیوں  کی جان اور زندگی کے رکھ رکھاؤ  کا انتظام ہے! یہ اونچی اونچی تنخواہیں اور الاؤنس پانے والے ہندوستان اور یورپ کی ڈگریاں رکھنے والے حاذق ڈاکٹروں کے اہتمام و نگرانی میں طریقہ غسل ہے!! لیکن اب بھی پڑھنے والے کے سامنے غسل  کا پورا نقشہ نہیں آیا۔ جامہ خانہ میں آنے کے بعد تلاش شروع ہوتی ہے، یعنی حاجیوں کے جسم سے قبل غسل، جو سارے کپڑے اتروالیے گئے تھے اور اتروا کر اس ٹولی کے بیسوں دوسرے حاجیوں کے کپڑوں کے ساتھ بھپارہ میں ڈال دیئے گئے تھے، وہ اب ایک بڑے گٹھر میں بھیگے بھاگے سارے دوسرے کپڑوں کے ساتھ خلط ملط لائے جاتے ہیں اور ہر حاجی اس انبار میں سے اپنے کپڑے تلاش کرنا شروع کرتا ہے! سرکار کا جامہ خانہ اس وقت اچھا خاصا دھوبی خانہ معلوم ہوتا ہے۔ (خدا نہ کرے کوئی دھوبی پھوہڑ بدسلیقہ اور تکلیف دہ ہو) گیلے اور تربتر کپڑوں کا ایک اڑم سامنے ہوتا ہے اور بھیگے ہوئے تربتر جسم پر بھیگی تربتر لنگیاں باندھے ہوئے حاجی پنکھے کی ٹھنڈک میں اپنے اپنے کپڑوں کی تلاش میں مصروف! کپڑے کی جو گت بن جاتی ہے، اسے چھوڑیے خود انسانوں کی جو گت اس وقت بنی ہوئی ہے، ذرا اس کا تصور کیجئے اور اپنی شفیق و مہربان ’’سرکار‘‘  کو دل سے دعائیں دیجئے! پانچ پانچ دس دس منٹ اس تلاش میں لگ جاتے ہیں اور اس کے بعد اگر سب کپڑے بغیر کھوئے ہوئے مل بھی گئے تو انھیں بھیگے ہوئے کپڑوں کو، بھیگے ہوئے جسم پر پہن کر ہوا اور دھوپ میں حاجیوں کو اپنے اپنے خس پوش بارکوں میں جانا پڑتا ہے، جو قریب سے قریب بھی نصف فرلانگ کے فاصلہ پر ہیں، ورنہ عموماً ایک ایک فرلانگ پر! قرنطینہ اور جہاں کہیں بیماری بھگانے کے لیے ہوتا ہوگا، ہوتا ہوگا، قرنطینہ کامران تو حاجیوں کے لیے بیماری بلانے کی پوری کوشش ہے، اور یہ سُن کر ذرا بھی حیرت نہ کیجئے کہ یہ کوشش عموماً  کامیاب رہتی ہے۔ چنانچہ ہمارے جہاز کے حاجی دو چار نہیں، خدا معلوم کتنے کامران سے واپس آتے ہی بیمار پڑے، ایک صاحب کو دمہ کا دورہ پڑگیا، لکھنؤ کی ایک صاحبہ کو اتنا شدید بخار چڑھا کہ ان کی جان لےکر اترا، اور نزلہ و زکام و حرارت سے تو شاید ہی کوئی بچا ہو!

یہ جو کچھ کیفیت بیان ہوئی، مردانہ غسل خانہ کی تھی، جو پھر بھی غنیمت ہے۔ اصلی بیہودگی زنانہ غسل خانہ کے لیے اٹھ رہتی ہے۔ یہاں نہلانے والیاں شاید خاص طور پر اپنی مہیب صورتوں اور مہیب تر سیرتوں کی بناپر انتخاب کرکے رکھی گئی ہیں، ان کے ہاتھوں شریف و حیادار خاتونوں پر جو کچھ گزرتی ہے، اس کا تذکرہ ان صفحات پر لانا آسان نہیں، نہلاتے وقت یہی نہیں کہ ان کے جذبات حیا و شرافت کی مطلق کوئی پروا نہیں کی جاتی بلکہ ہر قسم کی سختی و درشتی، اور بدتہذیبی بھی ان کے ساتھ بےتکلف روا رکھی جاتی ہے۔ چنانچہ ہمارے قافلہ کی جتنی بیویاں غسل خانے سے نکلیں، سب نہایت برہم و نالاں گویا روتی ہوئی نکلیں۔

وہ تو کہیئے کہ حج بیت اللہ کا شوق ہر مومن اور ہر مومنہ کو کچھ ایسا مست رکھتا ہے کہ اس مقصد کے آگے اپنی کسی تکلیف و توہین کی پروا نہیں رہتی، ورنہ اگر کوئی دوسرا موقع ہو تو ہمارے ہاں کی بےزبان عورتیں بھی اس برتاؤ پر اتنی بے زبان اور اس قدر بے دست و پا نہ ہوں۔ سنا ہے کہ اسمبلی کے بعض مسلمان ممبروں کی تحریک پر حج کمیٹی  حاجیوں کی مشکلات کے رفع و انسداد کے لیے قائم ہوئی ہے اور امید ہے کہ اس کمیٹی کے سامنے حاجی صاحبان کامران سے متعلق اپنے ذاتی تجربات تفصیل سے بیان کریں گے اور اس کی لغویتوں کو مٹانے میں جدوجہد کا کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھیں گے۔ (1)۔

لیکن کیسی تکلیف، اور کہاں کی مصیبت؟ ایک اہل دل مدت ہوئی ہندوستان سے سفر حج کے لیے تشریف لے گئے، بمبئی اور کامران دونوں جگہ قرنطینہ کی بلائیں پیش آئیں اور وہ بزرگ باوجود اس کے  کہ ریاضات اور مجاہدات کے خوگر تھے۔ تاہم انھیں کہنا پڑا یہ قرنطینے حاجیوں کے لیے ’’سخت قید خانے‘‘ ہیں جب لوگوں نے یہاں کی دقتیں بیان کرنا شروع کیں تو انھوں نے فرمایا کہ ’’میاں سفر حج سے ملکوں کا سیر و تماشہ مقصود نہیں، بلکہ یہ نفوس کے تزکیہ اور تجلیہ کے لیے ایک مجاہدہ عظیم ہے، پہلا قرنطینہ بہ ارادہ الٰہی اس لیے قائم ہے کہ دلوں پر جو ظلمت اور کدورت چھائی ہوئی ہے، یہاں کے آلام جسمانی و روحانی سے ان کا تصفیہ ہوجائے۔ کامران کا قرنطینہ اس غرض سے ہے کہ یہاں کے قیام سے عرب کے ساتھ مناسبت پیدا ہوجائے اور حصولِ برکات کی قابلیت حاصل ہوجائے اس کا نام تجلیہ ہے۔‘‘ حکیم مطلق کا کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں ہوتا، جو کچھ ان بزرگ نے فرمایا وہ بیشک صحیح ہوگا، جسم کی بیماریاں دور ہوتی ہوں یا نہ ہوں، بدن کی کثافتیں دھلتی ہوں یا نہ ہوں، لیکن اس عجیب قرنطینہ اور عجیب ترغسل سے ہر حاجی کو اضراراً ایک مجاہدہ عظیم سے گزرنا تو ضرور ہوتا ہے اور گناہوں کا کفارہ کچھ نہ کچھ ہو ہی جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔(1) 1929 کے آخر میں حج تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے معزز حاجیوں نے اپنی آپ بیتی سنا سنا کر قرنطینہ کامران کی شدید پرزور مخالفت کی۔ اس متحدہ صدائے احتجاج کا نتیجہ اس قدر تو بہرحال ظاہر ہوا کہ 1931ء سے حاجیوں کے ہر جہاز کے لیے یہاں قرنطینہ لازمی نہیں رہا بلکہ صرف حسب ضرورت رکھ دیا گیا۔ میرنیرنگ صاحب ایم، ایل، اے (انبالہ) کی کوششیں اس باب میں خاص شکریہ کی مستحق ہیں۔۔۔۔۔اور اب 1940ء میں اس ساری داستان کی حیثیت محض ’’تاریخی‘‘رہ گئی ہے۔

ناقل: محمد بشارت نواز

 http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/