نومبر 05 :-: اردو کے ممتاز شاعر، ادیب اور ڈرامہ نگار عدیم ہاشمی کی برسی ہے

از: ابوالحسن علی بھٹکلی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو کے ممتاز شاعر، ادیب اور ڈرامہ نگار عدیم ہاشمی کی تاریخ پیدائش یکم اگست1946ء ہے۔
عدیم ہاشمی کا اصل نام فصیح الدین تھا اور وہ بھارت کے شہر ڈلہوزی میں پیدا ہوئے تھے۔ عدیم ہاشمی کا شمار اردو کے جدید شعرا میں ہوتا تھا۔ ان کے متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں ترکش، مکالمہ، فاصلے ایسے بھی ہوں گے، میں نے کہا وصال، مجھے تم سے محبت ہے، چہرا تمہارا یاد رہتا ہے، کہو کتنی محبت ہے اور بہت نزدیک آتے جارہے ہو کے نام سرفہرست ہیں۔ انہوں نے پاکستان ٹیلی وژن کے لئے ایک ڈرامہ سیریل ’’آغوش‘‘ بھی تحریر کیا اور مشہور ڈرامہ سیریز گیسٹ ہائوس کے لئے بھی کچھ ڈرامے تحریر کئے۔
5 نومبر 2001ء کو عدیم ہاشمی امریکا کے شہر شکاگو میں وفات پاگئے اور وہیں پاکستانیوں کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔
منتخب کلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچھی ہے دوستوں سے شِکایت کبھی کبھی
بڑھتی ہے اِس طرح بھی محبت کبھی کبھی
پہچان ہو گئی کئی لوگوں کی اِس طرح
آئی ہے کام یُوں بھی ضرُورت کبھی کبھی
ہوتے ہیں قُربتوں میں بھی محشر کئی بپَا
آتی ہے وصل میں بھی قیامت کبھی کبھی
پھر ایک بےپناہ سی شِدت کے واسطے
قُربان ہم نے کی تری قُربت کبھی کبھی
یُوں بھی لگا کہ تیرے سوا کوئی دل میں ہے
محسُوس کی نہیں تیری چاہت کبھی کبھی
یُوں بھی لگا کہ تیرے سوا ہے ہی کچھ نہیں
دُنیا پہ چھا گئی تری صورت کبھی کبھی
وہ جس کو دیکھ دیکھ کے جی تنگ آ گیا
اچھی بہت لگی وہی صُورت کبھی کبھی
سچائی تو ہے یہ کہ زمانے کے حُسن میں
یاد آئی ہی نہیں تری صُورت کبھی کبھی
دُنیا کی اور بات ہے، دُنیا تو غیر ہے
ہوتی ہے اپنے آپ سے وحشت کبھی کبھی
سارا ہی وقت، سارے جہاں کے لیے عدیم
اپنے لئے بھی چاہیئے فُرصت کبھی کبھی
دُوری کبھی کبھی بڑی اچھی لگی عدیم
اچھی نہیں لگی ہمیں قُربت، کبھی کبھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی جھوٹی وفا سے دل کو بہلانا نہیں آتا
مجھے گھر کاغذی پھولوں سے مہکانا نہیں آتا
میں جو کچھ ہوں، وہی کچھ ہوں، جو ظاہر ہے وہ باطن ہے
مجھے جھوٹے در و دیوار چمکانا نہیں آتا
میں دریا ہوں مگر بہتا ہوں میں کہسار کی جانب
مجھے دُنیا کی پستی میں اُتر جانا نہیں اتا
زرو مال و جواہر لے بھی اور ٹھکرا بھی سکتا ہوں
کوئی دل پیش کرتا ہو تو ٹھکرانا نہیں آتا
بہت کمزوریاں ہیں مجھ میں اک یہ بھی ہے کمزوری
ضرورت میں بھی مجھ کو ہاتھ پھیلانا نہیں آتا
پرندہ جانبِ دانہ ہمیشہ اڑ کے آتا ہے
پرندے کی طرف اڑ کر کبھی دانہ نہیں آتا
اگر صحرا میں ہیں ، تو آپ خود آئے ہیں صحرا میں
کسی کے گھر تو چل کر کوئی ویرانہ نہیں آتا
یہ رخش ِ وقت ہے اس پر چلے ہو تو ذرا سن لو
اسے جانا تو آتا ہے، پلٹ آنا نہیں آتا
ہوا ہے جو سدا، اس کو نصیبوں کا لکھا سمجھا
عدیم اپنے کیے پر مجھ کو پچھتانا نہیں آتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دھڑکنے کی صدا تھوڑی سی تو رہنے دو سینوں میں
کوئی تو فرق رہ جائے دلوں میں اور مشینوں میں
کہاں ہیں درد کے گوہر سمندر کے دفینوں میں
یہ موتی چاہئیں تو ڈھونڈ آنکھوں کے خزینوں میں
یہ آنسو ہیں کہ دریا کشتیوں سے پھوٹ نکلے ہیں
یہ کس نے رکھ دیئے طوفان آنکھوں کے سفینوں میں
تپش ہے آنسوؤں کی وہ کہ آنکھیں ہیں چٹخنے کو
یہ لگتا ہے کسی نے آگ رکھ دی آبگینوں میں
کفِ ملبوس سے آنسو تو مجھ کو پونچھ لینے دو
عدیم اب سانپ تو ہوتے ہیں اکثر آستینوں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر سے وہ کتنی شان سے نکلا
حادثے میں جہان سے نکلا
جو الگ آن بان سے نکلا
فرد وہ خاندان سے نکلا
سنسناہٹ سی سنسناہٹ تھی
جیسے نیزہ کمان سے نکلا
تُو کوئی اور ڈھونڈ لے کردار
میں تری داستان سے نکلا
نہ ستارہ نہ آفتاب نہ چاند
جانے کیا آسمان سے نکلا
تری محفل سے جو نکل آیا
وہ تو سمجھو جہان سے نکلا
میں نے اتنا کہاں بھلایا تھا
وہ تو وہم و گمان سے نکلا
داستاں اس قدر طویل نہ تھی
قصہ اک درمیان سے نکلا
لفظ رہ جائے گا وہی باقی
جو قلم کی زبان سے نکلا
جاں بدن سے عدیم نکلی ہے
یا بدن قیدِ جان سے نکلا
ایک ہی تھا کرایہ دار عدیم
وہ بھی دل کے مکان سے نکلا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جسے عدیم سدھارے ہوئے زمانہ ہوا
اُسی کے ساتھ یہ دل بھی کہیں روانہ ہوا
بس ایک ہُوک دھڑکتی ہے اب تو سینے میں
ہمارے دل کو تو دھڑکے ہوئے زمانہ ہوا
دُھواں سا ہے، نہ بھڑکتا ہے دل نہ بجھتا ہے
اِسی طرح سے سلگتے ہوئے زمانہ ہوا
اُدھر تو جا کے کوئی گھر کو لوٹتا ہی نہیں
یہ کس طرف کو ترا کارواں روانہ ہوا
یہ فیصلہ تو بہت دیر سے تھا ذہنوں میں
ہماری آج کی باتیں تو اک بہانہ ہوا
نظر کا وار تھا، پہلا ہی قاتلانہ ہوا
پھر اس کے بعد وہ قاتل کبھی رِہا نہ ہوا
کہاں تلاش کریں، کس جگہ اُسے ڈھونڈیں
ہمارا اُس سے تعارف ہی غائبانہ ہوا
گزر گیا وہ جو لمحہ تھا اُس کی چاہت کا
عدیم اب وہ ہمارا ہوا، ہوا نہ ہوا
عدیم، غالب و آتش ہوئے ، یگانہ ہوا
یہی وہ لوگ، مرا جن سے دوستانہ ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سارے جہان کو عدیمؔ واقفِ حال کر دیا
تحفہ ذرا سا تھا مگر اس نے اچھال کر دیا
اُس کی نظر کو داد دو، جس نے یہ حال کر دیا
میرا کمال کچھ نہیں، اُس نے کمال کر دیا
ایک نگاہ کا اثر ،ظرف بہ ظرف مختلف
اِس کو نڈھال کر دیاِ، اُس کو نہال کر دیا
آگ کی شہ پہ رات بھر نور بہت بنے دئے
صبح کی ایک پھونک نے سب کو سفال کر دیا
یہ تو ہوا ہتھیلیاں گنبدِ سرخ بن گئیں
ہاتھوں کی اوٹ نے مگر رکھا سنبھال کر " دِیا"
شمع بھی تھی، چراغ بھی، دونوں ہوا سے بجھ گئے
میں نے جلا لیا مگر دل کا نکال کر "دِیا"
موت سے ایک پل اِ دھر پھر سے حیات مل گئی
اس نے تعلقات کو پھر سے بحال کر دیا
اوک بنا بنا کے ہم دستِ دعا کو تھک گئے
جو بھی ہمیں دیا گیا، کاسے میں ڈال کر دیا
کوئی تو اس کی قدر کر، کوئی تو اس کو اجر دے
اس نے عدیمؔ تجھ کو دل کتِنوں کو ٹال کر دیا
بات سخن میں چل پڑی، اس نے عدیم ؔ مان لی
میں نے فراق کاٹ کر، اس کو و صال کر دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل کو پھر سجا کے صُورتِ محبوب لایا ہوں
سُنو اہلِ سُخن! میں پھر نیا اسلُوب لایا ہوں
کہو، دستِ محبت سے ہر اِک در پر یہ دستک کیوں
کہا ، سب کے لیے میں پیار کا مکتُوب لایا ہوں
کہو، کیا داستاں لائے ہو دل والوں کی بستی سے
کہا، اِک واقعہ میں آپ سے منسُوب لایا ہوں
کہو ، یہ جسم کِس کا، جاں کِس کی، رُوح کِس کی ہے
کہا، تیرے لیے سب کچھ مرے محبُوب لایا ہوں
کہو، کیسے مٹا ڈالوں انا، میں التجا کر کے
کہا ، میں بھی تو لب پر عرضِ نامطلُوب لایا ہوں
کہو، سارا جہاں کیسے تمہارے گھر کے باہر ہے
کہا، سب جس کے دیوانے ہیں، وہ محبُوب لایا ہوں
کہو، پنہاں کِیا ہے کیا دلِ پردہ نشیں ہم سے
کہا، وصلِ نہاں کی خواہشِ محجُوب لایا ہوں
کہو،ٹُوٹے ہوئے شیشے پہ شبنم کی نمی کیسی
کہا، قلبِ شکستہ، دیدہٴ مرطُوب لایا ہوں
کہو، غم لائے ہو کتنا محبت میں بچھڑنے کا
کہا، بس یہ سمجھ لو گریہٴ یعقُوب لایا ہوں
کہا ، تکلیف لایا ہوں، نہیں ہے اِنتہا جس کی
کہا ، میں بھی وہیں سے دامنِ ایوب لایا ہوں
کہو، غواص کیا لائے ہو بحر ِدل کے غوطے سے
کہا، لایا ہوں جو کچھ بھی، بہت ہی خُوب لایا ہوں
کہا، کیا لے کے آئے ہو جہانِ بیوفائی سے
کہا، اِک چشم حیراں، اِک دلِ مضرُوب لایا ہوں
کہو، تحفہ، عدیم اشعار میں کیا لے کے آئے ہو
کہا، شعروں کی سُولی پر دلِ مصلُوب لایا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا
وہ کہ خُوشبو کی طرحپھیلا تھا میرے چار سُو
میں اُسے محسوس کر سکتا تھا، چُھو سکتا نہ تھا
رات بھر پچھلی ہی آہٹ کان میں آتی رہی
جھانک کر دیکھا گلی میں، کوئی بھی آیا نہ تھا
یہ سبھی ویرانیاں اُس کے جُدا ہونے سے تھیں
آنکھ دُھندلائی ہوئی تھی، شہر دُھندلایا نہ تھا
عکس تو موجود تھا پر عکس تنہائی کا تھا
آئینہ تو تھا مگر اُس میں تیرا چہرا نہ تھا
میں تیری صورت لئے سارے زمانے میں پِھرا
ساری دُنیا میں مگر کوئی تیرے جیسا نہ تھا
خُود چڑھا رکھے تھے تن پر اَجنبیت کے غُلاف
ورنہ کب اِک دوسرے کو ہم نے پہچانا نہ تھا
سینکڑوں طوفان لفظوں کے دبے تھے زیرِ لب
ایک پتھر خامشی کا تھا ، جو ہٹتا نہ تھا
محفلِ اہلِ وفا میںہر طرح کے لوگ تھے
یا ترے جیسا نہیں تھا یا مرے جیسا نہ تھا
آج اُس نے درد بھی اپنے علیحدہ کر لیے
آج میں رویا تو میرے ساتھ وہ رویا نہ تھا
یاد کرکے اور بھی تکلیف ہوتی تھی عدیم
بھول جانے کے سوا اب کوئی بھی چارہ نہ تھا
مصلحت نے اجنبی ہم کو بنایا تھا عدیم
ورنہ کب اک دوسرے کو ہم نے پہچانا نہ تھا